بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

درد کا حد سے گزرنا ہے‘ دوا ہوجانا

درد کا حد سے گزرنا ہے‘ دوا ہوجانا

    اللہ پاک نے اپنی زِندہ جاوید کتاب میں معجزانہ اور بلیغ اُسلوب میں فرمایا ہے کہ مومنوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں سے بچتے ہیں، غصے کے وقت لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، اپنے رب کی بات مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، دین و دنیا کے معاملات میں آپس کے مشورے کے بعد ہی کوئی قدم اُٹھاتے ہیں، ہمارے عطا کردہ رزق سے خرچ کرتے ہیں اور جب ظلم و جور کا شکار ہوں تو انتقام لیتے ہیں: ’’اور جو کچھ اللہ کے یہاں ہے، بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے واسطے ایمان والوں کے جو اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور جو لوگ کہ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی سے اور جب غصہ آوے تو وہ معاف کردیتے ہیں اور جنہوں نے کہ حکم مانا اپنے رب کا اور قائم کیا نماز کو اور کام کرتے ہیں مشورے سے آپس کے اور ہمارادیا کچھ خرچ کرتے ہیں اور وہ لوگ کہ جب ان پر ہووے چڑھائی تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘   (الشوریٰ:۳۶تا۳۹، ترجمہ: شیخ الہندؒ)     آیت کریمہ میں ’’یَنْتَصِرُوْنَ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ انتہائی بھرپور معنی کا حامل ہے، اس کے معنی: کامیابی، فوز و فلاح، غلبہ و فتح مندی، انتقام، دوسروں کی نصرت و مدد اور حق و انصاف کی مدافعت وغیرہ ہے، لہٰذا آیت کا مطلب ہوگا کہ جب اہل ایمان کو ظلم و تعدی سے سابقہ ہوتا ہے تو اس سے بھرپور انداز میں نمٹتے ہیں، کامیابی حاصل کرتے ہیں، ظالموں پر فتح پاتے ہیں، غلبہ و سربلندی کو روبہ عمل لاتے ہیں، اللہ کی مدد سے ظالموں سے انتقام لیتے ہیں، کیونکہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کرتا ہے، ظلم و جور کا نشانہ بننے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور فتح مندی و غلبے کے ذریعے ان کی اشک شوئی اور خبرگیری کرتا ہے۔     یہ آیت موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے بڑی بشارت کی حامل ہے، اس وقت ساری دنیا میں ہمیں ظلم و جور کا سامنا ہے، لامحدود ظلم و تعدی کا ہمیں شکار بنایا جارہا ہے، ہمیں پیہم اور بغیر کسی وقفے کے جسمانی و ذہنی عذاب میں مبتلا رکھا جارہا ہے، ہمیں ہر طرف سے گھیرا جارہا ہے، ہمارا پیچھا کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مظلومی کی یہ صورتِ حال ہمارا مقدر اور ہمارا نصیبہ ہے۔ یہ صورتِ حال ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے مایوسی اور احساسِ محرومی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بہت سے مسلمان زبان حال و زبان قال دونوں سے یہ کہنے لگے ہیں: ’’مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ‘‘ (اللہ کی مدد کب آئے گی؟)  اس کے جواب میں سنت اللہ گویا یہ پکار کے کہہ رہی ہے: ’’أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ‘‘ (ہاں سنو! اللہ کی مدد آیا چاہتی ہے) بلاشبہ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ ظلم کا لازماً ازالہ کرتا رہا ہے، باغیوں، سرکشوں، گردن فرازوں، ظلم و جور کے ناخدائوں اور غرور وتکبر و بربریت کے ’’رب اعلیٰ‘‘ سب سے بڑا خدا ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو مٹاتا اور اپنے عدل و انصاف کے قانون محکم کے ذریعے انہیں ان کے منطقی انجامِ بد تک پہنچاتا رہا ہے۔ وہ آخرت سے پہلے دنیا میں ان کی بھرپور اور کھلم کھلا رسوائی و جگ ہنسائی کا انتظام کرتا رہا ہے، اس کی سنت ڈھیل دینے کی رہی ہے، لیکن چھوڑدینے اور بالکل طرح دینے کی نہیں رہی ہے، لیکن ہم انسان ضعیف البنیان اور اسی خدائے عالم الغیب کے بقول عجلت پسند جو پیدا کیے گئے ہیں، تو ہم زندگی کے تمام مسائل کے حوالے سے عجلت پسند اور جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ ہم انتظار کرنے اور آہستہ روی کے قائل نہیں، ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ہر کام ہماری خواہش کے مطابق اور ہماری چاہت کے بقدر اور ہماری بے حساب تمنا کے معیار پر ہمارے مقرر کردہ وقت پر ہی ضرور ہوجایا کرے، ورنہ ہماری بے تابی دیدنی ہوتی ہے۔     بہرصورت ہم اس وقت ظلم و جور کی ہر نوع کا شکار ہیں، لیکن یہی صورت حال ہماری فتح مندی، ہمارے غلبے، ہماری بھرپور کامرانی و شادمانی کا یقینی پیام بھی ہے۔ ہم خدائے لم یزل کے دست قدرت کے طفیل ظالموں سے ضرور بدلہ لیں گے، ہم حق و عدل کے لیے ضرور کامیاب ہوں گے، کیونکہ ہم اس کے سچے نمائندے اور واحد علمبردار ہیں۔ آیت کریمہ صاف طور پر بتاتی ہے کہ اللہ پاک کا مظلوم ، مومنوں سے فتح مندی اور غلبہ دینے کا یہ وعدہ ہے۔ آیت صرف یہی نہیں بتاتی کہ یہ حقیقت رونما ہوکے رہے گی، بلکہ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ مظلوم مومنوں کے لیے یہ محکم وعدئہ الٰہی ہے جو بہرصورت پورا ہوکے رہتا ہے، خواہ ظالموں کو پسند ہو یا ناپسند ان کے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، انہیں اپنے ظلم کا تلخ مزہ چکھنا ہوگا اور مظلوموں کو ان سے انتقام دلایا جائے گا، یہ اسی دنیا میں ہوگا، اسی آسمان کے نیچے اور اسی زمین کے اوپر ہوگا اور آخرت کا عذاب تو اپنی جگہ ہے ہی، جو اس سے زیادہ شدید اور کماً و کیفاً ناقابل تصور حد تک رسواکن اور تکلیف دہ ہوگا۔ (العیاذ باللہ)     ایک مرتبہ اور آیت کے الفاظ کو ذہن نشیں کرلیجیے: ’’وَالَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنْتَصِرُوْنَ۔‘‘           (الشوریٰ) ترجمہ: ’’وہ لوگ کہ جب ان پر ہووے چڑھائی تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘     یعنی وہ اس آبرو کا بدلہ لیتے ہیں جو اُن سے چھین لی گئی تھی، اس عزت کا بدلہ لیتے ہیں جس سے انہیں محروم کردیا گیا تھا، اس زمین کا بدلہ لیتے ہیں جو اُن سے ہڑپ کر لی گئی تھی، اس امن اور چین کا بدلہ لیتے ہیں، جس کے لیے اُن کو ترسایا گیا تھا، اس ظلم کا بدلہ لیتے ہیں جو اُن پر ڈھایا گیا تھا، خودداری کی اس زندگی کا بدلہ لیتے ہیں، جس سے ان کو تہی مایہ کردیا گیا تھا اور اس وطن کا بدلہ لیتے ہیں، جس سے ان کو نکالا گیا تھا۔     لیکن اس کے لیے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے ’’ایمان‘‘ کی شرط، جو بڑی کڑی، اہم اور کٹھن شرط ہے، کیونکہ اس شرط پر پورا اترنا، ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس کو دعویٰ، ریاکاری، سینہ زوری، فخر و مباہات کے سرمایوں، قوتِ بازو، دھوکہ دہی، حیلہ سازی، بہانہ بازی اور ظاہر کی تاب ناکی اورباطن کی تیرگی کے ساتھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا واقعی وجود ہی ایک انسان کے ہر درد کی شافی دوا اور ہر مسئلے کا مکمل اور کافی حل ہے۔ ایمان سے بڑا مسیحا اس دنیا میں کوئی نہیں، اس سے بڑا سہارا اور ہر مشکل کے بھنور کا مضبوط کنارا دنیا میں دستیاب نہیں۔ اس اکسیر کے بعد کسی فارمولے کی ضرورت نہیں اور اس ماسٹر کی (شاہ کلید) کے بعد کسی کلید کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے ہوتے ہوئے انسان کو کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں، وہ زندگی کے ہر معرکے میں بے تیغ لڑ کر اس کو مکمل طور پر سرکرسکتا ہے، اس کے بغیر انسان، کائنات کی ایک کٹی ہوئی پتنگ ہے، ہر سہارے کے باوجود بے سہارا ہے، ہر شفقت کے باوجود، حالات کی ستم ظریفی اور حوادث زمانہ کی تیز دھوپ کا نشانہ ہے۔     آیت میں جو بشارت ہے، وہ محض نام کے مسلمانوں اور صرف مردم شماری کے فارم پر عبدالعزیز اور عبدالوکیل درج شدہ لوگوں کے لیے نہیں، جو اپنے عمل و کردار میں فرعون، ہامان، نمرود، ہٹلر، چنگیز، تیمور، ہلاکو، بش، راون، ابوجہل، ابولہب اور جو اپنے خدا بے زار کرتوتوں کے ذریعے شیطان کو شرمندہ کردینے والے انسان ہوں۔ آیت میں غلبہ و فتح مندی کا الٰہی وعدہ ’’ایمان‘‘ رکھنے والوں کے لیے ہے، ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے والوں کے لیے ہے، فواحش و معاصی سے گریزاں رہنے والوں کے لیے ہے، اقامتِ صلوٰۃ کرنے والوں کے لیے ہے، تمام اوامر و نواہی میں اپنے رب کی ماننے والوں کے لیے ہے، غصے کو پی جانے والوں اور لوگوں کو ممکن حد تک معاف کردینے والوں کے لیے ہے، اللہ پر توکل کرنے والوں کے لیے ہے، جو یقین رکھتے ہیں نصرت و ہزیمت، عزت و ذلت، صرف اسی رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے، نیز یہ وعدہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دشمنان خدا اور رسول کا پیچھا کرنے کے حوالے سے خدائے بے نیاز کا حکم ضرور مانتے ہیں، وہ کسی ’’تکلیف‘‘ اور ’’بے آرامی‘‘ کی وجہ سے دشمنوں کا پیچھا کرنے میں پیچھے نہیں رہتے اور آرام و راحت کی طلب میں کسی چانس کو اور صحیح موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، وہ پیچھا کرنے کی راہ میں تلوے میں چبھے ہوئے کسی ’’کانٹے‘‘ کو نکالنے کی بھی فکر نہیں کرتے، بلکہ باغیانِ خدا اور عاصیانِ رب دوجہاں کے تلوے بھی اسی طرح کے کانٹوں اور ان کے جسم و ذہن بھی اسی طرح کی بے آرامی اور فکر مندی سے دوچار ہیں، لیکن وہ سرمایہ ’’ایمان‘‘ سے تہی مایہ ہونے کے باوجود اور اللہ کے کسی ثواب کی امید سے یکسر محرومی کے باوصف، اگر ایک لمحے کے لیے بھی مومنوں کا پیچھا کرنے سے غافل رہنے اور اس میں توقف کرنے یا سانس کے قائل نہیں تو بھلا اہل ایمان کے لیے ذرا بھی ’’وقفۂ استراحت‘‘ کی گنجائش کیونکر ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہمت نہ ہارو، ان کا پیچھا کرنے سے، اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں، جس طرح تم ہوتے ہو اور تم کو اللہ سے امید ہے، جو اُن کو نہیں۔‘‘(النسائ: ۱۰۴،ترجمہ:شیخ الہندؒ)     واقعی کتنی سچی اور عبرت خیز بات ہے کہ صلیبی و صہیونی اور طرح طرح کے صنم پرستان جہاں، اپنے کفر و شرک، خدا بے زاری، رب کریم کی رحمت سے مایوسی، اس کے ثواب کے لالچ سے یکسر محرومی کے باوجود، رب رحمن سے لو لگانے والے اہل ایمان کی مسلسل مزاحمت اور اس کو حرف غلط کی طرح مٹانے کے عمل سے کسی لمحہ ہار ماننے کو تیار نہیں، تو بھلا اہل ایمان کے لیے یہ کب روا ہے کہ وہ ان کی مزاحمت اور ان کے گھات میں لگے رہنے سے مات کھائیں؟ ان کے لیے دشمنانِ دین اور باغیانِ رب عظیم کی محاذ آرائی سے منہ موڑنے کا کوئی جواز نہیں، جب کہ ہمارے مولیٰ نے اہل ایمان کے لیے دنیا کی زندگی میں سربلندی و فتح مندی اور آخرت کی زندگی میں آسمان و زمین کی وسعت رکھنے والی جنت کی ان گنت نعمتوں کا وعدہ کیا ہے، لہٰذا اس کے ثواب کی امید کے ساتھ کسل مندی کا کوئی معنی نہیں، اس کے وعدے پر یقین کے ساتھ کمزوری دکھانے کی کوئی گنجائش نہیں اور دنیا میں استقرار و استحکام بخشنے اور آخرت میں سرخروئی سے نوازنے کی دونوں بھرپور بھلائیوں کی ترغیب پیہم کے بعد، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مکمل استحقاق رکھنے والے گم کردئہ راہ کے مقابلے سے، جی چرانا چہ معنی دارد؟     ہم بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرنے، قرآن میں ذکر کردہ اس کی عبرت خیز سچی داستان ہائے قوم و ملل کو پڑھنے، تاریخ کے اشارات کو سمجھنے، الٰہی وعدہ اور وعیدوں کو احاطۂ فکر و تأمل میں لانے اور مجاہدین و محسنین پر کیے گئے انعامات کو مستحضر رکھنے سے غافل رہتے ہیں، ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ پاک مجاہدین کی نصرت رعب کے ذریعے کرتا رہا ہے، تائید غیبی سے انہیں تقویت دیتا رہا ہے اور کائنات کی ہر چیز میں پوشیدہ اپنے ’’سپاہیوں‘‘ کے ذریعے ان کی مدد کرتا رہا ہے۔ کائنات کی ہر شے اس کا ’’سپاہی‘‘ ہے، خاموش ہو یا گویا، جامد ہو یا بڑھنے والی، زندہ ہو یا مردہ، چھوٹی ہو یا بڑی، معمولی ہو یا غیر معمولی۔     ہاتھی والے ابرہہ اور اس کے فوجیوں کو اس خدائے ذوالجلال نے آخر پرندوں کی کنکریوں اور پتھروں کی بارش سے جس طرح تباہ کردیا تھا، رہتی دنیا تک کے لیے اس نے واقعے کو وحیِ متلوکی شکل میں زندہ پائندہ کردیا ہے، تاکہ دنیا والے ہمیشہ اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں اور اگر توفیق ہو تو اس کے کھلے اور چھپے ’’سپاہیوں‘‘ سے خوف کھاتے رہیں، آیئے! ہمارے ساتھ آپ بھی اس چھوٹی سی سورۃ کی تلاوت کیجئے اور اپنے ایمان کو تازہ اور یقین کو صیقل اور رب کی بے حساب قدرت کا کچھ اندازہ کیجئے: ’’کیا تو نے دیکھا! کیا، کیا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ، کیا نہیں کردیا ان کا دائو غلط اور بھیجے ان پر اڑتے جانور ٹکڑیاں ٹکڑیاں، پھینکتے تھے ان پر پتھریاں کنکر کی، پھر کر ڈالا ان کو جیسے بھس کھایا ہوا۔‘‘                                   (سورئہ فیل: ۱تا۵، ترجمہ: شیخ الہندؒ)     اصحاب الفیل کا قصہ ذہن میں تازہ کرلیجئے ’’حبشہ‘‘کی طرف سے ’’یمن‘‘ میں ایک حاکم ’’ابرہہ‘‘ نام کا تھا، اس نے دیکھا کہ سارے عرب کعبہ کا حج کرتے ہیں، تو اس کے سینے میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی کہ عرب والوں کو یہ سعادت حاصل ہے کہ لوگ اسی کے خطے میں ساری دنیا سے کھنچے چلے آتے ہیں، ایسا ہم عیسائیوں کے لیے کیوں نہیں؟ اس نے چاہا کہ لوگ کعبہ کو چھوڑ کر ہمارے پاس جمع ہوا کریں، اس کی تدبیر اس کے ذہن میں یہ آئی کہ اپنے عیسائی کے نام پر ایک عالی شان گرجا بنایا جائے، جس میں ہر طرح کے تکلفات اور راحت و دلکشی کے سامان ہوں، اس طرح لوگ اصلی اور سادہ کعبہ کو چھوڑ کر اس مکلف اور مرصع ’’کعبہ‘‘ کی طرف آنے لگیں گے اور مکہ کا حج چھوٹ جائے گا، چنانچہ ’’صنعائ‘‘ جو یمن کا بڑا شہر ہے، اپنے مصنوعی کعبہ کی بنیاد رکھی اور خوب دل کھول کر روپے خرچ کیے، اس پر بھی لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ عربوں کو خصوصاً قریش کو جب اس کی خبر ہوئی سخت ناراض ہوئے، کسی نے غصے میں آکر وہاں پاخانہ کردیا، ابرہہ چراغ پا ہوگیا، اس نے جھنجھلا کر کعبہ شریف پر فوج کشی کردی، بہت سالشکر اور ہاتھی لے کر اس ارادے سے چلا کہ کعبہ کو منہدم کردے، اس وقت حضور اکرم a کے دادا حضرت عبدالمطلب قریش کے سردار اور کعبہ کے متولی اعظم تھے، ان کو ابرہہ کے اس ارادے کی خبر ہوئی، تو اہل مکہ سے فرمایا: ’’لوگو! اپنا بچائو کرلو، کعبہ جس کا گھر ہے، وہ خود اس کو بچالے گا۔‘‘ ابرہہ نے راستہ صاف دیکھ کر یقین کرلیا کہ کعبہ کا منہدم کردینا کوئی مشکل کام نہیں، کیونکہ ادھر سے کوئی مقابلہ کرنے والا نہ تھا، جب وادی ’’محسر‘‘ (جو مکہ کے قریب جگہ ہے) پہنچا تو سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے چھوٹے جانوروں کی ٹکڑیاں نظر آئیں، ہر ایک کی چونچ اور پنجوں میں چھوٹی کنکریاں تھیں، ان عجیب و غریب پرندوں کے غول کے غول کنکریاں لشکر پر برسانے لگے، خدا کی قدرت سے وہ کنکر کی پتھریاں بندوق کی گولی سے زیادہ کام کرتی تھیں، جس کے لگتیں، ایک طرف سے گھس کر دوسری طرف کو نکل جاتیں اور ایک عجیب طرح کا سمی مادہ چھوڑ جاتی تھیں، بہت سے تو اپنی جگہ ہلاک ہوگئے، جو بھاگے وہ دوسری بڑی بڑی تکلیفیں اٹھاکر مرے۔

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین