بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حکومت کے اوصاف اور سربراہ کے فرائض

حکومت کے اوصاف اور سربراہ کے فرائض


 بلا شبہ حکومت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، بشرطیکہ حکومت صالح ہو، اور صالح حکومت وہی ہے جو اپنی رعایا کی جان ومال اور عزت وآبر و کی محافظ اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی کفیل ہو، جس کے زیرِ سایہ رعیت کا ہر شخص سکون واطمینان کی زندگی بسر کرتا ہو۔ حکمران کے دل میں رعیت سے ہمدردی ومحبت ہو، ملکی ضروریات میں وہ عقل وتد بر اور عاقبت اندیشی سے کام لیتا ہو، قوم وملک کی راحت رسانی کے لیے مضطرب اور بے چین ہو۔ تاجر، زمیندار، مزدور اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوں، تجارت وزراعت پیشہ افراد پر ٹیکسوں کا بوجھ اتنا ہو کہ وہ بر داشت کرسکیں۔ مظلوم کو ظالم سے نجات حاصل ہو۔ مملکت میں بداخلاقی وبے حیائی کے پھیلا ؤ کو روکنے کے لیے مؤ ثر تد ابیر ہوں۔ فساد پیشہ افراد کی کڑی نگرانی ہو، حکام فرضِ منصبی ادا کرتے ہوں اور ان کی کو تا ہی پر شدید باز پر س ہو۔ رشوت سے ملک پاک ہو، انصاف و عدل حکومت کے ہر شعبے میں جلوہ گرہو۔ داخلی نظم ونسق وحفاظت کا نظام بے نظیر ہو،خارجی خطرات اور سر حدوں کی حفاظت کے لیے فوجی نظام قابل تعریف ہو۔ حکمران رحم دل ہو،بہادر ہو، مد بر وسیاست دان ہو، قابلِ قدر سیاست سے قوم کی کشتی کو منزلِ مقصود پر پہنچا نے کی صلاحیت رکھتا ہو، تباہی وبر بادی کی موجوں سے اپنے سفینے کو ساحلِ کا مرانی پر صحیح وسلامت پہنچا نے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسی بداخلاقیوں میں مبتلا نہ ہو جن کی وجہ سے رعیت اور قوم کے دلوں میں اس کا وقار نہ رہے، کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے اس کی عزت قلوب سے نکل جائے۔الغرض شائستہ سیرت ہو، ملک کا خیر خواہ ہو، مملکت کو ہر طرح بامِ عروج تک پہنچا نے کی اہلیت رکھتا ہو، خوش کر دار وخوش گفتار ہو، مملکت کو ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہو، عاقل، مدبر اور دور اندیش ہو، بردبار وحلیم ہو، طیش وغضب میں آنے والا نہ ہو۔ بلاشبہ ایسی حکومت رحمت ہے اور اگر حسنِ اتفاق سے کسی اسلامی مملکت کا مسلمان سربراہ ہو تو ان باتوں کے علاوہ اس کا اہم ترین فرض یہ ہے کہ مسلمان قوم کی قیادت قرآن وسنت اور اسلامی قانون کے مطابق کرے۔
معاشرہ سودی کا روبار سے پاک ہو، زنا وشراب پر پابندی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے محاکم احتساب قائم ہوں، محاکم عدلیہ میں حق تعالیٰ کا قانونِ رحمت جاری ہو۔ شریعتِ اسلامی کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں، چوروں، ڈاکوؤں، شراب خوروں اور زنا کاروں پر شرعی حدود قائم ہوں۔ ایسا اسلامی نظام وجود میں آئے کہ دنیا کے بعد آخرت کی زندگی میں ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کی جنت اور نعمتوں کا مستحق ہوجائے۔ گو یا دنیا کے نظام کو درست کرنے میں کا فر و مسلمان دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ اُخروی نظام کے لیے مسلمان سر براہ کے فرائض زیادہ ہوجاتے ہیں۔ عملی فتنوں سے مملکت کو بچا نے کی تد بیر میں کوئی تقصیر نہ ہو۔اسی طرح علمی فتنوں سے دینِ اسلام کی حفاظت کی مؤ ثر تد بیر یں اختیار کرے۔ تعلیم کی بنیاد دین پر ہو اور اسلام کی حفاظت کے ساتھ جد ید علوم جو نافع سے نافع تر ہوں، ان کی تعلیم کا انتظام ہو۔ غرض یہ کہ مسلمان حکمران کا فرضِ منصبی جس طرح دنیا کو درست کرنا ہے، ٹھیک اسی طرح آخرت کی زندگی درست کرنے کی تد بیر یں بھی اس کے ذمے ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جس کو اسلام نے ’’السلطان ظل اللّٰہ في الأرض من أکرمہٗ اکرمہ اللّٰہ ومن أھانہٗ أھانہ اللّٰہ۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی) کے منصبِ عالی پر پہنچا دیا، اور جس کو آسمانی وحی نے ’’أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّ سُوْلَ‘‘ (النساء:۵۹) کے بعد ’’وَأُولِیْ الْأَمْرِ مِنْکُمْ‘‘ فرما کر اعلیٰ ترین منصب عطا فرمادیا۔ اس وقت علمی انداز سے علماء نفسیات یا علماء اخلاق نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی تفصیل مقصود نہیں۔ حکماء وفلاسفہ نے جو کچھ لکھا ہے، یا ابن خلد ونؒ، جلال الدین دوانیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے جو کچھ لکھا ہے ان باتوں کو لکھنا منظور نہیں:

چہ نسبت خاک را با عالم پاک
 

یہاں تو اقتدار کی ہوس ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قصہ ہے، نہ صفاتِ عالیہ کی بحث ہے، نہ کمالات کا ذکر ہے۔ اس ملک کی تاریخ اور دورِ حاضر کے دیگر ملکوں کی تاریخ خواہ اسلامی حکومتیں ہوں یا غیر اسلامی ہوں، ایشیائی مملکتیں ہوں یا یورپی، دیکھ کر عبرت ہی عبرت ہوتی ہے۔ دنیا میں کتنا بڑا زوال آگیا، ہر حکمران مسولینی، ہٹلر اور چر چل کی تاریخ دہر انا چاہتا ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کو اپنی اعلیٰ ترین کا میابی سمجھتا ہے۔ یہاں حیا، رحمدلی، انصاف، خوفِ خدا، خوفِ خلقِ خدا کا کیا سوال؟ حدیثِ نبوی میں ’’امامِ عادل‘‘ عادل حکمران کا مرتبہ ان سات اشخاص میں ذکر فرمایا ہے جو قیامت کے روز عرش کے سایہ میں ہوں گے:
’’عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَاظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ وفضل المساجد، ج:۱، ص:۹۱، ایضًاکتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ بالیمین، ج:۱، ص:۱۹۱، ط:قدیمی) 
موجودہ دور کے حکمرانوں کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق سے ناراض ہوگیا ہے، ان پر بے رحم ظالموں کو مسلط کردیا ہے جن کے سامنے ہوسِ اقتدار کے سوا کوئی اور مسئلہ نہیں۔ حق تعالیٰ نے اس دنیا کے مناصب کو اتنا ذلیل کر دیا ہے کہ حافظ شیرازیv کا مصرع صادق آتا ہے:

طوقِ زریں ہمہ در گردن خرمی یتیم
 

دور جانے کی حاجت نہیں، اپنے بد نصیب ملک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالو، یکے بعد دیگرے یہاں کیسے کیسے افراد آئے؟ دیکھئے! اور اپنی قسمت کو رویئے! اللہ تعالیٰ نے عرصہ دراز کی غلامی کے بعد ایک پاکیزہ خطہ عطا فرمایا تھا، تاکہ ہم اپنے وعدوں کو سچ کر دکھاسکیں، لیکن جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے آپ کے سامنے ہے۔ بجز حسرت و افسوس اور آہ و بکا اور کیا کرسکتے ہیں؟ اے اللہ! اپنی مخلوق پر رحم فرما، ہمارے اس بگڑے نظام کو تو ہی درست فرماسکتا ہے۔ ہمارے ان حکمرانوں کو عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق حکومت چلا نے کی صحیح اہلیت عطا فرما، تاکہ صحیح معنوں میں یہ حکومت سایۂ رحمت ہو، دین و دنیا کی برکات سے مالامال ہو۔ رعیت و قوم مطمئن اور آسودہ حال ہو، ظاہری وباطنی ترقیات نصیب فرما۔ اعداء اسلام اور کافروں کی ریشہ دوانیوں سے اس مملکت کی حفاظت فرما۔ راعی ورعیت دونوں کو اپنی ربوبیتِ کریمانہ عادلانہ کا مظہر بنا۔ ایسا نظام مبارک عطا فرما جس کے ذریعہ آخرت وجنت کی نعمتوں کے ہم مستحق بنیں۔ اے اللہ! آپ ہر چیز پر قادر ہیں، ہم عاجز ہیں، تو قادر ہے۔

وصلی اللّٰہ علٰی سید البریۃ خاتم النبیین محمد وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین