بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خوشبو اور نبوی تعلیمات  ... خوشبو کی طبی افادیت

خوشبو اور نبوی تعلیمات  ... خوشبو کی طبی افادیت


خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ!
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
وہ جس بھی راہ سے گزریں معطر ہو فضا ساری
مہک ان کی گلابوں میں مہ واخترمیں باقی ہے

پاکیزگی، ستھرائی، شائستگی اور نفاست کی مسلّمہ اقدار اس وقت پوری طرح روشن ہو جاتی ہیں، جب ہم اُنہیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرتِ مبارکہ میں پاتے ہیں۔ حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ اُٹھا کر دیکھیں، پاکیزگی اور شائستگی سے عبارت ہے۔

پھیلے ہوئے جہاں میں ہیں انوار آپ کے
دائم مہک رہے ہیں چمن زار آپ کے

اسی خوش طبعی اور نفاست کا یہ اثر تھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خوشبو کو پسندیدہ رکھتے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم مبارک سے نکلنے والا پسینہ بذاتِ خود مُعَطَّر ہو تا تھا، چنانچہ حضرت اُمِ سلیم  رضی اللہ عنہا  نے ایک مرتبہ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آرام فرما رہے تھے، جسمِ اطہر کا پسینہ جمع کرلیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھ کھلی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ: آپ کے پسینہ کو میں اپنی خوشبو سے ملاؤں گی۔ (صحیح مسلم، باب طیب عرق النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ... رقم الحدیث:۲۳۳۲)
حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خوشبو سے بڑھ کر اور کوئی خوشبو نہیں سونگھی، نہ ہی عنبر اور نہ ہی مشک۔‘‘ (صحیح مسلم، بَاب طيب رائحۃ النبي صلی اللہ عليہ وسلم ولين مسہ والتبرک بمسحہ، رقم الحدیث:۲۳۳۰)
حافظ ا بن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ خوشبو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پسندید ہ ترین اشیاء میں سے تھی، اسے صحت کی حفاظت اور غموں کے دور کرنے میں بھی اثر ہے۔ (زاد المعاد، ص: ۳۰۹، ج:۴، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کا ایک نمایاں حصہ طہارت اور پاکیزگی سے متعلق ہے، پھر اس میں بھی اگر غور کیا جائے تو انفرادی اور اجتماعی دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ 
صفائی، ستھرائی اور طہارت کا عادی آدمی خود بھی ظاہری و باطنی بیماریوں اور وساوس وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی باعثِ اذیت نہیں ہوتا۔ دوسروں کو راحت پہنچانا یا کم از کم تکلیف سے بچانا عین اسلامی اخلاق کا مطلوب ہے۔ بخاری شریف میں ارشادِ مبارکہ ہے:
’’المسلمون من سلم المسلمون من لسانہٖ و یدہٖ۔‘‘           (صحیح بخاری،رقم :۱۰)
’’اعلیٰ درجے کا مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  جمعہ کے غسل کی تاریخ بیان فرماتی ہیں :
’’لوگ اپنے کامو ں میں مشغول رہتے تھے اور اسی طرح (یعنی میل کچیل اور پسینے میں) جمعہ کے لیے چلے جاتے تھے، چنانچہ انہیں کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیتے( توبہتر تھا)۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، رقم الحدیث:۹۰۳)
انہی مبارک اور پاکیزہ تعلیمات کا ایک حصہ خوشبو کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات اور عملی طور طریقے ہیں، جنہیں قلم بند کیا جا رہا ہے: 
۱:- حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سُکَّۃ تھا، اُس میں سے خوشبو استعمال فرماتے تھے۔ 
فائدہ: ’’سُکَّۃ‘‘ کے معنی میں علماء کے دو قول ہیں: بعض تو اس کا ترجمہ عطردان اور اُس ڈبہ کا بتلاتے ہیں، جس میں خوشبو رکھی جاتی تھی۔ تب تو یہ معنی ہے کہ اس عطردان میں سے نکال کر استعمال فرماتے تھے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایک مرکب خوشبو ہے، چنانچہ قاموس وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے، اور صاحبِ قا موس نے اس کے بنانے کی ترکیب بھی مفصل لکھی ہے۔
۲:- ثمامہ کہتے ہیں کہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  خوشبو کو رَد نہیں کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی خوشبو کو رد نہ فرمایا کرتے تھے۔
۳:- ابن عمر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: تین چیزیں نہیں لوٹانی چاہئیں: تکیہ ، خوشبو اور دودھ۔
فائدہ: ان چیزوں کو اس لیے ذکر فرمایا کہ ہدیہ دینے والے پر بار نہیں ہوتا اور لوٹانے سے اس کو بعض اوقات رنج ہوتا ہے۔ انہی چیزوں کے حکم میں وہ سب چیزیں داخل ہیں، جو نہایت مختصر ہوں کہ جن سے ہدیہ دینے والے پر بار نہ ہو۔ تکیہ سے مراد بعض علماء نے ہدیہ کے طور پر تکیہ کا دینا بتایا ہے کہ اس میں بھی کچھ ایسا بار نہیں ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ استعمال کے لیے کسی لیٹنے یا بیٹھنے والے کے پاس عارضی طور پر تکیہ رکھ دینا اور اس پر سر رکھ دینا یا ٹیک لگا لینا مراد ہے۔
۴:-ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ ارشاد فرمایا کہ: مردانہ خوشبو وہ ہے، جس کی خوشبو پھیلتی ہوئی ہو اور رنگ غیرمحسوس ہو، (جیسے: گلاب، کیوڑہ، وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے، جس کا رنگ غالب ہو اور خوشبو مغلوب ہو، (جیسے: حنا، زعفران، وغیرہ) ۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ مردوں کو مردانہ خوشبو استعمال کرنا چاہیے کہ رنگ اُن کی شان کے مناسب نہیں ہے اور عورتوں کو زنانہ خوشبو استعمال کرنا چاہیے کہ دُور اجنبیوں تک اس کی خوشبو نہ پہنچے۔
۵:- ابوعثمان نہدی تابعیؒ کہتے ہیں حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص کو ریحان دیا جائے، اس کو چاہیے کہ لوٹائے نہیں، اس لیے کہ اس کی اصل جنت سے نکلی ہے۔ 
فائدہ: ریحان سے خاص یہ قسم مراد ہے یا ہر خوشبو ریحان کہلاتی ہے، اہلِ لغت کے دونوں قول ہیں اور دونوں یہاں مراد ہو سکتے ہیں۔ حق تعالیٰ جل شانہٗ نے جنت کی خوشبوؤں کی نقل دنیا میں اس لیے پیدا فرمائی ہے کہ یہ جنت کی طرف ترغیب کا سبب بنے اور زیادتیِ شوق کا ذریعہ ہو کہ خوشبو کی طرف طبعاً رغبت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت کو اُدھر کشش ہوتی ہے، لیکن دنیا کی خوشبوؤں کو جنت کی خوشبوؤں سے کیا نسبت کہ ان کی مہک اتنی دُور پہنچتی ہے کہ پانچ سو برس میں وہ راستہ طے ہو۔ (خصائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہٗ، ص:۱۱۶-۱۱۷،مکتبۃ الشیخ)
۶:-حضرت انس  رضی اللہ عنہ  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی نقل کرتے ہیں کہ مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب کردی گئی ہیں: عورتیں، خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔(سنن نسائی،کتاب عشرۃ النساء، رقم: ۳۹۳۹)
سننِ نسائی کے حاشیۃ السندی ؒ میں لکھا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو عورتیں اس لیے محبوب تھیں کہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ باتیں بھی نقل کردیتی تھیں جو آپ رضی اللہ عنہ  حیا کی وجہ سے مردوں کے سامنے نقل نہیں کرسکتے تھے، (چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خانگی معاملات وغیرہ کو اگر امہات المومنینؓ امت کے سامنے نقل نہ کرتیں تو لوگ ان سے بے خبر رہتے)۔ نیز عورتوں کی طرف طبعی رغبت و محبت ہونے کے باوجود فرائضِ رسالت سے غفلت نہ برتنا ایک آزمائش تھی، جو زیادہ مشقت اور زیادہ اجر کا باعث تھی۔ خوشبو کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس لیے زیادہ پسند کرتے تھے کہ (اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ مخلوق) فرشتے بھی اسے پسند کرتے ہیں۔یہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مزاج کے اعتدال اور خلقت کے کمال پر دلالت کرتی ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مزاج کے اعتبار سے انتہائی معتدل اور پیدائش کے اعتبار سے انتہائی کامل تھے۔ اور نماز میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا رکھا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں کی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات میں رکاوٹ نہیں، بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حقیقی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے۔ ( حاشیۃ السندی علی النسائی، ص:۶۱، جزء : ۷، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب)
۷:- چار چیزیں پیغمبروں کی سنت ہیں:۱:-حیا، ۲:-خوشبو، ۳:-مسواک، ۴:-نکاح۔ (جامع الترمذی،باب ما جاء فی فضل التزویج، والحث علیہ،رقم: ۱۰۸۰)
 خوشبو کی مبارک سنتیں
مشک اور عود کی خوشبو کو تمام خوشبوؤں میں زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (زادالمعاد)
خوشبو لگانے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے۔ کتبِ سیرت و احادیث میں اگرچہ خوشبو کے متعلق آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاداتِ عالیہ وارد ہیں، لیکن کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں۔ ذیل میں بعض معتبر فتاویٰ کے حوالے نقل کیے جاتے ہیں:
 دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
’’تہجد میں عطر لگانا
خاص طور پر سوتے وقت عطر لگانے کے اہتمام کا ذکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے معمولات میں نہیں مل سکا، البتہ رات کو تہجد کے وقت عطر کا استعمال مسنون ہے۔ نیز جمع الوسائل میں ہے کہ مباشرت سے پہلے مرد کے لیے عطر کا استعمال پسندیدہ ہے۔‘‘( فتویٰ نمبر : 144207201147)
۳:-مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ
’’عطر لگانے کا کوئی خاص طریقہ مسنون نہیں، البتہ دائیں جانب سے ابتدا کرنا سنت ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ص: ۳۴۳، ج:۸، مکتبہ لدھیانوی)

خوشبو کے استعمال میں مرد و عورت میں فرق

حدیث پاک کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے لیے وہ خوشبو زیادہ پسندیدہ ہے، جس کا رنگ ظاہر ہو اور بُو چُھپی ہوئی ہو۔ نیز عورت کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ گھر سے خوشبو لگا کر نکلے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دینی مقاصد مثلاً آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک دور میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتداء میں نمازکی خاطر گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو بھی خوشبو لگا کر نکلنے سے منع فرمایا ہے۔
 

خوشبو کے طبی فوائد

مشاہدہ ہے کہ خوشبو آدمی کی طبیعت میں فرحت و نشاط اور چستی پیدا کرتی ہے۔ خوشبو کے ذریعے آدمی کو خود بھی اور دوسروں کو بھی ایک خوش گوار احساس ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن وغیرہ سے دور رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بدبو سے طبیعت میں بیزاری اور گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ طبِ نبوی پر گراں قدر کام کرنے والے حکیم ڈاکٹر قدرت اللہ حسامی اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید میڈیکل سائنس‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’معطر ہوائیں اور عطربیز فضائیں روحِ انسانی کے لیے غذا کا کام کرتی ہیں اور روحِ قوی کے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ خوشبو سے روح میں توانائی پیدا ہوتی ہے، جس سے دماغ کو کیف اور اعضائے باطنی کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ خوشبو سے نفس کو سرور اور روح کو انبساط حاصل ہوتا ہے۔دوسرے الفاظ میں خوشبو روح کے لیے حد درجہ خوش گوار اور خوب تَر چیز ہے۔ خوشبو اور پاک روحوں میں گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اطیب الطیبین (سب سے زیادہ خوشبودار اور پاکیزہ) رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دنیا کی چیزوں میں سے ایک چیز خوشبو بہت زیادہ محبوب تھی۔‘‘                  (اسلام اور جدید میڈیکل سائنس،ص : ۵۳۱، ط: دار المطالعہ، حاصل پور)
 

ریحان (تلسی) Basil

قرآن میں ریحان سورۂ رحمٰن آیت :۱۲ اور سورۂ واقعہ آیت :۸۹ میں مذکور ہے، جس سے خوشبو دار پھول مراد ہے۔اس کے پھول اور پتیاں دونوں پیشاب آور ہوتی ہیں۔ پورا پودا اینٹی سیپٹک (Antiseptic) ہوتا ہے۔ تخم یونانی ادویہ معدے کی تکالیف، جریان پیچش میں بہترین دوا ہے۔ آج کل اس کی کاشت یمن میں زیادہ ہوتی ہے۔اس کی ایک قسم ریحان کا فوری بھی ہے، جس سے کافور نکالا جاتا ہے۔
خوشبو مقویِ قلب، منفعتِ بلغم اور دافعِ تعفّن ہے۔ اس کے روغن کی خاصیت سے مچھر دور بھاگ جاتے ہیں اور ہوا کا تعفُّن دور ہوجاتا ہے۔ اس کا جوہر Basil Camphor خوشبو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رستم جی نے اس کے تیل کو محرِّک، مبہی؟؟؟ اور ہاضم اور بچوں کو سردی اور کھانسی میں مفید لکھا ہے۔ (اسلام اور جدید میڈیکل سائنس،ص : ۵۳۳-۵۳۴،ط: دار المطالعہ، حاصل پور)

مُشک Musk

صحیح مسلم ’’بَابُ اسْتِعْمَالِ الْمِسْکِ وَاَنَّہٗ اَطْيَبُ الطِّيْبِ وَکَرَاہَۃِ رَدِّ الرَّيْحَانِ وَالطِّيْبِ‘‘ میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ خوشبوؤں میں زیادہ خوشبودار مشک ہے۔
حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے مشک کو طبِ نبوی میں شامل کیا ہے اور اسے أقوی المُـفْرِحات یعنی تمام فرحت بخش چیزوں میں قوی تر قرار دیا ہے۔
تاثیر کے لحاظ سے مقویِ حواسِ ظاہری و باطنی، (فرحت بخش) ضعفِ قلب و دماغ اور اکثر اعصابی امراض میں بے حد مفید ہے۔ اس کی پیاری خوشبو سے دل مسرور ہوجاتا ہے اور خوشبویات میں اینٹی الرجک ہونے سے اکثر لوگ اسی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی خوشبو سونگھنے سے نزلہ اور دماغ کو فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں مشک کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کی بُو تیز اور عطر رنگ دار ہوتا ہے، اس لیے یہ مردوں کا ہے۔ (ایضاً)
خوشبو کے انہی طبی فوائد کی بنا پر Aromatherapy کے نام سے ایک مستقل شاخ وجود میں آچکی ہے، جس میں مختلف پودوں کے تیل سے خوشبوئیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں بے چینی اور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خوشبو کے استعمال کی سنت پر عصرِ حاضر کی سائنس بھی آپ کی عظمتوں کا اعتراف کرتی نظر آتی ہے۔
آخر میں موضوع کی مناسبت سے سرورِ دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ میں اپنی ایک نعت کے گلہائے عقیدت:

لفظوں سے تیرے شوکتِ نطق و سخن ہے

خوشبو سے تیری رونقِ بزمِ چمن ہے
بخشے ہیں جو اطوار وہی تازہ و پُر دَم

باقی تو زمانے میں ہر اِک نقشِ کہن ہے
جلووں سے تیرے چاند بھی شرمندہ ہوا ہے

مہکا تیری خوشبو سے ہر اِک سر و سمن ہے
رشکِ فلک خاک جو قدموں سے لگی ہے

رہتے ہیں جہاں آپ وہ خوشبو کا وطن ہے
لکھتا ہے تیری شان میں دو چار یہ کلمے

مدحت سے تیری معتبر انوارؔ کا فن ہے
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین