بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حلال وحرام سے متعلق ریاست کی ذمہ داری (دوسری اور آخری قسط)

حلال وحرام سے متعلق ریاست کی ذمہ داری                                (دوسری اور آخری قسط)

اسلامی ریاست کی خصوصیت شریعت کی نظرمیں کچھ احکام بذات خود مقصود ہوتے ہیں اور کچھ مقصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں۔ ریاست لذاتہٖ مقصود نہیں، بلکہ اس کا وجود اس لیے ضروری ہے کہ بہت سارے دینی احکام کانفاذ ریاست کے تنظیمی ڈھانچہ پرموقوف ہے، جیسے اعلانِ جنگ اورحدودوقصاص وغیرہ۔ اس کے علاوہ جب اسلامی ریاست وجود میں آتی ہے تو داخلی سطح پر تو ہر مسلمان کا ضمیر اس سے احکام شرع کی تعمیل کراتا ہے، مگر خارجی سطح پر ریاست اس سے دینی احکام کی تعمیل کراتی ہے، چنانچہ سرکارِ دوعالم a نے دینی احکام بیان بھی فرمائے ہیں اوران پرعمل بھی کرایا ہے۔ اسی طرح جو شخص اسلامی ریاست کا امام ہوتا ہے، وہ ایک جانب سے عوام کانمائندہ ہوتا ہے، مگردوسری جانب سے وہ رسول کاجانشین ہوتاہے اوراس نیابت اورجانشینی کی وجہ سے اس کی وہی ذمہ داریا ں ہوتی ہیں جو خود رسول کی ہوتی ہیں، کیونکہ نائب کاوہی کام ہوتاہے جو اصل کا ہوتا ہے۔ یہی ایک اسلامی اورغیراسلامی ریاست کا فرق ہے، ورنہ ریاست تو ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے، مثلاً زمین، آبادی اور معاشرہ ہر ریاست کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آبادی زمین پر ہوتی ہے اور جہاں آبادی ہوگی وہاں معاشرہ بھی ہوگا اور جہاں معاشرہ ہوگا وہاں قانون بھی ہوگا، کیونکہ قانون معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے اور جہاں قانون ہوگا تو اس کو چلانے والا بھی ہوگا جس کو مقتدر اعلیٰ کہتے ہیں، مگرزمین، آبادی اور مقتدر اعلیٰ کی ذات سے ایک اسلامی ریاست دوسری ریاستوں سے علیحدہ اور ممتاز نہیں ہوسکتی۔ زمین اور آبادی تو ہر جگہ یکساں ہوتی ہیں، اسلامی ریاست میں کوئی حقیقی حکمراں بھی نہیں ہوتا، بلکہ خود حکمران پر شریعت کی حکمرانی ہوتی ہے، اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ریاست کی شکل وصورت زمین، خطے اور معاشرے سے نہیں، بلکہ قانون اورنظام حکومت سے بنتی ہے۔ ریاست کا نظام خدا کاپسندیدہ اور آخری دین اسلام ہے۔ اس لیے اگر قانون اور طرزِ حکومت اسلامی ہے تو ریاست کو علیحدہ تشخص اورمنفرد خصوصیت حاصل ہے، ورنہ وہ بھی ایک ریاست ہے جس طرح دنیا کی اور ریاستیں ہیں۔ خلیفہ کی حیثیت ہمارے حکمراں توبہت کم پر راضی ہوگئے ہیں، ورنہ اسلام میں تو خلیفہ راشدکے اندر نبی(a) کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے، چنانچہ اگر نبیa پر ایمان ضروری ہے تو امام عادل کی عدم اطاعت کو جاہلیت کی موت کہا گیا ہے، عبادات نبیa کے طریقے پر ہوں تو قابل قبول ہیں، ادھر صحت جمعہ و عیدین اور جہاد اور حدود وقصاص وغیرہ امام کے امر پر موقوف ہیں، نبیa کے قول سے کسی کو مفر نہیں تو قضاء قاضی بھی ظاہراً وباطناً نافذ ہے، سینکڑوں گواہ گواہی دیں، مگر حکم حاکم نہ ہوتو کوئی کا م ثبوت تک نہیں پہنچتا۔ نبیa کی اطاعت واجب ہے تو غیر منصوص احکام میں امام کی اطاعت بھی واجب ہے اور وہ احکام جن میں شریعت کا حکم واضح نہیں ان میں جو حکمِ حاکم ہو وہی حکم شریعت ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ریاست کاآئین کیا ہوگا، قرآن کریم نے بیان کردیا ہے: ’’ اَلَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُوْرِ۔‘‘                                     (الحج:۴۱) آیت میں امربصورتِ خبرہے اور اس میں امر سے زیادہ تاکید ہے۔ آیت سے معلو م ہوا کہ ریاست کا مقصد صرف امن وامان کا قیام، صحت وتعلیم، سرحدات کی حفاظت اور عوام کی کفالت نہیں، بلکہ اس کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں، جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سرفہرست ہے۔ حلال وحرام معروف ومنکر کے تحت آتے ہیں، اس لیے یہ دونوں حکومت کی قرآنی ذمہ داری ہیں۔ جو قوم، ملک یا معاشرہ اس فریضہ کو چھوڑ دیتا ہے اسے عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ امام ابن تیمیہv لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گناہ کرے تو صرف وہ عذاب میں گرفتار ہوتا ہے، لیکن جب گناہ عام ہوجائے تو پھر عذاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ خدا کی وسیع زمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے اور گاجر مولی کی طرح انہیں کاٹا جارہا ہے، سر کٹتا ہے تو مسلمانوں کا، لاش گرتی ہے تو مسلمانوں کی، اموال برباد ہیں تو مسلمانوں کے، بستیاں اور شہر ملیا میٹ ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے، دہشت ہے، وحشت ہے اور بربریت ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہماری نااہلی بھی ہے، دشمن کی سازش بھی ہے، مگر ایک اور سبب بھی ہے جس کی طرف دھیان نہیں جاتا اور وہ یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک ہے۔ احکام کی ذمہ داری مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب نیکی کے فروغ اوربرائی کے انسداد اور حلال وحرام کے فکروفلسفہ کو پروان چڑھانے اور اس پرعمل درآمد کے ذمہ دارہیں، کیونکہ دینی احکام جمع کے صیغہ کے ساتھ وارد ہیں اور خطاب ہم سب سے ہے، مگر اصلاً ذمہ داری حکومت اورسرکاری حکام کی ہے۔ نصوص میں خطاب اولو الامر سے ہے اور اولوالامر وہی ہیں، انہوں نے ہی اس عہدہ کی ذمہ داریوں کا حلف اٹھایا ہے اور وہی اختیار وطاقت اور قوت وقدرت رکھتے ہیں، نصوص میں وعیدیں اور بشارتیں بھی ان ہی کو سنائی گئی ہیں۔ حدیث شریف میں صاف ہے کہ: ’’اللّٰہ سائلھم عما استرعاھم‘‘ اللہ تعالیٰ رعیت کے متعلق باز پرس کرے گا اور جو شخص مخلوق کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو تھکاتا نہیں تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا اور جس نے اپنا دروازہ مخلوق کے لیے بند کردیا اسے خدائی دروازے بند ملیں گے۔ سرکاری منصب امانت ہے اور اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر اجر و ثواب ہے اور کوتاہی پر عقاب ہے۔ حکومتی طبقہ بڑی ذمہ داری تلے دبا ہوا ہے۔ یہ منصب پھولوں کا سیج اور عیش وعشرت کاگل زار نہیں، بلکہ خارزار ہے۔ حکومت کے ملازمین اگر اپنے فرائض کو چھوڑ کر ذکر و نوافل یا تسبیح وتلاوت میں مصروف رہیں گے تو خداکے ہاں غافل اورمجرم شمار ہوں گے۔ فرائض، واجبات اور مؤکدات کے بعد ان کی بہترین عبادت یہی قرار دی گئی ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ اپنے محولہ فرائض انجام دیں۔ حضرت داؤد m کا جو قصہ قرآن کریم میں مذکور ہے اس کا حاصل کیا ہے؟ یہی کہ حضرت داؤدm اپنے عبادت خانہ کا دروازہ بند کرکے یادِ الٰہی میں مصروف ہوگئے تھے تواللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ وتعلیم فرمائی۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ حق دار کو اس کاحق پہنچادو۔ حضرت مفتی شفیع صاحب v کے بقول غیر مستحق کو پہنچانا تو دور کی بات، مستحق کو بھی تمہارے پاس آنے کی ضرورت نہ ہو، تم خود اس تک پہنچادو۔ حلال، پاک اور پاکیزہ غذا قوم کا حق اور اس کی فراہمی حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ حکومتِ وقت کے لفظ سے دھیان حکمران جماعت کی طرف جاتا ہے، بلاشبہ وہ اولین مخاطب ہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی کی ہے، مگرایک پہلو سے سول ملازمین کی ذمہ داری زیادہ ہے، کیونکہ فوجی اور سیاسی حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں، مگر سرکاری ملازمین مستقل رہتے ہیں، قانون سازی کا حق حکمرانوں کو ہے، مگر اختیارات کو استعمال میں لانا سول سرونٹس کے ہاتھ میں ہے۔ شریعت سے قطع نظر کریں توموجودہ نظام کے حوالے سے بھی یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، کیونکہ ڈیموکریسی کا مطلب ہی عوام کی طاقت ہے اور عوام کی طاقت کامطلب اکثریتی رائے کا احترام ہے اور اس میں شک نہیں کہ غالب طبقہ بلکہ تمام ہی طبقات حلال کے خواہاں ہیں۔ عوام کی طاقت آپ کی طاقت ہے، بانی پاکستان نے مختلف مواقع پر اس پر زور دیا ہے کہ ہرسول سرونٹ کے لیے اصل طاقت پاکستان کے عوام ہیں، اسی طرح ۱۴؍اپریل ۱۹۴۸ء کو پشاور میں سول آفسیرز سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آپ کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے دباؤ میں نہ آئیں، اگر آپ پاکستان کے وقار اور عظمت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہرگز کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ تجاویز وسفارشات ۱:۔۔۔۔۔ مذہبی جذبہ سے کام کی ضرورت ’’ماکان للّٰہ یبقٰی ‘‘ بقاء اللہ تعالیٰ کوہے اور ان کاموں کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے کیے جائیں، اس کے علاوہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ جو کام خلوص سے اور رضائے الٰہی سے کسی نے شروع کیے وہ پھلے پھولے اور بار آور ہوئے اور دنیا اس کے فوائد وثمرات سے مستفید ہوئی، اس کے برعکس مادی وسائل کے بل بوتے پر جو اسکیمیں شروع ہوئیں اور منصوبے بنائے گئے وہ ناکام اور ھباء ً منثوراً ہو گئے۔ اگر جذبہ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ہو تو خدائی مدد ساتھ ہوتی ہے اور راستہ صاف اور رکاوٹیں دور ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمارا مقصد صرف حلال کی وسیع تجارت میں اپنے حصہ کا حصول نہ ہو، یہ چیزیں بطور انعام اللہ تعالیٰ خود نصیب فرمادیں گے، نہ ہی یورپ ہمارا آئیڈیل ہو، کیونکہ ہماراسیاسی اور معاشی قبلہ بھی مدینہ ہے، لندن، برلن یا واشنگٹن نہیں۔ جذبہ صرف یہ ہو کہ حلال فرمان الٰہی اورحکم ربانی ہے اور ہمارے منصب کا تقاضا ہونے کی وجہ سے ہمارا فریضہ ہے۔ صحابہ کرامs نے دین کی محنت کی تو ملک کے ملک ان کے قدموں میں گرے اور دنیا گیند کی طرح ان کی ٹھوکروں میں تھی۔ امام مسلم v نے ایک حدیث کا عنوان قائم کیا ہے:’’ جزاء المؤمن بحسناتہٖ فی الدنیا‘‘ اور اس کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے: ’’ مومن کو نیکی کا ثواب آخرت میں تو ملے گا ہی، دنیا میں بھی اللہ پاک اس کا اچھا بدلہ دے دیتے ہیں۔ ‘‘ اس کام کو خلوص سے کرنے کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ سرکاری فرائض کی ادائیگی پر بھی اجر ملتا ہے، جب کہ حلال وحرام تو خالص دینی احکام ہیں، اگر یہ دنیوی احکام ہوتے تو بھی حسن نیت سے انہیں دین بنایا جاسکتا تھا۔ نیت تو ایسا مؤثر ہتھیار ہے کہ اس سے دین، دنیا بن جاتا ہے اور دنیا دین بن جاتی ہے۔ اسلام کی نظر میں دین ودنیا کا فرق کاموں کی نوعیت سے نہیں، بلکہ جذبہ اور نیت سے آتا ہے۔ جو کام خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کیا جائے وہ دین ہے اور اگر دین کو مخلوق کی رضا کے لیے کیا جائے تو دنیا ہے اور بدترین وبال ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔عوامی شعور وآگہی پیدا کرنا اسلام جب کوئی حکم دیتا ہے تو اس سے پہلے مناسب فضا بھی پیدا کرتا ہے، وہ سر کو جھکانے سے پہلے دل کو فتح کرلیتا ہے توسرخودبخود اس کے سامنے جھک جاتا ہے، اس کے علاوہ ہرحکم کے ساتھ آخرت سے متعلق کوئی مضمون ضرور ہوتا ہے، کیونکہ آخرت سامنے نہ ہو تومحض قانون کے زور پر بدعنوانی ختم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ۳:۔۔۔۔۔حکمت سے قانون سازی اسلامی فلسفہ قانون کی ایک اہم خصوصیت تدریج کا اصول بھی ہے۔ ام الخبائث چار مرحلوں میں حرام ہوئی ہے اور خود پورا اسلام یکدم نہیں بلکہ تئیس سال میں اترا ہے۔ تدریجی قانون سازی ہلکی ہلکی پھوار کی مانندہوتی ہے جو فصلوں کے لیے بہت مفید ہوتی ہے، جب کہ مناسب حکمت عملی سے خالی قانون سازی اس زوردار اور کڑاکے دار بارش کی طرح ہوتی ہے جوسب کچھ بہا کے لی جاتی ہے، مگراس کے بعد زمین میں کوئی روئیدگی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی۔ ہم نے یکدم نیشنلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کے قوانین نافذ کیے تو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مناسب غور و خوض، پیشگی منصوبہ بندی، واقعی صورتحال اور باہمی مشاورت کے بغیر جو قوانین بنائے جاتے ہیں وہ اسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ قانون سازی تو ایک گہرے اور طویل غور و فکر کا متقاضی عمل ہے، مگر ہمارے ہاں میڈیا پر کوئی واقعہ اچھالا جاتا ہے جس سے جذباتیت کی ایک فضا بن جاتی ہے اور اسی کو سامنے رکھ کر مقننہ قانون بناڈالتی ہے، جس میں جامعیت کے بجائے محدودیت اور گہرائی کے بجائے سطحیت اور اعتدال وتوازن کے بجائے جذباتیت اور جانبداری صاف جھلکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون اپنے نفاذ سے قبل ہی اپنا اخلاقی جواز کھوبیٹھتا ہے اور جب اسے نافذ کیا جاتا ہے تو وہ قوم کو ایک مقصد پر متفق اور ایک کاز پر متحد کرنے کے بجائے ان میں تقسیم کی واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ ۴:۔۔۔۔۔ مروجہ قوانین پر از سر نو غور چوتھے قدم کے طور پر ہمیں حلال وحرام کے متعلق نافذ الوقت قوانین کا جائزہ لینا ہوگا۔ جو قوانین قرآن وسنت کے موافق ہوں وہ برقرار رکھے جائیں اور جو قابل اصلاح ہوں ان کی اصلاح کی جائے اور جو ناقابل اصلاح ہوں انہیں کالعدم قرار دیا جائے، کیونکہ بانی پاکستان کے بقول ہم نے یہ خطہ اسلامی اصولوں کو آزمانے کے لیے حاصل کیا ہے اور ہم بحیثیت قوم خدا کے سامنے یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ یہاں قرآن وسنت کے مخالف نہ کوئی قانون بنایا جائے گا اورنہ باقی رکھا جائے گا۔ حلال وحرام یا فقہ الحلال کا موضوع ایک جدید موضوع ہے، اگر چہ اس پر مواد بہت ہے، مگر بکھرا ہوا اور منتشر ہے۔ اگر مرتب صورت اور جدید اسلوب میں قوانین درکار ہوں تو حنفیت اور شافعیت کا فرق ملحوظ رکھتے ہوئے ملائیشیا کے قوانین سے مدد لی جاسکتی ہے، کیونکہ اسے اس شعبہ میں سبقت و امامت کی فضیلت حاصل ہے۔ آئی ایس او نے حلال کے موضوع پر جو معیارات وضع کیے ہیں وہ ایک گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس سے رہنمائی لی جاسکتی ہے، مگراس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جوتبدیلی چاہتی ہیں، مثلاً وزارت سائنس وٹیکنالوجی پاکستان ہی کے ماتحت ادارے(پی ایس کیو سی اے) کے قانون PS 3733 : 2013   میں مشینی ذبح ممنوع ہے، مگر آئی ایس او کے قانون میں جائز ہے، اسی طرح آئی ایس او کے معیارات میں سمندری اشیاء کی حلت اور الکحل کی موجودگی کی وجہ سے پروڈکٹ کی حرمت وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ خود وزارتِ سائنس شرعی ماہرین کی معاونت سے غذائی مصنوعات کے بارے میں جو اسٹینڈرڈز مرتب کر رہی ہے، وہ بھی قابل تحسین کوشش ہے ۔   ۵:۔۔۔۔ قانون سازی کا دائرہ کار حلال وحرام سمیت تمام شعبوں کے متعلق شریعت نے قانون سازی کی حدود متعین کردی ہیں، جس کاحاصل یہ ہے قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق ہو یا اس پر مبنی ہو یاکم از کم اس کے مخالف نہ ہو۔ ایک دوسرے پہلو سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جن احکام کی شکل وصورت اور روح وحقیقت دونوںمتعین اور مقصود ہوں ان میں قانون سازی نہیں ہوسکتی اور وہ جوں کے توں برقرار رکھے جائیں گے اورجن کی صرف حقیقت اور غایت متعین ہو، مگر شکل وصورت متعین نہ ہو ان میں حکم کی روح کو باقی رکھتے ہوئے قانون سازی ہوسکتی ہے، مثلاً: جہاد کی غرض اعلاء کلمۃ اللہ ہے اور یہ متعین ہے، مگر اس کی کسی خاص شکل کو شریعت نے لازم نہیں کیا ہے، اس لیے جہاد چاہے تیروں اور تلواروں سے ہو یا توپوں اور جہازوں سے ہو‘ جہاد کہلا ئے گا۔ ایک تیسرے زاویے سے یوں تعبیر کیا جاسکتا ہے جو احکام لچک دار نہیں وہ تو ابدی اور حتمی قسم کے ہیں اور قیامت کی صبح تک یوں ہی رہیں گے، چاہے زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدل لے، مگر جو لچک دار احکام ہیں ان میں قانون سازی ہوسکتی ہے، شریعت کی زبان میں اول کو ناقابل تغیر اور منصوص احکام اور ثانی کو قابل تغیر وترمیم اور غیر منصوص احکام کہتے ہیں۔ ۶:۔۔۔۔ حلال اسکیم کا تحفظ حلال کے مقابلے میں حرام ہے۔ حلال کی اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے اس کے مقابل اورحریف کو نہ صرف اُبھرنے نہ دیا جائے، بلکہ اس کا وجود ہی ختم کردیا جائے اور ایسا صرف ریاستی قوت سے ہی ممکن ہے۔ برائی کے خاتمہ کے لیے وعظ ونصیحت اورتعلیم وتربیت کے ذریعے ذہنوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے، مگرشجرۂ خبیثہ پر کاری ضربیں لگانا اوراسے جڑسے اکھاڑ پھینکنا بھی پیغمبرانہ اسوہ ہے۔ مکی زندگی تدریجی انقلاب کا منظر پیش کرتی ہے تومدنی زندگی یکدم تبدیلی کا نمونہ ہے۔ اگر حرام کی درآمدوبرآمدپرروک لگادی جائے، فوڈ انسپکٹرز اپنے فرائض تندہی اور دیانت داری سے انجام دینے لگ جائیں، غذائی مصنوعات کے لیے جو اسٹینڈرڈز مقرر ہیں ان پر پورا عمل ہواور ریاستی سطح پر ملائیشیا کی طرح ایک ایسا ادارہ بنادیا جائے جو حلال کے شعبہ کو کنٹرول اور اس سے متعلقہ امور کی نگرانی کررہا ہو تو ممکن نہیں کہ حلال کو فروغ اور حرام کی بیخ کنی نہ ہو۔   ۷:۔۔۔۔۔ ناپسندیدہ قوتو ں کی حلال اسکیم میں شمولیت حلال مارکیٹ اس وقت عروج پر ہے اور میر تقی میر کے اس شعر کا مصداق بن گئی ہے کہ : ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے غیر مسلم بھی اس مارکیٹ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں، مگر معاملہ چونکہ مذہبی پہلو رکھتا ہے، اس لیے ہمیں انہیں شریعت کے مقرر کردہ حدود تک محدود رکھنا ہوگا۔ ۸:۔۔۔۔ ادارۂ احتساب کی ضرورت ہمارا مسئلہ وسائل کی عدم دستیابی یا قوانین کی کمی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں اٹھارہ ہزار قوانین ہیں۔ اصل مسئلہ اس ہمہ گیر بدعنوانی کا ہے جو ہوا کی طرح ہر جگہ گھس گئی ہے اور اصل مسئلہ قوانین پر خلوص کے ساتھ عمل درآمد کا ہے۔ ہمارا تاجر ہر پروڈکٹ کو سوفیصد خالص اورقدرتی اجزاء سے تیارشدہ کہہ کر بیچتا ہے، دوسری طرف جو ہاتھ قانون کو نافذ کرنے والے ہیں وہ بھی کرپٹ ہوچکے ہیں۔ رعایا اور انتظامیہ میں یہ بدعنوانی اس وجہ سے پھیل گئی ہے کہ ریاستی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ نیکیوں کو رواج دینا اور برائی کو ختم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اسلامی ادوار میں اس مقصد کے لیے باقاعدہ ادارہ ہوا کرتا تھا، جس کا مقصد ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا، جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ اس ادارے کا دائرہ کار بڑا وسیع تھااورمذہب اوراخلاقیات کے دائرے میں ہوتے ہوئے ہر سرگرمی پرنظررکھنا اس کے اختیار میں تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء سمیت مختلف پیشوں میں ہونے والی بدعنوانی اور دھاندلی کا انسداد بھی یہی ادارہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت a سے بازار کے معاینہ کے لیے تشریف لے جانا ثابت ہے اور حضرت فاروق اعظم q کا ملاوٹ شدہ دودھ گرادینا بھی مشہور واقعہ ہے۔ آج پاکستان میں محتسب کا ادارہ موجود ہے،  بلکہ پہلے تو صرف وفاقی محتسب ہوا کرتا تھا اور اب چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر میں بھی ہے، بلکہ مختلف محکموں کے لیے بھی محتسب ہے اور محتسب کا ادارہ صرف تفتیشی ادارہ نہیں رہا ہے، بلکہ باقاعدہ عدالت بن چکا ہے، مگر اس کا دائرہ کار یہ ہے کہ جب کوئی شہری حکومت کے کسی انتظامی عمل سے نالاں ہو تو وہ محتسب سے شکایت کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک محدود دائرہ ہے اور اس سے اس ہمہ گیر بدعنوانی کا خاتمہ نہیںکیا جاسکتا جو ہر جگہ سرایت کرگئی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ریاستی سطح پر ایک ایسا ادارہ ہو جس طرح کہ مسلم ادوار میں ہوا کرتا تھا ۔ میں ان ہی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں اور آپ سب حضرات خصوصاً وزارت سائنس اور سنہا کا بے حد مشکور ہوں ۔ وصلی اللّٰہ وسلم علٰی سیدنا محمد النبی الأمی الکریم ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین