بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خاندان! .... تہذیب کی اولین آماجگاہ

خاندان! .... تہذیب کی اولین آماجگاہ


خاندان انسان کی پرورش کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ یہ خدائی قانون ہے کہ انسان ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں سورۂ نساء کے اندرفرمایا:
’’یٰٓأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً وَ اتَّقُوْا اللہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا‘‘ (النساء:۱)
ترجمہ: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور تم خدا تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے سوال کیا کرتے ہو اور قرابت سے بھی ڈرو، بالیقین الله تعالیٰ تم سب کی اطلاع رکھتے ہیں ۔‘‘
یہ گویا انسانی خاندانوں کی ابتدا کا پس منظر بیان کیا گیا کہ کس طرح ایک آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اپنی شانِ تخلیقی سے پوری دنیا کو انسانوں سے بھر دیا ہے۔ یہ سلسلہ جس طرح ماضی میں ہر دور، ہروقت اور ہر قسم کے حالات میں جاری رہا، اسی طرح آج بھی ہے اور اسی طرح آخری انسان کی پیدائش تک جاری رہے گا کہ یہی قدرتِ خداوندی ہے اور یہی منشائے ربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ خاندان کی ابتداماں باپ سے کرتا ہے، دوجانیں باہم مل کر ایک گھر کی بنیاد رکھتے ہیں، پھر ان کے ہاں اولاد جیسی نعمت پیدا ہوتی ہے، جہاں سے بہن اور بھائی کے رشتے جنم لیتے ہیں، یہ بہن بھائی بڑے ہوکرجب شادیاں کرلیتے ہیں تو بہنوئی، داماد اور بہو جیسے سسرالی رشتے داریاں جنم لے لیتی ہیں اور خاندان اپنی وسعتوں کو چھونے لگتا ہے، یہاں تک کہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں خوشبو کی حقیقت کے وہ استعارے ہیں جن سے انسان کاباغیچہ مہک اُٹھتا ہے اوروہ اپنی لہلہاتی فصل کو دیکھ کر پھولا نہیں سماتا ہے۔ دادا، دادی اور نانا نانی پیار اور محبت کے وہ پیمانے ہیں جن میں اُلفت ومحبت کے جام چھلکنے لگتے ہیں اور دنیا کی کسی لغت کادامن اس چھلکتے ہوئے جام کی آسودگی و تراوٹ کو اپنے اندر سمونے سے قاصر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں میں بھی خاندانوں کا ذکرکیا اور فرمایا کہ:
’’ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ (الحجرات:۱۳)
 ترجمہ: ’’ اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف خاندان بنایا ہے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو ۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، اللہ خوب جاننے والا پورا خبردار ہے ۔‘‘
خاندان بعض اوقات تکبر اور فخروغرور کی علامت ہوتا اور بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے، قرآن مجید نے اس کا تدارک کیا ہے، یعنی برہمن خاندان اس لیے عزت والا نہیں ہے کہ وہ برہمن ہے اورشودر اس لیے نیچ نہیں ہو سکتا کہ اس نے کسی شودر کے گھر میں جنم لیاہے، یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں کہ کس نے کس کے ہاں پیدا ہونا ہے، کوئی بچہ اپنی مرضی سے کسی کے ہاں وارد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی والدین اپنی مرضی سے بچوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، پس جس خدا نے اپنی مرضی سے خاندانوں کی تقسیم کی ہے، اس کا حکم ہے کہ خاندان کسی عزوشرف کی بنیاد نہیں ہو سکتے، بلکہ یہ صرف پہچان کے لیے ہی ہیں کہ جب ایک ہی نام کے متعدد افراد ہوں گے تو وہ اپنے خاندان، قبیلے یا نسل کی بنیاد پر پہچانے جائیں گے۔ خاندانی تفاخر دورِ جہالت کی یاد تازہ کرتا ہے، جب کہ عزت کا معیارصرف تقویٰ ہے کہ کوئی اپنے رب سے کس قدر قریب تر ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ میں تقویٰ موجود ہے تو وہ خاندانی کہتری کے باوجود عزت ووقار میں ابو جہل سے کہیں بڑھ کر ہیں، جس میں شاید دنیا بھر کی خاندانی وجاہت سمٹ کر جمع ہوچکی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: 
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں۔‘‘
 گویا انسان کا بہتر یا بدتر ہونا دراصل اس کے گھروالوں کے ساتھ رویے پر منحصر ہے۔ دوستوں کے ساتھ، افسر کے ساتھ اور دکان والوں کے ساتھ تو سبھی بہتر ہوتے ہیں، لیکن اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنی بیوی، اپنے والدین اور اپنے سسرال کے ساتھ کون اچھا ہے؟ یہ اصل سوال ہے۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو عمر میں ابھی کم سن تھیں، انہوں نے تماشا دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھڑکنے یا منع کرنے کی بجائے اور باپ یا بھائی سے یہ تقاضا کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اُن کی یہ خواہش پوری کی اور حکمِ حجاب کے باعث دروازے میں آگے کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے سے تماشا دیکھتی رہیں، کافی دیر گزرچکنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تماشا دیکھ لیا؟ بی بی صاحبہ نے جواب دیا کہ نہیں ابھی اور بھی دیکھنا ہے۔ ظاہر ہے اس عمر میں دل کہاں بھرتا ہے؟! یہ سب سے بڑے انسان( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت تک کھڑے رہے، جب تک کہ بی بی صاحبہ کا دل نہ بھر گیا۔ بی بی فاطمہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جب بھی وہ تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حُب واحترام میں اُٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ماتھے پر بوسہ بھی دیتے، حسنین کریمین شفیقین محترمین( رضی اللہ عنہما ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے عزیزتر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو اپنے کندھوں کی سواری کراتے تھے اور انہیں جنت کے نوجوانوں کے سرداربھی قرار دیا۔ غزوۂ حنین کے موقع پر کم و بیش چھ ہزار افراد غلام بنائے گئے تھے، اس موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن کو لایا گیا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور عرض کیاکہ بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کمر پر دندی کاٹی تھی، جس کا نشان آج بھی وہاں پر موجود ہے، اس بہن نے ان قیدیوں میں سے چند کی سفارش کی، جنہیں محسنِ نسواں صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیا، جب یہ بہن باہر تشریف لائیں تو چھ کے چھ ہزار قیدیوں کے رشتہ دار منت سماجت کرنے لگے کہ خدارا ہمارے قیدیوں کو بھی چھڑالاؤ، یہ بہن اپنے عظیم بھائی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پھر حاضر ہو گئیں اور کل قیدیوں کی رہائی کی بابت سفارش کرڈالی، تب اس بھائی کی شان ملاحظہ ہو کہ کمالِ شفقت و مہربانی سے کل قیدیوں کو رہائی عطا کر دی۔ کیسا شاندار بھائی اور کتنی ہی محبت والی بہن، یہ آسمان شاید پھر کبھی نہ دیکھ سکے۔ یہ رضاعی خاندانی محبت کی ایک مثال ہے۔
خاندان کی پرورش اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت عمدہ عمل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی خوشخبری دی ہے، صالح اولاد کو صدقہ جاریہ قرار دیا، حافظِ قرآن و حافظۂ قرآن کووالدین کی شفاعت کا مژدہ سنایا، شہید کی ماں کے دامن کو خدا کی رحمت سے بھر دیااورسخت تاکید کی کہ اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بنائیں اور انہیں سات سال کی عمر سے نماز کی تلقین شروع کر دیں اور دس سال کی عمر میں اُن پر سختی کرنے لگیں، تاکہ نماز کے معاملے میں وہ سستی سے باز آجائیں۔ ہم میں سے ہر کوئی گلہ بان ہے اور اس کے گلے کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا۔ ہمارا گلہ ہمارا خاندان ہے، ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ہمارے خاندان میں غیرشرعی رسوم و رواج جگہ تو نہیں پارہے؟ ہمارے خاندان میں دولت کے بل بوتے پر ایسی روایات تو جنم نہیں لے رہیں جنہیں مقابلۃً غریب رشتہ دارگھرانوں کو پوراکرنا مشکل ہو جائے؟ ہمارے خاندان کا رویہ قطع رحمی کا باعث تو نہیں بن رہا؟ اور کیا ہم اپنے خاندان کو دنیا کے رنگ میں رنگ رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے رنگ میں اورآخرت کا طلب گار بنا کر قربِ خداوندی کا باعث بن رہے ہیں؟
یورپ اپنی سیکولر سوچ کے باعث آج اپنے خاندانی نظام کو تباہ کر بیٹھا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ آزادیِ نسواں کے نام پرآزادیِ زنا ہے، اب عمائدینِ یورپ اپنی پشتوں اورنسلوں کی بقا کے لیے مجبور ہیں کہ خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے سال بھر میں ایک دن اس مقصد کے لیے منائیں، تاکہ سیلاب، زلزلوں اور طوفانوں میں وہاں کے لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو حالات اورریاستی اداروں کے سپردکرکے اپنے کتوں اور بلیوں کے ساتھ بھاگنے کے رویے سے باز آجائیں۔ سیکولرازم کے اس رویے نے انسان کو جانورسے سے بھی بدتر بنادیا ہے، کیونکہ حلالی اورغیرحلالی کے مٹتے ہوئے فرق کی بنا پر انسانی خاندانی اعلیٰ روایات کی جگہ پیٹ کی خواہش اورپیٹ سے نیچے کی خواہش نے لے لی ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرق و ایشیا میں انبیاء علیہم السلام کا آغاز کردہ ’’نکاح‘‘ کا ادارہ اپنے جملہ حدودوقیود کے ساتھ موجود ہے، دینی و مذہبی شعور کے باعث یہاں کے گھروں میں دن کا آغاز کسی بڑے کی آواز سے بیداری کے بعد شروع ہوتاہے اوردن کا انجام گھر کی بڑی بزرگ خاتون کی کہانی یالوری سے اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انسانیت بالآخر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کی طرف ضرور پلٹے گی اور ہر چڑھتا ہوا سورج خاندان کی عظمت و برتری کا سورج ہوگا اور خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کسی ایک دن کے منانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین