بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خدائی تخلیق میں تبدیلی --- عذابِ الٰہی کا سبب!

خدائی تخلیق میں تبدیلی

عذابِ الٰہی کا سبب!

 

ابلیس لعین نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے جب حضرت آدم m کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نکال دیا تو اس نے کہا:
1- ’’۔۔۔۔۔۔ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا۔‘‘                                 (النساء:۱۱۸،۱۱۹)
ترجمہ: ’’میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا، اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا، وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔‘‘
2- ’’ فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا   ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔‘‘            (الروم:۳۰)
ترجمہ: ’’ اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو، جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے، بدلنا نہ چاہیے۔‘‘
3- قومِ لوط ؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ، اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ  .......  وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا   ۭفَانْظُرْ کَيْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۔‘‘                      (الاعراف:۸۰-۸۳)
ترجمہ: ’’ اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ: تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہاں والوں میں سے نہیں کیا۔ (یعنی) تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر، بلکہ تم حدِ (انسانیت) ہی سے گزر گئے ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان پر ایک (نئی طرح کا) مینہ برسایا (کہ وہ پتھروں کا تھا) سو دیکھ تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا ؟۔ ‘‘
4- ’’ فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ    ۭ وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ  ۔‘‘     (ھود:۸۲، ۸۳)
ترجمہ: ’’ سو جب ہمارا حکم (عذاب کے لیے) آپہنچا تو ہم نے اس زمین (کو اُلٹ کر اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کردیا اور اس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو لگا تار گر رہے تھے،  جن پر آپ کے رب کے پاس (یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا اور یہ بستیاں (قومِ لوطm کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ ‘‘ 
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
1- ’’‌کُلُّ ‌مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔‘‘                              (مسند احمد:۹۱۰۲)
یعنی ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
2-  ’’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ‌أخْوَفَ مَا أخَافُ عَلٰی أمَّتِيْ عَمَلُ قَوْمِ لُوْطٍ۔‘‘           (سننِ ترمذی: ۱۴۵۷)
یعنی ’’مجھے اپنی اُمت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے، وہ قومِ لوط کا عمل ہے۔‘‘
3-  ’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ الْمُـتَشَبِّہِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُـتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔‘‘ (بخاری: ۵۵۴۶، دارابن کثیر، دمشق)
یعنی ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں۔‘‘
4-’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُـتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ: أخْرِجُوْہُمْ مِنْ بُيُوتِکُمْ۔‘‘   (بخاری: ۵۵۴۷، دارابن کثیر، دمشق)
یعنی ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں، اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ ‘‘
5-’’۔۔۔ أنَّ أمَّ سَلَمَۃَ أخْبَرَتْہَا: أنّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عِنْدَہَا وَفِي الْبَيْتِ مُخَنَّثٌ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ أخِيْ أمِّ سَلَمَۃَ: يَا عَبْدَ اللہِ! إِنْ فُتِحَ لَکُمْ غَدًا الطَّائِفُ، فَإِنِّيْ أدُلُّکَ عَلٰی بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّہَا تُقْبِلُ بِأرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا يَدْخُلَنَّ ہٰؤلَاءِ عَلَيْکُمْ۔‘‘(بخاری: ۵۵۴۸، دارابن کثیر)
’’ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  بیان فرماتی ہیں کہ: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے، گھر میں ایک مغیث نامی مخنث بھی تھا۔ اس مخنث (ہیجڑے) نے ام سلمہ  رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ  رضی اللہ عنہ  سے کہا کہ اگر کل اللہ نے تمہیں طائف پر فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھلاؤں گا، کیونکہ وہ سامنے آتی ہے تو (موٹاپے کی وجہ سے) اس کی چار شکنیں پڑ جاتی ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو آٹھ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے (حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا  سے) فرمایا کہ: یہ (مخنث) تمہارے پاس اب نہ آیا کرے۔‘‘
6-’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ ‌الْمُـتَشَبِّہِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُـتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔‘‘ (مسند احمد: ۳۱۵۱، ط: مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)
یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
7-’’عَنْ أبِيْ ہُرَيْرَۃَ: أنَّ النَّبِيَّ-صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- أتِيَ بمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَبَ يَدَيْہِ وَرِجْلَيْہِ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ -صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ-: مَا بَالُ ہٰذَا؟ فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ! -صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- يَتَشَبَّہُ بِالنِّسَاءِ، فَأمَرَ بِہٖ، فَنُفِيَ إِلَی النَّقِيْعِ۔‘‘   (سنن ابی داؤد: ۴۹۲۸)
یعنی ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے ایک مخنث لایا گیا، جس کے ہاتھ اور پاؤںپر مہندی لگی ہوئی تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ : یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔ ‘‘
یہ تمام آیات اور احادیث اس لیے نقل کیں، تاکہ معلوم ہو کہ اللہ کی تخلیق اور فطرت کو تبدیل کرنے والوں کے بارہ میں دینِ اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔
ٹرانس جینڈر بل کیا ہے ؟اس کے محرکین کون تھے؟ کب پاس کیا گیا؟ اس کے رولز کیا ہیں؟ اور کب بنائے گئے؟ اب اس کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں خواجہ سرا کے حقوق کی آڑ میں چار اراکینِ سینٹ نے -جن کا تعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سے تھا- اس بل کو پیش کیا، اور ۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو سینیٹ سے یہ بل پاس ہوا، اور اپریل ۲۰۱۸ء میں قومی اسمبلی کے آخری سیشن سے اسے منظور کرایا گیا، جبکہ اس وقت جمعیت علماء اسلام کی رکن محترمہ نعیمہ کشور صاحبہ اور جماعت اسلامی کی خاتون ممبر محترمہ عائشہ صاحبہ نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اسے قائمہ کمیٹی میں بھیجا جائے اور جلد بازی میں قرآن وسنت سے بغاوت کے مرتکب اس بل کو پاس نہ کیا جائے، لیکن اُن کی ایک نہ سنی گئی۔ یہ بل بھی عام بلوں کی طرح حقوق کے تحفظ کے نام پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے پیچھے ایک عالمی تنظیم کا ایجنڈہ تھا۔ اس بل کی حمایت اور فضا ہموار کرنے کے لیے ایک مبہم سا سوال نامہ بناکر ’’تنظیم اتحادِ امت‘‘ پاکستان کے زیرِانتظام بعض علماء سے یہ فتویٰ بھی حاصل کیا گیا کہ: ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ کہ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں،عام عورتیں اور ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں، اور ایسے خواجہ سرا کہ جن میں مرد وزن دونوں کی علامتیں پائی جاتی ہیں، انہیں خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں۔‘‘
اس فتویٰ کو اس تنظیم نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ پر اپنی فتح سے تعبیر کیا اور کہا: مسلم علماء نے ماورائے صنف افراد کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں۔‘‘
لندن کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے لکھا: پاکستان میں ماورائے صنف افراد کا اب تک آپس میں شادی کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہاں عملِ قوم لوطؑ کے مرتکب افراد کو باہم شادی پر عمرقید کی سزادی جاتی ہے۔
ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے: ’’وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضاء یا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘ بہرحال جب اس قانون کے مندرجات، رولز اور قواعد وضوابط بنائے گئے تو اس قانون کی رو سے جنس کے تعین کا اختیار فرد کی ذاتی صوابدید اور رجحان کو قرار دیا گیا اور کہا گیاکہ جنس میں تبدیلی کی بنیاد کوئی میڈیکل رپورٹ نہیں ہوگی، یعنی ایک مرد اپنی رائے سے کسی بھی وقت خود کو عورت یا عورت خود کو مرد قرار دے سکتی ہے اور تمام اداروں/ محکموں کو اس کے ذاتی فیصلے کو ماننا لازم ہوگا۔ جب فردِ حقیقی جنسی اعضاءکے برعکس اپنی پسند سے غیرحقیقی جنس کے تعین کرنے کا قانونی بیان دے دے گا تو تمام قانونی دستاویزات بشمول نادرا، پاسپورٹ اور لائسنس وغیرہ میں اس کی پسند کردہ جنس کے مطابق تبدیلی لائی جائے گی۔ یہ محض خدشات نہیں، بلکہ سینیٹ کو بتائے گئے جواب کے مطابق ۲۰۱۸ء کے بعد سے تین برسوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی تقریباً ۲۹ ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے ۱۶۵۳۰ ؍مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، جبکہ ۱۵۱۵۴؍ عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی۔ خواجہ سراؤں کی مجموعی طور پر صرف ۳۰؍ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے ۲۱؍ نے مرد کے طور پر اور ۹؍ نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی۔
قانونی دستاویزات میں حقیقی جنس کے برعکس اپنی پسند کے مطابق اختیار کردہ غیرحقیقی جنس کے اندراج کے بعد اسی کے مطابق اس فرد کا وراثت میں حصہ قرار پائے گا، یعنی وراثت میں حصہ بڑھوانے کے لیے کوئی بھی عورت بعد ازاں مرد کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوکر اپنا وراثتی حصہ بڑھواسکتی ہے۔ یہ چیز ایک طرف قرآن وسنت کے قانونِ وراثت کی شدید خلاف ورزی ہوگی تو دوسری جانب خاندان میں لڑائیوں کی صورت میں خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنے گی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والے عمل اور ہم جنس پرستی کے انتہائی قبیح فعل کو فروغ دینے کا ذریعہ ہوگا۔ نیز یہ بل مذکورہ قبیح فعل کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا باعث بھی بنے گا، مثلاً دو مردوں میں سے ایک خود کو خاتون کی حیثیت سے رجسٹر کرواکر دوسرے مرد سے یا دو خواتین میں سے ایک خاتون خود کو مرد کی حیثیت سے رجسٹر کرواکر دوسری عورت سے شادی کرنے کی اہل ہوگی اور قانون اس کھلی بے حیائی اور شریعت کی خلاف ورزی کے سامنے بے بس ہوگا۔ مذہبی مقامات، مساجد، جیلوں اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں جنس کی بنیاد پر مخصوص مراعات وسہولیات استعمال کرنے، واش رومز سمیت مخصوص مقامات پر آنے جانے اور ہاسٹلز میں رہنے وغیرہ کا حق حاصل ہوگا، اب سرکاری کاغذات میں جنس کی زبانی تبدیلی کے بعد کوئی بھی مرد خاتون بن کر یا خاتون مرد بن کر ان سہولیات کے حق دار ہوں گے، جو کہ صرف مخصوص جنس کا ہی حق ہیں، اس بل سے معاشرتی تلخیاں، جنسی زیادتی اور کئی مسائل پیدا ہوں گے۔تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے اس بل کے خلاف رائے دی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس بل کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جزائے خیر دے جناب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کو کہ انہوں نے اس قانون کی خامیوں کا ادراک کرتے ہوئے اس میں ترامیم ایوان میں جمع کروادی ہیں۔ان کی طرف سے پیش کردہ ترمیم اس تبدیلی کو میڈیکل ٹیسٹ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ مرد سرجن، لیڈی سرجن اور ماہرِ نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ درخواست گزار مخنث ہے یا نہیں؟ اور اس کا اندراج کس طرف ہونا چاہیے؟ برطانیہ میں بھی ۲۰۰۴ء میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا، جبکہ پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء میں کسی بھی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلیِ جنس کا آپریشن کروانے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اس کے نقصانات واضح ہیں۔
اسی طرح حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا کہ: جمعیت علماء اسلام نے سینیٹ میں ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ کےنام سے ترمیمی بل جمع کردیا ہے۔ اس ترمیمی بل میں کئی دفعات کو حذف کردیا گیا ہے، جبکہ ۱۶؍ دفعات میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، اس بل کے پاس ہونے سے ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ’’انٹرسیکس‘‘ یعنی (خنثیٰ مشکل) ایکٹ معرضِ وجود میں آجائے گا، جوکہ مکمل طور پر قرآن وسنت کے مطابق ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام نے وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو کالعدم قراردینے کے لیے رٹ پٹیشن دائر کردی۔
ملی یک جہتی کونسل -جس کا راقم الحروف عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی جانب سے رکن ہے- نے بھی کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بل کو فطرت اور قرآن و سنت کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے، جیسا کہ درج ذیل خبر میں رپورٹ کیا گیا:
’’کراچی (اسٹاف رپورٹر) ملی یکجہتی کونسل نے ٹرانس جینڈربل کومسترد کرتے ہوئے اسے قرآن وسنت سے متصادم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں قانونِ فطرت سے بہت بڑی بغاوت ہے، پاکستان کے غیور مسلمان ہرگز ایسے کسی قانون کو برداشت نہیں کریں گے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۲۸ کے مطابق پاکستان میں کوئی غیر اسلامی وغیر شرعی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا، جن ارکانِ اسمبلی نے بلاتحقیق اس قانون کی حمایت کی وہ دین کے باغی ہیں۔ تمام علماء اور باشعور افراد اس متنازع قانون کو نہ صرف شریعت سے متصادم بلکہ ہم جنس پرستی جیسے حرام کام اور گناہ کے فروغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، جمعیت علماء اسلام کے ترمیمی بل اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے جمع کی گئی ترامیم اور پوری قوم کے مطالبے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس قانون کو رد کیا جائے اور پاکستانی قوم کو اضطراب سے بچایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اسداللہ بھٹو، جنرل سیکریٹری علامہ قاضی احمد نورانی، جماعتِ اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، مفتی اعجاز مصطفیٰ، علامہ سید رضی حیدر زیدی، علامہ ساجد جعفری نے کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عمران احمد سلفی، علامہ عقیل انجم قادری، مسلم پرویز،ممتاز رضا سیال اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ ٹرانس جینڈ ربل پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں اور باشعور افراد نے مسترد کیا ہے۔ اگر اس قانون کو موجودہ شکل میں نافذ کیا گیاتو وہ خرابیاں جنم لیں گی جن کا ہم تصوربھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، لیکن کسی کو خلافِ شریعت وآئین قانون سازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ (۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۲ء، بروز جمعۃ المبارک، روزنامہ امت، کراچی)
ہماری تمام اراکینِ پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود دینی ومذہبی حضرات کی اس بل میں پیش کردہ ترامیم منظور کرانے میں ساتھ دیں، تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت اور عذابِ الٰہی سے بچ سکیں۔ اگر ساتھ نہ دیا تو بعید نہیں کہ عوام اگلے الیکشن میں ان اراکین کی راہ روکیں اور ان کے لیے منتخب ہونا یا عوامی حلقوں میں جانا محال کردیں۔  فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ۔
 

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین