بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حلال وحرام سے متعلق ریاست کی ذمہ داری (پہلی قسط)

حلال وحرام سے متعلق ریاست کی ذمہ داری                (پہلی قسط)

پی ایس کیو سی اے (PSQCA) اور پنیک (PNAC) وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے ہیں۔ اول الذکر اشیاء کے لیے معیارات وضع کرکے ان پر عمل درآمد کراتا ہے، جب کہ مؤخر الذکر ملکی اور عالمی معیارات کی روشنی میں ادارہ جات مثلاً لیبارٹریوںاور انسپکشن باڈیوں کی اہلیت جانچتا ہے۔ مصنوعات کے حلال و حرام ہونے کے حوالے سے ان اداروں کے لیے شرعی رہنما خطوط کیا ہوں گے اس سلسلے میں وزارت سائنس نے حلال تصدیقی ادارے سنہا ’’S.A.N.H.A‘‘ کے تعاون سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا۔ زیرِ نظر مضمون اس موقع پر کی گئی ایک تقریر ہے جو وزارت سائنس کی مرکزی عمارت اسلام آباد میں کی گئی۔ شرکاء میں وزارت کے ذیلی اداروں سمیت بعض دیگر ریاستی اداروں کے نمائندہ افراد بھی شریک تھے۔

الحمد للّٰہ وکفٰی وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی، أما بعد: فأعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ’’ الَّذِینَ إِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَأٰتَوُوْا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُوْرِ۔‘‘(الحج:۴۱) شریعت اور ریاست کا تعلق قرآن کریم بنی اسرائیل پر اپنے احسانات جتلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَأَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلٰی الْعَالَمِیْنَ۔‘‘                                                             ( البقرۃ:۴۷) آیت شریفہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون سی نعمت ہے جو اُن کو یاد دلائی جارہی ہے، لیکن سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کے ساتھ سورۂ مائدہ کی آیت کو ملاکر پڑھیں تو بات صاف ہوجاتی ہے، چنانچہ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے: ’’وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یَا قَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّأٰتَاکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘                 (المائدۃ:۲۰) معلوم ہوا کہ نعمت سے مراد نبوت و رسالت اور بادشاہت و ریاست ہے۔ غور کریں تو واقعی یہ دونوں عظیم نعمتیں ہیں اور اس قابل ہیں کہ بطور احسان ان کا تذکرہ کیا جائے، کیونکہ دینی اور روحانی نعمتوں کا منتہا نبوت ہے اور دنیوی نعمتوں کا نقطۂ عروج ریاست ہے اور ان دونوں کے اندر تمام دینی اور دنیوی نعمتیں سمٹ کر جمع ہوجاتی ہیں۔ جس ریاست کا حق تعالیٰ شانہٗ نے احسان جتلایا ہے اس سے مراد وہ ریاست نہیں جو سیاسیات کی کتابوں میں ملتی ہے اور جس کو فیثاغورث، افلاطون، سقراط وبقراط یا ارسطو نے بیان کیا ہے، وہ بھی نہیں جو ہیگل، اینجلز، ریکارڈو، اسمتھ، کانٹ، بینتھم، روسو، میکاؤلی، کوتلیہ چانکیہ یا لیکاک بیان کرتا ہے، بلکہ ایک ایسی ریاست مرادہے جہاں حکم الٰہی کی بالادستی اور شریعت کی حکمرانی ہو، کیونکہ اگر ریاست شرعی نہ ہو بلکہ لادین ، جابرانہ یا ظالمانہ ہو تو اس کاذکر بطور احسان کے کیوں کیاجائے؟ ریاست کیا ہے؟ اور اس کے بارے میں قدیم وجدید مفکرین کیا کہتے ہیں؟ اورموجودہ مفکرین کس نظریے پر متفق ہیں؟ ہمیں ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ہمارا مقصد ان کے نظریات کو معیار بناکر قرآن کریم کو جانچنا نہیں، بلکہ قرآن کی بنیاد پر اپنے نظریات کی عمارت استوار کرنا ہے۔ ریاست اگر شرعی ہو تو وہ شریعت سے الگ اور جدا کوئی چیز نہیں، بلکہ اس کا عکس اور پرتو ہے۔ شاہ اسماعیل شہیدv لکھتے ہیں کہ:’’ ریاست ظل رسالت ہے اور امام رسول کا نائب ہے۔‘‘ اصل اور عکس میں تضاد نہیں بلکہ اتحاد ہوتا ہے اور اگر تباین وتخالف ہو تو عکس عکس نہیں رہتا۔ علامہ سید سلیمان ندوی v کے بقول ’’ اسلام ایک ایسی ریاست ہے جو ہمہ تن دین ہے اور ایسا دین ہے جو سراپا ریاست ہے۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ریاست کا وجوب ہی شریعت کی بدولت ہے اور اس پر مسلمان مفکرین کا اتفاق ہے۔ امام ابو حامد الغزالیv کے نزدیک بھی ریاست کی بنیاد شریعت ہے، وہ اس پر کچھ عقلی ونقلی دلائل کا اضافہ بھی کرتے ہیں، مثلاً رسولa کامنشأ ہے کہ اسلام کا باضابطہ قیام ہو۔ محقق طوسی کے نزدیک تو ریاست شریعت کا ہی ایک مذہبی ادارہ ہے اور دین اسلام کی حیثیت ریاست کے لیے ایک ناظم کی ہے۔ امام ماوردیv جو بلندپایہ اسلامی سیاسی مفکر سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ ریاست کی اولین ذمہ داری مذہبی اصولوں کا دفاع وتحفظ ہے۔ سیاسی مفکرین کے علاوہ شریعت کے رمز شناس فقہاء بھی اس بات پر ہم زبان ہیں کہ ’’نصب الإمام واجب بالإجماع۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی اکرمa کی وفات کے بعد سب سے پہلے خلافت کے مسئلے کو طے کیا تھا۔ حدیث تو یہاں تک کہتی ہے کہ تین بندے ہوں تو اپنا ایک امام بنالیں۔ اگر تین افراد کو یہ حکم ہے تو قوم ،ملک اور معاشرے کو بطریق اولیٰ ہے۔ آج کل کو جو فکر پروان چڑ ھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،یہ مغربی فکر ہے جس کی بنیاد اس پر فلسفہ پر ہے کہ جو قیصر کا حق ہے وہ قیصر کو دو اور جوخدا کاحق ہے وہ خدا کو دو۔ شریعت ریاست سے مقدم ہے اگر چہ ریاست اور شریعت لازم وملزوم ہیں اور ان میں جسم اور روح کا تعلق ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کو باضابطہ قیام کے لیے ریاست کی ضرورت ہے اور بے شمار شرعی احکام کی تعمیل ریاست کے وجود پر موقوف ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام کا ظہور غلبہ کے لیے ہے: ’’لِیُظْہِرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ اس غلبے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مسلم قوم غیر مسلم اقوام پر اور ان کی ریاست غیر اسلامی ریاستوں پر حاوی ہو، مگران سب کے باوجود اگر ریاست نہ ہو یا ریاست ہو، مگر دینی احکام کی تعمیل نہ کرتی ہو تو میری اور آپ کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی، کیونکہ نہ تو شریعت کا وجود ریاست پر موقوف ہے اور نہ ہی ریاست کو شریعت پر کو ئی تقدم یا فضیلت حاصل ہے۔ شریعت پہلے ہے اور ریاست بعد میں ہے۔ کائنات کے اولین انسان کے نزول کے ساتھ ہی شریعت بھی اتر گئی تھی، مگر ریاست کا وجود نہ تھا۔ ریاست کا ذکر تو قرآن کریم میں حضرت ابراہیم m کے دور میں ملتا ہے۔ مکہ میں ریاست نہیں تھی، مگر شریعت اتر رہی تھی، باقاعدہ اور باضابطہ اسلامی ریاست کا اظہار تو ہجرت کے بعد ہوا ہے۔ اسی طرح اگر ایک مسلمان اسلامی ریاست کی حدود ارضی سے باہر چلا جاتا ہے جہاں ریاست کی عمل داری نہ ہو تو وہ پھر بھی بقدرِ امکان شریعت کا مکلف رہتا ہے۔ اسلام اور حلال وحرام حلال وحرام اسلام کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں۔ یہ اسلام کی دوسری تعبیر ہے اور دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس کے زیر اثر نہ آتا ہو۔ اسلام کی کوئی سی بھی تقسیم لے لیں حرام وحلال کا تعلق نمایاں نظر آئے گا، چاہے وہ تقسیم اس طرح ہو کہ دین حقوق اللہ اور حقوق العباد کا مجموعہ ہے یا اس طرح ہو کہ دین اسلام مأمورات اور منہیات کا مجموعہ ہے یا اس طر ح ہو کہ اسلام عقائد، عبادات، مناکحات، معاملات، معاشرت اور جنایات یعنی حدود و قصاص کا نام ہے۔ ان سب میں حلال وحرام کا تعلق واضح نظر آتا ہے۔ عقائد میں حرام ہو تو اس کوکفر وشرک کہتے ہیں، عبادات میں حرام آتا ہے تو وہ باطل اور مردود ہوجاتی ہے، معاملات میں حرام سے معاملہ فاسد اور کمائی خبیث اور فریقین گناہ گار ہوجا تے ہیں اور معاشرت میں حرام کا ارتکاب گناہِ کبیرہ ہے ۔ حلال وحرام کی حساسیت و نزاکت حلال حرام کا مسئلہ جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا حساس اور نازک بھی ہے۔ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کی اتھارٹی نہ میرے پاس، نہ آپ کے پاس، نہ کسی وزارت اور مملکت کے پاس اور نہ ہی کسی ولی، قطب،غوث اور ابدال کے پاس اور نہ ہی کسی تابعی، تبع تابعی یاصحابیؓ کے پاس، یہاں تک کہ پیغمبر دوجہاں امام الانبیائa کے پاس بھی یہ اتھارٹی نہیں ہے۔ سورۂ تحریم کی ابتدائی آیت اس طرح ہے :’’یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ۔‘‘(التحریم:۱)۔۔۔۔۔ ترجمہ: ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر ۔‘‘ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے : ’’اے ایمان والو!اللہ نے تمہارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار نہ دو، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتااور اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور جس اللہ پر تم ایمان رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو۔                                            (المائدۃ :۸۷،۸۸) سورۂ نحل میں ہے : ’’ اور جن چیزوں کے بارے میں تمہاری زبانیں جھوٹی باتیں بناتی ہیں، ان کے بارے میں یہ مت کہا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھوگے۔ یقین جانوکہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ فلاح نہیں پاتے۔‘‘  (النحل:۱۱۶) اب اگر کوئی پروڈکٹ شرعاً حرام کے دائرہ میں نہیں آتی ہے اور کسی نے محض کوالٹی کنٹرول یا حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسے حرام کہہ دیا، جب کہ وہ پروڈکٹ حرام کے زمرے میں نہ آتی ہو تو اس نے خدائی منصب سنبھال لیا یا کوئی شئے حلال تھی، مگر کسی دنیو ی مصلحت سے اسے حرام کہہ دیا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار کواستعمال کرلیا ۔ بعض لوگ احتیاطاً کسی چیز کو حرام کہہ دیتے ہیں، حالانکہ وہ اصل میں حلال ہوتی ہے، یہ رویہ بھی ازروئے شرع درست نہیں، کیونکہ احتیاط کسی چیز کو حرام قرار دینے میں نہیں، بلکہ’’اصل‘‘پر عمل کرنے میں ہے اور اصل گوشت وغیرہ چند اشیاء کو چھوڑ کر اباحت ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین