بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خوردنی وظاہری استعمال کی اشیاء میں الکحل کی آمیزش والے رنگوں کا استعمال

     خوردنی وظاہری استعمال کی اشیاء میں  الکحل کی آمیزش والے رنگوں کا استعمال

    بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم!……السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ     درج ذیل مسئلہ میں شرعی رہنمائی فرمانے کی درخواست ہے:     کھانے پینے کی اشیاء میں مختلف اقسام کے رنگ (colors)استعمال ہوتے ہیں، ان کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں سے معدنیات (minerals) رنگوں کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں، البتہ یہ بات واضح رہے کہ ان رنگوں کے حصول کے دوران کرسٹلز (crystals) بناتے وقت کسی مرحلہ پر الکحل کا استعمال ہوتا ہے (کسی چیز کو صاف کرنے کے لئے کرسٹلز کا بنایا جانا ضروری ہوتا ہے) لیکن یہ ضرور ہے کہ آخری مرحلہ میں وہ الکحل پاؤڈر کی شکل میں آجاتا ہے اور باقی تقریباً اُڑ جاتا ہے، تاہم یہ بات ممکن ہے کہ کچھ الکحل باقی رہ جائے، مگر اس کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ رنگ کا استعمال     مذکورہ رنگ کا بنیادی طور پر استعمال کھانے پینے کی مختلف اشیاء میں ہوتا ہے، یہ رنگ اب کھانے پینے میں تقریباً ضروری جزو بن چکا ہے، اس سے کوئی نشہ نہیں ہوتا، مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں چند سوالات کے جوابات ارشاد فرمانے کی درخواست ہے:     ۱:… کیا مذکورہ رنگ حلال ہے؟     ۲:…کیا کھانے پینے میں مذکورہ رنگ کا استعمال کرنا اور وہ کھانے کھانا جائز ہے؟ خواہ وہ رنگ کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے لئے ہوں یا اسے خوشنما بنانے کے لئے؟     ۳:…مذکورہ رنگ میں اگر الکحل کی مقدار کچھ نہ کچھ رہ گئی ہو، خواہ قلیل ہی کیوں نہ ہو، کیا اس کا استعمال جائز ہے؟     ۴:…کیا کھانے پینے کے علاوہ دواؤں میں اس رنگ کا استعمال جائز ہے؟ تصدیق:مذکورہ بالا سائنسی معلومات درست ہیں۔ڈاکٹر فصیح اللہ خان ، جامعہ کراچی                                                                        مستفتی:سرفراز حمید الجواب حامداً ومصلیاً     ۱،۲،۳،۴:… صورتِ مسؤلہ میں معدنیات سے مذکورہ رنگوں کے حصول کے دوران کرسٹلز بناتے وقت جو الکحل استعمال ہوتا ہے، اس کے حکم سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ الکحل خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقی سے حاصل کیا گیا ہو تو اس صورت میں مذکورہ رنگ (جس میں خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقی سے حاصل شدہ شراب سے کشید کردہ الکحل کا استعمال کیا گیاہو) کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہوگا اور اس کا کھانے پینے کی اشیاء اور دواؤں میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہوگا اور ایسے کھانے جن میں یہ رنگ استعمال ہوا ہو، وہ بھی جائز وحلال نہیں ہوں گے، خواہ ان رنگوں میں الکحل کی مقدار باقی رہی ہو یا نہ رہی ہو۔     اور اگر مذکورہ رنگوں کے حصول کے دوران استعمال کیا جانے والا الکحل خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقی سے حاصل کردہ شراب سے کشید کردہ نہ ہو، بلکہ ان کے علاوہ چیزوں مثلاً آلو، لکڑی اور گنا وغیرہ سے کشید کردہ شراب سے حاصل کیا گیا ہو تو ایسی شراب کی حلت وحرمت سے متعلق شیخین (امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف) اور دیگر ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ شیخین کے قول کے مطابق مؤخر الذکر شراب سے بننے والے الکحل کا حکم جواز کا معلوم ہوتا ہے، جن رنگوں میں مؤخر الذکر الکحل شامل ہوگا، ایسے رنگ بذات خود بھی حلال ہوں بے اور ان کا کھانے پینے کی اشیاء اور دواؤں میں استعمال بھی جائز ہوگا، جبکہ احناف میں سے امام محمد اور دیگر ائمہ کرام کے نزدیک چونکہ شراب مطلقاً حرام ہے، اس لئے کسی بھی قسم کی شراب سے حاصل شدہ الکحل مذکورہ رنگوں میں استعمال ہوگی، وہ رنگ بھی حلال نہیں ہوں گے اور ان کو کھانے پینے کی اشیاء اور دواؤں میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہوگا اور متأخرین کی تصریح کے مطابق فتویٰ بھی امام محمد اور ائمہ ثلاثہ کے قول پر ہے، اس لئے حتی المقدور ہر قسم کی الکحل ملی ہوئی اشیاء سے احتیاطاً اجتناب کا حکم ہے۔     فتاویٰ شامی میں ہے: ’’(قولہ بہ یفتیٰ)أی بقول محمد وھو قول الأئمۃ الثلاثۃ لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’کل سکر حرام‘‘رواہ مسلم وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’ماأسکر کثیرہ فقلیلہ حرام‘‘ رواہ أحمد وابن ماجۃ والدار قطنی وصححہ (قولہ غیرہ)کصاحب الملتقی والمواھب والکفایۃ والنھایۃ والمعراج وشرح المجمع وشرح درر البحار والقہستانی والعینی حیث قالوا: الفتویٰ فی زماننا بقول محمد لغلبۃ الفساد وعلل بعضہم بقولہ: لأن الفساق یجتمعون علیٰ ھٰذہ الأشربۃ ویقصدون اللھو والسکر بشربھا۔ أقول : الظاھر أن مرادھم التحریم مطلقاً وسد الباب بالکلیۃ وإلا فالحرمۃ عند قصد اللھو لیست محل الخلاف بل متفق علیھا کما مر ویأتی یعنی لماکان الغالب فی ھٰذہ الأزمنۃ قصد اللھو لاالتقوّی علی الطاعۃ منعوا من ذالک أصلاً ،تأمل‘‘۔                              (ردالمحتار علی الدرالمختار ، کتاب الأشربۃ، ۶/۴۵۵،ط:سعید)     البتہ موجودہ زمانہ میں چوں کہ مأکولات ومشروبات اور دواؤں وغیرہ میں الکحل کا استعمال عام ہوچکا ہے، اس لئے الکحل ملی ہوئی اشیاء اور ادویہ کے بارے میں متأخرین علماء نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ جو الکحل اشربہ محرمہ اربعہ یعنی خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقی سے بنی ہوئی شراب سے کشیدکرکے حاصل نہ کیا گیا ہو، بلکہ ان کے علاوہ دیگر چیزوں مثلاً آلو، لکڑی اور گنا وغیرہ سے حاصل کیا گیا ہوتو ایسے الکحل کی آمیزش والی ادویہ اور اشیاء کو مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہؒ ، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہم اللہ نے امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے قول کے مطابق مباح قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت تھانویؒ انہی الکحل والی اشیاء سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’سوال:انگریزی دوا جو پینے کی ہوتی ہے، اس میں عموماً اسپرٹ ملائی جاتی ہے، یہ قسم ہے اعلیٰ درجہ کے شراب کی، یعنی شراب کا مست ہے تو جب اس امر کا تعین ہوچکااور مسلم ہے تو انگریزی ہسپتال کی دوا پینا جائز ہے یا ناجائز؟ الجواب: اسپرٹ اگر عنب وزنب ورطب تمر سے حاصل نہ کی گئی ہو تو اس میں گنجائش ہے، للاختلاف ورنہ گنجائش نہیں للاتفاق‘‘۔  (امداد الفتاویٰ،۴/۲۰۹،ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)     امداد الفتاویٰ میں دوسری جگہ ہے: ’’بہت مشہور ہے کہ پڑیوں میںشراب پڑتی ہے، غایت شہرت سے مظنون ہوتا ہے کہ یہ امر صحیح ہے، مگر چوں کہ تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ وہ شراب جس کو اسپرٹ کہتے ہیں، خلاصہ جن شرابوں کا ہے وہ اشربہ محرمہ مذکورہ فی الکتب الفقہیہ کے علاوہ ہیں جو کہ امام محمدؒ کے نزدیک مطلقاً نجس وحرام ہیں اور شیخینؒ کے نزدیک طاہر اور قدر مسکر سے کم حلال بھی ہے، اس لئے عموم بلویٰ کی وجہ سے صحتِ صلوٰۃ کا حکم دیا کرتا ہوں، مگر خلافِ احتیاط سمجھتا ہوں ‘‘۔               (امداد الفتاویٰ،۴/۹۶،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)     کفایت المفتی میں ہے: ’’سوال: جن دواؤں میں اسپرٹ ہو، ان کا استعمال کیسا ہے اور شراب کس حالت میں دواء ً استعمال کی جاسکتی ہے؟ الجواب: اسپرٹ کی دوائیں علاج کے لئے مباح ہیں، شراب بوقتِ ضرورت جب کہ طبیب حاذق کہہ دے کہ اب علاج یہی ہے جائز ہوتی ہے‘‘۔(کفایت المفتی، ۹/۱۴۸، ط: دارالاشاعت)     فتاویٰ رحیمیہ میں ہے: ’’سوال: سینٹ جس میں الکوہل کی ملاوٹ کبھی ۹۰ فیصد، کبھی ۷۰ فیصد، کبھی ۶۰ فیصد ہوتی ہے، اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ اس کو لگاکر نماز پڑھنا کیسا ہے؟۔ الجواب: اسپرٹ کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ یہ تیز شراب کا جوہر ہے، اس میں سے بذریعہ علم کیمیاء خاص منشی جزء علیحدہ کرلیا جاتا ہے، اس کا نام الکوہل ہے، اگر انگور یا کھجور یا منقی سے بنی ہو تو بالاتفاق ناپاک اور حرام ہے، ایک قطرہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور جو اسپرٹ بیر، آلو، جَو، گیہوں سے بنتی ہے، اس میں اختلاف ہے۔ نمازی آدمی کو ایسی اسپرٹ لگانے سے بچنا چاہئے، لیکن اگر کسی نے ایسا سینٹ لگاکر نماز پڑھ لی تو چوں کہ اسپرٹ کی مقدار مانع جواز سے کم ہوگی ،اس لئے نماز ادا ہوجائے گی، لیکن کراہت سے خالی نہیں اور اگر سینٹ کی شیشی سے بدن پر چھڑکا(اسپرٹ کا)تو اس کی مقدار زیادہ ہوگی، لہٰذا نماز مشتبہ ہوگی، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ،۱۰/۱۵۷، ط:دارالاشاعت)     بناء بریں الکحل ملی ہوئی اشیاء سے خوردنی وظاہری استعمال میں احتیاط مطلوب ہے، اگر انگور ، کھجور کے علاوہ اشیاء والی شراب سے حاصل شدہ الکحل ہو تو حضرات شیخین امام اعظم اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے قول کی روشنی میں متأخرین اکابر اہل فتویٰ نے گنجائش دی ہے۔واللہ اعلم           الجواب صحیح          الجواب صحیح           الجواب صحیح                   کتبہ      محمد انعام الحق      ابوبکر سعید الرحمن      رفیق احمد بالاکوٹی           عثمان الدین سردار                                                             تخصصِ فقہِ اسلامی جامعہ علوم اسلامیہ                                                                    علامہ بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین