بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خود احتسابی اور محاسبۂ نفس

خود احتسابی اور محاسبۂ نفس

 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی


کہتے ہیں: کسی میوزیم میں ایک قدِ آدم تصویر آویزاں تھی، یہ تصویر جھیل کی تھی جس پر پُل بنا ہوا تھا۔ دیکھنے والے آتے، دیکھتے، پھر اس کی خوب صورتی اور حقیقت سے قریب تر ہونے کی داد دیتے۔ بعض لوگ اس جھیل کو حقیقی سمجھ کر پار کرنے کی کوشش بھی کرتے، لیکن بالکل قریب آنے پر اُنہیں احساس ہوتا کہ یہ حقیقی جھیل نہیں، بلکہ تصویر ہے۔ کسی نے یہ بات اس تصویر کے مصور تک پہنچادی۔ مصور اُداس ہو گیا، کہنے لگا: افسوس! میری تصویر حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے، یہ تصویر ایسی ہونی چاہیے تھی کہ جب تک کوئی اسے چھو نہ لے اُسے یقین نہ آئے کہ یہ تصویر ہے یا حقیقت! اُس نے تصویر کو ازسرِنو بنایا، دن رات محنت کی اور کئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایسی تصویر تیار کر لی کہ جب تک اسے چُھوا نہ جاتا، کوئی یقین نہ کرتا کہ یہ حقیقت ہے یا تصویر!
مصور کے اپنی غلطی کے احتساب والے اس نظرئیے کو خود احتسابی یا Self-accountability Censorship کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت مبارک عمل ہے۔ حکیم لقمانؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے: ’’نادانوں سے کہ جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فوراً اپنا محاسبہ کرتا کہ کہیں مجھ میں تو یہ عمل نہیں پایا جاتا؟ اگر میرے اندر وہ عادت ہوتی تو میں فوراً اُسے چھوڑ دیتا۔ ‘‘
خود احتسابی، محاسبہ یا سیلف ٹرائل کی عادت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے۔ یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتا لگا سکتے ہیں، اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں، اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں، لاپروائی کی عادت سے جان چھڑا سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی مسائل کی جڑ لاپروائی ہی ہے۔ 
خود احتسابی سے محروم شخص ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسے اپنی کمی کوتاہیوں کا علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور وہ سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا۔ 
خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے، اسے اس کے بھیانک روپ سے متعارف کراتا ہے اور اس کی سستی و کاہلی ، تن آسانی و آرام طلبی اور تغافل و تساہل کو توڑدیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے اہداف و مقاصد اور منزل و راہِ عمل متعین کر کے خود احتسابی کرتا ہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتیں اور رفعتیں اس کا پتا ڈھونڈتی ہیں۔ 
ہمارا مذہب اسلام ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔ اس کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت بھی ہے، جس کا دوسرا نام ہم خود احتسابی کا عقیدہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس عقیدے کا ماحصل یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، گاہے بہ گاہے ان کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو نہیں چل رہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں فوراً توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ورنہ آخرت میں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:
’’عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کا خیال رکھے۔ ‘‘ 
امام ترمذیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ: ’’ جو شخص قیامت سے پہلے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے(وہ عقل مند انسان ہے) ۔‘‘ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
’’حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کر لو، کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔‘‘ 
حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’بندہ اس وقت تک پرہیزگار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے نفس کا محاسبہ اُس طرح نہ کر لے جس طرح اپنے شریک کا کرتا ہے کہ اس نے کہاں سے کھایا اور کہاں سے پہنا؟‘‘
محاسبہ اور خود احتسابی محض شرعی اعمال میں ہی مطلوب نہیں، بلکہ دیگر امور میں بھی مطلوب ہے، یعنی اخلاق و کردار، کاروبار و حکومت، تقریرو تحریر، حقوق و فرائض، دوستی و دشمنی، محبت و نفرت، مرض و شفاء ، نیکی اور بدی، غرض ہر امر میں محاسبۂ نفس ضروری ہے، کیوں کہ یہی چیز ترقی کی ضامن اور اس سے محرومی تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ: ’’سب سے عظیم انسان وہ ہے جو اپنے آپ کے ساتھ مناظرہ کر کے سچا ہو جائے۔‘‘ 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین