بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حلال وحرام کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی کی شرعی حیثیت (پہلی قسط)

حلال وحرام کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی کی شرعی حیثیت

                             (پہلی قسط)

’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ  إِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔‘‘                                                     (البقرۃ:۱۶۸) ترجمہ: ’’اے لوگو!کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور پیروی نہ کرو شیطان کی، بیشک وہ تمہارا دشمن ہے صریح۔‘‘                (ترجمہ از معارف القرآن ،مولانامفتی محمد شفیع v) قرآن کریم نے انسان کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا ہے، بعض مقامات پر اے لوگو! بعض جگہ اے ایمان والو! پھر ان دونوں قسم کے خطابوں میں کبھی خاص کسی ایک قوم سے خطاب ہے ، کبھی  جمیع ِانسانیت سے، اورکبھی خطاب تو کسی خاص گروہ کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سے مقصود سنانا پوری انسانیت کو ہوتا ہے، اسی وجہ سے علماء ِامت نے صدیوں کی محنت کے نتیجے میں مختلف قرآنی اسالیب کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے قوانین واصول وضع کیے ،جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے ،تاکہ لوگ ان اصولوں کی مدد سے قرآن کریم کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے سمجھ سکیں اور گمراہی سے بچ سکیں۔ مندرجہ بالا آیت کو موضوعِ بحث بنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک سفر کے دوران  مختلف اسلامی ممالک کے ان ذمہ دار افراد سے ملاقات ہوئی جو حلال فوڈ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ اس آیت میں عربی زبان کے ظاہری الفاظ ’’یٰأَیُّھَا النَّاسُ‘‘یعنی اے لوگو!کو بنیاد بناکر حلال وحرام کے متعلق غیر مسلموں کی شہادت کا جواز تلاش کر رہے تھے، جو بحیثیت مسلمان میرے لیے بہت تعجب  کی بات تھی ۔ دعویٰ اورطریقۂ استدلال ان کا دعویٰ اور طریقۂ استدلال یہ تھا کہ چونکہ آیت میں پوری انسانیت سے خطاب ہے، یعنی: ’’اے لوگو! کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور پیروی نہ کرو شیطان کی، بیشک وہ تمہارا دشمن ہے صریح۔‘‘ لہٰذا غیر مسلم بھی حلال وحرام میں مخاطب ہوئے اور جب وہ مخاطب ہیں تو یہ کہنا کہ حلال وحرام کا شعبہ صرف مسلمان ہی چلا سکتے ہیں،صحیح نہ ہوگا ،بلکہ غیر مسلم بھی اس شعبے کو چلا سکتے ہیں ۔ اگرچہ مذکورہ عربی الفاظ میں مسلم وغیرمسلم سب داخل ہیں ، لیکن اس کی یہ تشریح کرنا کہ اس سے کفار کو حلال کے حوالے سے شہادت دینے کا جواز بھی حاصل ہوجائے ، درست نہیں، کیونکہ قرآن وسنت کی وہی تشریح معتبر ہوگی جو قرآن وسنت کے معروف مقررہ اُصولوں کے مطابق ہوگی ۔ متعلقہ مفید معلومات اس قرآنی پیغام کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں مندرجہ ذیل امور سے متعلق معلومات کا ہونا ضروری ہے: ۱:…اے لوگو! کا خطاب قرآن کریم میں کتنی بار آیا اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ۲:…اس آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ ۳:…اس آیت کا خطاب عام ہے یا خاص؟ ۴:…اس آیت میں کن اُمور سے متعلق احکامات نازل ہوئے؟ ۵:…یہ دعویٰ کہ غیر مسلم حلال وحرام کے شعبے میں شہادت کا اہل ہے، اس آیت سے ثابت ہوتاہے یا نہیں؟ ۶:… حلال وحرام کے شعبے میں شریعت غیر مسلم کو کیا اور کس حد تک اختیار دیتی ہے؟ ۱:…اے لوگو!کا خطاب قرآن کریم میں کتنی بار آیا اوراس کے مقاصد کیا تھے ؟ اے لوگو!کا خطاب قرآن کریم میں کم وبیش بیس مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: (البقرۃ:۲۱)، (البقرۃ:۱۷۲)، (النسائ:۱)، (النسائ:۱۷۰)، (النسائ:۱۷۴)، (الأعراف: ۱۵۸)، (یونس:۲۳)، (یونس:۵۷)، (یونس:۱۰۴)، (یونس:۱۰۸)، (الحج:۱)، (الحج:۵)، (الحج:۴۹)، (الحج:۷۳)، (النمل:۱۶)، (لقمان:۳۳)، (فاطر:۳)، (فاطر:۵،۶)، (فاطر:۱۵)، (الحجرات:۱۳) مندرجہ بالا آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کی بعثت تب ہوتی ہے جب انسان اپنے حقیقی خالق کو بھول بیٹھتا ہے اور شرک وکفر شروع کردیتا ہے تو اللہ رب العزت فوراً اس کی  پکڑ نہیں فرماتے، بلکہ اُسے موقع فراہم کرتے ہیں، تاکہ بندہ اپنے حقیقی خالق کی طرف لوٹ آئے ؛ کیونکہ اللہ رب العزت کی ذات سراپارحمت ہے تو اپنے بندوں سے خطاب میں بھی رحمت کی صدا بلند فرماتے ہیں کہ گمراہی چھوڑدو!لوٹ آؤ!آخرت کا حساب سخت ہے ، وغیرہ۔ ان آیات میں’’اے لوگو! کا جو خطاب ہے، اس میں حسبِ ترتیب چند امور کی طرف توجہ مطلوب ہے، جو یہ ہیں: ۱:…اطاعت کی ترغیب اور ناکامی سے بچانا۔ (سورۃ البقرۃ، آیت :۲۱) ۲:…انسانیت پر رحم کھانا اور بغاوت کے باوجود اُنہیں اپنی نعمتیں گنوا کرجتلانا، بلاوجہ کیوں مجھ پر بھی تہمت باندھتے ہو اور خود پر بھی ظلم کرکے اشیاء کو حرام کرتے ہو جو تمہارے لیے مفید ہیں اور جو نقصان دہ ہیں، انہیں حلال کرتے ہو۔(سورۃ البقرۃ، آیت :۱۷۶) ۳:… قیامت کی سختی سے آگاہ کرنا اور اس سے بچنے کا طریقہ بتانا جو کہ تقویٰ ہے۔ (سورۃ الحج، آیت:۱) ۴:…لوگوں کے سوالات کا مثالوں کے ساتھ جواب دینا کہ انہیں تشفی ہوجائے اور قیامت کے دن عذر نہ کریں کہ ہمیں کچھ معلوم ہی نہ تھا۔ (سورۃ الحج، آیت :۵) ۵:…لوگوں کی طرف سے آپ a کی حیثیت پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دینا۔ (سورۃ الحج، آیت :۴۹) ۶:…جو انسان اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں، اُنہیں بھی انتہائی پیار سے سمجھانا کہ جنہیں معبود بنابیٹھے ہو، وہ تو ایک مکھی تک نہیں بناسکتے۔ (سورۃ الحج، آیت:۷۳) ۷:…حضرت سلیمان m کا اپنی اُمت سے خطاب۔ (سورۃ النمل، آیت :۱۶)  ۸:…اللہ تعالیٰ کا اپنے احسانات یاد دلانا ۔ (سورۂ لقمان، آیت :۳۳) ۹:…اپنے کیے گئے وعدوں کے حق اور سچ ہونے کا یقین دلانا۔ (سورۃ الفاطر، آیت:۳) ۱۰:… اپنی بے نیازی کا اعلان ۔(سورۃ الفاطر، آیت :۱۵) ۱۱:… انسان کو اس کی تخلیق سے متعلق یاد دلانا ۔ (سورۃ الحجرات، آیت :۳۱) مندرجہ بالاآیات پر ایک مجموعی نظر(خلاصہ ونتیجہ) قرآن کریم میں ان مقامات پر انسانیت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں آنے کی دعوت تو ضرور دی گئی ہے، مگر کہیں بھی ’’اے لوگو!‘‘ کے خطاب سے غیر مسلمانوں کو شرعی احکامات کا اہل نہیں بنایا گیا، کیونکہ اہلیت کے لیے ایمان شرط ہے۔ اسی لیے ان گیارہ آیات میں ایمان کی دعوت توسب کو دی گئی ہے، مگر ان سے شرعی احکام اور شرعی حقوق کی پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ۲:-اس آیت کا شان نزول کیا ہے؟ ’’اے لوگو!‘‘ کا خطاب شانِ نزول کی مناسبت سے تو خاص قبیلہ ثقیف وخزاعہ وعامر ابن صعصعہ وبنی مدلج کو ہے، جنہوں نے اپنے اوپر ازخود وہ چیزیں حرام کی تھیں، جو اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور کچھ وہ چیزیں حلال کی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں، جیسا کہ مفسرین نے اس کی تفصیل میں ذکر کیا ہے، مثلاً:مشرکین عرب بتوں کے نام سانڈ چھوڑ دیتے تھے، پھر ان جانوروں کا گوشت کھانا یا ان سے کسی طرح کا بھی نفع اُٹھانا حرام سمجھتے تھے یا کسی مخصوص کھانے پر اپنی طرف سے پابندیاں عائد کر کے اُسے حرام قرار دے لیتے تھے۔ یہی صورت کسی حرام چیز کو حلال قرار دینے کی ہوتی تھی ، جیسے: یہود نے سود کو حلال قرار دیاتھا، وغیرہ وغیرہ ۔ (ابن کثیر) مفسرین نے یہی تفسیر مندرجہ ذیل تفسیروں میں کی ہے:’’تفسیر روح المعانی، مظہری، مقاتل بن سلیمان، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن تفسیر البغوی، الجامع لأحکام القرآن ، غرائب القرآن ورغائب الفرقان۔‘‘  ’’یٰأَیُّھَا النَّاسُ ‘‘ میں پہلا خطاب جن لوگوں سے کیا گیا ،وہ لوگ کون تھے؟ وہ لوگ قریش کے مشرکین تھے: ’’وکان لہم علی قوم من قریش۔‘‘ (الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، تفسیر النسفی [مدارک التنزیل وحقائق التأویل]) ۳:…اس آیت کا خطاب عام ہے یا خاص ؟ حضرت حسن بصری v کا قول ’’البحر المحیط‘‘ نے نقل کیا ہے کہ:اے لوگو! ’’یہ عام خطاب ہے ہر اس شخص کو جو اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام قراردیتا ہے جو اللہ رب العزت نے حرام قرار نہیں دیں: ’’قَالَ الْحَسَنُ:نَزَلَتْ فِی کُلِِ مَنْ حَرَّمَ عَلٰی نَفْسِہٖ شَیْئًا لَمْ یُحَرِّمْہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔‘‘ (البحر المحیط فی التفسیر۔ فتحُ البیان فی مقاصد القرآن ) ۴:…اس آیت میں کن امور سے متعلق احکامات نازل ہوئے ؟ اس آیت کو سمجھنے کے لیے اس کے بعد کی دونوں آیات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا ، تب پورا موضوع سمجھ آئے گا: ۱:…’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ  إِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔‘‘                                                  (البقرۃ:۱۶۸) ’’اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں، ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ (برتو) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، فی الواقع وہ تمہارا صریح دشمن ہے ۔‘‘ ۲:…’’یٰأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۔‘‘                                                            (البقرۃ:۱۷۲) ’’اے ایمان والو جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو ۔‘‘ ۳:…’’إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘           (البقرۃ:۱۷۳) ’’تم پر مردہ اور (بہتا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو‘ حرام ہے، پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ سورۂ بقرہ کی آیت: ’’یٰأَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْأَرْضِ حَلَالاً طَیِّبًا‘‘ میں دو پیغام دیئے گئے: اس خطاب کا مقصد آپ a کے نبی برحق ہونے کو پیش کرنا ہے، وہ اس طرح کہ اہل مکہ حضرت ابراہیم m کے ماننے والوں میں شمار ہوتے تھے اور جب انہوں نے دین ِابراہیمی میں شرک شروع کردیا اور اپنے اوپر ان اشیاء کو حرام کیا جو حضرت ابراہیم m کے دین میں حرام نہ تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے نبی کے ذریعے پیغام دیا کہ اگر تم ان اشیاء کو دین ِابراہیمی کو بنیاد بناکر حرام قرار دیتے ہوتو جان لو! تم خود کو بھی دھوکا دے رہے ہو اور اپنے ماننے والوں کو بھی ، کیونکہ دینِ ابراہیمی میں ہم نے ایسا کچھ حرام نہیں کیا جو تم کر بیٹھے ہو۔گویا کہ مشرکین مکہ کو ’’یٰأَیُّہَا النَّاسُ ‘‘ کے ذریعہ فروعی احکام میں آسمانی ہدایات کی پابندی کا مطالبہ اس بنیاد پر نہیں تھا کہ وہ حلال وحرام جیسے فروعی احکام کے مخلف وپابند ہیں، بلکہ یہ مطالبہ محض الزامی تھا اور دین ابراہیمی کی تطہیر واصلاح آپ a کے مقاصد میں شامل تھا، اس لحاظ سے ’’یٰأَیُّہَا النَّاسُ ‘‘ کے خطاب کے ذریعہ مشرکین مکہ کو دین محمدی کی طرف آنے کی دعوت تھی، نہ کہ فروع کی پابندی کا تقاضا۔ دوسرا پیغام مسلمانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ خود کسی شئے کو اپنے اوپر حرام قرار نہیں دے سکتے، بلکہ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسلمان کے لیے اصل معیار اللہ تعالیٰ اور رسول (a) کا بتایا ہوا قانون ہے۔ شریعت نے جس شئے کو جس حد میں رکھا ہے، اسی میں رہنے کا حکم ہے، یعنی طبیعت تابع ہوگی شریعت کی، نہ کہ شریعت کو کھینچ تان کر طبیعت کا تابع بنا لیا جائے۔ یہ آیت حکم شرعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ مسلمانو! زمین میں سے ہر اس شئے کو کھا سکتے ہو جو حلال اور طیب ہو۔  یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم آنے کے بعد اس پر عمل لازم ،باعثِ صحت وثواب وبرکت ہے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں گناہ،دین ودنیا کا خسارہ اور آخرت کی ناکامی ہے۔ اسی لیے اگلی احکامات والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مستقل صرف اہل ایمان سے خطاب کیا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔‘‘                   (البقرۃ:۱۷۳) ’’اے ایمان والو !جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو!اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے رہو ۔‘‘ یعنی پہلا خطاب پوری انسانیت سے اور فورا ً دوسرا خطاب صرف مسلمانوں سے ہوا، اس کی   آخر وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب علامہ شبیر احمد عثمانی v نے تفسیر عثمانی میں دیاہے، فرماتے ہیں: ’’اکل ِطیبات کا حکم اُوپر گزر چکا تھا، لیکن مشرکین چونکہ شیطان کی پیروی سے باز نہیں آتے اور احکام اپنی طرف سے بنا کر اللہ کے اُوپر لگاتے ہیں اور اپنے آبائی رسومِ باطلہ کو نہیں چھوڑتے اور حق بات سمجھنے کی ان میں گنجائش ہی نہیں تو اب ان سے اعراض فرما کر خاص مسلمانوں کو اکلِ طیبات کا حکم فرمایا گیا اور اپنا انعام ظاہر کر کے اداء ِ شکر کا امر کیا گیا۔ اس میں اہلِ ایمان کے مقبول اور مطیع ہونے کی جانب اور مشرکین کے مردود ومعتوب و نافرمان ہونے کی طرف اشارہ ہوگیا۔‘‘     (تفسیرعثمانی از شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی v، ج:۱،ص:۱۴۵) مذکورہ بالا تفسیر کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کے عیوب بھی گنوائے ہیں، جیسا کہ: ۱:… شیطان کی پیروی سے باز نہیں آتے: ’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔‘‘ (النور:۲۱) ۲:…احکام اپنی طرف سے بنا کر اللہ کے اُوپر لگاتے ہیں:’’وَأَنْ تَقُوْلُوْا عَلٰی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔‘‘ (البقرۃ:۱۶۹) ۳:…اپنی آبائی رسومِ باطلہ کو نہیں چھوڑتے: ’’وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْہِ آبَائَ نَا۔‘‘ (البقرۃ:۱۷۰) ۴:…حق بات سمجھنے کی ان میں دلچسپی ہی نہیں: ’’وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَائً وَّنِدَائً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ۔‘‘ (البقرۃ:۱۷۱) مذکورہ بالا عیوب کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سے اعراض فرماکرحلال وحرام سے متعلق تمام خطابات واحکامات صرف اور صرف ایمان والوں سے کیے ہیں ؛ کیونکہ مسلمان اُسے کہتے ہیں جو اللہ ورسول کو ماننے والا ہو؛ لہٰذا اب جو اللہ کو مانتا ہے، اس کی سنتا ہے، تواسی سے خطاب کیا جارہا ہے اور اس حکم پر عمل کے نتیجے میں اللہ کی رضا کے مستحق صرف وہی لوگ ٹھہریں گے جو اس کی وحدانیت کے قائل ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر a کو آخری نبی مانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر زندگی گزارتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے ایک خطاب کے بعد دوسرا خطاب تک ان سے نہیں کیا تو ہم کیسے یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم اُنہیں انتہائی حساس معاملے کی باگ دوڑ دے دیں، جس کے وہ اہل ہی نہیں ہیں!!! اور مذکورہ بالا عیوب اگر کسی عام انسان میں پائے جائیں تو شاید کوئی اُسے عام دنیوی ذمہ داری تک نہ دے تو ہم کیسے ایک ایسی اہم چیز کی ذمہ داری ایسے شخص کو دے سکتے ہیں جس کا  تعلق ہماری آخرت کی کامیابی اور ناکامی سے ہے۔ سب سے زیادہ اہم سوال تو یہ ہے کہ ہمیں یہ حق دیا کس نے ہے؟ جس کا جواب ہے ، کسی نے نہیں ۔ میرے خیال میں یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوگئی کہ ہم مسلمان اور غیر مسلم کی اہلیت میں فرق  نہیں کرسکے، اگر ہم اسے سمجھ جائیں تو یہ غلط فہمی دور ہوسکتی ہے۔                         (جاری ہے) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین