بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

درسِ نظامی اور دینی مدارس کے مقاصد و موضوع

درسِ نظامی اور دینی مدارس کے مقاصد و موضوع


مدارسِ دینیہ کے مقصد کے متعلق بعض حضرات خلطِ مبحث کا شکار ہیں۔ جس طرح مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں کا مقصد ایک خاص قسم کی تعلیم دینا ہے، اسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کا بھی اپنا ایک علیحدہ مقصد ہے۔ مدارسِ دینہ کا مقصد دینی علوم کے ماہرین یعنی علمائے کرام اور مفتیانِ کرام تیار کرنا ہے۔ 
اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ دیکھیں! اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی عالمی ادارہ صحت کے ۲۰۲۰ء کے اعداد وشمار کے مطابق سرطان یعنی کینسر دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے اور ۲۰۲۰ء میں دنیا بھر میں ۲۰ ملین اموات ( دو کروڑ اموات) کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔ نیز ۲۰۲۲ء کے عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار‘ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں تقریباً سوا لاکھ اموات مختلف اقسام کے کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔ کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد کم کرنے کے لیے ایک شخص یہ سوچتا ہے کہ طبی سہولیات میں بہتری اور طبی ماہرین کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے۔ یہ شخص سوچتا ہے کہ چونکہ اس وقت پاکستان میں کئی ہزار وکلاء، کئی لاء کالجز اور یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں، اور کورٹ کچہریوں میں ہزاروں کیس زیرِ التواء پڑے ہیں، سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی میں مشکل پیش آتی ہے، لہٰذا یہ شخص کہتا ہے کہ لاء کالجز و یونیورسٹیوں میں فرسودہ قانون کی تعلیم دی جاتی ہے، بعض قوانین انگریز کے زمانے یعنی ڈیڑھ دوسو سالہ پرانے ہیں اور یہ معاشرے سے ریلیونس‎Relevance یعنی مناسبت و تعلق نہیں رکھتے، نہ ہی ان کا معاشرے کو کوئی فائدہ ہے، لہٰذا کوشش کی جائے اور لاء کالجز کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کیا جائے، آج کل کے دور کے مطابق اس نصاب کو امریکی و یورپی میڈیکل یونیورسٹیوں کے طرز پر ڈھالا جائے اوروکلاء کو عصری طبی علوم کی تعلیم دی جائے۔ ایسا کرکے یہ وکلاء برادری معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں اور معاشرے میں ہم طبی ماہرین کی معتدبہ تعداد پیدا کرسکیں گے جو کہ عالمی و ملکی سطح پر کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی لاسکیں گے۔ نیز ایسا کرنے سے معاشرہ کے ملی مقاصد اور طبی ضروریات پورے کرنے میں بھی مدد ملے گی اور ’’قانون و طب کا حسین امتزاج‘‘ کا خواب بھی پورا ہوگا۔ 
ظاہری طور پر یہ سوچ مخلصانہ لگتی ہے، مگر یہ خلطِ مبحث ہے۔ دیکھیے! طبی ماہرین کی اپنی اہمیت ہے اور وکلاء، لاء کالجز و یونیورسٹیوں اور قانون کی تعلیم کی اپنی اہمیت ہے۔ کسی ایک شعبے کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے ہم دوسرے شعبے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے، لہٰذا یہ سوچنا کہ لاء کالجز کو ہی بند کردیا جائے، اور وکلاء کو ہی مطعون وبدنام کیا جائے کہ آپ معاشرے کے کارآمد شہری نہیں ہیں، ایسی سوچ غیر مناسب ہوگی۔ یہ سوچ بھی نامناسب ہوگی کہ چونکہ لاء کالجز اور یونیورسٹیوں سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بعض نوجوان وکیلوں کو فوراً کوئی جاب نہیں ملتی اور مالی دشواریاں پیش آتی ہیں، لہٰذا لاء کالجز ویونیورسٹیوں کے نصاب میں ہی طبی تعلیم کے نصاب کو شامل کیا جائے۔ ایسا کرنے سے فارغ التحصیل طلبائے کرام میں نہ ہی قانون کی تعلیم میں پختگی ہوگی اور نہ ہی میڈیکل سائنس میں انہیں گہرائی و عبور حاصل ہوگا، بلکہ ایسی تعلیم سے اُلٹا نقصان ہوگا۔ 
دیکھیے! اگر کینسر سے اموات کو کم کرنا ہی ہے تو اس کے لیے حکومتی سطح پر پالیسی بنائی جائے، عوام میں کینسر سے متعلق شعور و آگہی بڑھائی جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میڈیکل ریسرچ پر خطیر سرمایہ خرچ کیا جائے، تاکہ کینسر کے مرض کی بروقت تشخیص ممکن ہو۔ نیز میڈیکل یونیورسٹیوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم ہو، ان کا نصاب عالمی معیار کی طبی یونیورسٹیوں سے ہم آہنگ ہو، میڈیکل ریگولیٹری ادارے اپنے فرائض تندہی سے انجام دیں، اور سب سے بڑھ کر ایسے میڈیکل ڈاکٹر اور طبی ما ہرین پیدا کیے جائیں جو کہ اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، عالمی معیار کی تحقیق کرتے ہوں، ان میں ملک و ملت اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور پھر وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا کر کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی لانے میں صرف کریں۔ خلاصہ یہ کہ اگر کسی کو کینسر سے ہونے والی اموات کے بارے میں فکر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اموات کی یہ تعداد کم ہو تو وہ موجودہ طبی نظام ہی کو مضبوط اور بہتر کرنے کی کوشش کرے، چہ جائیکہ لاء کالجز کے نصاب میں میڈیکل کا نصاب داخل کرے۔ 
قارئین! ہماری مندرجہ بالا مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور فرمائیں کہ مدارسِ دینیہ سے متعلق بھی بعض لوگوں کو خلطِ مبحث ہوچکا ہے۔ دیکھیے! جس طریقے سے لاء کالجز اور لاء یونیورسٹیوں کا مقصد قانون کی تعلیم دینا ہے، اسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کا بھی اپنا ایک علیحدہ مقصد ہے۔ مدارسِ دینیہ سے متعلق یہ سوچنا کہ یہاں سے انجینئر، میڈیکل ڈاکٹر، سرجن، سائنسدان، محقق، معاشی ماہرین، اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کے ماہر نکلیں گے، یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ جس طریقے سے لاء کالجز کے نصاب میں جدید طب کے نصاب کو شامل نہیں کیا جاسکتا، اسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کے نصاب میں کسی دوسرے سائنسی شعبے مثلاً انجینئرنگ، میڈیکل سائنس، معاشیات، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت و دیگر سائنسی شعبوں کے نصاب کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ جس طریقے سے لاء کالجز سے قانونی ماہرین ہی نکلیں گے، میڈیکل یونیورسٹیوں سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہی نکلیں گے، انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے انجینئر ہی نکلیں گے، اسی طریقے سے مدارسِ دینہ سے بھی دینی علوم کے ماہرین، یعنی علمائے کرام اور مفتیانِ کرام ہی نکلیں گے۔ 
ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ لاء کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو کسی حد تک انگریزی اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلز یعنی ہنر آتے ہیں، اسی طریقے سے مدارسِ دینیہ سے فارغ ہونے والے علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کو انگریزی اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلز آنے چاہئیں۔ 
دیکھیے! انگریزی تعلیم اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلز کی اہمیت اور ضرورت کے درجے میں ان کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کررہا۔ اگر لاء کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تھوڑی انگریزی اور کمپیوٹر سیکھ لینے کے بعد کوئی یہ سوچے کہ وہ کمپیوٹر سائنسدان، مصنوعی ذہانت کا ماہر، میڈیکل سرجن، معاشی ماہر یا انجینئر بن چکا ہے، اور تھوڑی بنیادی انگریزی و کمپیوٹر کے اسکل یعنی ہنر سیکھ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے والا دیگر سائنسی شعبوں میں زندگی کھپانے والوں کا مقابلہ کرسکتا ہے، تو جس طریقے سے یہ سوچنا غلط ہے، اسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام کو انگریزی اور چند کمپیوٹر اسکلز سکھانے کے بعد یہ دعویٰ کرنا کہ یہاں سے عالمی سطح کے سائنسدان، محققین، انجینئر، میڈیکل سرجن، معاشی ماہرین وغیرہ نکلیں گے، یہ بھی بالکل غلط سوچ ہے۔ 

ایں خیال است و محال است و جنوں

اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج عملی طور پر جو لوگ ’’دینی و عصری علوم کا حسین امتزاج‘‘ کی دو کشتیوں میں سوار ہیں، اُن میں سائنسی علوم میں گہرائی اور عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کا فقدان ہے۔ کہنے کو تو یہ لوگ ’’ڈاکٹر‘‘ یا ’’انجینئر‘‘ یا ’’فنائنشل ایکسپرٹ‘‘ بھی ہیں اور مدراسِ دینیہ کے فاضل بھی، مگر سائنسی میدان میں عالمی سطح پر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ دراصل سائنس کے عنوان سے چند مدارسِ دینیہ میں ایسے لوگوں کی کھیپ تیار ہونا شروع ہوچکی ہے جو کہ سائنس کی مخالفت کررہے ہیں اور سائنس کے لبادے میں ایسی سائنسی تحقیق و مقالے شائع کررہے ہیں جن کو پڑھ کر عالمی سطح پر پاکستان کا نام اور بالخصوص مدارسِ دینیہ کا نام بدنام ہورہا ہے۔ غرض ایسے لوگوں کو نہ دینی علوم میں گہرائی حاصل ہے اور نہ ہی سائنسی علوم میں گہرائی، الا ماشاءاللہ، ’’نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ ‘‘
مدارسِ دینیہ کے موضوع و مقصد کو سمجھنے کے لیے ہم ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے بعد کی بات ہے اور اس وقت اُن کے فرزندارجمند حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے، مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے والد ہیں۔ اب اس زمانے میں انگریزی مستحکم ہوچکی تھی اور ریاستیں بن چکی تھیں اور سارا سسٹم ڈویلپ ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں ریاستیں تھیں اوران میں سب سے مالدار ریاست حیدرآباد دکن کی ریاست تھی، حضرت حافظ صاحبؒ بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیوبند‘ دکن کے سفر پر گئے تووہاں کے نواب صاحب سے ملاقات ہوئی، نواب صاحب نے استقبال اور دعوت بھی کی ہوگی، اس کے ساتھ ایک پیشکش بھی کی کہ ’’حضرت! ہم نے تجربہ کیا ہے کہ آپ کے پڑھے ہوئے بچے جہاں جاتے ہیں ہم اُن کو سروسز میں لگاتے ہیں تووہ کارکردگی، دیانت اور صلاحیت میں بھی دوسروں سے بہترثابت ہوتے ہیں، یہ ہمارا تجربہ ہے، لہٰذا مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کرلیں کہ جتنے فارغ طلباء ہیں انھیں ہمارے پاس بھیج دیں، ہم انھیں ملازمتیں دیں گے، اور آپ کا سارا خرچہ ہم دیں گے۔ ‎‘‘
‎ وہ زمانہ اچھا تھا، حافظ صاحبؒ نے فوراً معاہدہ نہیں کیا؛ بلکہ فرمایا کہ: پہلے ہم اپنے بزرگوں سے پوچھ لیں۔ حافظ صاحبؒ واپس آئے، اس وقت دیوبند میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن v صدر مدرس تھے اور حافظ احمد صاحبؒ مہتمم تھے، تو انھوں نے حضرت شیخ الہندؒ سے ذِکرکیا کہ نواب صاحب نے یہ پیشکش کی ہے؛ لہٰذا ہمارے تو دونوں مسئلے حل ہو گئے ہیں۔ آج کاسب سے بڑا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کھپنا کدھر ہے، کیا دورئہ حدیث کرنے کے بعد ملازمت ملے گی؟ اور چندے سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔ مہتمم کو اور کیاچاہیے !دونوں مسئلے حل ہوگئے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے پوچھا کہ: ’’‎مولوی احمد! وعدہ تو نہیں کرآئے؟‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’نہیں حضرت! مجھے آپ سے پوچھنا تھا۔‘‘ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا: ’’ایسا کرو کہ گنگوہ جاؤ، ہمارے بڑے وہ (حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ) ہیں، ان کو جاکر سنا دو۔‘‘ اس زمانے میں یہ ماحول تھا، گنگوہ وہاں سے کئی میل کے فاصلے پر ہے، لہٰذاحافظ صاحبؒ وہاں گئے اور حضرت گنگوہی ؒ کی خدمت میں ساری بات پیش کی اور ویسے بھی وہ حضرت گنگوہیؒ کے شاگرد تھے۔ 
‎ حضرت گنگوہی ؒ نے پوچھا:’’مولوی احمد!اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‎‘‘
‎ مولانا احمد صاحبؒ نے کہا: ’’حضرت! ہمارے دونوں مسئلے حل ہوسکتے ہیں، فارغ ہونے والوں کی ملازمتوں اور مدرسہ کے خرچے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے، میرا خیال ہے کہ پیشکش قبول کرلینی چاہیے۔ ‎‘‘ ‎ حضرت گنگوہی ؒ کا جملہ حضرت مفتی صاحبؒ نے نقل کیا ہے، میں عرض کردیتا ہوں، فرمایا: ’’احمد! میں تجھے بے وقوف تو سمجھتا تھا؛ مگر اتنا نہیں، اللہ کے بندے! ہم نے یہ مدرسے نواب حیدرآباد کی ریاست چلانے کے لیے بنائے ہیں؟ بلکہ ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ مسلمانوں کو مسجد میں امام، خطیب، مفتی، مدرس، حافظ اور قاری ملتا رہے۔ بھاڑ میں جائے حیدرآباد کی ریاست، ہم نے مدرسے اس لیے بنائے ہیں کہ مسجدیں آباد رہیں، قرآن پاک کی تعلیم چلتی رہے، لوگوں کو مسئلے بتانے والے ملتے رہیں، ہمیں (اس پیشکش کی) ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (حوالہ: قطب الارشاد حضرت مولانارشید احمد گنگوہیؒ: تعارف وخدمات - خطاب از حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ، ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ : ۲، جلد:۱۰۷، رجب المرجب ۱۴۴۴ھ مطابق فروری ۲۰۲۳ء )
قارئین! مدارسِ دینیہ کے مقاصد و موضوع بالکل واضح ہیں۔ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  نے بارہا اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ:
 ’’ ہماری دینی درسگاہوں کا اصل موضوع علومِ کتاب و سنت ہیں، انہیں کی افہام وتفہیم، تَعَلُّم و تعلیم، توضیح و تشریح، تعمیل و اتباع اور تبلیغ و دعوت اور ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم رکھ سکیں، بس یہی ان مدارس کا مقصودِ اصلی ہے۔‘‘ (حرفِ آغاز، ماہنامہ دارالعلوم، ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ، مطابق مئی ۲۰۰۷ء)
بعض حضرات دینی مدارس کے نظام و نصاب میں ترجیحات و اصلاحات کے قائل ہیں، مگر یہ حضرات ان مدارسِ دینیہ کے مقاصد و موضوع کی تشریح کرتے ہوئے اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان حضرات کے مطابق مدارسِ دینیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو لیڈر، سیاستدان، جرنل، جج، وکیل، میڈیکل ڈاکٹر، محقق، سائنسدان، معاشی ماہر، آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کا ماہر، گرافک ڈیزائنر، ویڈیو ایڈیٹر، ویب ڈیویلپر، کونٹنٹ رائٹر یعنی مواد تحریر کرنے والے، سرچ انجن آپٹی مائیزیشن کے ماہر، ٹریڈرز، کمپیوٹر پروگرامزر، کمپیوٹر گیمنگ ایکسپرٹ وغیرہ دیں۔ غرض ان تمام شعبوں کا ماہر بنانا دینی مدارس کا مقصد و موضوع ٹھہرا۔ دینی مدارس کا مقصد و موضوع نہ ٹھہرا تو وہ دینی علوم میں پختگی، علومِ کتاب و سنت کی افہام وتفہیم، تَعَلُّم و تعلیم، توضیح و تشریح، تعمیل و اتباع اور تبلیغ و دعوت ہے!  فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین