بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حماس کا طوفان الاقصیٰ آپریشن

حماس کا طوفان الاقصیٰ آپریشن


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء صبح تقریباً ۵ اور ۶ بجے کے درمیان حماس کے مجاہدین نے فضائی، سمندری اور زمینی تینوں راستوں سے اسرائیل پر حملہ کیا۔ میڈیائی ذرائع کے مطابق غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاکر فلسطینی مجاہدین زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت تقریباً آٹھ شہروں میں داخل ہوئے اور ان میں موجود فوجی چھاؤنیوں اور ان کی چیک پوسٹوں کا کنٹرول سنبھال لیا، جب کہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مدد سے بھی حملہ کیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حماس کے مجاہدین نے چند منٹ میں پانچ ہزار سے زائد راکٹ اسرائیل پر برسائے، جس سے اسرائیل حواس باختہ ہوگیا۔ حماس نے اسرائیل کے درجنوں فوجی افسران کو بھی یرغمال بنالیا، جس میں بریگیڈئیر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل، ان کے انٹیلی جنس چیف اور نیوی کے سرکردہ سربراہان شامل ہیں۔ اسرائیل سمیت پوری دنیا کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ دنیا کی طاقت ور ترین اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو حماس نے کیسے ناکام کردیا اور اتنی بڑی منظم اور کامیاب کارروائی کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا، جسے اسرائیل خود ۱۱/۹  قرار دے رہا ہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں اسرائیل کو ابتدا میں سنبھلنے تک کا موقع نہیں ملا، اس کا انٹیلی جنس نظام اور دفاعی سسٹم مکمل طور پر ناکام رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کا طاقت ور ترین اور بہترین میزائل شکن سسٹم اسرائیل کے پاس ہے، جو اس اچانک اور یکدم راکٹ حملوں کے سامنے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوا۔
اخبارات کے مطابق اب تک اسرائیلی فوج کے اڈوں اور دوسرے ٹھکانوں پر حملوں کے نتیجے میں ۹۰۰  سے زائد صہیونی ہلاک جب کہ ۶۸۷ نہتے فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ مدت سے محصور علاقے غزہ میں شہری آبادی، حماس کے مفروضہ ٹھکانوں، مساجد، اسکولوں، ہسپتالوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں کو نشانہ بنارہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پورے غزہ کا محاصرہ کرکے بجلی اور پانی جیسی ضروریاتِ زندگی کو معطل اور مصر کے رفاہ بارڈر کو بند کردیا ہے، جس کا نقصان یہ ہے کہ ہر قسم کی غذائی اجناس غزہ میں آنا رُک گئی ہیں، گویا غزہ بالکل جیل نما بن چکا ہے۔ اسرائیل تمام جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر غزہ میں جہاں کہیں اجتماع دیکھتا ہے یا کوئی بڑی بلڈنگ اسے نظر آتی ہے، وہاں بمباری کررہا ہے۔
اب اسرائیل کو جنگ بندی کی اس لیے بھی جلدی پڑگئی ہے کہ اس کے اتنے فوجی افسران پکڑے گئے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کا اس پر دباؤ ہے، جب کہ حماس کے مجاہدین نے جنگ بندی کو یکسر مسترد کردیا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل آبادیوں پر بمباری بند کردے، ورنہ ان کے قیدی فوجیوں کو سب کے سامنے ایک ایک کرکے قتل کیا جائے گا۔ اخبارات کے مطابق اسرائیل نے یہ بھی حماقت کی ہے کہ بدحواسی میں اس نے لبنان پر بمباری کی ہے اور اس کے ردِ عمل میں حزب اللہ بھی اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور میدان میں آگئی ہے۔
حماس کے ترجمان خالد قدومی نے کہا ہے کہ: ’’دہائیوں پر مشتمل اسرائیلی مظالم کے خلاف ہم نے فوجی کارروائی کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ہمارے مقدس مقامات جیسے الاقصیٰ پر ہونے والے مظالم بند کروائے اور یہی مظالم جنگ شروع کرنے کی وجہ ہیں، یہ زمین پر آخری قبضے کو ختم کرنے کی سب سے بڑی جنگ کا دن ہے۔‘‘
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے جہاں پوری پاکستانی قوم سے فلسطینیوں کی حمایت کی اپیل کی ہے، وہاں انہوں نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو بھی جھنجھوڑا ہے اور کہا ہے کہ:
’’ایک روز قبل فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل پر جو حملہ کیا ہے، یہ حملہ بہت تاریخی کامیابی ہے، میں اس کو ایک تاریخی معرکہ سے تعبیر کرتا ہوں، جن علاقوں پر انہوں نے قبضہ کیا ہے، یہ ان کے اپنے علاقے ہیں اور اپنے علاقے انہوں نے واپس لیے ہیں۔ اس حوالے سے میں فلسطین کی عوام کو اور فلسطین کے مجاہدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دنیا نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ فلسطین اور فلسطین کا مسئلہ اور فلسطینیوں کا موقف وہ ابدی نیند سو چکا ہے، اب فلسطین کا موضوع دوبارہ نہیں اُٹھ سکے گا اور ناعاقبت اندیشوں نے دنیا میں یہ بات پھیلائی اور ہمارے ہاں ایک طبقہ اور ایک عنصر پیدا ہوا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے موضوع کو ترجیح دلائی، اس کی اہمیت سے لوگوں کو متاثر کرنے کی ناکام کوشش کی، میں سمجھتا ہوں کہ آج اس معرکے نے فلسطین کے مسئلے کو زندہ ہی نہیں کیا‘ ثابت کیا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ مرا نہیں اور آج اس کی اہمیت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ 
اس حملے میں اسرائیل کے پورے دفاعی نظام کو ناکام بنا دیا گیا ہے، ان کے گھمنڈ کو زمین بوس کر دیا گیا ہے، ان کی انٹیلی جنس کو ناکام بنا دیا ہے۔ دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کوئی قوت نہیں، اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس قوت کو جس انداز سے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جا رہا ہے، یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہا ہے۔ میں ساتھ ہی یہ بات بھی اپنے فلسطینی بھائیوں سے اور مجاہدین سے کہوں گا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں، اسے تحفظ دیں، اس کا لحاظ رکھیں، بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کو گزند نہ پہنچائیں، ان کی زندگیاں تلف نہ کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اسرائیل اور صہیونی جنہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی، ان کے بچوں کو قتل کیا، ماؤں کے سامنے قتل کیا، والدین کے سامنے قتل کیا، اور کوئی احترامِ آدمیت انہوں نے نہیں دکھائی، آج ہمیں اس کے بدلے میں یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمان کس طرح انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اس حوالے سے ہم ضرور فلسطینیوں سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ میں بھرپور کردار ادا کریں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اقوامِ متحدہ بھی اپنا فرض پورا کرے، ۱۹۶۷ء کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے، بیت المقدس کو مسلمانوں کے حوالے کرے اور اس کو فلسطین کا دارالخلافہ تسلیم کرے۔ ہم اس حوالے سے جو بھی اپنا موقف رکھتے ہیں، اس حوالے سے ہم ایک او آئی سی کا بھرپور اور فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اس میں ہمارے دوست ملک انتہائی قابلِ احترام سرزمین سعودی عرب سے بھی بھرپور کردار ادا کرنے کی ہم توقع رکھتے ہیں، وہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلائے۔ پاکستان کی گورنمنٹ فوری طور پر اس حوالے سے کردار ادا کرے، تاکہ اسلامی دنیا بیٹھ کر اس نئی معروضی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئے زاویۂ نظر کے ساتھ اپنے موقف کا تعین کرے، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب تک فلسطین کو تسلیم نہیں کیا جاتا، فلسطینیوں کو اس کی سرزمین نہیں دی جاتی، کبھی بھی مشرقِ وسطیٰ میں امن نہیں آسکتا۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور اسی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے رویوں پہ نظر رکھنی چاہیے، عرب دنیا کو بھی، پوری اسلامی دنیا کو بھی، اور میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ اگلے جمعہ ان شاءاللہ العزیز پورے ملک میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جائے گا۔ 
پورے ملک کے عوام، پاکستانی قوم اس حوالے سے میدان میں آئے اور اسلامی وحدت کا ثبوت پیش کرے کہ اسلام ایک دین ہے اور مسلمان ایک جسم ہیں اور جسم کے کسی حصے میں بھی اگر کوئی تکلیف ہے تو اس کا احساس پوری دنیا کا مسلمان کر رہا ہے۔ پاکستانی قوم اس حوالے سے ان شاءاللہ! اپنا کردار ادا کرے گی، اپنی رائے دے گی، یکجہتی کا مظاہرہ کرے گی اور جمعے کو جمعہ کی نماز کے بعد پورے ملک میں ان شاءاللہ العزیز! اس حوالے سے یکجہتی کا دن منایا جائے گا، بھرپور مظاہرے کیے جائیں گے۔ میں اس حوالے سے پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ یکجہتی کے اس دن کو بھرپور طور پر کامیاب بنائے۔‘‘
اس موقع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اکابرین نے عالمِ اسلام سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاق المدارس العربیہ کے اکابرین نے عالمِ اسلام سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی اپیل کردی۔ قائدین نے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں ظلم وستم اور جبر کے ذریعہ نہ کسی کو غلام بنایا جاسکتا ہے اور نہ کسی سرزمین پر قبضہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے فی الفور مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا جائے، ملک بھر کے مسلمان مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے خصوصی دعائیں اور ہر ممکن تعاون بھی کریں۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا انوار الحق، مولانا محمد حنیف جالندھری اور دیگر نے اپنے بیان میں کہا کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم معاشروں پر اپنے اپنے دائرہ کار کے حساب سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تمام مسلمانوں کو فلسطین کے معاملے میں اپنا بھرپور اور مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے، بصورتِ دیگر دنیا کا امن وامان ہمیشہ داؤ پر لگا رہے گا۔ قائدین نے فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی مدد ونصرت، شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعا بھی کی۔‘‘ (روزنامہ امت، ۱۰ ؍اکتوبر ۲۰۲۳ء)
مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عرب ممالک اور دوسرے مسلم ممالک کو ایک ساتھ آگے آنا چاہیے اور کوئی روڈمیپ تیار کرنا چاہیے، کیونکہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں، بلکہ دنیا بھر کے عوام، حقوقِ انسانی کے علم برداروں، حقوقِ انسانی کے کارکنان اور تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ہر ایک انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے ہمارے ادارتی مضمون (مطبوعہ: ماہنامہ بینات محرم الحرام ۱۴۴۲ھ مطابق ستمبر ۲۰۲۰ء) بعنوان’’اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا جذباتیت ہے یا حقیقت پسندی؟‘‘ کا مطالعہ کرنامفید رہے گا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین