بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق 


۱:- حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خُلق تھا جس کی حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں تعریف کی ہے؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: ’’آپ کا خلق قرآن تھا‘‘ یعنی جس چیز کو حق تعالیٰ نے اچھا فرمایا ہے وہی آپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم وہ ہے جو حق تعالیٰ نے اس آیت میں تعلیم فرمایا ہے کہ:’’  خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ‘‘ یعنی ’’لازم پکڑ معاف کرنے کو اور حکم کر نیک کام کا اور کنارہ کر جاہلوں سے‘‘ اور حقیقت میں اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں اور دینِ حق کی تائید کرنے میں اس سے سخت تر کوئی چیز نہیں ہے۔ 
اور حدیث شریف میں وارد ہے: ’’ إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ‘‘ یعنی ’’میں اس واسطے مبعوث ہوا ہوں کہ اگلے تمام پیغمبروں کی بزرگی اور اچھائیوں کو تمام اور پورا کروں۔‘‘
۲:- حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب آیت ’’خُذِ الْعَفْوَ ‘‘کی نازل ہوئی، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اس کی تفسیر پوچھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’أُوْتِیْتَ بِمَکَارِمِ الْأَخْلاَقِ أنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَتُعْطِيَ مَنْ حَرَمَکَ وَ تَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَکَ‘‘ یعنی ’’یہ آیت پوری آپ کو اخلاقِ عظیمہ کی تعلیم کرتی ہے، سو ان ہی مکارمِ اخلاق میں سے یہ ہے کہ مل اس سے جو تجھ سے کاٹے اور دے اس کو جو تجھ کو محروم رکھے اور نہ دے اور در گزر کر اس سے جو تجھ پر ظلم کرے۔‘‘ سو جو شخص کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے خوب طرح سے واقف ہو جائے اس کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب مرتبوں کو انتہا کے درجے کو پہنچایا تھا کہ اس سے زیادہ کسی بشرکی طاقت نہیں ہے کہ کر سکے۔
۳:- طبرانی  ؒ اور حاکمؒ اور ابن حبانؒ اور بیہقی  ؒ اور دوسرے قابل اعتبار محدثین نے ایک یہود کے عالم کی زبانی روایت کی ہے جس کا نام زیدبن سعنہ تھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں نے اگلی کتابوں میں رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف دیکھی تھی اور وہ سب اوصاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے تھے، مگر دو وصفوں کا حال مجھے معلوم نہ تھا: ایک یہ کہ غصے پر حلم غالب ہو اور دوسرا یہ کہ سخت بات سننے سے غصہ نہ آوے، بلکہ اور نرمی زیادہ ہو، سو میں چاہتا تھا کہ ان دونوں باتوں کو کسی طرح سے آزمائوں۔ مدت تک اس کی انتظار میں رہا، اتفاقات سے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کھجور بطورقرض خریدے اور اس کے ادا کرنے کی ایک مدت مقرر کی، میں اس مدت سے دو تین دن پہلے آپ کے پاس گیا اور تقاضا اپنے روپوں کا شروع کیا، پھر دیکھا میں نے کہ آپ سن کے چپ ہو رہے اور یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ ابھی تمہارا وعدہ نہیں ہوا، تم تقاضا کیوں کرتے ہو؟ پھر میں نے سخت تقاضا کیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپ کے اصحابؓ بہت سے غصہ میں آئے اور کوئی سخت بات مجھ سے کہیں، لیکن آپ کو ہر گز غصہ نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے یہ بھی کہا کہ تمہارے خاندان میں اسی طرح قرض ادا کرتے ہیں؟ حیلہ حوالہ کیا کرتے ہیں؟ کسی قرض خواہ نے تم سے اپنا قرض آسانی سے نہیں وصول کیا ہوگا۔ اس بات کے سننے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور میں اُٹھ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ شریف اور چادر مبارک ہاتھ سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگا اور غصے کی آنکھوں سے میں نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا کہ: ابھی اٹھو اور میرا قرض ادا کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے قرار ہو کے تلوار لے کر میرے سر پر آپہنچے اور کہنے لگے کہ: اے دشمن خدا کے! تو باز نہیں آتا ہے، ابھی تیرا سر اڑا دیتا ہوں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ: مجھ کو تم سے یہ توقع نہ تھی، تم کو چاہیے تھا کہ مجھ کو سمجھاتے کہ اس کا قرض اچھی طرح آسانی سے ادا کیجئے اور اس کو سمجھاتے کہ نرمی سے تقاضا کرو، سو اس کے خلاف یہ کیا بات ہے جو تم کہتے ہو ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور عرض کی کہ: یا رسول اللہ! اس سے زیادہ مجھ میں صبر نہیں ہے، اگر آپ فرمائیں تو میں اس کا قرض ادا کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جائو اس کا جتنا قرض ہے وہ دو اور بیس صاع اس سے اور زیادہ اس کو دو، تاکہ تمہاری اس بدسلوکی اور سخت گوئی کا عوض ہو جائے ، وہ شخص کہتا ہے کہ میں اس بات کے سنتے ہی ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کا قائل ہوا ۔
۴:- صحیح روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے کچھ باتیں کررہے تھے، پھر وہاں سے اٹھ کر گھر کو تشریف لے چلے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہولیا، راستے میں ایک بدو یعنی گنوار، جنگل کا رہنے والا ملا اور اس نے آپ کی چادر آپ کے سر سے زور سے کھینچی، یہاں تک کہ آپ کی گردن مبارک سرخ ہو گئی اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک دیوار سے جالگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گنوار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ: تیرا مطلب کیا ہے؟ تو کہہ، اس نے کہا کہ: یہ دونوں میرے اونٹ غلہ سے بھردے، اس واسطے کہ جو تیرے پاس مال ہے وہ مال خدا کا ہے، کچھ تیرا اور تیرے باپ کا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تو سچ کہتا ہے، یہ مال حق تعالیٰ کا ہے ، میرا اور میرے باپ کا نہیں ہے، لیکن یہ جو تونے میری چادر زور سے کھینچی اور مجھ کو رنج پہنچایا، یہ تو میرا حق ہے، اس کا عوض تو میں تجھ سے لوںگا، اس نے کہا کہ میں ہر گز اس کا عوض نہ دوںگا، آپ یہ کلمہ فرماتے تھے اور نہایت خوشی سے مسکراتے جاتے تھے اور وہ بھی جواب دیتا جاتا تھا، جب اسی گفتگو میں تھوڑی دیر گزری، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بلاکر فرمایا کہ: اس کے ایک اونٹ پر کھجوراور دوسرے اونٹ پر جَو بھر کر اس کے حوالے کرو۔         ( ابو دائود، کتاب الادب، جلد :۲، ص:۶۵۸) 
۵:-تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ ایک روز سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحابؓ سے فرمایا کہ: آج ایک بکری کے کباب بنانا چاہتا ہوں، سب نے عرض کی کہ بہت بہتر، پھر ایک نے ان میں سے کہا کہ: میں ذبح کرتا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ: میں کھال کھینچتا ہوں اور تیسرے نے کہا کہ: گوشت کا درست کرنا اور کوٹنا میرے ذمہ ہے اور چوتھے نے کہا کہ: اس کا پکانا میرے ذمہ ہے۔ حاصل کلام کا سب نے ایک ایک کام اپنے ذمہ پر کرلیا، تاکہ جلد کباب تیار ہو جائیں، اصحابؓ سب اس کام میں مشغول ہوگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے اُٹھے اور جنگل سے ایک گٹھا لکڑی کا تھوڑی دیر میں لے آئے، صحابہؓ نے دیکھا تو عرض کیا کہ: یارسول اللہ! آپ نے کیوں اتنی تکلیف کی؟ یہ بھی ہم میں سے کوئی کرلیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ اس بات کو مکروہ جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے یاروں میں ممتاز ہو کر بیٹھے اور یاروں میں شریک نہ ہو ۔
۶:- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستوریوں تھا کہ جب آپ فجر کی نماز سے فراغت پاتے تھے تو اس وقت لونڈیاں اور غلام مدینے والوں کے برتن میں پانی لے کر آتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کو اپنے دستِ مبارک سے چھولیں، تاکہ وہ پانی متبرک ہوجائے اور اس کو اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں میں ڈالیں اور کبھی سردی کا موسم بھی ہوتا تھا اور برتن بہت سے ہوتے تھے، سب میں ہاتھ ڈالنے سے آپ کو تکلیف بھی ہوتی، لیکن باوجود اس رنج اور تکلیف کے آپ کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے اور سب برتنوں میں اپنا دست مبارک ڈالتے تھے۔یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق کی چند جھلکیاں ہیں، جن پر ہمیں بھی عمل کرکے اپنی زندگی بسر کرنی چاہیے۔

(بحوالہ: ’’تفسیر عزیزی‘‘،پارہ: تبارک الذی، ص:۵۹ -تا-۶۵۔ مصنف: عمدۃ المفسرین فخر المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی v)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین