بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

    ۳۰؍ مئی ۲۰۰۴ء بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ مفتی نظام الدین شامزئیؒ بنوری ٹاؤن آرہے تھے۔ مجھ سمیت تخصص فی الفقہ کی درس گاہ میں بیٹھے تمام طلبہ نے فائرنگ کی آواز سنی۔ باہر نکلے تو مفتی نظام الدین شامزئیؒ کی گاڑی تیزی سے آگے بڑھتی دکھائی دی۔ ہر ہاتھ دعاء کے لئے اٹھ گیا اور ہر آنکھ اشکبار ہوگئی مگر تقدیر نے تدبیر کو شکست دے دی۔ مفتی صاحب جدا ہوئے۔ تخصص فی الفقہ کے طلبہ اب دارا الافتاء میں مفتی عبد المجید دین پوری صاحب کے حوالے ہوئے۔ فتویٰ لکھنے کی مشق مفتی صاحب دیکھتے اور اصلاح دیتے۔ فطرت نے ذکاوت وذہانت کا وافر حصہ عطاء کیا تھا۔ سوال نامہ پر نظر پڑتے ہی مسئلہ سمجھ جاتے۔ جواب پڑھتے اور فوری اصلاح دیتے جاتے۔ ہر وقت قابل رسائی، جب چاہیں جائیں اور مسئلہ پوچھ کر آجائیں۔ دائیں بائیں ہٹو بچو کی صدا، نہ ہی بات کرنے پر پابندی اور جکڑ بندیاں۔ دار الافتاء میں تشریف لاتے ہی ان کے ارد گرد جم گھٹّا لگ جاتا۔ اس دور میں روزانہ موصول ہونے والے دستی سوالات کی تعداد ۷۰؍ ضرور ہوتی تھی۔ یہ تمام فتاویٰ آپؒ کی نظر سے گزر کر آپؒ ہی کے دستخط ہو کر ہی جاتے تھے۔ اتنے فتاویٰ کو روزانہ دیکھنا، اصلاح دینا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مگر مفتی صاحب مغرب کے بعد تشریف لاتے اور فتاویٰ دیکھتے۔صرف یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ فون پر فتاویٰ پوچھنے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہوتی۔ مفتی صاحب موجود ہوتے تو فون پر پوچھے جانے والے فتاویٰ کے جواب بھی خود ہی ارشاد فرماتے۔     فقہی جزئیات کے استحضار میں بھی کمال حاصل تھا۔ ہدایہ کا سبق جن طلباء نے آپؒ سے پڑھا ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ ایک ہی مسئلہ کی نظائر اور شواہد کس طرح بیان کرتے تھے؟ میراث کی تقسیم سے متعلق مسائل بھی چٹکی بجاتے میں حل فرمادیتے ۔ دوسال تک ہم نے ان سے فتاویٰ کی اصلاح لی، مگر کبھی نہیں دیکھا کہ کسی مسئلے میں تردّد کا شکار ہوئے ہوں یا پہلے فتویٰ سے رجوع فرمارہے ہوں۔ جب کوئی اہم مسئلہ آتا تو تمام مفتیان کرام سے مشاورت ضرور کرتے، دار الافتاء میں موجود اپنے شاگردوں کی رائے ضرور لیتے۔     ایک بار مناسخہ کا مسئلہ لے کر حاضر ہوا، آپ نے کیلکولیٹر پر دو تین رقمیں جمع تفریق کیں۔ پھر فرمایا غلط لکھا ہوا ہے، پھر کیلکولیٹر سامنے رکھ کر طویل ترین مسئلہ سیکنڈوں میں حل فرمادیا۔ تخصص سے فراغت ہوئی تو فرمایا کہ میرا مسجد سے منسلکہ گھر خالی ہوتا ہے، آپ اس میں رہائش اختیار کرلیں، اس کے ساتھ ساتھ معیشت پڑھ لیں، ہمیں معاشی ماہر مفتیان کرام کی ضرورت ہے۔ مگر بندہ جامعۃ الرشید میں انگلش وصحافت کورس پڑھنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ جب کبھی جامعۃ الرشید تشریف لاتے تو بہت خوش ہوتے۔ پچھلے سال میں نے فون پر عرض کیا ’’استاذجی! آج کل آپ جامعۃ الرشید تشریف نہیں لارہے؟‘‘ فرمانے لگے ’’آپ ہی نہیں بلارہے‘‘ ۔ اس کے کچھ روز بعد حلال فوڈ سے متعلق مفتیان کرام کا اجتماع ہوا، مفتی صاحب تشریف لائے اور فرمایا ’’دیکھو ہم آبھی گئے‘‘۔     صرف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہی نہیں، آپ معہد الخلیل میں آنے والے فتاویٰ بھی دیکھتے، جمشید روڈ پر موجود الحمراء مسجد کے امام اور خطیب تھے، اس مسجد میں بڑی باقاعدگی سے تشریف لے جاتے۔ اس کے ساتھ جامعہ درویشیہ میں شیخ الحدیث تھے۔ ان تمام مقامات پر آنا جانا آپ کے روزانہ کے معمولات کا حصہ بن چکا تھا۔ اتنی مصروفیت کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ فون کریں اور وہ نہ اٹھائیں جب فون کریں آپ بات کرسکتے ہیں۔ مجھ جیسے نجانے کتنے شاگرد ہوں گے جو فون پر فتاویٰ دریافت کرتے تھے۔ جوں ہی کسی شخص نے مشکل مسئلہ پوچھا، فوری طور پر مفتی صاحب کا نمبر ملا کر پوچھ لیا، آپ فوری طور پر نہ صرف مسئلہ ارشاد فرماتے بلکہ دلیل بھی دے دیتے۔     دو ہفتے قبل شریعہ اینڈ بزنس میگزین کا آغاز ہوا، پہلا شمارہ آپ کی خدمت میں ارسال کیا، فون پر فرمانے لگے ’’ بہت خوبصورت ہے، پڑھ کر بتاؤں گا‘‘ دوبارہ رابطہ ہوا تو فرمایا کہ ’’میں نے آدھا میگزین پڑھ لیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ ایک صفحہ کی تحریر لکھ کر بھیجوں‘‘ دوسرا شمارہ چھپ کر آیا تو وہ بھی آپ کی خدمت میں ارسال کردیا، فرمانے لگے: کچھ نہ کچھ ان شاء اللہ ضرور تحریر کروں گا۔ مگر تقدیر نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔     جمعرات ۳۱؍ جنوری کو جامعہ درویشیہ روانہ ہوئے تھے، دو دہشت گرد سفید رنگ کی ہائی روف پر یکے بعد دیگرے فائرنگ کرتے ہیں۔ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ذمہ دارمفتی عبد المجید دین پوری شہید ہوگئے۔ ان کے ساتھ مفتی صالح محمد کاروڑی صاحب بھی شہادت کا رُتبہ پاگئے۔ ابھی تو نجانے وہ کتنے فتاویٰ پر تحقیق وتخریج کا کام کر رہے تھے۔ ہر لمحہ حاضر جواب اور ہرلحظہ لکھنے لکھانے میںمصروف۔ کیا لوگ تھے جو پنہاں ہوگئے۔ تصحیح کے لئے جایئے تو فوری فوری لے کر واپس آیئے۔ حوالہ جات کا استحضار اور فقہی بحث واستدلال کا زبردست ملکہ، بلا شبہ جامعہ علوم اسلامہ علامہ بنوری ٹاؤن جیسے ادارے میںا یسے ہی مفتیان کرام کی ضرورت تھی، مگروہ  دستِ قاتل سے نہ بچ سکے۔  خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین