بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دستاویزات کی شرعی حیثیت!

دستاویزات کی شرعی حیثیت!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱:- مروجہ دستاویزات کس حد تک ایک شرعی حجت ہیں؟ مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اقرار نامہ، بیع نامہ، وصیت نامہ و غیر ہ ہو اور وہ عدالت میں اس کو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لیے پیش کرے تو عدالت اس کو کس حد تک اور کن شرائط کے ساتھ ایک فیصلے کے لیے بنیاد بنا کر شرعی اُصولوں کے مطابق اس پر فیصلہ سناسکتی ہے؟  نیز اگر دستاویز مطلقاً ایک شرعی حجت نہیں تو کسی فیصلے کے لیے مُمِدّ و معاون ثابت ہو سکتی ہے؟
 ۲:- نیز اگر کوئی عورت نکاح نامہ بطور ثبوت پیش کر کے دعویٰ کرے کہ فلاں شخص میرا شوہر ہے اور دوسری کوئی دلیل نہ ہو تو اس کو بنیاد بناکر شرعاً کن شرائط اور کس حد تک اس پر فیصلہ کرنا جائز ہے؟ 
۳ :- نیز طلاق نامے میں مذکورہ طریقہ کار کا جواب کیا ہو گا؟                                                                                                                                                                                                                                                                                                           مستفتی: ثاقب اقبال

الجواب باسمہٖ تعالٰی

۱:- کسی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات ایک اہم ثبوت کی حیثیت رکھتی ہیں، اُن کے ذریعے معاملات میں کسی ممکنہ تنازع سے بچا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس سے متعلق احکام (دستاویز لکھنے کا طریقہ اور اس کے فوائد) کو تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ معاملات کی دستاویز لکھنے کی تاکید بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَلَا تَسْئَمُوْٓا  اَنْ تَکْتُبُوْہُ  صَغِیْرًا  اَوْ کَبِیْرًا اِلیٰ اَجَلِہٖ ط ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ  وَاَقْوَمُ  لِلشَّہَادَۃِ  وَاَدْنیٰ اَلَّا  تَرْتَابُوْٓا‘‘ [الآيۃ]                                 (سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۸۲)
ترجمہ: ’’اور تم اس (دَین) کے (بار بار) لکھنے سے اُکتایا مت کرو، خواہ وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، یہ لکھ لیناانصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا ہے، اللہ کے نزدیک اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ سزاوار ہے اس بات کا کہ تم (معاملہ کے متعلق) کسی شبہ میں نہ پڑو ۔۔۔ الخ۔‘‘                                        (از بیان القرآن)
جائیداد کے مالکانہ حقوق کے ثبوت اُن کی دستاویزات ہیں۔ عرصہ دراز گزر جانے پر ان پر شرعی گواہ پیش کرنا مشکل، بلکہ بسااوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ ثبوت کے اعتبار سے دستاویزات کے شرعی حجت ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ دستاویزات دو قسم پر ہیں:
الف: وہ دستاویزات جو حقائق پر مبنی ہوں اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہوں اور دستاویزات کو پختہ کرنے کے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا گیا ہو۔ ضرورت اور عرف کے پیشِ نظر فقہائے کرامؒ نے اس قسم کی دستاویزات کے حجت ہونے کی تصریح کی ہے، جبکہ وہ مطلوبہ معیار پر پورا اُترتے ہوں۔
ب: وہ دستاویزات جو تغیر و تبدل سے محفوظ نہ ہوں، ان کے جعلی ہونے کا شبہ پایا جائے اور ان کو پختہ کرنے کے قانونی تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہو۔
پہلی قسم کے دستاویزات کا جب عدالت میں جانچ پرکھ کے بعد صحیح ہونا ثابت ہو جائے تو عدالت کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا، جبکہ دوسری قسم کی دستاویزات شرعی حجت نہیں بن سکتیں، عدالت اُن کو مدار بنا کر اُن پر فیصلہ نہیں دے سکتی۔
تاہم موجودہ دور چونکہ مکر و فریب کا دور ہے، سچے اور جھوٹے کاغذات کی تمییز مشکل ہوگئی ہے، لہٰذا ان دستاویزات پر اگر کسی فریق کی جانب سے شک و شبہ کا اظہار کیا جائے تو بلا تحقیق ان کو ثبوت قرار دے کر فیصلہ کرنا شرعاً درست نہیں، بلکہ ان کے شرعی حجت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اُن پر باقاعدہ گواہ بھی موجود ہوں۔
 ۲:- اگر کوئی عورت نکاح نامہ بطور ثبوت پیش کر کے کسی شخص پر اپنا شوہر ہونے کا دعویٰ کرے، جبکہ مرد انکار کر تاہو تو اگر نکاح نامہ کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی دلیل نہ ہو تو اس صورت میں عدالت اس نکاح نامہ کی تحقیق کرے، اگر یقینی ذرائع سے اس کا صحیح اور حقائق پر مبنی ہونا ثابت ہوجائے تو عدالت اس کے مطابق فیصلہ دے سکتی ہے اور اگر عدالت میں یقینی ذرائع سے اس کا صحیح ہونا ثابت نہ ہو، بلکہ اس کے جعلی ہونے کا شبہ پایا جائے تو اس صورت میں اسی کو بنیاد بنا کر اس کے حق میں فیصلہ کرنا شرعاً درست نہ ہو گا، جب تک عورت اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے دو گواہ پیش نہ کرے۔
۳ :- نیز طلاق نامہ کی دستاویزی حیثیت بھی وہی ہے جو نکاح نامہ کی ہے، اس کا بھی یہی حکم ہو گا۔
’’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘‘ میں ہے: 
’’المادۃ (۱۸۱۴) يضع القاضي في المحکمۃ دفترًا للسجِلّات و يقيد ويحرر في ذٰلک الدفتر الإعلامات والسندات التي يعطيہا بصورۃ منتظمۃ سالمۃ عن الحيلۃ والفساد و يعتني بالدقۃ بحفظ ذٰلک الدفتر، وإذا عزل سلم السجِلّات المذکورۃ إلی خلفہٖ إما بنفسہٖ أو بواسطۃ أمينہٖ۔‘‘            (مجلۃ الأحکام العدلیۃ، ج:۱، ص: ۳۶۹، ط: نور محمد کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ، کراچی) 
’’شرح المجلۃ لسلیم رستم باز‘‘ میں ہے:
’’إن الاعلام والسندات الصادرين من حاکم محکمۃ يجوز الحکم والعمل بمضمونہما بلا بينۃ إذا کانا عاريين و سالمين من شبہۃ التزوير والتصنيع وموافقين لأصولہما۔ ‘‘         (شرح المجلۃ ، ص:۱۱۸، رقم المادۃ: ۱۸۲۱، ط: دار الکتب العلمیۃ)
 اسی میں ہے:
’’ولا يعمل بالخط والتختم وحدہما الا إذا کان سالما من شبہۃ التزوير والتصنيع ، فيعمل بہ ، یعنی إنہ مدار للحکم، ولا يحتاج إلی الثبوت بوجہ آخر۔‘‘                                         (الباب الثانی، ص:۱۰۹۴، المادۃ:۱۷۳۶) 
’’العقود الدریۃ في تنقیح الفتاوی الحامدیۃ‘‘ میں ہے:
’’واستثنی أيضا في الأشباہ تبعًا لما في قاضي خان والبزازيۃ وغيرہا خط السمسار والبياع والصراف وجزم بہ في البحر وکذا في الوہبانيۃ وحققہ ابن الشحنۃ وکذا الشرنبلالي في شرحہا وأفتی بہ التمرتاشي صاحب التنوير ونسبہ العلامۃ البيري إلی غالب الکتب، قال حتی المجتبی حيث قال: وأما خط البياع والصراف والسمسار فہو حجۃ، وإن لم يکن معنونا ظاہرا بين الناس وکذٰلک ما يکتب الناس فيما بينہم يجب أن يکون حجۃ للعرف اہ، وفي خزانۃ الأکمل صراف کتب علی نفسہ بمال معلوم وخطہ معلوم بين التجار وأہل البلد، ثم مات، فجاء غريم يطلب المال من الورثۃ وعرض خط الميت بحيث عرف الناس خطہ حکم بذٰلک في ترکتہ إن ثبت أنہ خطہ وقد جرت العادۃ بين الناس بمثلہ حجۃ۔‘‘ (العقود الدریۃ في تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ، ج:۲، ص:۲۰، ط: دار المعرفۃ، بیروت) 
’’رسائل ابن عابدین‘‘ میں ہے:
’’(وقد) علمت أن ہذہ المسئلۃ أعني مسئلۃ الصراف و البياع والسمسار مستثناۃ من قاعدۃ أنہ لا يعمل بالخط، وللعرف الضرورۃ المذکورۃ جزم بہا ہؤلاء الجماعۃ المذکورون وکذا أئمۃ بلخ، کما نقلہ في البزازيۃ وکفی بالإمام السرخسي وقاضي خان قدوۃ۔‘‘ (رسائل ابن عابدین ، ج:۲، ص: ۱۴۴، ط: سہیل اکیڈمی)
وفیہ أیضا:
’’فالحاصل أن المدار علی انتفاء الشبہۃ ظاہرا وعليہ فما يوجد في دفاتر التجار في زماننا إذا مات أحدہم وقد حرر بخطہ ما عليہ في دفترہ الذي يقرب من اليقين أنہ لا يکتب فيہ علی سبيل التجربۃ والہزل يعمل بہٖ والعرف جار بينہم في ذٰلک، فلولم يعمل بہ يلزم ضياع أموال الناس إذغالب بياعاتہم بلاشہود خصوصًا ما يرسلونہ إلٰی شرکائہم و أمنائہم في البلاد لتعذر الأشہاد في مثلہٖ، فيکتفون بالمکتوب في کتاب أو دفتر ويجعلونہ فيما بينہم حجۃ عند تحقق الخط أو الختم۔‘‘  (رسائل ابن عابدین ، ج:۲، ص:۱۴۴، ط: سہیل اکیڈمی) 
’’احسن الفتاویٰ‘‘ میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مدعی اور مدعیٰ علیہ کے بیان اور سرکاری کاغذات کی نقول دیکھنے سے ثابت ہوا کہ یہ زمین مدعی عبد الوحيد کی ہے۔ امام سرخسیؒ، امام قاضی خانؒ اور علامہ بزازیؒ جیسے جلیل القدر فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے سرکاری ریکارڈ کو بلاشہود بھی حجتِ معتبرہ قرار دیا:
’’کما صرح بہ العلامۃ ابن عابدين في رسالتہٖ ’’نشر العرف في بناء بعض الأحکام علی العرف‘‘ ونصہ:’’وحاصلہ أن ما مر من قولہم لا يعتمد علی الخط ولا يعمل بہ مبني علی أصل المنقول في المذہب قبل العرف ولما حدث العرف في الاعتماد علی الخط والعمل بہ في مثل ہٰذہ المواضع أفتوا بہ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔‘‘          (رسائل ابن عابدین ، ج:۲، ص: ۱۴۴)‘‘              (احسن الفتاویٰ، ج:۷، ص:۲۱۷، ط: سعید) 
’’فتاویٰ حقانیہ‘‘ میں ہے:
’’ازروئے شریعت جو دستاویزات تغیر و تبدل سے محفوظ ہوں، ان کو اعتبار دے کر اُن پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں چونکہ مکر و فریب نے معاشرہ میں اکثر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کی وجہ سے سچے اور جھوٹے کاغذات میں تمییز مشکل ہو گئی ہے، اس لیے اگر تحریری معاہدہ پر با قاعدہ گواہ موجود ہوں تو اس کو اعتبار دیا جائے گا، ورنہ نہیں۔‘‘                (فتاویٰ حقانیہ ، ج:۵، ص: ۳۶۴ ، ط: جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک) 
’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: 
’’جبکہ وہ زمین زید کے نام ہے اور سرکاری کاغذات میں خانۂ ملکیت میں اس کا نام درج ہے تو اس کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ ،ج: ۱۶، ۴۵۷  ، ط: فاروقیہ)
’’فتاویٰ دارالعلوم دیوبند‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’باقی ہندہ کا دعویٰ زید سے نکاح کرنے کا وہ بد ون دو گواہانِ عادل جن کی شہادت شرعاً مقبول ہو ، ثابت نہ ہو گا، کمافی الدر المختار :
’’(قولہ: ولو فاسقين إلخ) اعلم أن النکاح لہ حکمان: حکم الانعقاد، وحکم الإظہار، فالأول ما ذکرہ، والثاني إنما يکون عند التجاحد، فلا يقبل في الإظہار إلا شہادۃ من تقبل شہادتہ في سائر الأحکام کما في شرح الطحاوي، فلذا انعقد بحضور الفاسقين والأعميين والمحدودين في قذف، وإن لم يتوبا وابني العاقدين، وإن لم يقبل أداؤہم عند القاضي۔‘‘
اس عبارت اور نیز درِ مختار سے معلوم ہوا کہ نکاح دو گواہوں کے ایجاب و قبول سننے سے منعقد ہو جاتا ہے، اگر چہ وہ گواہ فاسق اور غیر مقبول الشہادت ہوں، لیکن اگر باقی ورثاء اس نکاح کا اقرار نہ کریں تو ’’ثبوت عند القاضي بحق کافۃ الناس‘‘ بدون دو معتبر گواہوں کی گواہی کے نہ ہو گا۔‘‘     (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،ج: ۸، ص:۱۴۸، ط: دارالاشاعت)
 

  

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

 

ابوبکر سعیدالرحمٰن

محمد انعام الحق  

امتیاز الدین

الجواب صحیح

 

تخصصِ فقہِ اسلامی 

محمد عبدالقادر  

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین