بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حفظانِ صحت کا لائحہ عمل تعلیماتِ نبویہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی روشنی میں


حفظانِ صحت کا لائحہ عمل

تعلیماتِ نبویہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی روشنی میں


مصلحینِ عالم میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک واضح امتیاز یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُمت کی بھلائی اور دنیا و آخرت میں چین سے رہنے کے لیے ایسے نفیس ارشادات فرمائے ہیں، جو سرمۂ بصیرت ہیں۔ مصنفین ومحققین ان ہی موتیوں کو پرو کر عام کردیتے ہیں۔ ان مبارک تعلیمات کا ایک پہلو صحت سے متعلق ہے، جس میں صحت کی حفاظت اور بیماری کا علاج دونوں پہلو ملتے ہیں۔ حفظانِ صحت کی اہمیت اور اس کے حصول کے طریقۂ کار کے حوالے سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں ایک لائحہ عمل ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بین الاقوامی سطح پر علاج کو احتیاطی preventive medicine اور معالجاتیcurative medicine  میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اب ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ کہ پیشِ نظر طب کے احتیاطی پہلوؤں کو بطور خاص مرکوز کیا جا رہا ہے۔ عالمی وبا کورونا اور دیگر متعدی امراض سے بچاؤ کی خاطر صفائی ستھرائی اور خوراک کے ذریعے مدافعت کے نظام کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس عصری رجحان کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صفائی اور پاکیزگی، ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام، متوازن خوراک کے اہتمام، ورزش اور جسم کی سلامتی (فٹنس) کے حوالے سے حکیم و دانا پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیش بہا تعلیمات مشعلِ راہ ہیں۔ اس کے ساتھ ایسی دعائیں بھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے صحت و سلامتی طلب کی گئی ہے۔

صحت کی اہمیت

صحت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ایک صحابی ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَہُوَ يَعِظُہٗ: اغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَحَيَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ۔‘‘ (الترغیب والترہیب للمنذري، کتاب التوبۃ والزہد، رقم: ۵۰۸۱)
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً صحت مند ہونے کی حالت میں آدمی کی توجہ اس عظیم نعمت کی طرف نہیں ہوتی اور یہ قیمتی زمانہ ضائع ہوجاتا ہے۔ عبادات کی کثرت، دین کی محنت اور خدا تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال میں مشغولیت جیسے صحت مند ہونے کی حالت میں ہو سکتی ہے، ایسے بیماری کے وقت نہیں ہو سکتی۔ اسی بات کی طر ف سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  متوجہ فرماتے ہیں:
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِيْہِمَا کَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ:الصِّحَّۃُ وَالفَرَاغُ۔‘‘  ( صحیح البخاری، باب لا عیش إلا عیش الآخرۃ، رقم:۶۴۱۲)
’’حضرت ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت لوگ دھوکے میں پڑے ہیں:صحت اور فراغت۔‘‘

صحت کی سلامتی کی دعائیں

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحت کی اہمیت بیان فرمانے، حفظانِ صحت کے اصول اور علاج کے اسباب بیان  کرنے کے ساتھ مسبب الاسباب سے صحت اور سلامتی کو بھی سکھایا۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’اَللّٰھُمَّ إِنّيْ اَسْاَلُکَ  الصِّحَّۃَ  وَالْعِفَّۃَ  وَالْاَمَانَۃَ  وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ۔‘‘   (مشکاۃ المصابیح، باب جامع الدعاء، رقم: ۲۵۰۰)
’’ اے اللہ ! میں آپ سے صحت وتندرستی اور پاکدامنی وپارسائی امانت اور اچھی سیرت اور تقدیر پر راضی رہنے کی درخواست کرتاہوں۔‎‘‘
کئی جگہوں پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عافیت کی دعا مانگی ہے، بلکہ امت کو اس کے مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اپنے چچا حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کو بار بار عافیت کی دعا مانگنے کو ارشاد فرمایا:‎ 
’’عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُـطَّلِبِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا اَسْألُہُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللہَ الْعَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ اَیَّامًا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا اَسْاَلُہُ اللہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَاعَمَّ رَسُوْلِ اللہِ! سَلِ اللہَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘ (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، ج:۲، ص:۱۹۱، ط:قدیمی)‎ 
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو، میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں گیا اور میں نے کہا: یارسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے کہا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‎‘‘
عافیت ایک ایسی جامع چیز ہے جس میں دنیا اورآخرت کی تمام بھلائیاں شامل ہیں۔شارحِ مشکاۃ علامہ نواب قطب الدین دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ:
’’عافیت کے معنی دین میں فتنہ سے سلامتی اوربدن میں بری بیماریوں اور سخت رنج سے نجات ہے۔‘‘  (مظاہرِ حق جدید، ج:۲، ص: ۷۰۷)
’’وَعَنْ اَنَسٍ - رَضِيَ اللہُ عَنْہُ - اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ - صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ - عَادَ رَجُلًا مِّنَ الْمُـسْلِمِيْنَ قَدْ خَفَتَ، فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ - صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ -: (ہَلْ کُنْتَ تَدْعُو اللہَ بِشَيْءٍ اَوْ تَسْاَلُہٗ إِيَّاہُ)؟! . قَالَ: نَعَمْ، کُنْتُ اَقُولُ: اللّٰہُمَّ مَاکُنْتَ مُعَاقِبِيْ بِہٖ فِي الْآخِرَۃِ فَعَجِّلْہُ لِيْ فِي الدُّنْيَا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ: -صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- (سُبْحَانَ اللہِ! لَا تُطِيْقُہٗ وَلَا تَسْتَطِيْعُہٗ: اَفَلَا قُلْتَ: اللّٰہُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟ قَالَ: فَدَعَا اللہَ بِہٖ فَشَفَاہُ اللہُ۔‘‘  (رواہ مسلم ، مشکاۃ، باب جامع الدعاء، رقم:۲۵۰۲)
’’حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے ایک واقعہ منقول ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شخص پرندے کے بچے کی طرح لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا کہ: کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ!جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’سُبْحَانَ اللہِ!‘‘ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور تم میں اتنی استطاعت ہی نہیں، تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے تھے‎: ’’ ‎اللّٰہُمَّ اٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِيْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمارے ساتھ دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی۔ ‘‘
’’وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَہٗ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَمَا سُئِلَ اللہُ شَيْئًا يَعْنِيْ اَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ اَنْ يُّسْاَلَ الْعَافِيَۃَ۔‘‘   (رواہ الترمذي، مشکاۃ، کتاب الدعوات، رقم: ۲۲۳۹)
’’حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے عافیت سے بڑھ کر اس کی پسندیدہ چیز نہیں مانگی گئی۔‘‘
مرقاۃ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ عافیت اللہ تعالیٰ کو اس لیے زیادہ محبوب ہے کہ یہ لفظ دونوں جہانوں کی بھلائیوں کا جامع ہے، جس میں صحت اور سلامتی شامل ہے۔

صفائی ستھرائی کے متعلق

1-    نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مبارک تعلیمات کا ایک حصہ صفائی اور پاکی کے متعلق ہے۔ لباس اور جسم کی صفائی اور طہارت سے لے کر گھر، مسجد، ماحول کی صفائی کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات اور عملی اقدامات موجود ہیں۔ قرآنِ کریم جو آپ کا عطا کردہ زندہ معجزہ ہے، اس میں ارشادِ باری ہے:
’’إِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُـتَطَہِّرِيْنَ۔‘‘  (البقرۃ:۲۳۲)
’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں، اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔‘‘
’’وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّھِرِیْنَ۔‘‘  (التوبۃ:۱۰۸)
’’اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کے شانِ نزول میں حافظ ابنِ کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے اس آیت میں جن لوگوں کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ پانی سے استنجا کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہلِ قبا سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم لوگ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ ہم پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ (تفسیر ابنِ کثیر، ج: ۴، ص:۱۹۰)
1-    ’’وَثِيابَکَ فَطَہِّر۔‘‘  (المدثر:۴)
    ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔‘‘
اس آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دیا گیا۔ مشرکین طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے، ان کے بر عکس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو پاک و صاف رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صفائی اور پاکیزگی کا کتنا خیال رکھتا ہے۔ (ابن کثیر، ج: ۸، ص:۲۷۸ )
’’الْبَسُوْا مِنْ ثِيَابِکُمُ الْبَيَاضَ، فَإِنَّہَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِکُمْ، وَکَفِّنُوْا فِيْہَا مَوْتَاکُمْ۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الطب، باب الأمر بالکحل، رقم:۳۸۷۸)
’’نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: سفید لباس پہنو کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘

  •     حدثِ اکبر(بڑی ناپاکی )سے پاک ہونے کے لیے غسل لازمی قرار دیا گیا، جبکہ حدثِ اصغر(چھوٹی ناپاکی) سے پاک ہونے کے لیے وضو لازمی کیا گیا۔ ایسے ہی بول و براز کے بعد پانی سے استنجا مقرر کیا گیا ۔یہ تمام اقدامات جسم کی صفائی و ستھرائی اور بیماریوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موجودہ عالمگیر وبا کورونا کے پھیلاوٗ کی احتیاطی تدابیر میں ہاتھوں کو بار بار دھونے کی تاکید کی جاتی ہے۔قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق طہارت کے اصولوں کا خیال رکھنے اور نمازِ پنجگانہ کے لیے وضو کرنے سے یہ حفاظتی تدبیر خودبخود ادا ہو جاتی ہیں، گویا اسلام کے پیروکار یہ کہتے نظر آرہے ہیں:

تنگ آ جائے گی اپنے چلن سے آخر دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ تیرے انداز کبھی

  •     ایسے ہی راستے میں بول و براز(پیشاب پاخانہ)کرنے والے کو سخت الفاظ میں ڈانٹا گیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ :

’’لعنت کا مسحق بننے سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ: یہ لعنت کا مورد بننے والے لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ : جو لوگوں کی گزرگاہ یا سایہ کی جگہوں پر بول و براز کرتے ہیں۔ ‘‘(سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب المواضع التي نہی النبي  صلی اللہ علیہ وسلم)
غور کیا جائے تو یہاں ایک طرف تو دیگر انسانوں کو ایذا پہنچانے سے بچایا گیا اور دوسری طرف راستوںکی صفائی ستھرائی کا بھی انتظام کر دیا گیا۔ اور یہ کیوں نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کامل مسلمان قرار ہی ایسے شخص کو دیا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں غسلِ جنابت کرے۔‘‘              (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب لا یبولن أحدکم في الماء الراکد)

  •     ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کی ہی ایک شکل وہ ہے جسے ہم مردہ دفن کرنے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ فوت ہونے پر مردہ کو جلایا بھی جا سکتا تھا، سمندر کے حوالے بھی کیا جاسکتا تھا اور تہ ِخاک بھی دفن کیا جا سکتا تھا۔ ہر صاحب ِفہم اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ان سب میں بہترین طریقہ دفن کرنے کا ہے، جس میں انسانی جسم کی تکریم بھی ہے اور آلودگی سے حفاظت بھی ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نےدفن کرنے اور قبر کے متعلق امت کو تعلیم دی اور یوں جسمِ انسانی کے احترام کے پہلو کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ جسمِ انسانی کے اندر طبعی طور پر پیدا ہو جانے والی غلاظتوں اور کثافتوں سے اہلِ زمین کو محفوظ کردیا گیا۔
  •      ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں خوشبو کا بڑا اثر ہے۔ خوشبو سے طبیعت میں ایک تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے، اچھی خوشبو سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک خوشبو ہے۔ صبح نیند سے بیدارہو کر وضو فرمانے کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خوشبو لگاتے تھے۔ 

’’انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک سکہ تھا جس سے خوشبو لگاتے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الترجل، باب ما جآء في استحباب الطیب)
’’ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جسے خوشبو پیش کی جائے وہ اسے واپس نہ کرےکہ وہ دینے والے پر اس کا دینا بھی آسان ہے۔‘‘                       (أیضًا، باب في رد الطیب)
l    آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے راستہ صاف رکھنے کو بھی ایمان کی بات قرار دیا۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے بتلائے اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ قرار دیا :
’’حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ لا إلٰہ إلا اللہ کا اقرار ہے اور ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے اور حیا ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔‘‘                      (متفق علیہ، مشکاۃ، کتاب الإیمان)

غذا سے متعلق ہدایات

’’يَا أَيُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِيْ الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًاز وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِط إِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔‘‘  (البقرۃ:۱۶۸)
’’ اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ (برتو) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، فی الواقع وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ ‘‘        (ترجمہ بیان القرآن)
آیتِ کریمہ میں غذا سے متعلق دو معیار ذکر کیے گئے ہیں: 
اول : حلال ہو            دوم: پاکیزہ ہو
درحقیقت طیب(پاکیزہ ہونا) حلال ہی کی تاکید ہے، کیونکہ شریعت کی حلال کردہ تمام اشیاء پاکیزہ ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعریف میں ارشادِربانی ہے:
’’الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰۃِ وَالْإِنْجِيْلِز يَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالْأَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْہِمْط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِيْ أُنْزِلَ مَعَہٗ لا   أُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ (الاعراف:۱۵۷)
’’ جو لوگ کہ ایسے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس توراۃ و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، (جن کی صفت یہ بھی ہے) وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال بتلاتے ہیں اور گندی چیزوں کو (بدستور) ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں، سو جو لوگ اس نبی (موصوف) پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
چنانچہ شریعت نے جن اشیاء کا کھانا پینا حرام کیا ہے، وہ اشیاء ایک نفیس ذوق اور سلیم طبیعت رکھنے والے شخص کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہیں۔ حشرات الارض، درندے، مردار اور نجاست کھا نے والے پرندوں سے ایک عام آدمی بھی گھن محسوس کرتا ہے اور صحت کے لیے ان کا مضر ہونا بھی واضح ہے۔ خنزیر اور شراب کے برے اور تباہ کن اثرات کا مشاہدہ مغربی دنیا اور ان کے ہمنواؤں میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ شراب پینے سے آدمی کی عقل تو متاثر ہوتی ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ واہی تاہی بھی بکتا ہے، لیکن جسمانی صحت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شراب دل کے دورے کے امکانات بڑھاتی ہے، معدہ اور جگر کو شدید متاثر کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پورا بدن متاثر ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں ٹریفک ایکسیڈنٹ کی ایک اہم وجہ شراب وغیرہ کے نشے میں ڈرائیونگ کرنا بھی ہے۔ قرآنِ کریم شراب کو گندگی اور شیطانی عمل قرار دیتا ہے:
’’يٰأَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘  (المائدہ:۹۰)
’’ اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو، تاکہ تم کو فلاح ہو۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن)
قرآن حکیم میں خنزیر کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے:
’’حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّيْتُمْقف وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْأَزْلَامِط ذَلِکُمْ فِسْقٌط الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ فَلَاتَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِط الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًاط فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍلا فَإِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘  (المائدہ:۳)
ترجمہ: ’’ تم پر حرام کیے گئے ہیں مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوے اور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے، لیکن جس کو ذبح کر ڈالو اور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے اور یہ کہ تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے۔ یہ سب گناہ ہیں۔ آج کے دن نااُمید ہوگئے کافر لوگ تمہارے دین سے ، سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا۔ آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تام کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔ پس جو لوگ شدت کی بھوک میں بیتاب ہوجاوے، بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں، رحمت والے ہیں۔ ‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
ایک مسلمان کے لیے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادہی کافی ہے، لیکن ہم جدید سائنسی تحقیقات سے بھی شہادتیں پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری سابق پرنسپل نظامیہ میڈیکل کالج حیدر آباد اپنی وقیع تصنیف ’’اسلام اور جدید میڈیکل سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جدید تحقیقات (پریونٹو اینڈ سوشل میڈیسن) نے ثابت کردیا کہ اس (خنزیر) کے اندر بے حد نقصانات ہیں۔ اس کے خون مین عام خون کی طرح یورک ایسڈ ہے جو ہر جاندار کے خون میں ہوتا ہے، اور ذبیحہ کی صورت میں خون سے خارج ہوجاتا ہے، مگر سور کے اندر اس کے خون سے اس کا اخراج نہیں ہو پاتا، اس لیے کہ سور کے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئیں اس کے خون سے اس کا اخراج نہیں ہو پاتا، اس لیے کہ سور کے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئیں کہ اس کے خون سے یورک ایسڈ دو فی صد خارج ہوتا ہے اور باقی حصہ اس کے جسم کا جزو بنا رہتا ہے، چنانچہ سور خود بھی ہمیشہ جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتا ہے (اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتے ہیں) اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید وجعِ مفاصل (Arthritis) اور زہریلی پیچش اور دیگر بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔  ہم مختصرا ً لکھتے ہیں، اسی کے چند مشہور امراض کی فہرست درج ذیل ہے: جراثیمی پیچش، آنتوں کی دق، اعصابی کمزوری، مرگی، مالیخولیا، طویل بخار، جوڑوں میں دردِ شدید، ورم، خون کی شدید کمی، وغیرہ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’اس کی چربی کے استعمال سے خو ن میں کولیسٹرل بڑھتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ شریانوں کی اندرونی نالیوں میں رکاوٹ سے دورانِ خون میں کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدار خون میں کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدارِ خون کے نہ پہنچنے سے دماغی فالج  Paralysis یا Ischemic ‎Heart Diseases  میتوتۃ القلب، دل کو خون سپلائی کرنے والی شریانیں  coronary arteries تنگ ہوکر مکمل یا نامکمل طور پر قلب کو نسبتاًکم خون کی سپلائی کرتی ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کے علاوہ انجیلِ مقدس میں بھی سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب اس کے دل دادہ ہو چکے ہیں،اور ان کی نقل اُتارنے میں اہلِ مشرق بھی مائل نظر آتے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خنزیر کا گوشت کھانے والی قوم اور افراد، اس بے حیا جانور کی طرح شرم و حیا سے عاری ہوتے ہیں۔طبِ قدیم میں صاحبِ مخزن نے اسے (۱۳) امراضِ سوداویہ کا موجب قرار دیا ہے۔‘‘ (اسلام اور جدید میڈیکل سائنس، از ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری، دار المطالعہ، حاصل پور)
خنزیر کے گوشت میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ کولیسٹرول جسم میں چکنائی کو بڑھاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماریو ں کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس نجس گوشت کے کھانے سے پیٹ کی بیماریاں بھی وجود پاتی ہیں۔ مغرب میں اگرچہ اس گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھانے پر زور دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکے، تاہم پھر بھی اس کے مضر اثرات کو بالکل ختم کرنا ممکن نہیں۔
شریعت نے اس جانور کو نجس العین (مکمل نجس) قرار دیا۔ قرآنِ کریم کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کی سزا دیتے ہوئے بندر اور خنزیر بنادیا تھا۔ یہ لوگ تین دن اس طرح رہے، پھر مرگئے۔ جن جانوروں کی صورت میں بطور عذاب بدلا گیا، ان جانوروں کو حلال سمجھ کر کھانا عقلِ سلیم کے خلاف ہے۔
کھانے کے متعلق ایک اہم اصول یہ ہے کہ انسان کچھ بھوک رکھ کر کھائے۔ اس سے معدے پر بوجھ بھی نہیں پڑتا اور انسان زیادہ کھانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھانے کے اس اصول پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے:
’’عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْکَرِبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: ’’مَا مَلَاَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِّنْ بَطْنٍ، بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَہٗ، فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ۔‘‘  (سنن الترمذي، ما جاء في کراھیۃ کثرۃ الأکل، رقم:۲۳۸۰)
’’حضرت مقدام بن معدی کرب  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سنا کہ آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا برتن نہیں بھرا۔ ابنِ آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھ سکیں، لیکن اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی حصہ (پیٹ) کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور تیسرا سانس کے لیے رکھے۔‘‘

ورزش کی ترغیب

صحت مند جسم اور معتدل زندگی کے لیے آدمی کا متحرک رہنا ضروری ہے۔ غیرمتحرک یا ساکن طرزِ زندگی sedantory life ‎style  جدید طبی تحقیقات کے مطابق موٹاپے، بلڈپریشر وغیرہ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اسلامی طرزِ حیات میں تحرک بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نمازباجماعت، حج، جہاد، تبلیغِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی وغیرہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمان متحرک رہے اور دیگر افرادِ معاشرہ سے بالکل کٹ نہ جائے، بلکہ فکری اور جسمانی ہر دو اعتبار سے پردم ہو:

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تو، نہیں خطرۂ اُفتاد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے بلند ہمت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی پاکیزہ زندگیاں دعوت و جہاد سے عبارت تھیں۔ وہ زاہدِ شب بیدار بھی تھے اور مجاہدِبلند کردار بھی، وہ واعظِ شیریں گفتار بھی تھے اور میدانِ عمل کے شہسوار بھی:

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے والی اس جماعت کے قائد اپنے ساتھیوں کو ایسے کھیلوں اور اشغال کی ترغیب دیتے جس سے ان کے جسم عبادت وجہاد کے لیے مستعد رہیں۔ ایک جگہ ارشاد وارد ہے:
’’کُلُّ مَا یَلْہُوْ بِہ الْمَـرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْیَۃٌ بِقَوْسِہٖ وَتَأدِیْبُہٗ فَرَسَہٗ وَمُلاَعَبَتُہٗ اِمْرَأتَہٗ، فَإِنَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ․۔‘‘  (سنن الترمذي، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْيِ  فِيْ سَبِيلِ اللہ، رقم:۱۶۳۷)
’’ یعنی مردِ مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیزوں کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳)اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔‘‘
قرآنِ کریم میں اہلِ ایمان کو کفار کے مقابلے میں قوت جمع کرنے کا حکم دیا گیا، ارشادِربانی ہے:
’’وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ۔‘‘  (الانفال:۶۰)
’’ اور ان کافروں کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے قوت (ہتھیار) سے سامان درست رکھو۔‘‘
رسول ِکریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس ’’قوۃ‘‘ کی تفسیر ’’رمي‘‘ (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ فرمایا: 
’’ألَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ‘‘  ( مشکاۃ، باب إعداد آلۃ الجھاد، رقم: ۳۸۶۱
’’خبردار قوۃ تیراندازی ہے۔‘‘ 
ایک حدیث میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے: ایک تیر بنانے والا، جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے، دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو۔‘‘   (مشکاۃ، باب إعداد آلۃ الجھاد، رقم:۳۸۷۲)
سواری کی مشق اور گھڑ سواری کو بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پسند فرمایا ہے، رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: 
’’جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھ کر رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے، اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا حتیٰ کہ گوبر، پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔‘‘      (مشکاۃ، باب إعداد آلۃ الجھاد، رقم:۳۸۶۸)
دوڑلگانے کی بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ترغیب دی ہے، طبی اعتبار سے بدن کے لیے یہ بھی مفید ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے:
 ’’اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: ۱-آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، ۲- اپنے گھوڑے سدھانا، ۳- دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا، ۴-تیراکی سیکھنا سکھانا۔‘‘    (کنزالعمال،ج: ۱۵، ص: ۲۱۱، رقم: ۴۰۶۱۲)
پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم   عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلال بن سعد تابعیؒ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کی شان بیان کرتے ہیں:
’’قَالَ بِلَالُ بْنُ سَعْدٍ: اَدْرَکْتُہُمْ يَشْتَدُّوْنَ بَيْنَ الْأغْرَاضِ، وَيَضْحَکُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ، فَإِذَا کَانَ اللَّيْلُ کَانُوا رُہْبَانًا۔‘‘      (شَرْحُ السُّنَّۃِ، مشکاۃ، باب الضحک، رقم:۴۷۴۹)
’’ بلال بن سعدؒ کہتے ہیں کہ میں نے صحابۂ کرامؓ کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ‘‘
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں: ’’ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا: ہے کوئی جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے؟ ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا: ہاں! رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑلگاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ٹھیک ہے، اگر تم چاہو، چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔‘‘   (صحیح مسلم، باب غزوۃ ذي قرد وغیرھا، رقم:۱۸۰۶)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین