بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دردی الخمر (tartaric acid) اور مردار کی ہڈی کا حکم

دردی الخمر (tartaric acid) اور مردار کی ہڈی کا حکم

دردی الخمر مائع اشیاء جیسے تیل،شہد اور شراب کی تہہ میں جو تلچھٹ رہ جاتی ہے، اسے دردی کہتے ہیں۔ اسے روبہ یعنی خمیرہ بھی کہا جاتا ہے جو شیرہ پر شراب بنانے کی غرض سے ڈالا جاتا ہے۔ دردی الخمر شراب کی تلچھٹ اور کدورت کو کہتے ہیں۔ اس پر اتفاق ہے کہ عام شرابوں کی طرح یہ بھی حرام ونجس ہے اوراس سے فائدہ اُٹھانا ناجائز و حرام ہے۔ دیگر مسالک میں اس کا ایک قطرہ پینا بھی موجب حد ہے، البتہ احناف کے نزدیک ا گر نشے سے کم مقدار میں’’ دردی خمر‘‘ استعمال کرلیا جائے تو حد واجب نہیں ہوگی، کیونکہ یہ شراب کی تلچھٹ اور کدورت ہوتی ہے اور اس طرح شوق ورغبت سے نہیں پی جاتی جس طرح دیگر حرام شرابیں پی جاتی ہیں۔ عادی شرابی بھی اُسے ناپسند کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خمریت کا وصف اس میں ناقص ہے، اس نقص کی وجہ سے اس کے پینے والے پر حد واجب نہیں۔ مگر چونکہ یہ حرام اور نجس ہے، اس لیے اس کا پینا اور استعمال میں لانا جائز نہیں اور جس پروڈکٹ میں ’’دردی خمر‘‘ شامل ہو اس کا استعمال بھی جائز نہیں۔ جیساکہ ذکر ہوا کہ ’’دردی خمر‘‘ شراب کا بقیہ اور تلچھٹ ہوتی ہے، جس میں خمر اور غیر خمر کے اجزاء مخلوط ہوتے ہیں، آج کل ’’فلٹریشن‘‘ کے عمل کی وجہ سے خمر کے اجزاء جدا اور الگ کرلیے جاتے ہیں اور پھر مختلف مصنوعات میں خاص طور پر ذائقہ بڑھانے کی غرض سے اس کی آمیزش کی جاتی ہے، ’’تقطیر‘‘ یعنی ’’فلٹریشن‘‘ کے عمل کی وجہ سے ’’دردی خمر‘‘ کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، بلکہ مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ استخلاص سے پہلے وہ خمر اور غیر خمر کا مجموعہ ہوتا ہے، جب کہ استخلاص کے بعد خالص خمر کے ذرات رہ جاتے ہیں، جس کا نجس اور حرام ہونا اور اس سے انتفاع کا ناجائز ہونا غیر اختلافی ہے۔         (الاختیار لتعلیل المختار،ج:۴،ص:۱۰۸) ’’ویکرہ شرب دردی الخمر و الامتشاط بہٖ لأنہٗ من أجزاء الخمر، ولا یحد شاربہما لم یسکر لأنہٗ ناقص، إذ الطباع السلیمۃ تکرہہٗ وتنبو عنہ، وقلیلہٗ لا یدعو إلٰی کثیرہٖ فصارکغیر  الخمر۔‘‘ (المبسوط للسرخسی ـ مشکول ،ج:۲۷، ص:۱۶۰۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے:حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار،ج:۱،ص:۳۲۵) مردار کی ہڈی کا حکم آج کل مرغیوں کی خوراک میں جانوروں کی ہڈی کا استعمال ہوتا ہے،اسی طرح فوڈ انڈسٹری کثرت کے ساتھ جیلاٹن کا استعمال کرتی ہے، جس کا مأخذ ہڈی ہوتا ہے ،اگر چہ پاکستان میں اب حلال جیلاٹن بنانے والی کمپنیاں وجود میں آگئی ہیں، مگر اب بھی بڑے پیمانے پر اسے مغربی ممالک  سے درآمد کیا جاتا ہے، جب کہ غیر مسلم ممالک میں ذبیحہ غیر شرعی ہوتا ہے جو بحکم مردار ہے اور اسی مردار کی ہڈی سے جیلاٹن تیار کیا جاتا ہے، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا جیلاٹن جو مردار کی ہڈی سے بنایا گیا ہو، حلال ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب جیسا کہ ظاہر ہے اس پر موقوف ہے کہ مردار کی ہڈی کا کیا حکم ہے؟ ہڈی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ تمام جانوروں کی ہڈیا ں پاک ہیں، خواہ جانور ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم ہو اور خواہ اسے شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو یا غیر شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو اور پھر وہ جانور سمندری ہو یا خشکی کا ہو اور اگر سمندری ہو تو مچھلی ہو یامچھلی کے علاوہ کوئی اور جانور ہو اور اگر خشکی کا جانور ہو تو اس میں دم ہو یا نہ ہو اور اگر دم ہو تو دم سائل ہو یا غیر سائل ہو،سب کی ہڈی حلال ہے ،البتہ درج ذیل اصناف کی ہڈیا ں حرام ہیں: ۱:۔۔۔۔۔۔ خنزیر کی ہڈی نجس اور حرام ہے، کیونکہ خنزیر اپنے تمام اعضاء سمیت نجس العین ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ انسان کی ہڈی پاک ہے، مگر اس کی عظمت اور کرامت کی وجہ سے اس کی ہڈی کا استعمال حرام ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ مردار کی ہڈی پر دسومت اور چکنائی ہو تو اس کا استعمال حرام ہے، البتہ جن جانوروں میں دم نہ ہو یا دم تو ہو مگر سائل نہ ہو، اس کی ہڈی پر اگر دسومت ہو تو اس کا استعمال حلال ہے۔ حاصل یہ ہے کہ سوائے خنزیر کے ہر جانور کی ہڈی پاک ہے خواہ حلال ہو یا حرام، مذبوح ہویا مردار، البتہ مردار کی ہڈی میں شرط ہے کہ اس پر دسومت نہ ہو اور اگر جانور میں دم سائل نہ ہو تو اس کی ہڈی پر دسومت کا نہ ہونا بھی شرط نہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں ہڈیوں سے بننے والی خوراک کا حکم یہ ہے کہ: ۱:۔۔۔۔۔شرعی طور پر مذبوح حلال جانوروں کی ہڈیوں سے خوراک بنانا اور جانوروں کو کھلانا جائز ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ جو جانور حلال نہ ہو مگر شرعی طریقے پر ذبح کردیا گیا ہو، اس کی ہڈی سے بھی خوراک بنانا اور جانور کو کھلانا جائز ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ مردار کی ہڈی پر اگر رطوبت ہے تو خشک ہوجانے کے بعد اس سے خوراک بنانا جائز ہے۔     ۴:۔۔۔۔۔ ایسی خوراک جس میں انسانی ہڈی یا خنزیر کی ہڈی استعمال ہو،اس کا بنانا اور جانوروں کو کھلانا جائز نہیں۔ (الجامع الصغیر،عبد الحی اللکنوی،ج:۱،ص:۳۲۸۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: الہدایۃ شرح البدایۃ، ج:۳، ص:۴۶)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین