مرحلۂ تخصص آج کل کے مدارس کے نصابِ تعلیم کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان میں جماعتِ مشکوٰۃ ہی اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا درجہ سمجھا جاتا تھا، پھر دورہ حدیث کے نام سے ایک الگ جماعت کا اضافہ کیا گیا، اور بعد میں تخصصات (یعنی اعلیٰ درجہ کی تعلیم) بھی اس کے ساتھ شامل کر دیے گئے۔ ذہین اور ہوش مند طلبہ کے درمیان اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے اور تخصص کرنے کا رجحان وتوقع ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ وہ ثانوی مراحل سے ہی اپنے اہداف مقرر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ تکمیل کے مرحلہ میں پہنچنے کے بعد ان کا یہ رجحان ایک منفرد سمت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی وجہ سے طلبہ بارہا یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ تخصص کرنا چاہتے ہوں تو اس کی تیاری کیسے کریں؟ کن کن موضوعات پر امتحان لیا جائے گا؟
غور سے دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے طلبہ کے درمیان تمام میلان اور چاہتوں کا مرکز تخصص کے امتحانات کی تیاری کرنا اور اس میں کامیاب ہونا ہے، یہ طلبہ اپنی تمام تر محنت اسی پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ہر ایک اپنے منتخب کردہ فن میں کامیاب ہونے کے لیے پوری لگن سے محنت کرتا ہے۔ اس مقالے میں تخصصات کے امتحانات کی تیاری اور ان میں کامیاب ہونے کے طریقوں کے ذکر کے بجائے اس سے بھی زیادہ اہم موضوع پر گفتگو کریں گے، یعنی تخصص پڑھنے سے پہلے اپنے اندر کون کون سی صلاحیتیں ہونی چاہئیں؟ اور انہیں حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ ان شاء اللہ۔
کسی فن کی گہرائی میں جانے سے پہلے اس کی مبادیات پڑھنی پڑتی ہیں اور فن کی معاون معلومات بھی حاصل کرنی پڑتی ہیں، ورنہ فن کے اصل مقصود تک پہنچنا ناممکن سا ہو جاتا ہے، اور فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ اہلِ علم کے نزدیک ایک مسلم قاعدہ ہے۔ ہمارے درسِ نظامی میں بھی اصل فن میں داخل ہونے سے پہلے تیاری کے مرحلے میں کچھ مبادیاتِ فن پڑھائی جاتی ہیں۔ درسِ نظامی کے نظام میں علومِ اسلامیہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: علومِ عالیہ اور علومِ آلیہ۔ پہلی قسم کے علم کو علومِ مقصودہ کہا جاتا ہے، جبکہ دوسری قسم وسط درجے کا علم ہے، جیسے: علمِ نحو، علمِ منطق، وغیرہ۔ یہ سب دوسری قسم کے علوم میں شامل ہیں، جو علومِ مقصودہ حاصل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان فنون کو پڑھنے اور پڑھانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ علومِ مقصودہ کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور ان کا احاطہ کیا جائے۔ نتیجتاً، جو شخص ان فنون میں جتنی مہارت حاصل کرے گا، وہ علومِ مقصودہ میں اتنا ہی کامیاب ہوگا۔
تخصص، تحصیلِ علم کا اعلیٰ درجہ ہے، ایک طرف یہ درجہ بہت زیادہ اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت بھی ناقابلِ انکار ہے۔ دوسری طرف، یہ بہت محنت اور مجاہدہ چاہتا ہے، اس کے لیے اور زیادہ تیاری اور مہارت چاہیے، کیونکہ تخصص کا اصل ہدف باقاعدہ معیاری تحقیقی کام سیکھنا اور اسے انجام دینا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی خاص کتاب کو پڑھنا اور پڑھانا، اور کسی خاص موضوع پر باقاعدہ معیاری تحقیقی کام کرنا، دونوں کاموں میں بہت فرق ہے، اسی وجہ سے تخصصات کے لیے صرف عبارت خوانی اور عبارت فہمی کی استعداد کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اور بہت ساری مہارتیں حاصل کرنا لازمی ہیں، لہٰذا تخصص میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ مہارتیں حاصل کرنی چاہئیں۔
تخصص کا مرحلہ درسِ نظامی کے بعد آتا ہے۔ درسِ نظامی ہمارے اندر ملکہ اور استعداد پیدا کرتا ہے، لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہماری پڑھائی کا جو طریقہ آج کے زمانے میں رائج ہے، اس میں ہم تخصصات کے لیے کس حد تک تیار ہو رہے ہیں؟ اس سوال کا واضح جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں درسِ نظامی کے طریقۂ تدریس اور ہمارے موجودہ طرزِ تعلم پر نظر ڈالنی چاہیے۔
درسِ نظامی کے بانی کے طور پر ملا نظام الدین سہالوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۱۱۶۱ھ) کا نام مشہور ہے، اگرچہ نصاب تیار کرنے کا اصل کام ان سے پہلے ان کے والد ملا قطب الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۱۱۰۳ھ) نے نصابِ درس کے ذریعے شروع کر دیا تھا۔ مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’درسِ نظامیہ اگرچہ ملا نظام الدین صاحبؒ کی طرف منسوب ہے، لیکن درحقیقت اس کی تاریخ ایک نسل پیچھے سے شروع ہوتی ہے، یعنی ملا نظام الدین کے والد، جن کا نام ملا قطب الدین تھا۔‘‘ (مقالاتِ شبلی: ۱۱۱-۱۱۳)
ملا قطب الدینؒ کے طریقۂ تدریس کے حوالے سے علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں: ’’ملا صاحبؒ نے درس کا ایک خاص طریقہ اختیار کیا تھا، جو اُن کا قائم کردہ تھا۔ وہ ہر فن کی صرف ایک جامع اور مستند کتاب پڑھاتے تھے، جس کے ذریعے شاگرد کو تمام مسائل پر مجتہدانہ عبور حاصل ہو جاتا تھا، رسالۂ قطبیہ میں ہے : ’’مولانا شہید ملا قطب الدینؒ از ہر فن یک یک کتاب می خوانیدند، و شاگرداں محقق می شدند۔‘‘ ملا نظام الدین اور مولانا بحرالعلوم نے اس نصاب پر اضافہ کیا۔ (مقالاتِ شبلیؒ: ۱۱۱-۱۱۳)
ملا قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے طریقۂ تدریس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے درس کی بنیاد صرف کتاب اور اس کی عبارتوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کا درس تحقیقی اور فنی انداز میں ہوا کرتا تھا، اس کے نتیجے میں شاگرد اس موضوع میں محقق بن جاتے تھے۔
ملا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے طریقۂ تدریس کی تفصیلات معلوم نہ ہونے کے باوجود یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان کے والد کے طریقۂ تدریس کے مشابہ تھا۔ اس سلسلے میں علامہ عبدالحئی حسنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اب طریقۂ تعلیم بگڑ گیا ہے۔ ملا نظام الدینؒ کا طریقۂ درس یہ تھا کہ وہ کتابی خصوصیات کا زیادہ لحاظ نہیں کرتے تھے، بلکہ کتاب کو ایک ذریعہ قرار دے کر اصل فن کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے طرزِ تعلیم نے کمال الدین، بحرالعلوم، حمد اللہ جیسے اہلِ کمال پیدا کیے تھے۔‘‘ (اسلامی علوم و فنون، صفحہ: ۳۱-۳۲)
درسِ نظامی کا ایک کامل ورژن حجۃ الاسلام قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے تیار کیا، جو دارالعلوم دیوبند کے واسطے سے اپنی تکمیل کو پہنچا۔ وہ خود بھی فنی انداز میں درس دیتے تھے اور خاص طور پر ذہین شاگردوں کے لیے فن کو ہی اصل بنا کر پڑھاتے تھے۔
مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ ایک واقعے کے ضمن میں مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے طریقۂ تدریس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حضرت کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب طالب علم عبارت پڑھ لیتا تو حضرت فرماتے: ’’اس مسئلے میں قاسم کی رائے یہ ہے۔‘‘ کتاب نہیں سمجھاتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں طلبہ کتاب حل کر کے سبق میں آتے تھے، اس لیے جو عبارت پڑھی گئی ہے، اس مسئلے میں حضرت اپنی رائے بیان کرتے تھے۔‘‘ (تحفۃ القاری، جلد :۱، صفحہ:۳۳۸)
خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات کا طریقۂ تدریس‘ فنی اور تحقیقی تھا، جہاں فن ہی اصل مقصد اور ہدف ہوتا تھا، جبکہ کتاب واسطہ اور معاون کا کردار ادا کرتی تھی، لیکن بعد کے زمانے میں یہ طریقۂ تدریس باقی نہ رہا، جیسا کہ علامہ عبدالحئی حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’اب طریقۂ تعلیم بگڑ گیا ہے، اب فن کے بجائے کتاب کو اصل بنا لیا گیا ہے۔ کتاب حل کرنا اور عبارت فہمی ہی درس کا اصل ہدف بن چکا ہے۔ ‘‘
ابتدائی مرحلے سے دورۂ حدیث تک ایک ہی طریقے سے درس دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کا اپنا فائدہ اور اہمیت ہے، کیونکہ یہ درست ہے کہ ہر جگہ لمبی فنی تقریر مقصود نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات نقصان دہ ہوسکتی ہے، لیکن جہاں طلبہ میں فنی استعداد پیدا کرنے کی ضرورت ہو، وہاں صرف عبارت حل کرنے تک محدود رہنا قابلِ قبول نہیں ہے۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے دورۂ حدیث کے طریقۂ تدریس میں تبدیلیاں لائیں، وہ کسی خاص کتاب تک محدود نہ رہتے، بلکہ موضوع وار تحقیق اور فنی تقریر پیش کرتے تھے۔ اس حوالے سے علامہ انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقۂ درس‘ حدیث کی ضروری وضاحت سے زیادہ نہیں تھا۔ مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتوی E نے اس میں فقہِ حنفی کے مآخذ کی نشاندہی کا اضافہ کیا، لیکن مولانا کشمیری قدس سرہ العزیز نے عام درس گاہی طریقِ درس میں یکسر انقلاب برپا کیا، آپ نے حدیث کی شرح و تفصیل میں صرف ونحو، فقہ و اصولِ فقہ، معانی و بلاغت، اسرار وحکم، سلوک و تصوف، فلسفہ و سائنس و عصری علوم کا ایک گرانقدر اضافہ، رجال کی بحثیں، مصنفین و مؤلفین کی تاریخ اور سوانح، تالیفات و تصنیفات پر نقد وتبصرہ آپ کے درس کا ایک امتیاز تھا، اس کے نتیجے میں درسی تقریریں بجائے مختصر ہونے کے طویل ہو گئیں۔ مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت سے متعلق اپنے طویل مقالے میں لکھا ہے: ’’حضرت شاہ صاحبؒ کے درسِ حدیث میں کچھ ایسی خصوصیات نمایاں ہوئیں جو عام دروس میں نہیں تھیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا اندازِ درس علمی دنیائے درس و تدریس میں ایک عظیم انقلاب ثابت ہوا۔‘‘ (نقشِ دوام، صفحہ:۱۴۷-۱۴۹)
علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد فنی اور تحقیقی طویل تقریروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، لیکن کچھ عرصے بعد اس طریقۂ تدریس میں بھی فنی اور علمی اصول و ضوابط کی مکمل رعایت نہیں کی گئی۔ عبارت کے ساتھ کچھ نکات اور فوائد پر مبنی تقریریں دروس کا محور بن گئیں، الا ماشاء اللہ، کچھ لوگ اس رجحان کے خلاف تھے۔ بہرحال عصرِ حاضر میں درسِ نظامی کا طریقۂ تدریس زیادہ تر کتاب اور عبارت تک محدود ہے۔ عبارت حل کرنے کو ہی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کی فکر ہر جگہ غالب ہے، اسی وجہ سے درسِ نظامی کی کتابوں کی شروحات میں عام طور پر عبارت کے ساتھ متعلقہ تقریر کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
آج کے طلبہ درسِ نظامی میں تقریباً دس سال تک پڑھتے ہیں، عبارت حل کرنے میں بہت زیادہ انہماک سے کام لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بین السطور اور حواشی بھی دیکھ لیتے ہیں، لیکن اس لمبے عرصے کی پڑھائی کی وجہ سے ہماری فکر، جذبہ، ذہن و دماغ اور مزاج سبھی عبارت اور کتاب کے متعلق بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً جب ہم تخصص میں آتے ہیں، تو کتاب اور عبارت کو ہی اصل ہدف بنا لیتے ہیں اور اسی کے حل کرنے کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تخصص کے مرحلے کو ختم کرنے کے بعد بھی ہمارے اندر بحث وتحقیق کا مزاج پیدا نہیں ہو پاتا، نہ ہی الگ سے بحث و تحقیق کرنے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ نتیجتاً تخصص کے مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد بھی تحقیقی کاموں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تخصص کے مرحلے کا اصل ہدف اور کام کیا ہے؟ یہ نکتہ واضح ہونا ضروری ہے۔ ہمارے اس خطے میں تخصص کے موجودہ رجحان کے باضابطہ موجد علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انہوں نے رسالہ ’’درجۂ تخصص کے قواعد و ضوابط‘‘ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
’’ قدیم طرزِ تعلیم کے تحت علم حاصل کرنے والے علماء میں بھی متخصص ہوا کرتے تھے، اور جدید طرزِ تعلیم میں بھی تخصص اور ڈاکٹریٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان اسباب اور حالات کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ دینی درسگاہوں میں موجود اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا جائے۔ ‘‘
تخصص کا طریقۂ تدریس اور طریقۂ مطالعہ کیسا ہونا چاہیے؟ اس معاملے میں علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ درج ذیل اصول بیان کرتے ہیں:
’’۱- کسی بھی کتاب کی تدریس سبقاً سبقاً لازم نہ ہوگی، بلکہ استاذ اپنی صواب دید کے مطابق کتب نصابِ تخصص میں سے جس کتاب یا اس کے کسی حصہ کو سبقاً پڑھانا ضروری سمجھے گا پڑھائے گا، ورنہ طلبہ استاذ کی مقرر کردہ ترتیب اور ہدایت کے مطابق خود کتب نصاب کی تیاری کریں گے اور امتحان دیں گے۔
۲- استاذ‘ مجوّزہ علم و فن کے مہمات مسائل و ابواب کی فہرست بنا کر طلبہ کو دیں گے اور ان کی تیاری کے لیے اس علم وفن کی اہم ترین داخلِ نصاب اور غیر داخلِ نصاب کتابوں یا ان کے ضروری ابواب و مباحث کا مطالعہ کرائیں گے اور اس مطالعہ اور تلاش و تحقیق میں طلباء کو جو مشکلات یا شکوک اور شبہات پیش آئیں گے، استاذ اُن کو حل کرائیں گے اور خود بھی ان مسائل و مباحث پر باقاعدہ تیاری کر کے تقریر و املاء کرائیں گے۔
۳- طلبہ اس مطالعہ و تحقیق کے ساتھ ساتھ ان مسائل و مباحثِ مہمّہ پر روزانہ اپنی یادداشتیں مرتب کرتے رہیں گے اور ہر ہفتہ کی یادداشتیں جمعرات کے دن استاذ کو دیں گے اور وہ ان کو دیکھ کر ان کے نقائص اور خامیوں سے طلباء کو آگاہ کر کے خود انہی سے اصلاح کرائیں گے ۔‘‘ (ماخذ: حدیث کا دستور العمل اور دو سالہ روداد، صفحہ :۵-۶)
خلاصہ یہ ہے کہ کسی معین کتاب کو نہیں، بلکہ فن اور موضوعی تخصص کو اصل نقطۂ نظر بنانا چاہیے۔ تخصص کا اصل ہدف بحث و تحقیق کے عمل کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
شیخ الازہر شیخ عبدالحلیم محمود رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے سفر کے دوران علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کا دورہ کیا، اور جامعہ کے تخصص کے شعبوں کا طریقۂ کار دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس حوالے سے علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’الحمدللہ کہ موصوف کو مدرسہ دیکھ کر خوشی بلکہ حیرت ہوئی، ہمارے طلبہ کے تخصصات (ڈاکٹریٹ) کے بعض مقالات کا جب اُن کو علم ہوا تو خواہش ظاہر فرمائی کہ دو مقالے جن میں سے ایک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر تھا، وہ ادارہ ازہر شریف کی طرف سے شائع کریں گے۔ یہ حق تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمارے ایک گمنام ادارے کی حیثیت اتنی کر دی کہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی علمی یونیورسٹی اس کے طلبہ کے مقالات کو شائع کرنے کی خواہش کرتی ہے۔‘‘ (ماخذ: بصائر و عبر، جلد ثانی، صفحہ: ۲۵۹)
جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں تخصص فی علوم الحدیث کا شعبہ کھولنے سے قبل مجلس شوریٰ نے تخصص کا نصاب اور نظام کے عنوان پر مشورہ کے لیے ایک خط تیار کیا۔ یہ خط ۱۵؍ مشہور علماء دین کو بھیجا گیا، اور ان کے جوابات کی روشنی میں ایک رپورٹ تیار ہوئی جو ’’شعبہ تخصصِ حدیث کا قیام اور مجلس شوریٰ کی تجویز‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ علامہ احمد رضا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں تفصیلی جواب لکھا ہے۔ انہوں نے تخصص کے طلبہ کی سہولت کے لیے تحریر فرمایا:
’’مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور ہندوستان کی دوسری یونیورسٹیاں بیسیوں شعبوں میں ڈاکٹریٹ کرارہی ہیں اور ڈبل ڈبل کرا رہی ہیں، ان کے اسکالر یورپ و امریکہ میں بھی جا کر ڈبل ڈبل ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور وہ ملک ان اسکالروں کے مع اہل و عیال کے تین تین سال اور چار چار سال کے خرچ اُٹھاتے ہیں، ان کے مقابلہ میں اگر ہم بھی حوصلہ و ہمت کر کے اپنے تخصص فی الحدیث کے اسکالروں پر چند لاکھ سالانہ خرچ برداشت کر لیں تو علمِ حدیث کے شایانِ شان کارنامہ انجام پائے گا، ان شاءاللہ۔‘‘ (ماخذ: شعبہ تخصصِ حدیث کا قیام اور مجلسِ شوریٰ کی تجویز، صفحہ:۳۹)
درجہ تخصص کو ایم فل کے برابر بھی بتایا گیا ہے، جیساکہ مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادہ مولانا زاہد راشدی صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’تکمیل کی نئی شکل تخصصات کی صورت میں ہے، جیسے یونیورسٹیوں میں خاص موضوع پر ایم فل ہوتا ہے، پھر کسی خاص موضوع پر پی ایچ ڈی ہوتا ہے، اس کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ ہم نے بھی اس کو تخصص کا نام دے دیا۔ ( تخصصات کا تعارف و پس منظر)
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تخصص کا اصل ہدف‘ بحث و تحقیق کا ملکہ پیدا کرنا اور تحقیقی کام سرانجام دینا ہے، صرف درس و تدریس اور عبارت خوانی مقصود نہیں۔
آئندہ اس موضوع پر مزید تفصیل سے لکھنے اور تخصص کے اعلیٰ معیار کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے فروغ پر کام کرنے کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
اب تک یہ واضح ہو چکا ہے کہ تخصص‘ تعلیم کا ایک اعلیٰ مرحلہ ہے، اور اس مرحلے میں کامیابی کے لیے ضروری تیاریوں اور اہلیت کا حصول لازمی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تیاری اور تمہیدی مہارت کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ تخصص کے لیے کتابی استعداد ایک بنیادی شرط ہے اور اسے لازمی سمجھا جاتا ہے، بلکہ اسے ریڑھ کی ہڈی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن انسان صرف ریڑھ کی ہڈی کو لے کر کھڑا نہیں ہو سکتا، اس کے لیے ہاتھ، پیر اور دوسرے اعضاء کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح کتابی استعداد کے ساتھ ساتھ دیگر مہارتیں حاصل کرنا بھی ضروری ہے، ان کو ہم ’’مبادیٔ التخصص‘‘ یا ’’الدراسات التحضيريۃ للتخصص‘‘ کہہ سکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
کسی بھی علمی عبارت کو صحیح طور پر سمجھنا اور تشریح کرنے کی استعداد، دراصل کتابی استعداد میں شامل ہے۔ کتابی استعداد حاصل کرنے میں اصل مقصد تین چیزوں کو سمجھانا ہے:
۱- عبارت صحیح طور پر پڑھنا۔
۲- عبارت کے معنی اور مفہوم کو صحیح طور پر بیان کرنا۔
۳- اگر عبارت میں کوئی سوال یا اعتراض ہو، تو اسے تفصیل سے تحلیل کرنا۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ عبارت کو صحیح طور پر پڑھنے کے لیے ایک مقررہ قانون ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی عبارت کو صحیح پڑھنے کے لیے نحو اور صرف جیسے فنون پڑھائے جاتے ہیں، جن کی مدد سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عبارت میں کوئی غلطی ہو رہی ہے یا نہیں؟ اساتذہ اس بات کی آسانی سے نشاندہی کر سکتے ہیں، کیونکہ قواعد ہر کسی کو معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم عبارت سے متعلق بعض امور (جیسے اسماء کا تلفظ یا مصطلحات کا تلفظ) سماع پر موقوف ہوتے ہیں، جن کے لیے الگ قوانین ہوتے ہیں۔ تینوں مقاصد کتابی استعداد کا پہلا مرحلہ ہے۔
کتابی استعداد کا دوسرا مرحلہ تھوڑا مشکل ہے اور وہ ہے عبارت کا فنی مطلب نکالنا۔ یہ آسان کام نہیں ہے، بلکہ محنت اور مجاہدہ چاہتا ہے، اور فنی قوانین وضوابط کی تطبیق لابدی ہے۔ اگر ان قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو عبارت کی فنی تشریح کی استعداد حاصل نہیں ہو سکے گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبارت کی صحیح تشریح اور تحریف میں فرق معلوم ہو اور تمییز پر قادر ہو۔
کتابی استعداد کا تیسرا مرحلہ دراصل دوسرے مرحلے کی تکمیل ہے، یعنی عبارت کی فنی تشریح کرنے کے بعد اگر اس کے متعلق سوالات یا اعتراضات ہوں ، یا نقد واستدراکات کی ضرورت ہو تو ان کو حل کرنا۔
مذکورہ تین مراحل کو حاصل کرنے کے بعد کتابی استعداد اور عبارت فہمی کا مرحلہ عموماً مکمل ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کہاں تک یہ استعداد حاصل کر پاتے ہیں؟ جو طالب علم‘ تعلیم الاسلام کے مرحلے سے دورہ حدیث تک کسی نہ کسی طریقے سے صرف کتاب الطہارۃ پڑھتا ہے، اس کے لیے یہ بات غیر واضح نہیں رہتی کہ اس سے منسلک کسی بھی عبارت پر اعتراضات آئیں تو ان کا اُصولی جواب دینے پر قادر ہو گا، یہی معمول تھا، لیکن حقیقت میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کتنے طلبہ اس استعداد کے ساتھ دورہ حدیث کی تکمیل کرتے ہیں؟
دورہ حدیث سے فارغ اور تخصص کے طلبہ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ان کے پاس اس نوعیت کی استعداد موجود ہو، کیونکہ تخصص کے دوران جب بحث و تحقیق کی جاتی ہے، تو ایک عبارت کی مکمل طور پر تشریح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں اصولی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے نصوص اور عبارت کی فہم اور تحلیل کرنی پڑتی ہے، تاکہ صحیح تشریح پیش کر کے غلط تشریح دور کی جاسکے۔
اگر تخصص سے پہلے یہ ابتدائی اور ضروری چیزیں حاصل نہ ہوں، تو بحث و تحقیق کو درست طریقے سے انجام دینا مشکل ہو گا۔
ابتدائی استعدادوں میں سے دوسری اہم استعداد ہے : تلخیص تیار کرنے پر قادر ہونا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایک تحقیقی کام میں ہزاروں صفحات کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے، صرف ایک مسئلے کے لیے سو سو کتابیںاور کبھی ہزاروں صفحات پڑھنے پڑتے ہیں۔ پھر محقق کو ان طویل اور وسیع مباحث کا خلاصہ تیار کرنا پڑتا ہے، اصل بات نکالنی پڑتی ہے، اور یہ تلخیص اور نتیجہ نکالنے کے لیے مستقل علمی اصول اور ضوابط ہیں، جنہیں اگر نہایت دقت سے نہ اپنایا جائے تو تحریف اور افتراء تک جا سکتے ہیں، اس لیے اس مہارت کے لیے الگ سے تربیت کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ تلخیص اور اختصار ہر جگہ یکساں نہیں ہوتے، ان دونوں میں فرق ہے۔ عام طور پر ہم جو عمل کرتے ہیں وہ اختصار ہے، تلخیص اس سے زیادہ نازک اور اہم کام ہے۔ اختصار عموماً عبارت سے متعلق ہوتا ہے اور تلخیص عموماً معنی اور فقروں سے متعلق ہوتی ہے۔ تحقیقی کاموں میں اختصار کے بجائے تلخیص کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے تلخیص کی ابتدائی استعداد پہلے سے حاصل کرنا ضروری ہے۔
تلخیص کے ساتھ ہی متعلق ایک اور چیز ہے، یعنی کسی بھی ایک بحث کو پڑھنے کے بعد اس بحث کا نتیجہ کیا ہے؟ متکلم کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس سے متعلق معنی اور نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ اس نوعیت کے امور کو سمجھنا۔ اس کے ذریعے تلخیص کا کام آسان ہو جاتا ہے، اور ساتھ ساتھ تحقیقی کاموں میں بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
علم کے ہر شعبے میں اختلافات ہیں، اور ان اختلافات کے پیچھے بہت سی وجوہات اور ضروریات ہیں۔ یہ اختلافات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان میں افراط وتفریط بھی شامل ہوتے ہیں۔ تخصص میں عموماً ان چیزوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ایسی چیزوں میں بحث و تحقیقی کام کرنے کے لیے نقد اور تنقیح کی استعداد ضروری ہے، تاکہ ہر بات کو پرکھا جاسکے اور تحلیل وتجزیہ کیا جا سکے، باتوں کی تصدیق اور صدق و کذب کا جائزہ لیا جا سکے۔
ہمارے درسِ نظامی میں اختلافی مسائل کی بحث‘ ثانویہ کے مرحلے سے ہی شروع ہو جاتی ہے، اور باقاعدہ کئی جماعتوں میں اختلافی مسائل پر بحث و تحلیل کی جاتی ہے۔ اگرچہ ’’فقہ الخلاف‘‘ کے اصول و ضوابط نہیں پڑھائے جاتے، لیکن کام شروع ہو جاتا ہے۔ نقد و تنقیح کی ابتدائی مہارت یہاں سے ہی شروع ہو جاتی ہے، لیکن ’’فقہ الخلاف‘‘ کے اصولوں اور ضوابط کو الگ سے پڑھنا اور مختلف مسائل میں ان کی تطبیق نہ کرنا، نقد و تنقیح کے سلسلے میں مطلوب مہارت حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، حالانکہ نقد و تنقیح کی مہارت کے بغیر تخصص کا طالب علم بے بس اور عاجز ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ نقد اور تنقیح کے اپنے ہی اصول و ضوابط ہیں، جنہیں الگ سے سیکھنا اور کچھ عملی تجربات کے ذریعے ان کی تطبیق کرنا ضروری ہے۔
ہم پہلے کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ تخصص کا اہم کام بحث و تحقیق ہے۔ اور ہر کام کے اپنے اصول اور ضوابط ہوتے ہیں، اصول کے مطابق کام کرنے سے ہی وہ پرفیکٹ اور مکمل ہوتا ہے۔ بحث و تحقیق ایک بہت نازک کام ہے، جس میں ذکاوت، محنت، وقت، معاون ماحول، اور باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بحث و تحقیق میں صرف حوالہ جات اور مواد جمع کرنا کام نہیں ہے، بلکہ اصل کام مواد جمع کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے، پھر اس کے بعد مختلف مشکل مرحلے آتے ہیں جنہیں پار کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے دونوں طریقے جاننا ضروری ہیں، اس لیے تخصص کے مرحلے سے پہلے ’’منہج البحث‘‘ معلوم ہونا اور اس پر کچھ تجربات تیار کرنا ضروری ہے۔ یہ تجربات‘ تخصص کو اور زیادہ نتیجہ خیز بناتے ہیں۔
علم کے مختلف مراحل ہیں، جیسے ابتدائی، ثانویہ، عالیہ، اور تخصص کا مرحلہ، جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ ہر مرحلے کی اپنی خصوصیات، اُصول، ضوابط، نظام، اور نصاب ہوتا ہے۔ مرحلہ عالیہ میں تعلیم کا معیار اور طریقے خاص ہوتے ہیں، اس مرحلے میں تعلیم کا نظام، اساتذہ، اور طلبہ کے لیے خصوصی نظم تشکیل دیا جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کیا ہے؟ اس مرحلے میں تعلیم کا معیار کیسا ہونا چاہیے؟ اس مرحلے میں ترقی کے لیے طلبہ میں کیسی استعداد ہونی چاہیے؟ اور اس مرحلے کو کارگر بنانے کے لیے کون سے کام کرنے چاہئیں؟ یہ سب ایک باشعور طالب علم کو جاننا چاہیے۔
ناظرہ سے لے کر دورہ حدیث اور تخصص تک کا مرحلہ مکمل کر لیتے ہیں، لیکن مذکورہ بالا چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے ہمارے اوقات اور ذہن ضائع ہو جاتے ہیں، لیکن علومِ عالیہ کو صحیح طور پر کام میں نہیں لا سکتے یا کام میں لانے کی صلاحیت تیار نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے عالیہ کے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے علومِ عالیہ کے بارے میں تفصیلی معلومات ضروری ہیں۔
تخصص سے پہلے ہی لازمی طور پر حاصل کی جانے والی مہارت کے حق میں بہت مختصر کچھ باتیں اوپر کی گئی ہیں، اُمید ہے کہ یہ بات واضح ہوچکی ہوگی کہ صرف درسیات کے ذریعے یہ مہارتیں حاصل کرنا ناممکن ہے، اس کے لیے اضافی محنت اور مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ یہ مراحل حاصل کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں:
تخصص سے پہلے ہم فضیلت (منتہی درجہ)کے مرحلے کو پار کرتے ہیں۔ فضیلت کا مرحلہ دراصل مرحلہ عالیہ کا ایک حصہ ہے۔ اگر ہم اساتذہ کرام کے مشورے سے تیاری کرتے رہیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا۔ اگر درسیات کے ساتھ ساتھ ممکن نہ ہو تو چھٹیوں کے اوقات کو غنیمت سمجھ کر ہم اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تخصص کی تیاری کے لیے اضافی بہت سی کتابوں کا مطالعہ لازمی نہیں ہے۔ درسیات میں پڑھی ہوئی کتابیں اور ان کے ساتھ منسلک کتابوں کے ذریعے بھی ہم تیاری کر سکتے ہیں۔ صرف صحیح طریقے سے پڑھنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تخصص کے ابتدائی مہینوں میں مذکورہ موضوعات الگ سے پڑھانا اور سکھانا، اس کے بعد تخصص کے اصل کام میں داخل ہونا۔ اس طریقے سے ذہین اور محنتی طالب علم بہت زیادہ مستفید ہو سکیں گے اور اپنے حقیقی کاموں میں مہارت دکھا سکیں گے، اور تخصص کے اصل مقصد تک پہنچ سکیں گے۔ یہی طریقہ مختلف وجوہ سے آسان اور مفید ہے، مذکورہ بالا چیزوں میں مہارت الگ سے حاصل کرنے کے بجائے صرف مطلوبہ فن میں تمرینی محنت پر نچوڑنا ویسا مفید نہیں ہوتا، اگر چہ تمرین کے ذریعہ یہ مہارت حاصل کرنا ممکن ہے، لیکن یہ ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔ بہت سے ذہین طلبہ بھی تمرین اور مذاکرہ کر کے ہدف تک نہیں پہنچ پاتے۔ تمرین کے ذریعہ بحث و مباحثہ کی مہارت حاصل کرنے میں ہی دو سال گزر جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تخصص کے اصل کام میں مشغول ہونے کی فرصت نہیں ملتی، نتیجتاً ذہین اور محنتی طالب علم ہونے کے باوجود بہت سے طلبہ اپنے اندر تحقیق کی خود اعتمادی پیدا نہیں کر پاتے اور طویل بحث و تحقیق کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پاتے، حالانکہ مذکورہ چیزیں اگر الگ سے حاصل کر لی جاتیں تو تخصص کے اصل مقصد تک پہنچنا آسان ہو جاتا۔