بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حنفی منہجِ افتاء تعارف و اہمیت 


حنفی منہجِ افتاء

تعارف و اہمیت 

 

تقلیدِ شخصی کا پس منظر

سلف کے دور میں تقلید کی ہردو قسمیں موجود تھیں، بعض لوگ تقلیدِ شخصی کرتے تھے، جبکہ بہت سے لوگ یوں ہی جو عالم مجتہد مل جاتا، ان سے در پیش مسئلہ کا جواب معلوم کرکے عمل کرتےتھے، جو تقلیدِ غیر شخصی کی ایک صورت ہے۔ اس عہد میں تقلیدِ شخصی ضروری نہ تھی، نہ نظریاتی واصولی طور پرضروری تھی اور نہ ہی عملی طور پر اس کو واجب کا درجہ دیا جاتا تھا، غیرمجتہد شخص کےلیے ضرورت کے وقت تقلید کی ضرورت تو تھی، لیکن تقلید کی دونوں قسموں میں سے خاص تقلیدِ شخصی کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ 
بعد کے ادوار میں رفتہ رفتہ اس کے ضروری ہونےکےعناصر پیدا ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ حکم میں بھی شدت کے دواعی موجود ہونے لگے، جن کی وجہ سے آخر کار ایسا دور بھی آیا جس میں محتاط اور دور اندیش علماء امت نے عام مسلمانوں کے لیے تقلیدِ شخصی کو بہرحال ضروری قرار دیا۔ تقلیدِ شخصی کا یہ وجوب ولزوم چونکہ بذاتہ اور لعینہٖ نہیں تھا، اس لیے یہ سوال بےجا ہے کہ جب قرآن وحدیث میں ایک چیز کو واجب قرار نہیں دیا تو بعد کے علماء کیونکر اس بات کے مُجاز ہوسکتےہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایسی غیر ضروری چیز کو ضروری کا درجہ دے دیں؟

منہجِ افتاء مدون ہونےکا تاریخی پس منظر

بہر حال تقلیدِ شخصی کے واجب ہونے کافیصلہ کیاگیا، اس فیصلے کی برکت سے اُمت کا غالب طبقہ بے جا حریت، خواہش پرستی جیسی خرابیوں سے محفوظ رہا، لیکن زمانے کے بڑھنے، گزرنے کےساتھ ساتھ فقہی مذاہب میں بھی وسعت پیدا ہونے لگی، ہرہر مذہب میں اجتہادی صلاحیت رکھنے والے اہلِ علم خاصے مقدار میں آتے رہے اور اپنے اپنے اجتہادات وتحقیقات کو مذہب کی کتابوں کا حصہ بناتے رہے۔ اصل مذہب کی بعض باتوں سے اتفاق، بعض مسائل میں اختلاف اور مختلف اقوال بھی پیدا ہوتے رہے، جس کی وجہ سے چار متبوعہ مذاہب کی ضخامت بڑھتی رہی اور کچھ ہی عرصہ گزرجانے کے بعد ہر مذہب ایک وسیع وعریض صورت میں سامنے آیا، ایک ایک مسئلہ کے متعلق مختلف اقوال، توجیہات وتعلیلات کا ایک وسیع ذخیرہ جمع ہوتارہا، جس کی وجہ سے صورت حال یہ بنی کہ ہرہر مذہب مختلف اقوال ودلائل کا مجموعہ بن کررہ گیا۔ 

منہجِ افتاء کی پابندی کی ضرورت
 

اب جس ضرورت کی وجہ سے خاص تقلیدِ شخصی کو واجب قرار دیاگیاتھا، وہی ضرورت یہاں بھی متحقق ہونے لگی اور اسی کے پیش نظر یہ ضروری سمجھاگیا کہ فتویٰ دینے کا ایک خاص نہج ترتیب دیاجائے، ورنہ پہلے زمانے میں (اوراب بھی )تقلیدِ شخصی نہ کرنے سے جو شرعی مفاسد اور نقصانات پیش آتےرہے، وہی مفاسد افتاء کا منہج متعین نہ ہونے کی صورت میں تقلیدِ شخصی کے باوجود بھی پیش آسکتےہیں۔ فقہ وفتویٰ سے شغف رکھنے والے حضرات سے یہ باتیں مخفی نہیں ہیں۔ 
یہی وہ صورت حال ہے جس کے تناظر میں تمام اہم مذاہب کے مقلدین حضرات کے ہاں فتویٰ دینے کےمختلف ضوابط مقرر کیےگئےاور اپنےمذہب کےتمام اہلِ علم کو اس ضابطے کا پابند بنایا۔ فقہائےحنفیہ نے بھی اس سلسلےمیں کچھ بنیادی اصول وضوابط مقرر فرمائے، جو رفتہ رفتہ ایک فن کی شکل اختیار کرگئے۔ 

موضوع سے متعلق ایک اہم اور بنیادی کتاب

اس باب میں فقہ حنفی کے اصول وضوابط سےمتعلق مشہور کتاب علامہ ابن عابدین شامی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’شرح عقود رسم المفتي‘‘ ہے، جس کی ترتیب یہ بنی کہ پہلےآپ نے اس موضوع سے متعلق ایک مختصرنظم تیار کی جو چوہتر(۷۴)اشعار پر مشتمل ہے، اس کے بعد خود ہی اس کی شرح لکھی۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فتویٰ دینے کے اکثر اصول وضوابط جمع ہیں جو بڑی محنت، مشقت اور بہت کچھ تلا ش وتتبُّع کا نتیجہ ہیں۔ اصل مصادر کا صرف حوالہ ہی نہیں، بلکہ اقتباس کی صورت میں اس کی عبارت بھی لکھی گئی ہے، لیکن ربط وضبط کی قلت نظرآتی ہے، جس کی وجہ سے کما حقہ اس سے استفادہ کرنا اور مطلوبہ نتائج تک پہنچنا مشکل معلوم ہورہاہے، شاید اسی کا ناگوار نتیجہ ہے کہ سالہاسال سے یہ کتاب پڑھانے والے حضرات بھی عملی طور پر جب فتویٰ تحریر فرماتے ہیں تو متعدد مرتبہ ان اصول کی پابندی نہیں کرپاتے، بار بار یہ بھی دیکھنےمیں آتاہے کہ اسی کتاب کی بعض عبارات سے استدلال واستیناس کیا جاتا ہے، لیکن چونکہ کتاب پوری طرح منضبط نہیں ہے، اس لیے وہ استدلال بھی صحیح اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا۔ یہ ناکارہ دس سال سے ’’رسم المفتي‘‘ پڑھا رہا ہے اور تقریباً ہر سال ان باتوں کا تجربہ ہوتا رہتا ہے، اس لیے ضرورت محسوس کی کہ ترتیب وانتظام کے ساتھ ان ضوابط کو جمع کردیاجائے، تاکہ فتویٰ دیتےوقت کام آئیں۔ اسی جذبے کےپیش نظر علامہ شامی ؒ کی درج بالا کتاب ’’شرح عقود رسم المفتي‘‘کو سامنے رکھ کر یہ ایک’’ ضابطۂ فتویٰ ‘‘ترتیب دیا گیا ہے۔ 

فتویٰ دینے کا منضبط قاعدہ

جب کوئی مسئلہ در پیش ہوجائے اور اس کا شرعی حل تلاش کرنا ہو تو متقدمین کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے گا، پھر وہ مسئلہ یا تو متقدمین کی کتابوں میں ذکر ہوگا یا نہیں۔

متقدمین نےمسئلہ ذکر کیاہو

اگر متقدمین (۱)کی کتابوں میں مسئلہ ذکر ہو تواس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان کے احکام بھی مختلف ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1- اگر متقدمین حضرات کا اس مسئلہ میں اتفاق ہو تواسی اتفاقی قول کو اختیار کیا جائےگا، اگر اتفاق نہ ہو، بلکہ ان کےہاں بھی اس مسئلہ میں اختلاف کیاگیا ہو تواس صورت میں:
2- اصحابِ ترجیح کی طرف مراجعت کی جائےگی، اگر ان میں سے کسی صاحب نے کسی قول کو ترجیح دی ہے تو اسی کو اختیار کیاجائےگا اور اگر کہیں اس کی ترجیح مذکور نہ ہو تو اس کاحکم بعد میں ذکر کیاجائےگا۔ 
3- بہت مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ اصحابِ ترجیح کے درمیان تصحیح وترجیح کے معاملہ میں اختلاف آجاتا ہے، ایک فقیہ ایک قول کو اختیار کرتا ہے، جبکہ دوسرا فقیہ دوسرے قول کو راجح قرار دیتا ہے، ایسے اختلاف کے وقت درج ذیل طریقوں سے راجح قول کو متعین کیاجائےگا:
الف: ترجیحِ صریح، ترجیحِ التزامی پر مقدم ہوگی، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ترجیح کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم تویہ ہے کہ کوئی فقیہ کسی قول کو صاف صریح الفاظ کےساتھ راجح قرار دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ترجیح کےلیے کوئی لفظ تو استعمال نہ ہو، لیکن اسلوب اور بعض چیزوں کے التزام کی بنیاد پر کسی قول کا رجحان معلوم ہوجائے، پہلی قسم کو ترجیحِ صریح، جبکہ دوسری قسم کو ترجیح التزامی کہاجاتاہے۔ صریح ترجیح کے بھی بیس کے لگ بھگ الفاظ ذکر کیے جاتےہیں اور التزامی ترجیح کی بھی پندرہ کے قریب صورتیں ذکر کی جاتی ہیں، جن کی تفصیل اسی تحریر میں بقدرِ ضرورت ذکر ہوگی۔ 
ب: اگر دونوں طرف صریح ترجیح ہوں اور اسی میں تعارض پیدا ہوجائے تو ترجیح کے الفاظ میں مادے کےلحاظ سے ایک کو ترجیح دی جائے گی، جس لفظ کے مادے میں ترجیح کا معنیٰ غالب ہو، اس کو اختیار کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک قول کو ’’اظہر‘‘ یا ’’احوط‘‘ کہاگیا ہو اور اس کے مقابل دوسرے قول کے لیے’’مفتیٰ بہ‘‘ یا ’’فتویٰ‘‘ کا مادہ استعمال کیا گیا ہو تو اسی دوسرے قول کو راجح قرار دیاجائےگا۔ 
ج: استعمال اور صیغہ کے لحاظ سے کسی قول کو ترجیح دی جائے گی، مثال کے طورپر دونوں قولوں کو ایسے الفاظ سے ترجیح دی گئی ہو جن کا مادہ ایک ہو تواس میں سے اگر ایک طرف اسم تفضیل کا صیغہ موجود ہو تو اسی کو اختیار کیا جائے گا، چنانچہ لفظ ’’صحیح‘‘ اور ’’أصح‘‘ اگر آپس میں متعارض آجائیں تو بہت سے اہلِ علم کے نزدیک پہلے لفظ کے مقابلہ میں دوسرے لفظ کو اسی بنیاد پر مقدم کیا جائے گا۔ اسی طرح حصر وقصر کے صیغہ کو دوسرے پر مقدم کیا جائے گا، مثال کے طور پر ایک قول کے لیے ’’الفتویٰ علیہ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو اور دووسرے کے متعلق ’’علیہ الفتویٰ‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہو تو اسی دوسرے قول کو راجح قرار دیا جائے گا۔ 
د: ترجیح دینے والے حضرات کے فقہی مقام وطبقہ کو دیکھا جائے گا اور جس کا فقہی طبقہ بلند ہو، اسی کی ترجیح پر عمل کیا جائے گا۔ 
ھ: اگر ترجیحات میں اختلاف آجائے اور کسی صورت اس میں ترجیح کا کوئی معتد بہ طریقہ موجود نہ ہو(۲) تو اس صورت میں مفتی کو اختیار ہوگا کہ وہ ان دونوں تصحیح شدہ اقوال میں سے جس قول پر چاہے فتویٰ دے سکتا ہے۔ (البتہ اس میں احتیاط کا پہلو اور ضابطہ کی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قوتِ دلیل وغیرہ مرجحات کو بنیاد بناکر فتویٰ دیا جائے)۔ 

متقدمین کے ہاں مسئلہ مذکور نہ ہو

یہ تفصیل تو اس وقت ہے کہ متقدمین کی کتابوں میں مسئلہ موجود ہو۔ اگر کہیں کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہوجائے جس کا متقدمین کی کتابوں میں کوئی سراغ نہ ملے، تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ متأخرین فقہاء اور مشائخ حنفیہ کی کتابوں میں وہ مسئلہ ذکر ہوگا یا نہیں؟
4- اگر متاخرین فقہاء کے یہاں وہ مسئلہ مذکور ہو، تو اگر وہ حضرات کسی ایک قول پر متفق ہوں تو وہی بات راجح قرار پائےگی۔ 
5- اگر متقدمین کے ہاں مسئلہ مذکور نہ ہو اور متاخرین کے یہاں اس میں اختلاف کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں اکثریت کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔ 

متاخرین کے ہاں بھی مسئلہ مذکور نہ ہو

اگر مسئلہ جدید نوعیت کا ہو اور متاخرین مشائخِ احناف نے بھی اس سے کہیں تعرض نہ کیا ہو، تو اس صورت میں:
6- عام فرد کی ذمہ داری تو یہی ہے کہ مستند اہلِ علم کی طرف رجوع کریں اور جو اہلِ علم فقہی ذوق، فتوی کا تجربہ اور استخراج کی صلاحیت رکھتےہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ قواعدِ مذہب اور اشباہ ونظائر کو سامنے رکھ کر کوئی مناسب حل نکالیں۔ 

ترجیح صریح کے الفاظ

صریح ترجیح میں وہ تمام الفاظ داخل ہیں جو کسی قول کے راجح ہونےپر کسی درجہ میں دلالت کرتے ہیں، چاہے وہ فتویٰ اور رجحان کےصریح الفاظ ہوں یا ان کے علاوہ۔ اس لحاظ سے اس کے تحت دسیوں الفاظ داخل ہوجاتے ہیں، جن میں سےمشہور الفاظ درج ذیل ہیں:
’’عليہ الفتوی. بِہٖ يُفتی. بہٖ نأخذ. وعليہ الاعتماد. عليہ عمل اليوم. عليہ عمل الأمّۃ. ہو الصّحيح. ہو الأصحّ. ہو الأظہر. ہو المختار في زماننا. فتوی مشائخنا. ہو الأشبہ. ہو الأوجہ. ہو الأحوط۔‘‘(۳)
یہ ترجیح صریح کے وہ الفاظ ہیں جو عام طور پر فقہی کتابوں میں ترجیح وتصحیح کے وقت استعمال ہوتے ہیں۔ ان الفاظ کو دیکھ کرراجح قول کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اگر کہیں اس قسم کے الفاظ آپس میں متعارض ہوجائیں کہ مثلاً ایک مسئلہ میں دو اقوال منقول ہیں اور دونوں کے لیے اس طرح ترجیح کے الفاظ بھی ذکر ہوں تو اس صورت میں اس تعارض کے ختم کرنے اور صحیح قول کو متعین کرنے کا طریقہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ 

ترجیحِ التزامی کے اسباب و وجوہات

ترجیحِ التزامی کے عام متبادر وجوہات واسباب درج ذیل ہیں:
1- کسی قول کا ظاہر الروایۃ ہونا وجہ ترجیح ہے، چنانچہ اگر ترجیح صریح موجود نہ ہو تو ظاہر الروایہ کو نادر روایات پر مقدم رکھا جائے گا۔ (۴)
2- قیاس کے مقابلہ میں استحسان کو ترجیح دی جائے گی، البتہ چند ایک مخصوص جگہوں میں قیاس کو راجح قرار دیا گیا ہے۔ 
3- متون شروح سے اور وہ فتاویٰ کی کتابوں پر مقدم ہیں، لہٰذا اگر دو ایسے اقوال میں تعارض دکھائی دے دے جن میں سے ایک قول متونِ معتبرہ میں موجود ہو اور دوسرا صرف شروح میں یا فتاویٰ میں ہو تو شروح کےمقابلہ میں متن والے قول کو اور فتاویٰ میں درج قول کی بنسبت شروح میں مذکورہ قول راجح شمار ہوگا۔ 
4- صاحبِ قول کا طولِ ممارست بھی ایک وجہ ترجیح ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر فقہاء نے عبادات کے باب میں حضرت امام اعظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کے قول، قضاء اور اس کے متعلق مسائل کے باب میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ  کے قول، جبکہ ’’ذوي الأرحام‘‘ کے مسائل میں حضرت امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ 
5- اکثریت بھی ایک وجہ ترجیح ہے۔ ایک قول میں حضرات فقہاء کرام کااختلاف ہو اوراس میں کسی قول کوترجیح نہ دی گئی ہو تو اکثر فقہاء جس طرف ہیں، اس کو اختیار کیاجائےگا۔ وجہ یہی ہے کہ کم افراد کی بنسبت اکثر افراد کا حق تک رسائی حاصل کرنےکا زیادہ امکان ہے۔ 
6- ترجیح وتصحیح کی لیاقت رکھنےوالے فقیہ کا التزام: یہ بھی ایک وجہ ترجیح ہے، مثال کےطور پر علامہ فخر الدین قاضی خان  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے ’’فتاویٰ‘‘ میں لکھاہے کہ اختلافی مسائل میں جو قول میرے نزدیک راجح ہوگا، میں اس کو پہلے ذکر کروں گا، اوراس کا عملی طور پر التزام کررکھاہے۔ اب ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘میں کسی قول کا مقدم ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ مؤلف کے نزدیک وہی قول زیادہ راجح ہے۔ یہی التزام’’ملتقی الأبحر‘‘ میں بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح صاحب ِہدایہ کی عادت ہے کہ راجح قول کوآخر میں ذکر کرتےہیں تو ان کے ہاں یہ چیز التزامی ترجیح کے مترادف ہوگی۔ بعض فقہاء اس بات کا التزام کرتےہیں کہ اختلافی مسائل واقوال میں جو قول زیادہ راجح ہوتاہے اس کی دلیل وتعلیل ذکرتےہیں، جبکہ دیگر اقوال کی علت ذکر نہیں کرتے، توان کے ہاں یہی تعلیل قابلِ ترجیح (التزامی) ہوگی۔ 
7- کسی قول کو صراحت کےساتھ تو ترجیح نہ دی گئی ہو، لیکن اس میں کوئی وجہ ترجیح موجود ہو، مثال کے طور پر:
الف:کسی قول کی دلیل کا واضح طور پر مضبوط ہونا۔ 
ب:کسی قول کا زمانےکے تقاضے کےساتھ زیادہ ہم آہنگ ہونا۔ 
ج: کسی قول کا وقف کےلیے زیادہ سود مند ثابت ہونا۔ 
د: کسی قول کا مذہب کے عام قواعد وضوابط کے قریب تر ہونا۔ 
ھ: کوئی قول ایسا ہو جس کو اختیار کرنے کی صورت میں کسی مسلمان کا ایمان واسلام بچ سکے اور اس کو کافر ومرتد کہنےسے بچاؤ ہوسکے۔ 

دوسرے مذاہب پر فتویٰ دینا

جو افراد اجتہادی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کےلیے تقلید ِشخصی عام حالات میں ضروری ہے اور اپنے مذہب سے نکل کر دوسرےمذاہب کے کسی قول پر فتویٰ دینا عام حالات میں ممنوع ہے، بعض مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے، جس کےلیے بنیادی طور پر درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
الف: واقعۃً کوئی ضرورت در پیش ہواوراسی کی خاطر دوسرے مذہب کی طرف جایاجائے، اور ظاہر ہے کہ اس طرح ضرورت کے متحقق ہونے کا فیصلہ کرنا ہر ماوشما کا کام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خاص درجہ کا فقہی ذوق ومہارت ضروری ہے، لہٰذا محض سہولت پسندی کےجذبےسے ایسا کرنا درست ہے اور نہ فقہ وفتویٰ کے ذوق سے نابلد افراد کا فیصلہ معتبر ہے۔ 
ب:جس مذہب کے مسئلہ کو لینا ہو، اس کو تمام شرائط اور حدود وقیود کےساتھ لیاجائے، اس میں محتاط اور بہتر صورت یہی ہے کہ متعلقہ مذہب کے مستند اہلِ فتویٰ علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ 
ج: تلفیقِ مذموم کی صورت اختیار نہ کی جائے۔ تلفیق کا حاصل یہ ہے کہ ایک ہی عمل کے ایک جزءمیں ایک مذہب کی بات لی جائے اور دوسرے اجزاء میں دوسرے مذاہب کےاحکام کو لیاجائے اوراس کے نتیجے میں کوئی ایسا عمل وجود میں آئے جو کسی بھی مذہب میں درست نہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

حواشی وحوالہ جات

۱: متقدمین اور متاخرین سے کون کون حضرات مراد ہیں؟ اوراس کا معیار کیاہے؟ اس کی تعیین میں آراء مختلف ہیں: 
۱-تیسری صدی ہجری کے اختتام تک جو علماء گزرے ہیں، وہ متقدمین اور اس کے بعد متاخرین کہلاتےہیں۔ ۲-امام محمد رحمہ اللہ تک کے فقہاء متقدمین ہیں اوراس کے بعد متاخرین۔ ۳- جنہوں نے امام صاحب یا حضرات صاحبین رحمہما اللہ کا زمانہ پایا ہے، وہ متقدمین ہیں اور اس کے بعد متاخرین ہیں۔ اس کو اختلافِ اقوال پر بھی محمول کیاجاسکتاہے اور موقع ومحل کے لحاظ سے استعمال کے اختلاف پر بھی حمل کرنا ممکن ہے۔ 
۲: یعنی صریح اور التزامی اسبابِ ترجیح میں سے کوئی سبب موجود نہ ہو تب مفتی کو اختیار ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختیار دینے کےلیے صرف ترجیح کے الفاظ واسباب کا متعارض ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہےکہ دونوں متعارض وجوہ کا جائزہ لیاجائے اور دیگر مرجحات کو سامنے رکھ کر زیادہ راجح قول کا تعین کیا جاسکے۔ اس تفصیل سے فتویٰ کے کام کی نزاکت وپیچیدگی کا کچھ اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ 
۳:  شرح عقود رسم المفتي، ص:۹۷
۴: ظاہر الروایۃ کا معیار ومدار کن کتابوں پر ہے؟ اوراس میں امام محمد رحمہ اللہ کی کون کونسی کتابیں داخل ہیں: اس میں بھی اہلِ علم کی آراء مختلف ہیں: بعض حضرات کے نزدیک امام محمد رحمہ اللہ کی چھ کتابیں ظاہر الروایۃ کا مصدر ہیں، وہ چھ کتابیں یہ ہیں: الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔ کتاب الأصل۔ زیادات۔  علامہ شامی رحمہ اللہ نے ’’شرح عقود‘‘ متن وشرح میں اسی قول کو اپنایاہے اور مشہور قول بھی یہی ہے۔ 
بعض حضرات کی عبارت سے مترشح ہوتاہے کہ سیر کبیر وصغیر اس میں داخل نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو:فتح القدیر، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج:۸، ص:۳۳۳) جبکہ بعض محققین کا موقف یہ ہے کہ سیر صغیر کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت کتاب الأصلہی کی کتاب السیرہے جو ’’السیر الکبیر‘‘ کی بنسبت ’’صغیر‘‘ کہلائی، ’’کتاب الأصل‘‘ کے محقق دکتور محمد بوینو کالن نے بھی اسی خیال کا اظہار فرمایا ہے ۔(ملاحظہ ہو: مقدمہ کتاب الاصل، ص:۳۳)، اس لیے اس قول کے مطابق ظاہر الروایۃ کا اصل ومصدر بقیہ پانچ کتابیں ہیں۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین