بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خواتین کے لیے چند احکام و آداب 

خواتین کے لیے چند احکام و آداب 


اپنی حیا اور عِفّت کی حفاظت پر عظیم انعام

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: جب عورت پنج وقتہ نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی حیا اور عِفّت کی حفاظت کرے اور (جائز کاموں میں) اپنے شوہر کی اطاعت کرے ؛ تو وہ جنت میں جس دورازے سے چاہے داخل ہوجائے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے:
’’إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا، وَصَامَتْ شَہْرَہَا، وَحَصَّنَتْ فَرْجَہَا، وَأَطَاعَتْ بَعْلَہَا: دَخَلَتْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَاء َتْ۔‘‘                       (صحیح ابن حبان ، رقم الحدیث:۴۱۶۳)

پردہ عورت کے لیے انعامِ خداوندی

اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے جو کہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، اسی پردے میں عورت کی عزت ہے، یہی عورت کی حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو عورت پردہ کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کی بے شمار نعمتیں عطا کرتا ہے، جن میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ ایسی عورت سے راضی ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے اس سے بڑھ کر نعمت اور خوشی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔

عورت سراپا پردہ ہے

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’المَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘    (سنن الترمذی، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضوراقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
یعنی شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر اُبھارے کہ وہ اس عورت کو دیکھ کر بدنظری اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں۔

عورت کے لیے افضل جگہ

اللہ تعالیٰ کوعورت کا پردے میں رہنا اتنا پسند ہے کہ عورت جتنا پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے چھپاتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے، حتیٰ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت تو پردے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ اور عورت اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے کسی کونے اور پوشیدہ جگہ میں ہو۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
’’الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَبِّہَا إِذَا ہِيَ فِيْ قَعْرِ بَیْتِہَا۔‘‘                                    (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث:۵۵۹۹) 

عورت کے لیے نماز پڑھنے کی افضل جگہ

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت کے لیے صحن میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کمرے میں نماز پڑھے، اور کمرے میں بھی زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کسی کونے (اور پوشیدہ جگہ )میں نماز ادا کرے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
’’صَلاَۃُ الْمَرْأَۃِ فِيْ بَیْتِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِہَا فِيْ حُجْرَتِہَا، وَصَلَاتُہَا فِيْ مَخْدَعِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِيْ بَیْتِہَا۔‘‘                          (سنن ابی داود ،رقم الحدیث:۵۷۰)
سبحان اللہ!نماز جیسی اہم عبادت میں بھی پردے کا خوب اہتمام کرنے کی فضیلت اس حدیث مبارک سے واضح ہوجاتی ہے۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ

شریعت نے عورت اور مرد کے مابین نماز کے معاملے میں بھی واضح فرق رکھا ہے، جس کی وجہ سے متعدد مقامات میں عورت کی نماز مرد کی نماز سے مختلف ہے۔ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورت نام ہی حیا اور پردے کا ہے، اس لیے عورت کے لیے نماز میں وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو ، جیسا کہ امام محدث بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’وَجُمَاعُ مَا یُفَارِقُ الْمَرْأَۃَ فِیْہِ الرَّجُلُ مِنْ أَحْکَامِ الصَّلَاۃِ رَاجِعٌ إِلَی السَّتْرِ، وَہُوَ أَنَّہَا مَأْمُوْرَۃٌ بِکُلِّ مَا کَانَ أَسْتَرَ لَہَا۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقی، باب ما یستحب للمرأۃ من ترک التجافی فی الرکوع والسجود)
ترجمہ: ’’مرد اور عورت کی نماز میں باہمی فرق کے تمام تر مسائل کی بنیاد ستر اور پردہ ہے، چنانچہ عورت کو نماز میں اسی طریقے کا حکم دیا گیا ہے جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو۔‘‘

دنیا میں نازیبا لباس پہننے پر شدید وعید

 حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: دو جہنمی گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے اب تک نہیں دیکھا: ایک تو وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دُم کی طرح کوڑے ہوں گے جن کے ذریعے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسری وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، (نا محرم مردوں کو) اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود بھی (اُن کی طرف ) مائل ہوں گی، ان کے سر بُختی اونٹوں کے جھکے ہوئے کوہانوں کی طرح ہوں گے، ایسی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھیں گی، حالاں کہ جنت کی خوشبو تو اتنی اتنی دور سے سونگھی جاتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
’’صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا: قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلاَتٌ مَائِلاَتٌ، رُؤُ سُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا۔۔۔۔‘‘         (صحیح مسلم ، رقم الحدیث:۵۷۰۴)
لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو لباس اس قدر چھوٹا ہوگا کہ اس میں ستر نہ چھپ سکے گا، یا اس قدر چست ہوگا کہ جس سے جسم کی ہیئت ظاہر ہوگی، یا اس قدر باریک ہوگا کہ جس سے جسم نمایا ں ہوتا ہوگا۔

مردوں کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت کی وعید

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مرد جیسا لباس پہنتی ہے، حدیث شریف میں ہے:
’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لِبْسَۃَ الْمَرْأَۃِ، وَالْمَرْأَۃَ تَلْبَسُ لِبْسَۃَ الرَّجُلِ۔‘‘                                          (سنن ابی داود ، رقم الحدیث:۴۱۰۰)

عورت کے لیے گھر سے باہر نکلنے میں شرعی احکام کی پاسداری

اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ پردہ عورت کے لیے نہایت ہی اہم ہے اور اس کے لیے گھر میں رہنا ہی اصل حکم ہے، اسی میں اللہ کی رضا ہے۔ البتہ شریعت نے شدید مجبوری میں عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن یہ اجازت بھی چند شرائط کے ساتھ ہے۔ ان شرائط کی رعایت کرتے ہوئے عوت باہر نکل سکتی ہے۔ ذیل میں عورت کے لیے راہ چلنے کے آداب واحکام بیان کیے جاتے ہیں:

خواتین کے لیے راہ چلنے کے آداب واحکام

 راہ چلتے ہوئے نظر کی حفاظت 

راہ چلتے ہوئے جس طرح مرد حضرات کے لیے غیر محرم عورتوں سے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے، اسی طرح یہ حکم عورتوں کے لیے بھی ہے ، کیوں کہ بد نگاہی سنگین گناہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کو بھی نگاہوں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے:
’’وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ۔‘‘        (سورۃ النور :۱۳)
ترجمہ: ’’اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘

نظروں کی حفاظت راستے کے حقوق میں سے ہے

راستہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ غیر محرم سے نظروں کی حفاظت کی جائے۔ یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے، اسی طرح خواتین کے لیے بھی ہے کہ وہ راہ چلتے ہوئے غیر مردوں سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں ، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ مبارک ہے:
’’ ۔۔۔ فَإِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوْا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ، قَالُوْا: وَمَا حَقُّہٗ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذٰی۔۔۔۔‘‘                                (صحیح مسلم ، رقم الحدیث:۵۶۸۵)

خوشبو لگاکر نا محرم مردوں کے پاس سے گزرنے پر وعید

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: ہر (بدنظری کرنے والی) آنکھ زناکار ہے، اور جب کوئی عورت خوشبو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرے تو ایسی عورت زناکار ہے، جیسا کہ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: کُلُّ عَیْنٍ زَانِیَۃٌ، وَالمَرْأَۃُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَہِيَ کَذَا وَکَذَا یَعْنِيْ زَانِیَۃً۔‘‘       (سنن الترمذی، رقم الحدیث:۲۷۸۶)

 خواتین کے لیے راستے کی کسی ایک جانب چلنے کا حکم

خواتین کے لیے راستے کے درمیان میں چلنے کی اجازت نہیں، بلکہ احادیث کی رو سے ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ راستے کے دائیں یا بائیں کسی ایک جانب ہوکر چلیں، اس طرح کسی ایک طرف چلنے کے متعدد فوائد ہیں کہ اس سے راستے کے درمیان والا حصہ مردوں کے لیے خاص ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط بھی نہیں ہوتا، آمنا سامنا بھی نہیں ہوتا، شعب الایمان میں ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’لَیْسَ لِلنِّسَائِ سَرَاۃُ الطَّرِیْقِ یَعْنِيْ وَسَطَ الطَّرِیْقِ۔‘‘ (شعب الایمان ،رقم الحدیث:۷۴۳۶)
ترجمہ: ’’عورتوں کے لیے راستے کے درمیان میں چلنے کا حق نہیں۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد کے باہر کھڑے تھے کہ راستے میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوگیا تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں سے فرمایا کہ: پیچھے ہٹو، تمھیں راستے کے درمیان میں چلنے کا حق نہیں، بلکہ تم پر لازم ہے کہ راستے کے ایک طرف ہوکر چلو۔ چنانچہ اس ارشاد کے نتیجے میں عورت راستے کے ایک طرف اس قدر دیوار سے لگ کر چلتی کہ دیوار میں اس کے کپڑے وغیرہ اَٹک جاتے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد وں اور عورتوں کا باہمی اختلاط اور رش کا ہونا ممنوع ہے، اس لیے عورتوں کو راستے میں اس طرح چلنا چاہیے کہ ان کا مردوں کے ساتھ اختلاط نہ آئے۔  

 راہ چلتے ہوئے خاموشی اختیار کریں

ایک باحیا مسلمان خاتون کی حیا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ راہ چلتے ہوئے خاموش رہے، تاکہ ان کی باتوں کی وجہ سے مرد اُن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور یہ مردوں کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے۔ آج کل نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے مسلمان خواتین راہ چلتے ہوئے باتیں کیے جاتی ہیں، گپ شپ لگاتی ہیں، یقینا ان بے حیائی کی حرکتوں کی وجہ سے متعدد فتنے وجود میں آئے ہیں۔ کیا ان مسلمان خواتین سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہ باتیں گھر جاکر کرلیا کریں؟ 
ان تمام احادیثِ مبارکہ اور تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ اللہ کے نزدیک عورت کے لیے پردہ کرنا کس قدر پسندیدہ اور اہم ہے۔ اس لیے تقاضا یہ ہے کہ جب عورت کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کو چاہیے کہ ایک تو مکمل پردے کے ساتھ باہر نکلے۔ دوسرا یہ کہ باہر نکلتے وقت ایسا برقع نہ پہنے‘ جس سے اس کا پردہ نہ ہوتا ہو، حیا کی حفاظت نہ ہوتی ہو، اور جو مردوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، کیوں کہ جس طرح بے پردہ ہوکر نکلنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، اسی طرح فیشنی اور چست برقع پہن کر باہر نکلنا بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ افسوس کہ آج کل بہت سی خواتین زیب وزینت والے فیشنی اور چست برقعے پہنتی ہیں، جن سے پردے کا مقصد ہی حاصل نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، جو کہ ایک مسلمان عورت کی شان نہیں ہوسکتی۔ان تمام آداب واحکام پر عمل کرنے کے نتیجے میں خواتین اپنی حیا اور عزت کی حفاظت بھی کرسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرسکتی ہیں ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین