بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

بینات

 
 

دعاء رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مستحق بنئے!


دعاء رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مستحق بنئے!


دعا کرنا اور دعاؤں کی درخواست کرنا مسنون عمل ہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے عظیم اور مستجاب الدعوات ہستی ہیں۔ ذیل میں احادیث کی کتابوں سے آپ کی بعض ایسی دعائیں نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں کسی مخصوص عمل کرنے والوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دعا دی ہو۔

پہلا عمل: فراخ دل اور نرم خو ہونا

’’صحيح بخاری‘‘میں ہے:
’’عن جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنہما: أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، قال: ’’رحم اللہ رجلاً سمحاً إذا باع، و إذا اشتری، وإذا اقتضی۔‘‘ (صحيح البخاري، کِتَابُ البُيُوعِ، بَابُ السُّہُوْلَۃِ وَالسَّمَاحَۃِ فِي الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ، وَمَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْيَطْلُبْہُ فِي عَفَافٍ، ج: ۳، ص: ۵۷)
ترجمہ: ’’جابر بن عبداللہ ؓسے منقول ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو خریدوفروخت اورمطالبہ کے وقت نرمی کرے۔‘‘
جو شخص خرید وفروخت اور اپنےحق کے مطالبہ کے وقت فراخ دلی اور نرمی سے کام لیتاہے، اس کےلیے اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے۔ رحمت کا لفظ زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بسا اوقات اس کا حقیقی مفہوم ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اس لیے جن اعمال پر رحمت کی خوشخبری دی جاتی ہے یا اس کی دعا کی گئی ہے، وہ ہمارے اندر کچھ زیادہ حرکت پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتی۔ غور کیا جائے تو رحمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی طرف ہر قسم کےالطاف وعنایات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق متنوع نعمتیں حاصل کرتا ہے، لہٰذا رحمت کی دعا کو معمولی خیال نہ کیا جائے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر قسم کی نعمتیں حاصل کرنےکا ایک راستہ ہے۔ اس قدر عظیم دولت حاصل کرنے کے لیے اگر کوئی نرم خوئی اور وسعتِ ظرفی کا مزاج بنائے تو کچھ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

دوسرا عمل: حدیث یاد کرنا اور آگے پہنچانا

’’عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللہُ امْرَاً سَمِعَ مِنَّا حَدِيْثًا، فَحَفِظَہٗ حَتّٰی يُبَلِّغَہٗ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ اَفْقَہُ مِنْہُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَيْسَ بِفَقِيْہٍ۔‘‘(سنن أبي داود، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، ج :۳، ص:۳۲۲)
ترجمہ:’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تازہ رکھے، جس نے ہم سے ایک بات سنی اور یاد کرکے آگے پہنچائی، کیونکہ بعض حاملِ فقہ (یعنی علم دین کے حامل) یہ بات اس شخص کو پہنچادیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے اور بعض حاملِ فقہ سمجھدار نہیں ہوتے۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کے لیے خوش وخرم رہنے کی دعا فرمائی گئی ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن کر اپنے پاس اچھی طرح محفوظ کرےاور پھر آگے لوگوں کو پہنچائے۔ یہ بھی بڑی جامع دعا ہے، سرسبز وشاداب رہنے کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ اس کا رنگ وروغن اچھا دکھائی دے، بلکہ اس کے اندر زندگی کےوہ تمام اہم نشیب وفراز داخل ہوجاتےہیں جو انسان کے سر سبز وشاداب رہنے میں مؤثر ثابت ہوسکتےہیں، اس لیے اس کے ضمن میں تمام اہم معاملات داخل ہوجاتے ہیں۔
یہاں حدیث شریف میں حدیث سن کر آگے پہنچانے کا ذکرہے، لیکن ملا علی قاریؒ وغیرہ شارحین نے ذکر فرمایاہے کہ یہ دعا صرف سننے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ کسی بھی ذریعےسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت پر مطلع ہونا مقصود ہے، البتہ عام طور پر چونکہ نئی باتیں سماعت ہی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، اس لیے اس کا ذکر کیا گیا ہے، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعمال واقوال سب کے بارے میں یہ فضیلت عام ہے اور سبھی کو محفوظ کر کے آگے پہنچانا اس دعا کا مصداق ہے۔ نیز کوئی شخص کسی محدث سے حدیث سن کر آگے پہنچائے یا یوں ہی کسی کتاب وغیرہ میں پڑھ کرآگے پہنچائے، دونوں ہی اس فضیلت کے تحت داخل ہیں۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ بھی ذکر فرمایاہے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’منّا‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا اس میں صحابہ کرامؓ کے اعمال واقوال بھی داخل ہیں اور جو شخص حضرات صحابہ کرامؓ کی باتیں یا ان کے اعمال محفوظ کرکے آگے نسل کواس سے متعارف کرواتے ہیں، وہ بھی اس فضیلت کے تحت داخل ہوجاتےہیں۔

تیسرا عمل:میاں بیوی کا نماز کے لیے ایک دوسرے کو جگانا

’’عَنْ اَبِيْ ہُرَيْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلّٰی، وَاَيْقَظَ امْرَاَتَہٗ، فَإِنْ اَبَتْ، نَضَحَ فِي وَجْہِہَا الْـمَاءَ، رَحِمَ اللہُ امْرَاَۃً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَاَيْقَظَتْ زَوْجَہَا، فَإِنْ اَبٰی، نَضَحَتْ فِي وَجْہِہِ الْـمَاءَ۔‘‘   (سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب قیام الليل، ج:۲، ص: ۳۳)
ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جورات کو اُٹھ کر نماز پڑھتاہےاور اپنی بیوی کو بھی جگائے، اگروہ نہیں اٹھتی تواس کے چہرے پر پانی ڈالتاہے، اس عورت پر بھی اللہ تعالیٰ رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو بھی جگاتی ہے، اگروہ نہیں اٹھتا تو وہ اس کے چہرے پر پانی ڈالتی ہے۔ ‘‘
اس روایت میں اس شخص کے لیے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہےجو خود بھی رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور بیوی کو بھی اہتمام کے ساتھ اس کے لیے جگائے، اسی طرح جو بیوی خود بھی اس کےلیے اٹھے اور میاں کو بھی اہتمام کے ساتھ اس کے لیے جگائے۔ رحمت کی دعا کا مفہوم پہلے لکھاجاچکا ہے۔

چوتھا عمل: نمازِ عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھنا

’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللہُ امْرَاً صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِ اَرْبَعًا۔‘‘(سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل العصر،ج:۲،ص: ۲۳)
ترجمہ:’’ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو عصرکی نماز سے پہلے چار رکعات پڑھ لے۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے کی دعا فرمائی گئی ہے جو نمازِ عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھ لے۔ یہ نماز گو فرض یا سنتِ مؤکدہ نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت سنتِ غیر مؤکدہ اور نفل کی ہے، تاہم اس پر اس قدر بڑی دعا دی گئی ہے، مختصر عمل پر عظیم اجر وثواب کی یہ بہترین مثال ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کےوہ خاص بندےجن کو لوگ اولیا ء اللہ کہتےہیں، وہ ان چار رکعت کی پوری پابندی کرتےہیں۔

پانچواں عمل: حقوق العباد کی تلافی کروانا

’’عَنْ أبِيْ ہُرَيْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللہُ عَبْدًا کَانَتْ لأِخِيْہِ عِنْدَہٗ مَظْلِمَۃٌ فِيْ عِرْضٍ أوْ مَالٍ، فَجَاءَہٗ فَاسْتَحَلَّہٗ قَبْلَ أنْ يُّؤخَذَ وَلَيْسَ ثَمَّ دِيْنَارٌ وَلَا دِرْہَمٌ، فَإِنْ کَانَتْ لَہٗ حَسَنَاتٌ أخِذَ مِنْ حَسَنَاتِہٖ، وَإِنْ لَّمْ تَکُنْ لَّہٗ حَسَنَاتٌ حَمَلُوْہُ عَلَيْہِ مِنْ سَيِّئَاتِہِمْ۔‘‘ (سنن الترمذي، ت: بشار، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، باب ما جاء في شان الحساب والقصاص، ج:۴، ص :۱۹۱)
ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا کہ: اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جس نے اپنے بھائی کے آبرو یا مال کو نقصان پہنچایا اور موت سے پہلے اس نےاس سے معافی مانگی، اس لیے کہ وہا ں درہم و دینا ر نہیں ہوگا، پس اگر اس کےپاس نیکیاں ہوں تووہ اس سے لے لی جائیں گی، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو ان کےگناہ اس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہےجو دنیا میں ہی ان حقوق کی تلافی کا اہتمام کرتا ہے جو اس پر لوگوں کے عائد ہوتے ہیں، ان کو حقوق العباد کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حقوق بنیادی طور پر تین قسم کی ہیں:
الف: وہ حقوق جو جان سے متعلق ہیں، مثال کے طور پر کسی کو قتل کردیا، کوئی عضو تلف کردیا، یا یوں ہی کسی کو زد وکوب کیا، ان کو جانی حقوق کہاجاتاہے۔
ب: وہ حقوق جو دوسروں کی املاک سے متعلق ہیں، مثال کے طور پر کسی کی کوئی چیز ضائع کردی، یا کسی کا کوئی مالی حق ذمہ پر باقی ہے، ان کو مالی حقوق سے تعبیر کیاجاتاہے۔
ج: وہ حقوق جو دوسرے کے عزت ومقام سےمربوط ہیں، مثال کے طور پر کسی کو لوگوں کے سامنے بے عزت وذلیل کیا، بر ا بھلا کہا، اس کی غیبت کی۔ ان کو عرضی حقوق یا حقوقِ عزت سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔
اگر کسی شخص کے ذمہ دوسرے افراد کےان تین قسم کے حقوق میں سے کوئی حق برقرار ہو، تو اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ جس کا حق ہے، اس سے معافی تلافی کروائے، یا اگر کوئی حق ایسا ہے جس کی ادائیگی ہوسکتی ہے تو اس کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کردے۔ ’’جانی حقوق‘‘ کی نوبت عام طور پر کم پیش آجاتی ہے، شاید اس لیے درج بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں کیا اور بقیہ دو اقسام کے ذکر کرنے پر اِکتفا کیاگیا۔

چھٹا عمل: دینی تربیت کےلیےگھر میں اہلِ خانہ کی تربیت کا گھر میں انتظام کرنا

امام سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’جامع کبیر‘‘میں ہے:
’’رَحِمَ اللہُ عَبْدًا عَلَّقَ فِيْ بَيْتِہٖ سَوْطًا يُؤدِّبُ بِہٖ اَہْلہٗ۔ الديلمي عن جابرؓ۔‘‘ (جمع الجوامع المعروف بـ الجامع الکبير، القسم الأول:الأقوال، حرف"الراء"، ج:۵، ص: ۱۴۶)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے اپنے گھر میں اہل وعیال کی تادیب کے لیے کوڑارکھا ہو۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کے لیےرحمت کی دعا فرمائی گئی ہےجو گھر میں اس لیے کوڑا رکھتاہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی تادیب کرے۔ یہاں ’’تادیب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایاگیاہےجس کامفہوم ادب سکھاناہے، اور تادیب کی ضرورت کسی ناجائز یا نامناسب اقدام کےو قت پیش آتی ہے، اب کس چیز کو ناجائز یانامناسب سمجھاجائےاور کس کو نہیں؟ اس کے حدود کیا ہوں گے؟ ان باتوں کی درست رہنمائی کرنا دین و شریعت کا منصب ہے، جس میں اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ شرعی تعلیمات کا سہارا لیے بغیر کسی چیز کو ناجائز قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو چاہیے کہ:
الف: دین وشریعت کی کم ازکم بنیادی باتیں اور موٹےموٹے مسائل اس کو معلوم بھی ہوں۔
ب: اور دل میں اس کی اس قدر اہمیت راسخ ہو کہ دیگر تمام تقاضوں پر اس کو مقدم رکھے ۔
ج: اپنے اہل وعیال کی دینی تربیت کرنےمیں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے، بلکہ اس راہ میں ان کو مارنے کی ضرورت پڑے توبھی اس سے نہ رُکے۔
د:دینی تربیت اور شریعت کے مطابق گھر کا ماحول بنانے کےلیے عام طور پر کوڑے کی ضرورت پڑتی ہو، یہ ضروری نہیں، بلکہ بسااوقات تو جائز بھی نہیں ہے کہ بات بات پر اہل وعیال کو مارتا رہے، بلکہ ضرورت کے وقت ہی اس کا استعمال کرلینا چاہیے اور اس وقت بھی ضرورت کی مقدار پر اکتفا کرلینا چاہیے، لیکن بہرحال گھر میں رکھنا اور اپنے ماتحت کو باور کرانا کہ اگر کوتاہی ہوجائے تواس کےاستعمال کرنے کی بھی نوبت آسکتی ہے، یہ ضروری ہے۔ اور تجربہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اس طرح یقین دہانی دیئے بغیر دینی تربیت کاخواب پوری طرح شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا، اس لیے متعدد شارحین نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ بسااوقات مارنا معاف کرنےسے زیادہ بہتر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے۔ 

ساتواں عمل: حج وعمرہ کے موقع پر حلق یا قصرکرنا

’’صحیح بخاری‘‘میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا: أنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْـمُحَلِّقِيْنَ، قَالُوْا: وَالْـمُقَصِّرِيْنَ يَا رَسُوْلَ اللہِ! قَالَ: اللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْـمُحَلِّقِيْنَ، قَالُوْا: وَالْـمُقَصِّرِيْنَ يَا رَسُوْلَ اللہِ! قَالَ: وَالْـمُقَصِّرِيْنَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِيْ نَافِعٌ: رَحِمَ اللہُ الْـمُحَلِّقِيْنَ، مَرَّۃً أوْ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: وَقَالَ عُبَيْدُ اللہِ: حَدَّثَنِيْ نَافِعٌ، وَقَالَ فِيْ الرَّابِعَۃِ: وَالْـمُقَصِّرِيْنَ۔‘‘  (صحيح البخاري، کِتَابُ الحَجِّ، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، ج:۲، ص:۱۷۴۔ الميسر في شرح مصابيح السنۃ للتوربشتي، کتاب المناسک، باب الحلق، ج :۲، ص:۶۲۱۔ بذل المجہود في حل سنن أبي داود، أول کتاب المناسک، باب الحلق والتقصير، ج:۷، ص:۴۵۴)
ترجمہ: ’’ حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے فرمایا کہ: اے اللہ کے رسول! اور قصرکرنے والے؟ فرمایاکہ:اے اللہ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نےدوبارہ کہا: اے اللہ کے رسول! اورقصرکرنے والے؟ فرمایاکہ: اور قصرکرنے والوں پر بھی رحم فرما۔‘‘
اس روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج کے موقع پر حلق یا قصر کرنے والوں کو رحمت کی دعا دی، مجموعی طور پر تو دونوں کے حق میں یہ دعا فرمائی ہے، لیکن حلق کرنے والوں کو اس دعا میں مقدم فرمایا اور ایک یا دو بار اُن کے لیے خصوصیت کےساتھ دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں۔ علامہ تورپشتی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ کے موقع پر مانگی تھی اور حجۃ الوداع کے موقع پر بھی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حلق کرنا قصر کرنے سے زیادہ بہتر اور اس سے بڑھ کر رحمتِ خداوندی کا موجب ہے، اس لیے جہاں تک ہوسکے، اسی کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
حلق کو مقدم کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ پہلے زمانے سے اب تک لوگوں کی عادت رہی ہے کہ وہ بالوں کو زینت وزیبائش کا ذریعہ خیال کرتےہیں، مختلف طریقےسےرکھنےاور کاٹنے کوایک قابلِ تقلید فیشن تصور کیا جاتا ہے۔ سرے سے بال مونڈنے کی صورت میں حبِ جاہ کی ایک بڑی شاخ کٹ جاتی ہےجو ظاہر ہے کہ بہترین اعمال میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مشائخ نے توبہ کرتے وقت بھی بال کاٹنے کو بہتر قرار دیا۔ 

آٹھواں عمل: فوج کی پہرہ داری

’’سنن ابن ماجہ‘‘میں ہے:
’’عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ الْجُہَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللہُ حَارِسَ الْحَرَسِ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب فضل الحرس والتکبير في سبيل اللہ، ج:۲، ص :۹۲۵)
ترجمہ:’’حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ :رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادہے:اللہ تعالیٰ حفاظتی فوج کی چوکیداری کرنے والے پررحم کرے۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کے لیے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہےجو اسلامی سرحدات کی حفاظت کرنےوالی فوج کی چوکیداری کرے۔ ملک کے باشندےاگر امن وامان کے ساتھ زندگی گزارتےاور مختلف قسم کی عبادات بجالاتےہیں تووہ درحقیقت ان لوگوں کے بل بوتےپر ہےجو ملکی سرحدات پر کھڑے اس کی حفاظت کرتےہیں اور دیگر اقوام وممالک کی یورشوں سے اس کو بچانے کی پوری کوشش کرتےہیں، اگر اسی نیت کے ساتھ وہ لوگ یہ کام کریں تو ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی بڑےاجر وثواب کا کام ہےاور ملک کے تمام باشندگان کی عبادات میں ان کا کسی حد تک حصہ ہوجاتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ محافظین بھی آخر انسان ہی ہیں، ان کو بھی آرام وراحت وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے، ایسےموقع پر جو لوگ ان محافظین کی حفاظت کرتےہیں اور حفاظت کےلیےان کے چوکیدار بن کر کھڑے ہوجاتےہیں، ان کےلیے اس روایت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے۔

نواں عمل: احیاء سنت اور لوگوں کو سنت کی تعلیم دینا

’’کنز العمال‘‘میں ہے:
’’رَحْمَۃُ اللہِ عَلٰی خُلَفَائيْ، قِيْلَ: وَمَنْ خُلَفَاؤکَ يَا رَسُوْلَ اللہِ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يُحْيُوْنَ سُنَّتِيْ وَيُعَلِّمُوْنَہَا النَّاسَ۔‘‘ (کنز العمال، کتاب العلم من قسم الأقوال، الباب الثالث في آداب العلم، الفصل الأول: في روايۃ الحديث وآداب الکتابۃ، رقم الحدیث: ۲۹۲۰۹، ج:۱۰، ص: ۲۲۹)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو میرے خلفاء پر۔ کہا گیا کہ: اے اللہ کے رسول! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ فرمایا کہ: وہ جومیری سنتوں کو زندہ کرتے ہیں اور اسے لوگوں کو سکھائیں۔‘‘
جو لوگ اسلامی تعلیمات واحکام کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیگر لوگوں تک یہ چیزیں پہنچاتے ہیں، اس روایت سے ان لوگوں کےلیے دو بشارتیں ملتی ہیں:
الف: پہلی بشارت تو یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے جانشین اور خلفاء ہیں۔ یہ بہت بڑی فضیلت اور عظیم خوشخبری ہے، جس طرح ہر شخص کو اپنے نائب کےساتھ خاص قسم کا تعلق اور خصوصی توجہ والتفات ہوتی ہے، یوں ہی ان افراد کےساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا خصوصی ربط وتعلق ہوتا ہے، جبکہ عقل مند شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی توجہ بہت بڑی عنایت ہے جو دینی واُخروی ترقیوں کا زینہ ہے۔
ب: دوسری بڑی بشارت خود یہی دعا ہے جو اس روایت میں ان لوگوں کےلیے فرمائی گئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے خوش نصیب افراد کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا فرمائی ہے۔

’’احیاء سنت‘‘ کا مفہوم و مصداق

یہاں حدیث مبارک میں ’’سنت‘‘ کے احیاء کا ذکر فرمایا گیا ہے، عام طور پر اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص ایک سنت کو بھی زندہ کرے گا، اس کو یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی، اسی نوع کی ایک دوسری روایت میں ایک ’’سنت‘‘ کے لازم پکڑنے کو سو شہیدوں کے برابر اجر وثواب کا باعث قرار دیا گیا ہے، وہاں بھی عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ شاید کسی ایک سنت کی ادائیگی سے بھی یہ ثواب مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے داد ودہش کا تو کوئی حساب نہیں ہے، تاہم فضیلت اور مجازات کا باب تعبّدی ہے، جس میں عقل وقیاس سےکام لینا بالکل بےجا ہے، یہاں تو وحی کی طرف مراجعت کرنےسے کوئی بات کی جاسکتی ہے، اس لیے اس باب میں خاصی احتیاط برتنا ضروری ہے۔
اس تناظر میں یہاں سنت میں اس قدر وسعت پیدا کرنا کہ ہر چھوٹی بڑی سنت اس میں شامل ہوجائے اور ہر ہر سنت کےساتھ مستقل طور پر یہ فضیلت کا تعلق پیدا کیا جائے، درست معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اس سے پورا دین مراد لینا ہی مناسب ہے۔ درج بالا روایت میں تو اس کا ایک بےغبار طریقہ یہ بھی ہے کہ یہاں ’’سنت‘‘ زندہ کرنےوالوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنا جانشین اور خلفاء قرار رےرہےہیں اور ظاہر ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےپورے ہی دین کی تعلیمات کو اُجاگر فرمایا تھا، لہٰذا اس روایت کا اصل مصداق وہی خوش نصیب اور سعادت مند افراد معلوم ہوتےہیں جو پورےدین اور اس کی تعلیمات واحکام کو اُجاگر کرنےمیں اپنی زندگی گزاریں۔
یہ چند ایسے اعمال ہیں جن کے کرنےوالوں کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا فرمائی ہے۔ ایک مسلمان کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ان سب دعاؤں کا مصداق بننے کی کوشش کرے، اس میں بڑی ہی برکت وخیر مضمر ہے۔ یہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب دعاؤں کا استیعاب مقصود نہیں ہے، بلکہ کچھ تلاش اور ورق گردانی سے جو دعائیں معلوم ہوئیں اور سند کے لحاظ سے وہ روایات قابلِ استدلال ہوئیں، ان کو ذکر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب سمیت پوری اُمتِ مرحومہ کو عمل واستقامت کی توفیقِ سعید نصیب فرمائے۔

دسواں عمل: اُمتِ مرحومہ کےساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا

صحیح مسلم میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’سَمِعْتُ مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ، يَقُوْلُ فِيْ بَيْتِيْ ہٰذَا: اللّٰہُمَّ، مَنْ وَلِيَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِيْ شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْہِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْہِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِيْ شَيْئًا فَرَفَقَ بِہِمْ، فَارْفُقْ بِہٖ۔‘‘ (صحيح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب فضيلۃ الإمام العادل، وعقوبۃ الجائر، والحث علی الرفق بالرعيۃ، والنہي عن إدخال المشقۃ عليہم، ج :۳، ص:۱۴۵۸)
ترجمہ: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنے اس گھر میں ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے: اے اللہ! جو میری اُمت کے کسی کام کا والی بنا اور اس نے ان پرسختی کی تو آپ بھی ان پر سختی کریں، اور جو میری اُمت کے کسی کام کا والی بنا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کی، تو آپ بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں۔‘‘
اس روایت میں اس شخص کےلیے بددعا کی گئی ہے جو مسلمانوں کا امیر یا سربراہ بنے، خواہ وہ کسی بھی معاملہ میں سربراہ ہو اور پھر ان کےساتھ سختی اور درشت روئی کا معاملہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرے۔ اور جوشخص اختیار ملنےکےبعد مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھے، اس کےلیے یہ دعا فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کےساتھ بھی ایسا ہی معاملہ فرمائے۔ 
یہ بددعا اور دعا صرف بادشاہ اور وزیر وغیرہ ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر اس شخص کےساتھ اس کا تعلق ہےجس کو کسی بھی معاملہ میں مسلمانوں کےاوپر کچھ اختیار حاصل ہوجائے، چاہے تمام معاملات میں اختیار وولایت حاصل ہو یا جزوی باتوں میں۔ نیز یہاں سختی اور نرمی کا ذکر فرمایاگیاہے، اس سے سختی ونرمی کا مفہوم وہ نہیں ہے جو ہم عام طور پر ان الفاظ سےسمجھتےہیں کہ کسی کو کچھ نہ دیاجائے تو اس کو سختی اور بسا اوقات ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے، خواہ وہ اس کا مستحق ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح کسی کو کچھ دیاجائے تو اس کو انصاف اور نرمی کہاجاتاہے، خواہ لینےوالا اس چیز کا استحقاق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، بلکہ اس کو شریعت کے ترازو سے تولنا ضروری ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی رعایت یا حق کا مستحق نہ ہو تو اس کو نہ دینا مذموم نہیں ہے، البتہ نہ دینے کی صورت میں بھی نرم خوئی کالحاظ رکھ لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی رعایت کا استحقاق رکھتا ہو تو نرم خوئی کےساتھ دے دینا چاہیے۔ اس روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس غیر معمولی محبت اور خاص تعلق کا اندازہ لگایاجاسکتاہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو امت کےساتھ تھا کہ دنیا سےرحلت فرمانے کے بعد بھی اس بات کا خوب اہتمام فرمایا کہ امت بلاوجہ کسی ظلم یاسختی کا شکار نہ ہو۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین