بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدv

    حضرت الاستاذ مولانامحمدحبیب اللہ مختاردہلوی شہیدv کے آباء واجداد متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ موجودہ’’کے،پی،کے ‘‘کے پشتون قبائلی علاقے سے ہجرت کرکے کسی زمانے میں ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں واردہوئے اورکئی پُشتوں سے وہیں آبادرہے، بعدمیں آپ کی دہلوی شناخت‘ نسبی قبائلی شناخت پر غالب آگئی اور آپ کا خاندان دہلوی کہلانے لگا، چنانچہ آپ کے والدگرامی حکیم مختارحسن خان حاذق دہلوی سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کے ہاں ۱۹۴۴ء کو دہلی ہی میں ایک ہونہار فرزند ارجمند کی ولادت ہوئی، جس کا نام انہوںنے ’’حبیب اللہ مختار‘‘ تجویز کیا، دہلی کے علمی، تاریخی اورثقافتی ماحول میں آنکھ کھولنے والے یہ ہونہار فرزند اپنی عمرعزیز کے تیسرے سال میں اپنے والدین اورخاندان کے ہمراہ ۱۹۴۷ء کو دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آکر آباد ہوئے۔     حکیم مختار حسن خان دہلوی v نے خاندانی رسوم و آداب کے تحت سن شعورمیں داخل ہوتے ہی اپنے اس ہونہارفرزندکے لیے گھرکے دینی ماحول کے ساتھ ساتھ درسگاہ کے تعلیمی ماحول کا انتظام بھی فرمایا اور اس وقت کراچی کی دینی درسگاہوں میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبv کے قائم کردہ دارالعلوم نانک واڑہ (جو بعد میں دارالعلوم کراچی کہلانے لگا) میں ابتدائی دینی تعلیم دلائی، ۱۹۵۴ء میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی) قائم ہوا تو حضرت بنوری v کی تکوینی وروحانی کشش حضرت حکیم مختارحسن خان v کے ہونہار فرزند کو بنوری ٹاؤن میں کھینچ لائی، انہوں نے درس نظامی کے درجات علیا کی تکمیل بنوری ٹاؤن میں فرمائی، ۱۹۶۳ء میں سندفراغت حاصل کی اور مولوی محمدحبیب اللہ مختاردہلوی بن کردرس نظامی سے فارغ التحصیل ہوئے، پھر حضرت بنوریv کے ایماء پر اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے فقہ اورحدیث میں تخصص کی طرف رُخ موڑا اور دونوں موضوعات میں خداداد صلاحیتوں کے بھرپور جوہر دکھلائے۔ دارالافتاء میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی ولی حسن خان ٹونکیv کے زیرتربیت علمی وتحقیقی فتاویٰ کی تمرین کی اور حضرت مولانا علامہ محمد عبدالرشید النعمانی v اور مولانا محمد ادریس میرٹھی v کے زیرسایہ تخصص فی الحدیث کیا اور ’’السنۃ النبویۃ والقرآن الکریم‘‘ کے عنوان سے حجیت ِحدیث پر وقیع علمی وتحقیقی مقالہ تحریر فرمایا، جس کے امتیازی نمبرات کی بنا پر آپ تخصص فی الحدیث کی سندکے اعزاز سے نوازے گئے۔     ۱۹۶۶ء میں حضرت بنوری v ہی کے حکم پر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار سال تک وہاں زیرتعلیم رہے، وہاں چار سالہ نصاب مکمل کرکے ۱۹۷۰ء میں واپس جامعہ تشریف لائے، اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں جامعہ کراچی سے ایم،اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۸۱ء میں کراچی یونیورسٹی سے پی،ایچ،ڈی (P.H.D) کی ڈگری بھی حاصل کی،ساتھ ساتھ افتاء کی تمرین اورتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔     حضرت بنوریv کے ساتھ گرویدگی کے دوطرفہ تعلق کے نتیجہ میں روحانی فرزندی کے بعد ۱۹۷۲ء میں نسبتی فرزندی کا اعزاز بھی پایا، اور حضرت بنوری v کے گھرکے فرد اور جامعہ کے ایسے رکن رکین بن گئے کہ اپنی خاکستر ہڈیاں بھی حضرت بنوریv کے پہلومیں جامعہ کی مٹی کے سپردکروائیں! پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا     جامعہ سے وابستگی کا آغاز مدرس اور رفیق دارالتصنیف کی حیثیت سے ہوا، تدریس کے میدان میں ابتدائی کتب سے شروع ہوکر درسِ نظامی کی آخری بڑی کتاب صحیح بخاری شریف تک ہر اہم کتاب آپ کے زیر درس رہی۔ ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ء میں جامعہ کے ناظم تعلیمات اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ کے وصال پُرملال کے بعد بخاری شریف کے دونوں حصے آپ ہی کے زیرِدرس رہے، رفیق دارالتصنیف کی حیثیت سے حضرت الاستاذ نے اپنے شیخ حضرت بنوری v کے کئی علمی وتحقیقی خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز پایا، جن میں’’کشف النقاب عمایقولہٗ الترمذی:وفی الباب‘‘ سرفہرست ہے، جس کی پانچ جلدیں طبع ہوچکی ہیں، اس کے علاوہ پچاس سے زائد چھوٹی بڑی کتب اور تراجم اپنے علمی ورثہ میں چھوڑیں اور یوں حضرت بنوری v کے دارالتصنیف کی رفاقت کے لیے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا۔     ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء میں حضرت بنوری v کے سانحۂ ارتحال کے بعد ان کی تحریری وصیت کے مطابق ان کی زندگی کے جانشین حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن نوراللہ مرقدہٗ کو جب جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مسندِاہتمام کی ذمہ داری سونپی گئی تواہتمام کی نیابت کے لیے حضرت مولانا حبیب اللہ مختارشہید v کا انتخاب باصواب عمل میں آیا اور آپ نائب مہتمم کی حیثیت سے کاروانِ بنوریؒ کے حدی خواں بن گئے، مگر نیابت کی ذمہ داری ایسی سلیقہ مندی اورشائستگی سے نبھائی کہ انتظامی مشاغل کو اپنے علمی وتحقیقی مشاغل پرحاوی نہیں ہونے دیا،آپ کی نیابت کی نشست وہی رہی جو آپ کی تحقیق وتصنیف کی نشست تھی، چنانچہ اہتمام کی نیابت کے عرصہ میں آپ کا مشغلہ درس اورتصنیف سے ایساجڑا رہاکہ آپ کی انتظامی ذمہ داری سے پہلے اوربعدکی زندگی میں کسی نے کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔     ۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء میں جب جامعہ کے مہتمم ثانی حضرت مولانامفتی احمدالرحمن v کی رحلت فاجعہ کاسانحہ پیش آیا تو جامعہ کی مجلس منتظمہ نے حسب دستور تین روزہ مسنون سوگ کے بعد باہمی اتفاق رائے سے حضرت مولاناحبیب اللہ مختار v کو جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری سونپی اور حضرت بنوری v کے فرزند ارجمند مولانا سید محمد بنوری v کونائب مہتمم مقررکیاگیا، اس موقع پر جامعہ کے منصب اہتمام کے ساتھ ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نظامت علیا کا منصب بھی خالی ہوا تھا، اس منصب کی ذمہ داری اُٹھانے کے لیے بھی مولانا حبیب اللہ v ہی کا انتخاب عمل میں آیا، چنانچہ آپ پر بیک وقت جامعہ کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داریاں عائد ہوگئیں۔     بعض لوگ حیران تھے کہ ایک گوشہ نشین محض علمی وتحقیقی ذوق کی حامل شخصیت اتنی بڑی انتظامی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟! مگر وقت نے آپ کے انتخاب کو ایسا درست ثابت کیا کہ آپ کے حسن انتظام کی مثالیں دی جانے لگیں۔ جامعہ میں آپ کا معمول یہ رہا کہ صبح آٹھ بجے درس گاہ تشریف لاتے، شروع شروع میں ایک، پھرمسلسل دوگھنٹے درس دینے کے بعددفترمیں بیٹھتے اورظہرکی نمازپڑھ کرگھرتشریف لے جاتے، ظہر تا عصر گھر میں آرام کی ترتیب رہتی، اور عصر کی نمازکے لیے تشریف لاتے تو پھر رات کو دیر تک دفتر میں موجود رہتے تھے، اس دوران دفتری امور کے علاوہ اپنے تصنیفی وتحقیقی کام بھی سرانجام دیتے، یہ آپ کی زندگی بھر کا معمول رہا۔     دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ کی نظامتِ علیا کی ذمہ داریوں کے علاوہ پورے ملک کے مدارس سے تعلق وربط بھی بے مثال رہا، کبھی بلااطلاع دور دراز علاقوں میں پہنچ جاتے، کبھی وفاق کے امتحانی نظم کے عنوان سے کراچی سے لے کر سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرحد کے دور درازکے امتحانی مراکز کا ایک ہی ہفتہ میں معائنہ فرما لیا کرتے تھے، یہ مختصر وقت کا ہنگامی سفر کتنا مشکل یا کتنا آسان ہے اس کااندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جواس وقت ان کے ہم سفر ہوا کرتے تھے، آپ کی یہ انتظامی فعالیت اپنی مثال آپ ہی ہے۔     بہرکیف! حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدv کی ہمہ جہت شخصیت پر کئی پہلوؤں سے پی۔ایچ۔ڈی کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، میری معلومات کے مطابق بعض جامعات میں آپ کی شخصیت کے علمی وتحقیقی پہلو سے کام بھی ہورہا ہے۔     مجھے میرا یہ فراموش کردہ سبق ہماری جامعہ کے ایک باتوفیق ،علم دوست فاضل، عزیزالقدر مولانا سید زین العابدین صاحب حفظہٗ اللہ نے یاد دلایا، جو حضرت الشیخ کی حیات و سوانح پر کام کا ارادہ رکھتے ہیں، انہوںنے مجھے بھی احساس دلایاکہ دیگر بعض اساتذۂ کرام کی طرح اپنے استاذگرامی حضرت شیخ مختار شہیدv کے بارے میں بھی کچھ ٹوٹے پھوٹے کلمات یکجا کردوں، چنانچہ برادرم زین العابدین کی تحریک و تحریض کی بدولت میں اس سعادت سے جیسے تیسے سہی ہمکنار ہورہا ہوں، ورنہ بار بار ارادہ کے باوجود یہ موقع نہیں مل پایا تھا، جس کا ایک اولین سبب یہ بھی رہا کہ ۱۴۱۸ھ/ ۱۹۹۷ء میں جب آپ کی شہادت ہوئی تو اس وقت ہم تخصص فی الفقہ سال اول کے طالب علم تھے، تخصص کا اگلا سال بھی یوں ہی طالب علمانہ مشاغل میں رہا اور تقرر کے اوائل میں یہ شعور ناپختگی کا شکار رہا، پھر جب خیال آیا تو ہر نیا حادثہ پرانے حادثے کا تسلسل بنتا چلا گیا۔     دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت الشیخ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدv اور ان کے دنیا و آخرت کے ہم سفر حضرت الاستاذ مولانا مفتی عبدالسمیع شہیدw سے لے کر جامعہ کے تاحال آخری شہید برادرِگرامی مولانا قاری افتخار احمد شہیدv تک تمام شہداء بنوری ٹاؤن کے خون کی برکت سے جامعہ کو تاقیامت قائم ودائم رکھے، اس کے فیض کو جاری وساری فرمائے، مزیدحادثات سے محفوظ ومامون فرمائے اور ہمیں اپنے اکابر و مشائخ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ أللّٰھم اغفرموتٰنا وموتٰی المسلمین ، أللّٰھم اغفرلھم وارحمھم ، وارفع درجاتھم وأکرم نزلھم ، واجعلھم من ورثۃ جنّٰت النعیم ، آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین