بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی  رحمۃ اللہ علیہ ... زندگی کے احوال وخدمات پر ایک نظر

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی  رحمۃ اللہ علیہ 

زندگی کے احوال وخدمات پر ایک نظر


دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ، عربی واردو زبان وادب کے ماہر، دارالعلوم دیوبند سے شائع ہونے والے عربی میگزین (الداعی) کے ایڈیٹر، عربی واردو زبان میں بیسیوں معیاری کتابوں کے مصنف اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق استاذ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی ’’ابواسامہ‘‘ تقریباً ۷۰ سال کی عمر میں ۳ مئی بروز پیر ۲۰ویں روزے کو تقریباً ۱بجے رات داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
موصوف تقریباً ۴۰ سال سے ایشیا کی عظیم اسلامی درس گاہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ میں علمی خدمات انجام دے رہے تھے۔ استاذِ محترم کی دوپہر ایک بجے دارالعلوم دیوبند میں نمازِ جنازہ کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قبرستانِ قاسمی میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کی عربی زبان وادب سے متعلق صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف بر صغیر کے ہر مکتبِ فکر نے کیا ہے، بلکہ عرب ممالک کے علمی حلقوں میں بھی آپ کی عربی کتابوں وتحریروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُن کے انتقال پر جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پُر ہونا آسان نہیں ہے، لیکن پھر بھی بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند اور اُمتِ مسلمہ کو موصوف کا بہترین بدل عطا فرمائے، آمین۔ 
مولانا کا شخصی تعارف
مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کی ولادت مظفر پور (بہار) میں یکم ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ مطابق ۱۸ دسمبر ۱۹۵۲ء کو ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ جب آپ کی عمر صرف تین ماہ کی تھی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اُس وقت مولانا کی ماں صرف ۱۹ سال کی تھیں۔ والدہ محترمہ کی دوسری شادی رشتہ داروں میں ہی ہوگئی تھی، مگر دوسرے والد کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح آپ کی والدہ کم عمری ہی میں دو مرتبہ بیوہ ہوگئیں، اس سے قبل پردادا کی موجودگی میں دادا کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ غرضیکہ انتہائی مفلسی کی حالت میں آپ کا ابتدائی دور رہا ہے۔ موصوف نے کئی مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ طالب علمی کے دور میں ان کے پاس تکیہ تک نہیں تھا۔ استاذِ محترم اینٹ پر کپڑا لپیٹ کر تکیہ کااستعمال فرماتے تھے۔ ابتدائی تعلیم بہار میں ہی حاصل کرکے دارالعلوم مئو اور اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں دیگر تعلیمی مراحل مکمل کیے۔ اُس زمانہ میں حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کی سرپرستی میں دہلی کے مدرسہ امینیہ نے کافی شہرت حاصل کی تھی، چنانچہ استاذِ محترم نے دارالعلوم دیوبند کے بعد ۱۹۷۰ء میں مدرسہ امینیہ سے تعلیم مکمل کی۔ آپ کے نام کے ساتھ ’’امینی‘‘ مدرسہ امینیہ ہی کی طرف نسبت ہے۔ 
اساتذہ
آپ نے رائے پور کے مکتب، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، دارالعلوم مئو، دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ امینیہ دہلی کے تمام اساتذہ کی ہمیشہ قدر کی، البتہ دو اساتذہ کی سرپرستی نے آپ کو عالمی پیمانہ کا استاذ بنانے میں خصوصی کردار ادا کیا، ایک حضرت مولانا وحید الزمان کیرانویؒ اور دوسرے حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ۔ حضرت مولانا وحید الزمانؒ کا آخری زمانہ ہم نے بھی دیکھا ہے کہ اُس عبقری شخص کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہیں اُن کی یہ خاص خوبی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ وہ اپنے طلبہ کو اپنے سے زیادہ قابل بنانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے، چنانچہ حضرت مولانا وحید الزمان کیرانویؒ کے دنیا میں پھیلے ہوئے ہزاروں طلبہ اس کی واضح دلیل ہیں۔ 
تدریسی خدمات
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی سرپرستی میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں آپ نے ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۲ ء تک تقریباً دس سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۲ءسے مسلسل دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب کی عظیم خدمات انجام دے رہے تھے۔ آپ کے ہزار وں نہیں بلکہ لاکھوں طلبہ دنیا کے مشرق ومغرب میں قرآن وحدیث کی خدمات میں مصروف ہیں۔ میں بھی مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کا ایک شاگرد ہوں۔ دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانہ میں آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا ہے۔ 
علمی خدمات
تقریباً ۴۰سال دارالعلوم دیوبند کے مشہور عربی میگزین (رسالہ) میں آپ کے شائع شدہ ہزاروں مضامین عرب وعجم میں بڑے ذوق وشوق سے پڑھے جاتے تھے۔ اس عربی میگزین کے ذریعہ موصوف نے عالم عرب میں دارالعلوم دیوبند کی پہچان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جولائی۲۰۱۳ء میں سعودی حکومت کی طرف سے بلائے گئے دارالعلوم دیوبند کے اہم وفد میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کے ہمراہ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب بھی تھے۔ اُس وقت عربوں کو مولانا کی مقبولیت کا کامل یقین ہوا تھا، میں اُس وقت ریاض میں ہی مقیم تھا۔ عربی رسالوں اور اخباروں میں آپ کے مضامین کثرت سے شائع ہوتے رہتے تھے۔ 
عربی تصانیف
آپ کی متعدد کتابیں عربی زبان میں شائع ہوئیں: ’’مفتاح العربیۃ‘‘ [دو حصے] (یہ کتاب برِصغیر کے بے شمار مدرسوں کے نصاب میں داخل ہے)، ’’فلسطین في انتظار صلاح الدین‘‘، ’’المسلمون في الہند‘‘، ’’الصحابۃؓ ومکانتہم في الإسلام‘‘، ’’مجتمعاتنا المعاصرۃ والطریق إلی الإسلام‘‘، ’’الدعوۃ الإسلامیۃ بین الأمس والیوم‘‘، ’’متی تکون الکتابات مؤثرۃ؟‘‘، ’’تعلموا العربیۃ فإنہا من دینکم‘‘ اور ’’العالم الہندي الفرید الشیخ المقري محمد طیب‘‘ ۔
اُردو تصانیف
موصوف کی عربی کتابوں کے ساتھ اردو کتابوں کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:وہ کوہِ کَن کی بات (مولانا وحید الزمان کیرانویؒ کی سوانح حیات)، فلسطین کسی صلاح الدین ایوبی  ؒ کے انتظار میں، پسِ مَرگِ زندہ (۹۳۲ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب گویا زبان وادب کے گل بوٹوں سے لہلہاتا ہوا چمنستان ہے۔ اس کتاب میں عصرِ حاضر کے ۳۸ علماء کرام کے تذکرے موجود ہیں)، اس کتاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو املا نویسی اور اس کے نشیب وفراز پر آپ کی گہری نگاہ تھی۔ حرفِ شیریں، موجودہ صلیبی صہیونی جنگ، صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟، خطِ رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں؟ اور رفتگانِ نارفتہ (زیرِ طباعت)۔
تراجم
استاذِ محترم نے تقریباً ۲۵کتابوں کا اردو سے عربی ترجمہ کیا ہے، جن میں بعض اہم نام یہ ہیں: 
عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح (مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ) ’’التفسیر السیاسي للإسلام في مرآۃ کتابات الأستاذ أبي الأعلٰی مودودي والشہید سید قطب‘‘ ۔ پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں (مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ) ’’أحادیث صریحۃ في باکستان‘‘۔ مولانا الیاسؒ اور اُن کی دینی دعوت (مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ)  ’’الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد إلیاس‘‘۔ حضرت امیر معاویہؓ اور تاریخی حقائق (مفتی محمدتقی عثمانی) ’’سیدنا معاویۃ رضي اللہ عنہ في ضوء الوثائق الإسلامیۃ‘‘۔ علماء دیوبند کا دینی رُخ اور مسلکی مزاج (حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ) ’’علماء دیوبند واتجاہہم الدیني ومزاجہم المذہبي‘‘۔ من الظلمات إلی النور (کرشن لال) ’’ماساۃ شاب اعتنق الاسلام‘‘۔ ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد (مولانا حسین احمد مدنیؒ) ’’الحالۃ التعلیمیہ فی الہند فیما قبل عہد الاستعمار الانجلیزي وفیما بعدہ‘‘۔ ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت (مولانا محمد منظور نعمانیؒ) ’’الثورۃ الإسلامیۃ في ضوء الإسلام‘‘۔ بر صغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے خلا ف پروپیگنڈے کے علماء حق پر اثرات (مولانا محمد منظور نعمانیؒ) ’’دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمد بن عبدالوہاب نجدي‘‘۔ دعوتِ اسلامی، مسائل ومشکلات (مولانا امین احسن اصلاحی) ’’الدعوۃ الإسلامیۃ قضایا ومشکلات‘‘۔ مقالاتِ حکمت ومجادلاتِ معدلت (حکیم الاسلام مولانا اشرف علی تھانویؒ) ’’لآلي منثورۃ في التعبرات الحکیمۃ عن قضایا الدین والأخلاق والاجتماع‘‘۔ اشتراکیت اور اسلام (ڈاکٹر خورشید احمد) ’’الاشتراکیۃ والإسلام‘‘۔ (مولانا سعید الرحمٰن ندوی کے ساتھ)۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ  کے مختلف مضامین کا عربی ترجمہ۔ 
اعزاز
عربی زبان کی بے لوث خدمات کے پیش نظر آنجناب کو صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے ۲۰۱۷ء میں ’’صدارتی سرٹیفکیٹ آف آنر ( Presidenti al Certific ate of Honour) ‘‘ سے نوازا گیا۔ آسام یونیورسٹی میں مولانا نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں ’’فلسطین في انتظار صلاح الدین‘‘ کے خصوصی حوالہ کے ساتھ سماجی وسیاسی پہلوؤں کے عنوان پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش کیا گیا۔ 
مولانا نور عالم خلیل امینی صاحبؒ کی عربی کتابیں وتحریریں جہاں عرب وعجم میں مقبول ہوئیں، وہیں موصوف کی اردو کتابیں بھی عوام وخواص میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھی اورپڑھی جاتی ہیں۔ غرضیکہ بیک وقت عربی ادب وزبان کی مہارت کے ساتھ اردو زبان وادب سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کی کامل مغفرت فرمائے اور جملہ حسنات ودینی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین