بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا لباس 

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا لباس 


یہ مضمون سید الانبیاء وسید البشر حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے بیان میں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا اہم مقصد وغرض یہ ہے کہ ہم اپنے لباس میں حتیٰ الامکان نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کریں اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: 
’’ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ‘‘ (الاحزاب: ۲۱) 
’’تم سب کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘
’’لباس‘‘ مصدر ہے بمعنی ’’ملبوس‘‘ (پوشاک یعنی وہ چیز جسے پہنا جائے) جیساکہ ’’کتاب‘‘ بمعنی ’’مکتوب‘‘۔ لباس کا لفظ عمامہ، ٹوپی، قمیص، جبہ، چادر، تہبند، پاجامہ اور جو کچھ پہننے میں آئے سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: 
’’یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔‘‘(الاعراف: ۲۶) 
’’اے آدم  کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس بنایا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقویٰ کا لبا س ہے۔ ‘‘
’’لِبَاسُ التَّقْوٰی‘‘سے مراد وہ لباس ہے جس میں حیا ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: 
’’وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ‘‘             (النحل: ۸۱) 
’’اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں۔ ‘‘
قرآن وسنت کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے لحاظ سے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے، کیونکہ لباس میں اصل جواز ہے، جیساکہ سورۂ اعراف آیت نمبر: ۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ: لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ 

شرعی لباس کی چند بنیادی شرائط

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے لباس کے بعض حسبِ ذیل شرائط تحریر کیے ہیں:
۱:…مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے، جس سے ہاتھ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ 
نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔ 
۲:… لباس نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً: مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس۔ 
۳:… ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔ 
۴:… مردوںکا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔ 
۵:… مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوشبو والا نہ ہو۔ 
۶:… مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپر جبکہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔ 
۷:… کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔ 

آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا پسندیدہ لباس ’’سفید پوشاک‘‘

اُمتِ مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف دوحدیثیں ذکر کررہا ہوں: 
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو، کیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی ، الجنائز: ۹۹۴۔ ابو داود، اللباس: ۴۰۶۱، ابن ماجہ، باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد: ۱/۲۴۷) 
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سفید لباس پہنو، کیونکہ وہ بہت پاکیزہ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ ‘‘(النسائی، الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ) 
زیادہ پاکیزہ اس لیے کہ وہ بہت جلدی میلے ہوجاتے ہیں، اسی لیے زیادہ دھوئے جاتے ہیں، برخلاف رنگین کپڑوں کے، کیونکہ دیر سے دھوئے جانے کی وجہ سے ان میں زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ اچھے اس لیے کہ طبیعتِ سلیمہ ان کی طرف میلان کرتی ہے۔           (اشعۃ اللمعات، کتاب اللباس) 
شیخ فقیہ ابو اللیث سمرقندیؒ (متوفی :۳۷۳ھ) نے اپنی کتاب ’’بستان العارفین‘‘ میں اور فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ’’رد المحتار‘‘ کے مصنف علامہ شامیؒ نے تحریر کیا ہے کہ رنگوں میں پسندیدہ رنگ سفید ہے اور سفید لباس پہننا سنت ہے۔ 

رنگین لباس کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات وعمل

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے، اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور تہبند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ: ’’یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔‘‘   (مسلم: ۲۰۷۷) 
 ایک روایت میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ان کو جلا ڈالو۔ ‘‘
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوںگا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا جوریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ: خبردار رہو کہ مردوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں خوشبو نہ ہو، رنگ ہو۔ (مشکوۃ، ص: ۳۷۵) 
ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے۔ 
حضرت ابی رِمثہ رفاعہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ ‘‘                                                          (ابو داؤد: ۴۰۶۵۔ ترمذی: ۲۸۱۳) 
حضرت براء رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں دیکھا۔‘‘                                 (بخاری،ج: ۱۰، ص:۲۵۸  ومسلم:۲۳۳۷) 
حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:’’ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ ‘‘                                                                (بخاری ومسلم) 
وضاحت: بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین وعلماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔ 

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قمیص

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: ’’ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔‘‘ (ترمذی: ۱۷۶۲، ابو داود: ۴۰۲۵) 
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہیں، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: ’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔‘‘      (ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، وغیرہ) 
’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔‘‘              (ابو داود، ابن ماجہ) 
’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔‘‘ (ابو داود، ج:۲،ص:۲۰۳۔ ترمذی) 
کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔ 

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمامہ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتا تھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ عموماً ۶/۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔ 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما   سے روایت ہے کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے، یعنی عمامہ شریف کا ’’شملہ‘‘دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا رہتا تھا۔ ‘‘ (مشکوۃ، ص: ۳۷۴) 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ :’’فتح مکہ کے دن نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔‘‘                                 (مسلم، ترمذی) 
 حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ :’’میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔‘‘                                                       (ترمذی) 
نوٹ:شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔ 

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ٹوپی

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی ٹوپی اُٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیمv اپنی بلند پایہ کتاب ’’زاد المعاد في ہدي خیر العباد‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے، نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۃ الاعراف :۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے، لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما   نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہv نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی  ؒ نے بھی اپنی کتاب’’تمام المنۃ‘‘کے صفحہ: ۱۶۴ پر تحریر کیا ہے کہ زیرِ بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ 

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جبہ

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے، اور فرمایا کہ: یہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفاء حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، ص: ۳۷۴)
 آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔(بخاری ومسلم) 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اِزار (یعنی تہبند وپائجامہ وغیرہ) 

اِزار اُس لباس کو کہتے ہیںجو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تہبند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا تہبند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  بھی عموماً تہبند استعمال کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہیے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اِجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘                                       (ابو داود، ابن ماجہ) 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ عنایت نہیں فرمائے گا۔‘‘    (بخاری ،ج:۱۰،ص: ۲۱۷) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘  (بخاری،ج:۱۰، ص: ۲۱۸) 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما   روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہبند، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ ‘‘                       (ابو داود: ۴۰۹۴۔ نسائی، ج:۸، ص:۲۰۸) 
حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما   فرماتے ہیں کہ: ’’جو حکم نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ کے متعلق فرمایا، وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔‘‘(ابو داود) 
مذکورہ ویگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں: نصف پنڈلی تک لباس: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، ٹخنوں تک لباس: رخصت یعنی اجازت، تکبر کے بغیر ٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ، تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام۔ 
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما   روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ ‘‘
 حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً ۳۰ سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔‘‘  (ابو داود: ۴۱۱۹۔ ترمذی: ۱۷۳۶) 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لباس میں درمیانہ روی

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما   فرماتے ہیں کہ: رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اللہ تعالیٰ اُسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ ‘‘  (ابوداؤد، باب فی لباس الشہرۃ) 
حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارے سامنے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہبند نکالا، پھر فرمایا کہ: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔‘‘  (بخاری،ج:۲،ص:۸۶۵)  
ام المؤمنین حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: مجھ سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ، اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو، حتیٰ کہ اس کو پیوند لگالو۔ ‘‘  (ترمذی: ۱۷۸۰) 
یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ ‘‘                                 (ترمذی: ۲۸۲۰) 
یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہئیں ۔
حضرت معاذ بن انس  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا، حالانکہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔ ‘‘                                                  (ترمذی: ۲۴۸۳) 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر خدمت ہوا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟۔‘‘                                                                     (نسائی، مسند احمد) 
 غرض یہ کہ حسبِ استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے وصاف ستھرے لباس پہننے چاہئیں۔ 

لباس کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعض سنتیں

دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب قمیص زیبِ تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔‘‘     (ترمذی، ج:۱، ص:۳۰۲) 
اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے۔ 

نیا لباس پہننے کی دعا

حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے: عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: 
’’اَللّٰھُمَّ  لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہٖ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ۔‘‘ (ابو داود، ترمذی) 
’’اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

پائجامہ پہننے کا طریقہ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں ہے کہ پائجامہ /شلوار بیٹھ کرپہنیں۔ بعض احادیثِ ضعیفہ میں کھڑے ہوکر پائجامہ وغیرہ پہننے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، مثلاً: جس نے بیٹھ کر عمامہ باندھا یا کھڑے ہوکر سراویل (پائجامہ یا شلوار) پہنی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا جس کی کوئی دوا نہیں۔ یہ حدیث شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلویv نے اپنی کتاب ’’کشف الالتباس في استحباب اللباس‘‘ میں ذکر کی ہے۔ ہمارے علماء کرام ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنا پائجامہ وغیرہ بیٹھ کر پہنیں، اگرچہ کھڑے ہوکر پہننا بھی جائز ہے۔ 

بالوں کی چادر

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتے ہیں کہ: ’’ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب ایک مرتبہ صبح کو مکان سے تشریف لے گئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔‘‘                               (شمائل ترمذی) 

ریشمی لباس کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات

ریشمی لباس پہننا مردوں کے لیے حرام ہے، البتہ ۲ یا ۳ یا ۴ اُنگل ریشمی حاشیہ والے کپڑے مردوں کے لیے جائز ہیں۔ نیز خارش اور کھجلی کے علاج کے لیے ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑے پہنے وہ آخرت میں ریشمی کپڑوں سے محروم کردیا جائے گا۔‘‘            (بخاری، مسلم) 
حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:’’ دنیا میں صرف وہی مرد ریشمی کپڑے پہن سکتا ہے جس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ‘‘               (بخاری، مسلم) 
حضرت ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ریشمی کپڑے اور سونے کے زیورات میری اُمت کے مردوں پر حرام ہیں۔ ‘‘              (ترمذی: ۱۷۲۰) 
 حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر ایک یا دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔‘‘      (بخاری، اللباس: ۵۸۲۹، مسلم ،اللباس والزینہ: ۲۰۶۹) 
حضرت انس  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ:’’ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر  رضی اللہ عنہ  اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو خارش کے علاج کے لیے ریشم کے کپڑے پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔‘‘        (بخاری، مسلم) 

لباس میں کفار ومشرکین سے مشابہت

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی طور پر (یعنی لباس اور غیر لباس میں) کفارو مشرکین سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے: ’’ جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہوجائے گا۔ ‘‘ (ابو داود: ۴۰۳۱) 
لباس میں مشابہت کرنے سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔ ‘‘ (مسلم: ۲۰۷۷) خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ عیش پرستی اور مشرکوں کے لباس سے بچو۔ ‘‘     (مسلم: ۲۶۰۹) 

مردوں اور عورتوں کے لباس میں مشابہت

حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما   روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتے ہیں، اسی طرح لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتی ہیں۔ ‘‘                (بخاری) 

پینٹ وشرٹ اور کرتا وپائجامہ کا موازنہ

جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے کہ لباس میں اصل جواز ہے، انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے مطابق چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے، ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ کفار ومشرکین کا لباس نہ ہو۔ پینٹ وشرٹ یقیناً مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے، لیکن اب یہ لباس عام ہوگیا ہے، چنانچہ مسلم اور غیرمسلم سب اس کو استعمال کرتے ہیں، لہٰذا پینٹ وشرٹ مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ استعمال کرنا جائز تو ہے، البتہ پینٹ وشرٹ کے مقابلے میں کرتا وپائجامہ کو چند اسباب کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے: 
1:… کرتا وپائجامہ عموماً سفید یا سفید جیسے رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ پینٹ وشرٹ عموماً رنگین ہوتی ہیں۔ احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ اللہ جل شانہ کے حبیب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سفید پوشاک زیادہ پسند فرماتے تھے، نیز عام طور پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس سفید ہی ہوا کرتا تھا۔ 
2:… قیامت تک آنے والے انسانوں کے نبی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص بہت پسند تھی۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں ملتے ہیں وہ شرٹ کے بجائے موجودہ زمانے کے کرتے (ثوب /قمیص) میں زیادہ موجود ہیں۔ 
3:… اگرچہ اس وقت پینٹ وشرٹ کا لباس مسلم وغیرمسلم سب میں رائج ہوچکا ہے، لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پینٹ وشرٹ کی ابتداء مسلم کلچر کی دین نہیں، جبکہ کرتہ وپائجامہ کی بنیادیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہیں، کرتا یعنی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قمیص کا ذکر کرچکا ہوں، جہاں تک پائجامہ کا تعلق ہے تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تہبند کا استعمال فرماتے تھے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ استعمال کیا یا نہیں؟ اس کے متعلق بعض محققین نے اختلاف کیا ہے، لیکن تمام محققین ومحدثین وفقہاء وعلماء متفق ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ خریدا تھااور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت سے پائجامہ پہنتے تھے۔ 
4:… کسی بھی زمانہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں علماء وفقہاء کی جماعت نے پینٹ وشرٹ کو اپنا لباس نہیں بنایا۔ 

وضاحت
 

موجودہ زمانہ کے پائجامہ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کے زمانے کے پائجامہ میں فرق ممکن ہے، مگر دونوں کی بنیاد واَساس ایک ہونے کی وجہ سے ان شاء اللہ فضیلت حاصل ہوگی، جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  اور موجودہ زمانہ کی مساجد میں ضرور فرق ملے گا، مگر بنیاد ومقاصد ایک ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانہ کی مساجد کو وہ فضیلت ضرور حاصل ہوگی جس کا تذکرہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہوا ہے۔ 
کسی معین شخص کے تنگ پائجامہ کا کسی معین شخص کی کشادہ پینٹ سے موازنہ کرکے فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ عموماً پینٹ پائجامہ کے مقابلہ میں تنگ ہوتی ہے اور جسم کی ساخت کے حساب سے بنائی جاتی ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سنتوں کے مطابق لباس پہننے والا بنائے۔ 

....................
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین