بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہٗ (تعارفی تذکرہ)

حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہٗ                      (تعارفی تذکرہ)

نام و نسب آپ کا نام نامی ولی حسن ، والد کا نام مفتی انوار الحسن خان ، دادا مفتی محمد حسن خان اور پردادا مفتی احمد حسن خان(۱)تھے۔ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا اور تقریباً سب ہی علمی ذوق کے حامل تھے، عرصہ دراز  سے ریاست ٹونک کے مفتی اور عدالتِ شرعیہ کا عہدۂ قضاء آپ ہی کے خاندان میں تھا۔ مذکور الصدر تینوں حضرات یکے بعد دیگرے اس عہدہ پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں آپ کے خاندان کی دو شخصیات حلقۂ علماء میں نمایاں مقام کی حامل رہیں۔ یہ دونوں حضرات آپ کے والد کے چچا تھے: ۱:…مولانا محمد حسن خان ٹونکی v، جو’’معجم المصنفین‘‘کے مؤلف تھے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی v اپنی کتاب’’پرانے چراغ‘‘ میں اس خاندان کا مبسوط تذکرہ لکھتے ہوئے مولانا محمدحسن ٹونکی v کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’دوسرے بھائی مولانا محمد حسن خان تو ان سب بھائیوں میں واسطۃ العقد اور بیت القصید کا درجہ رکھتے تھے اور نہ صرف ہندوستان بلکہ اپنے عہد کے اکابر علماء میں شمار ہونے کے قابل ہیں۔ ان کی کتاب ’’معجم المؤلفین‘‘ ایک تصنیفی کارنامہ بلکہ فردِ واحد کی حیثیت سے عالی ہمتی اور وسعتِ نظر اور محنتِ شاقہ کا شا ہکار ہے۔‘‘(پرانے چراغ،ج:۱، ص:۲۰۰)(۲) ۲:…اور دوسرے مولانا حیدر حسن خان جو کہ۱۷؍سال تک دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور شیخ الحدیث رہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور مولاناسید سلیمان ندویؒ جیسی شخصیات نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا۔(۳) آپ کے والد نے دینی علوم ریاست ٹونک اور ریاست رام پور میں حضرت گنگوہیv کے تلمیذ خاص مولانا سیف الرحمن صاحب v سے حاصل کیے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بھی سید خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ جائے ولادت آپ کے پردادا مولانا احمد حسن خان مغربی پاکستان کے شمال مغربی سرحدی خطے کے ایک مردم خیز علاقے بونیر کے رہنے والے تھے ، پشتون قوم کے یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ اپنے علاقہ سے ہجرت کر کے بجنور تشریف لائے۔ ایک مرتبہ ٹونک کے نواب وزیر الدولۃ ریاست بجنور آئے تو آپ کے علم و معرفت سے بہت متأثر ہوئے اور ٹونک آنے کی دعوت دی، چنانچہ آپ ان کی دعوت پر ٹونک آگئے اور وہیں آپ کا خاندان بسا اور ٹونک کے مفتی اور عدالتِ شرعیہ کے قاضی کے عہدہ پر فائزرہے۔(۴) حضرت مفتی ولی حسن صاحب کی پیدائش ۱۹۲۴ء میں ٹونک کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ ریاست ٹونک در اصل راجھستان کی ایک ریاست تھی، جس کے بانی نواب محمد امیر خان تھے، پھر یہ ریاست راجھستان یونین میں شامل ہو کر ایک ضلع بن گئی۔ اس ضلع کی طرف مفتی ولی حسن v منسوب تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت آپ نے ابتدائی کتب اپنے والد ماجد مفتی انوار الحسن سے پڑھیں۔ تقریباً بارہ سال کی عمر تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ آپ کے والد کے چچا اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان صاحبؒ نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کی اور آپ کی دادی صاحبہ سے اجازت لے کر اُن کو اپنے ساتھ لکھنؤ لے گئے۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۹ء تک تقریباً چار سال آپ مولانا کی زیر نگرانی عربی علوم اورغیر رسمی طور پر الفیہ بن مالک اور منطق کے چند رسالے مولانا سے پڑھتے رہے۔(۵) ۱۹۳۹ء میں جب مولانا حیدر حسن خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے وطن مالوف کو لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو ان کو بھی اپنے ہمراہ لے آئے۔ندوہ والوں نے اصرار بھی کیا کہ ان کو یہاں رہنے دیا جائے، لیکن مولانا ان کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے آئے کہ ان کو ’’پرانے طرز کا عالم‘‘ بنانا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید!!‘‘ چناں چہ مفتی صاحب جو کہ ابھی اپنے ابتدائی تعلیمی دور میں تھے،لیکن ان کی آئندہ تمام زندگی، ان کے مربی مولانا حیدر حسن خان صاحب کے خواب (پرانے طرز کے عالم)کی تکمیل میں گزری، جیسا کہ آگے آنے والے بیان سے یہ بات عیاں ہے۔ ٹونک میں واپس آنے کے بعد غالباً باقاعدہ تعلیمی نظام تو مرتب نہ ہوسکا، البتہ مولانا حیدر حسن خان صاحب سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہا اور دیوانِ حماسہ اور ملا حسن تک کتابیں یہاں پڑھنے کا موقع میسر رہا۔ مولانا حیدر حسن خانؒ کی وفات اور سلسلۂ تعلیم کا انقطاع جمادیٰ الاخری ۱۳۶۱ھ مطابق ،جون ۱۹۴۰ء کو مولانا حیدر حسن خان صاحب کا انتقال بمرضِ فالج ہوا۔ حضرت مفتی ولی حسنؒ اس حادثۂ فاجعہ سے ایسے متأثر ہوئے کہ مستقل تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور بامر مجبوری عدالتِ شرعیہ ٹونک میں ملازمت اختیار کرلی، اس عرصہ میں محض اس ملازمت کے استحکام کے پیشِ نظر الہٰ آباد یونیورسٹی سے مولوی کا اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی عالم اور مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ مفتی صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے جو حالات ان کے فرزند ارجمند مولانا سجاد حسن ٹونکی دامت برکاتہم نے مختصر طور پر قلم بند فرمائے ہیں، اس میں خود مفتی صاحب کے بقول آگے کی کہانی کچھ یوں ہے: ’’تکمیلِ درسِ نظامی کے شوق نے ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا، چونکہ مولانا حیدر حسن خان ’’مظاہر العلوم‘‘ کی تعریف کیا کرتے تھے،اس لیے وہاں چلا گیا اور پھر وہاں سے دار العلوم دیوبند چلا گیا۔ موقوف علیہ اور دورہ وہاں سے کیا۔صحیح بخاری اور جامع ترمذی حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز سے پڑھیں۔ دیوبند سے فراغت کے بعد ٹونک واپس آگیا اور ٹونک کے ایک ضلع ’’چھبڑا‘‘ میں مفتی وقاضی ہوگیا۔ عدالتِ شرعیہ کو سولہ قسم کے مقدمات کو فیصل کرنے کا حق تھا،یہاں تک کہ ملک تقسیم ہوگیا، ہندو راج قائم ہوگیا، حالات سے دل برداشتہ ہوکر پاکستان آگیا۔(۶) تکمیلِ علوم گزشتہ بیان سے پتہ چلا کہ حضرت مفتی صاحب نے علوم دینیہ کی تکمیل مدرسہ مظاہر العلوم سے کی اور حدیث شریف شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے پڑھی اور یوں مولانا حیدر حسن خانؒ کا خواب (پرانے طرز کا عالم)پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مفتی صاحب نے یہ تکمیلِ علم کا زمانہ کن ناگفتہ بہ حالات میں گزارا ہوگا کہ والد صاحب بھی وفات پا چکے تھے اور خود آپ بھی سرکاری ملازمت چھوڑ کر آئے تھے۔ ایسے حالات میں انتہائی جانفشانی اور جہدِ متعب سے علم حاصل کیا ۔ آغازِ تدریس سند فراغت حاصل کرنے کے فوراً بعد مفتی صاحب ریاست ٹونک میں مفتی و قاضی مقرر ہوگئے۔ چند سال بعد ہی تقسیم ہند عمل میں آئی اور حالات کی گردش مفتی صاحب کو کراچی لے آئی، شاید اس لیے کہ اللہ پاک کو مفتی صاحب سے یہاں اپنے دین کا کام لینا تھا اور یہاں کی بڑی بڑی دینی ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہونی تھیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں: ’’اس وقت کراچی میں دینی تعلیم کا ایک ہی مرکزی ادارہ تھا جو کھڈہ کے علاقے میں ’’مظہر العلوم‘‘کے نام سے معروف تھا، لیکن ظاہر ہے کہ وہ تمام اہل علم کو اپنے اندر سمو نہیں سکتا تھا۔ اس لیے حضرت مفتی ولی حسن v نے اس وقت برنس روڈ پر واقع ’’میٹروپولیس ہائی اسکول‘‘میں اسلامیات کے استاذ کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔‘‘(۷) ۱۹۵۰ء میں مفتی محمد شفیع صاحب v نے آرام باغ کی مسجد میں امداد العلوم کے نام سے ایک چھوٹا سا ادارہ شروع کیا، جہاں ابتدائی فارسی اور عربی کتب پڑھائی جانے لگیں۔ حضرت نے اس جگہ ایک دار الافتاء کی ترتیب بھی جاری کی، تاکہ امت کے پیش آمدہ مسائل کا حل مل سکے۔لہٰذا مولانا نور احمد v جو مفتی محمد شفیع صاحب v کے عزیز داماد اور دست وبازو تھے اور مفتی ولی حسنv کے دار العلوم دیوبند کے ہم سبق رہ چکے تھے، اور بڑے جوہر شناس تھے،نے مفتی صاحب کا تعلق دار الافتاء سے جوڑا اور پھر جب ۱۹۵۱ء میں نانک واڑہ میں دار العلوم کی بنیاد پڑی تو پھر مفتی صاحب مستقلاً وہیں خدمت کرنے لگے۔ دار العلوم کراچی نانک واڑہ میں آپ عربی ادب اور فقہ کے کئی اہم اسباق پڑھاتے تھے،جس میں’’عربی کامعلم‘‘ سے لے کر ’’ہدایہ‘‘ تک کی کتب شامل تھیں۔ طلبہ نصابی اور غیر نصابی مگر تعلیمی سرگرمیوں میں آپ سے رہنمائی لیتے تھے۔علاوہ ازیں مفتی محمد شفیع صاحب v کی جانب سے افتاء کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے سپرد تھی۔ (۸) پھر جب ۱۹۵۶ء میں ’’دار العلوم‘‘ نانک واڑہ سے شرافی گوٹھ کورنگی منتقل ہوا تو مفتی صاحبv وہاں سے حضرت بنوری v کے مدرسہ، ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ ‘‘(حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) تشریف لے آئے۔ حضرت بنوری v کے مدرسہ میں محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری v کے متعلق یہ مشہور و مسلم ہے کہ حضرت جوہر شناس بھی تھے اور قدر شناس بھی، انہوں نے اپنے گلشن میں مختلف اقسام کے نادر پودے جمع کیے تھے،جن میں سے ہر ایک اس گلشن کی پاکیزہ آب و ہوا سے پھلتا پھولتا ہوا ایک تنا ور شجر علمی بنا اور زمانہ تک اُمت کے لیے مثمر رہا۔ حضرت مفتی ولی حسن صاحب بھی ایک ایسے ہی تناور پھل دار شجرۂ علم تھے۔ آپ کے خاص شاگرد اور افتاء میں آپ کی زبان اور آپ کے قلم شمار ہونے والے حضرت مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی مد ظلہٗ کے بقول: ’’یہی وجہ ہے کہ ایک طویل زمانہ تک آپ ہدایہ اول، ثانی اور ثالث کا درس دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ حدیث شریف کا درس اور فقہ کا درس اور ادب کا درس جامعہ بنوری ٹاؤن میں جس معیار کے مطابق ہوتے ہیں پورے پاکستان میں کہیں نہیں ہوتے۔‘‘ (۹) حضرت بنوری v مفتی صاحب پر بہت اعتماد فرماتے تھے، چناں چہ ترمذی شریف اور بخاری شریف ،جو دورہ حدیث کی اہم ترین اور بنیادی کتب ہیں، کا درس حضرت بنوری v کے پاس ہی ہوتا تھا، لیکن جب ضعف اور معارف السنن کی مشغولیت زیادہ ہوئی تو درسِ ترمذی کے لیے آپ کی نگاہیں کئی رفقاء پر پڑیں، لیکن انتخاب حضرت مفتی صاحب کا ہی ہوا، جو کہ حضرت بنوریؒ کے کامل اعتماد کی بیّن دلیل ہے۔ حضرت بنوریvنے مفتی صاحب کو ’’معارف السنن‘‘ کا قلمی نسخہ بھی عنایت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: ایک سال تک ترمذی شریف کے درس میں شریک ہوں۔ چناں چہ مفتی صاحب دار الافتاء کی ذمہ داریوں کے ساتھ درسِ ترمذی میں طلبہ کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔جب کہ آپ کے بارے میں حضرت بنوری  vکا کہنا یہ تھا کہ:’’مفتی صاحب فقیہ آدمی ہیں، میں نے مجبوراً ان کو اپنے درسِ ترمذی میں شرکت کرنے کو کہا تھا، مجھے اس سے تکلیف بھی ہوتی تھی، لیکن میں مجبور تھا،چونکہ درسِ ترمذی کا سبق ان کو دینا تھا، ورنہ ان کا علمی مقام تو بہت اونچا ہے، مگر درسِ ترمذی میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریv کے طرز اور اپنے طرز و انداز سے انہیں آگاہ کرنا تھا بس! ورنہ آپ کے بڑے کمالات ہیں۔‘‘ اسی وجہ سے حضرت مولانا بنوری v کو حضرت الاستاذ مفتی ولی حسنؒ کے درس ترمذی پر بڑا اطمینان تھا، حضرت شیخ علامہ بنوری v درسِ بخاری میں بعض مسئلہ کی تحقیق و تفصیل کے بارے میں بارہا فرمایا کرتے تھے کہ:’’ فلاں مسئلہ کی تحقیق و تفصیل مفتی ولی حسن صاحب نے بتائی ہوگی، اگر نہیں بتائی تو ضرور بتائیں گے۔‘‘(۱۰) حضرت بنوری v کا یہ اعتماد استخارہ و استشارہ کی بنیاد پر تھا، چناں چہ مفتی عبد السلام صاحب مد ظلہ حکایت فرماتے ہیں: ’’حضرت علامہ بنوری صاحبؒ کا ایک جملہ کسی مجلس کا مجھے یاد ہے کہ: ترمذی شریف کے لیے میں نے دوسرا استاذ دینے کا ارادہ کیا تو میرا خیال اور ذہن بعض دوسرے اساتذہ کے متعلق تھا، اس بارے میں بارہا اللہ تعالیٰ سے استخارہ و استشارہ کیا، مگر استخارہ و استشارہ میں ایسے استاذ کا نام آتا رہا جو میرے خیال و ذہن کے مطابق نہ تھا،اس واسطے تردد بھی تھا۔ بعد میں شرح صدر ہو جانے کے بعد میں نے حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب کو ترمذی کا سبق حوالہ کیا۔‘‘ (۱۱) حضرت بنوری v کو جیسے مفتی صاحب کی تدریس پر اعتماد تھا، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اعتماد ان کے فتوی پر تھا اور یوں فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ہمارے مفتی تو مفتی ولی حسن صاحب ہیں۔‘‘ چناں چہ مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی مد ظلہ رقم طراز ہیں: ’’ایک موقع پر دار الحدیث میں ایک مسئلہ پر بات کرتے ہوئے جب ایک مدرس نے مزاحاً بندہ ناقص سے جواب پوچھنے کے لیے کہا تو آپ نے یوں فرمایا:’’یہ تو ابھی پاؤ بھر کا مفتی ہے،مسئلہ تو سیر بھر کے مفتی سے پوچھنا چاہیے‘‘ اور فرمایا: ’’وہ ہمارے مفتی ولی حسن صاحب ہیں۔‘‘ پھر حضرت مفتی صاحب بھی تشریف لائے اور آپ سے مسئلہ پوچھا اور آپ نے جواب دیا۔ ‘‘(۱۲) حالانکہ حضرت بنوری v محدثِ کبیر ہونے کے ساتھ فقیہ اور مفتی بھی تھے۔خود مفتی ولی حسن صاحب مولانا بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اسی زمانہ میں مولانا بنوری v نے فتوی کا کام بھی کیا، حضرت محدث کشمیری v کے پاس استفتاء آتے تو آپ ضروری ہدایات دے کر مولانا بنوری v کو جواب لکھنے کا حکم فرماتے اور ’’الجواب صواب‘‘ لکھ کر دستخط فرماتے۔‘‘ (۱۳) مقدمہ توہینِ عدالت مفتی صاحب v کی ایک اہم صفت بے باکی اور اربابِ اقتدار سے مرعوب نہ ہونے کی تھی۔ مفتی صاحب فتویٰ کی عظمت کو اربابِ اقتدار کی قدر و منزلت سے متفوِّق مانتے تھے۔ چناں چہ آپ کا ایک فتویٰ جو مساجد کی شرعی حیثیت کے بارے میں دیا گیا کہ موجودہ مساجد کو اپنی جگہ سے ہٹانا جائز نہیں، جب کہ عدالت سے اس کے خلاف فیصلہ شائع ہو چکا تھا۔ اس فتویٰ کے اجراء کے بعد مفتی صاحب کو کراچی کورٹ میں بمقدمہ توہینِ عدالت بلوایا گیا۔جب مفتی صاحب کراچی کورٹ میں پیش ہوئے تو آپ کی حمایت میں عوام کا جم غفیر جمع ہوگیا، حکومت نے اس سے بچنے کے لیے اسلام آباد کورٹ میں مقدمہ منتقل کردیا۔ جب مفتی صاحب وہاں پیش ہوئے تو پاکستانی عوام کا ایک سمندر ساتھ ہو لیا اور بالآخر سیشن جج کو مقدمہ خارج کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہی مفتی صاحب کو مفتی اعظم پاکستان کا لقب دیا گیا۔ کیسی بے باکی، بے نظیر قبولیت و محبوبیت اللہ پاک نے عطا فرمائی کہ اظہارِ حق میں کسی سرکاری، عدالتی یا قانونی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے۔ امتیازی اوصاف مفتی صاحب v میں اللہ پاک نے چند ایسی صفات ودیعت فرمائی تھیں جن میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، انہی امتیازات نے ان کو محبوب عند العامہ بنادیا تھا۔ ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے: اندازِ تدریس آپ کا اندازِ تدریس نرالا تھا۔ آپ کے درس کی خصوصیت یہ تھی کہ ہر نوع کی استعداد والے طلبہ یکساں مستفید ہوتے تھے۔ آپ کے تلمیذ خاص مفتی عبد السلام چاٹگامی زید مجدہ فرماتے ہیں: ’’حضرت الاستاذ کے درس کا یہ حال تھا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ استعداد کا طالب علم بھی اپنی استعداد کے موافق علوم و فنون کے نکات اور اصول و فروع سمیٹ رہا ہوتا اور ادنیٰ سے ادنی استعداد کا طالب علم بھی کتاب سمجھنے سے محروم نہیں رہتا تھا،إلا أن یکون محروم القسمۃ،یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن بندہ حقیر جیسے ضعیف الاستعداد اور ضعیف القویٰ لوگوں کے لیے آپ علوم کا سمندر تھے، جب آپ درس دیا کرتے تو معلوم ہوتا کہ علوم کا سمندر تلاطم و تموج میں ہے، قوی الاستعداد اور متوسط الاستعداد طلبہ تو اس میں مستغرق ہوتے اور علوم و فنون کے موتیوں کو جمع کرتے نظر آتے، جب کہ ضعیف الاستعداد طلبہ بھی وجدانی حال میں ہوتے، ایسا معلوم ہوتا کہ انہوں نے کبھی ایسا درس سنا ہی نہیں ہے۔ حضرت الاستاذ جب بعض مغفل طلبہ کو پوری توجہ سے درس سنتے ہوئے نہ پاتے تو ان الفاظ سے تنبیہ فرمایا کرتے تھے: ’’سن تو دوست! دوست سنو، سنو، یہاں پر عجیب مضمون بیان کیا جارہا ہے۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔ اس سے طالب علم چونک جاتے اور اپنی غفلت پر نادم ہو جاتے ۔ غرض آپ کا درس عجیب شان والا اور پر کیف ہوتا تھا۔‘‘ (۱۴) مفتی صاحب v عرصہ دراز تک ہدایہ اول،ثانی ثالث،اصولِ بزدوی اور ترمذی شریف پڑھاتے رہے ۔آپ کے درسِ ہدایہ کے افادات آج بھی مطبوع و مشہور ہیں۔ آپ کا درسِ ترمذی تو حضرت بنوری v کے ایماء پر تھا اور ان کی وفات کے بعد درسِ بخاری بھی آپ کی طرف منتقل ہوا۔ مفتی عبد السلام چاٹگامی زید مجدہٗ آپ کے درسِ حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’آپ کے درسِ حدیث میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جگہ جگہ فقہی اُصول کی نشان دہی فرمایا کرتے تھے اور فقہی جزئیات بھی بتا دیا کرتے تھے، جس سے حدیث کی شرح سمجھنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔‘‘ (۱۵) چناں چہ یہ درسی افادات جمع بھی کیے گئے اور مفتی صاحب سے اس کی اشاعت کے لیے عرض بھی کیا گیا، مگر مفتی صاحب نے تواضع سے عذر فرمایا۔ آج بھی طلبہ اگر اس سے استفادہ کریں تو فقہی بصیرت نصیب ہو سکے گی، ان شاء اللہ! آپ کے درس کی اہم صفت تسہیل تھی کہ پہاڑ جیسا مسئلہ بھی موم ہو کر رہ جاتا تھا، چناں چہ مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ فرماتے ہیں: ’’اگر چہ مفتی صاحب v کی زبان میں ہلکی سی لکنت تھی ،لیکن آ پ کا درس انتہائی دل نشین اور دل چسپ ہوتا تھا۔ آپ مشکل سے مشکل بحث کی تقریر اس طرح فرماتے کہ مسئلہ پانی ہو کر رہ جاتا اور زبان کی معصومانہ لکنت اس تقریر کی لذت میں کمی کرنے کے بجائے اور اضافہ کردیتی تھی۔‘‘(۱۶) مفتی عبد السلام چاٹگامی زید مجدہٗ آپ کے درس کی سلاست کو یوں بیان فرماتے ہیں: ’’اصولِ بزدوی‘ اصولِ فقہ کی مشکل ترین کتاب ہے ،لیکن حضرت الاستاذ اسے آسان سے آسان کر کے سمجھایا کرتے تھے۔ مگر آپ کے بعد وہ باتیں نہ رہیں، اس لیے اس کتاب کو درس سے بھی خارج کردیا گیا۔‘‘(۱۷) اصاغر کی حوصلہ افزائی مفتی صاحب v اپنے شاگردوں اور رفقاء کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کو آگے بڑھاتے، جس کی وجہ سے آج بھی ان کے شاگرد‘ دین کی خدمت کر رہے ہیں اور قیامت تک کے لیے ان کا صدقہ جاریہ ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم رقم طراز ہیں: ’’اسی زمانہ میں حضرت مفتی صاحب v کے حکم پر احقر نے اپنا سب سے پہلا مقالہ لکھا، جس کا عنوان تھا: ’’رسول کریم a سب سے بڑے شارع تھے۔‘‘ ناظم آباد میں شہر کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کو اسی موضوع پر تقریر اور مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ حضرت مفتی صاحب نے اس موضوع پر لکھنے کا حکم فرمایا،لکھنے کا طریقہ بھی خود ہی تلقین فرمایا، مواد بھی بتایا اور بعد میں اصلاح بھی فرمائی۔ یہ مقالہ مذاکرے میں پیش ہوا اور پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔‘‘ (۱۸) ایک اورجگہ مفتی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں: ’’اسی دوران ایک مرتبہ میں حضرت مفتی صاحب v کے سامنے خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت مفتی صاحب v کو بہت سے فتاویٰ کا جواب لکھنا تھا جو اُن کے سامنے رکھے ہوئے تھے، اچانک انہوں نے ایک استفتاء پڑھنے کے بعد فرمایا کہ: دیکھو! یہ کتنا آسان سوال ہے، اس کا جواب تم ہی لکھ دو۔ میں اس وقت ہدایہ پڑھتا تھا اور حضرت مفتی صاحب v کا یہ فرمانا مجھے مذاق محسوس ہوا۔ لیکن مفتی صاحبv نے سنجیدگی کے ساتھ اصرار فرمایا، میں نے ڈرتے ڈرتے جواب لکھ دیا۔ مفتی صاحب v نے جواب دیکھ کر فرمایا: ’’جواب ٹھیک ہے اور اسی طرح رفتہ رفتہ انسان فتویٰ لکھنا سیکھ لیتا ہے ‘‘ یہ کہہ کر مفتی صاحب نے فتوی پر اپنے دستخط فرمادیئے۔ یہ میرا پہلا فتویٰ تھا اور اس طرح فتویٰ کے میدان میں پہلا قدم رکھوانے کا سہرا بھی حضرت مفتی صاحب v کے سر ہے۔‘‘(۱۹) آپ کے تلمیذِ خاص رفیق دار الافتاء مفتی عبد السلام چاٹگامی زید مجدہٗ فرماتے ہیں: ’’تخصص فی الفقہ اور تخصص فی الحدیث کے طلبہ کے لیے حضرت علامہ بنوری v نے اپنے درسِ بخاری اور حضرت مفتی صاحب کے درسِ ہدایہ ثانی اور ثالث میں بیٹھنے کو لازمی قرار دیا تھا، اس لیے بندہ بھی ان اسباق میں شریک ہوتا تھا۔حضرت الاستاذ مفتی صاحب نے از خود فرمایا: اگر ہدایہ اول میں بھی بیٹھ جایا کرو تو اچھا ہو، ہدایہ سمجھنا اور پڑھانا آجائے گا۔ بندہ نے آپ کے کہنے پر ہدایہ اول میں بھی شریک ہونا شروع کیا۔‘‘ (۲۰) تواضع و انکساری حضرت مفتی صاحب v اپنے علمی تبحر کے باوجود انتہائی تواضع کے حامل اور منکسر المزاج تھے،اپنے شاگردوں کے ساتھ ساتھیوں والا معاملہ کرتے، اپنی رائے نہ خود کبھی حتمی سمجھتے، نہ کسی پر واجب الاتباع قرار دیتے تھے، بلکہ صحیح کی وضاحت کے بعد اگر رجوع کی ضرورت ہوتی تو علیٰ الاعلان رجوع فرمالیتے۔ غرض یہ کہ آپ کے اندر ضد اور ہٹ دھرمی ہرگز نہ تھی۔ اسی طرح جھینگا مچھلی کے بارے میں حضرت الاستاذ کو دار الافتاء کے جواب سے اختلاف تھا۔ دار الافتاء کی جانب سے اس کے مچھلی ہونے اور حلال ہونے کا فتویٰ دیا جاتا، جب کہ حضرت الاستاذ کی رائے یہ تھی کہ اس میں صریح نص یا فقہی جزئیہ نہیں اور علماء کا اختلاف ہے، اس لیے میرے نزدیک مکروہ ہونے کا حکم ہونا چاہیے۔ جو کھانے والے ہیں، ان کو گناہ گار نہ کہا جائے اور نہ کھانے والے احتیاط کریں۔ بہر حال حضرت الاستاذ کی جانب سے کسی قسم کا تشددیا ضد یا ذاتیت کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا تھا۔ نیز بہت سے مسائل میں آپ اپنے فتویٰ کے خلاف ظاہر ہونے پر رجوع بھی کر لیا کرتے تھے، مثلاً: کچھ سال قبل کچھ مخدوش تاجر برادری نے مل کر مضاربت کے نام پر ایک کاروبار شروع کیا، آپ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا اور اپنے متعلقین کو اس کی ترغیب بھی دی۔ لیکن اس کاروبار میں ایک شرط فاسد اور بہت سی خرابیاں بھی تھیں،آپ کی توجہ اس طرف دلائی گئی تو آپ نے اس سے رجوع کرلیا۔ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں ہدایہ کے جزئیہ کی بنیاد پر آپ کی رائے شروع شروع میں جواز کی تھی، چناںچہ آپ کا ایک فتویٰ آنکھوں کی تبدیلی کے جواز پر جامعہ کے رجسٹر میں موجود ہے، مگر جب اس پر غور ہوا اور تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ ہدایہ کے جزئیہ سے استدلال صحیح نہیں تو آپ نے اس سے رجوع فرمایا۔ (۲۱) والدین کے ساتھ حسن سلوک حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نور اللہ مرقدہٗ اپنے مضمون کی انتہاء اس بات پر کرتے ہیں کہ: ’’جناب مفتی صاحب کا ایک لائق رشک امتیازی وصف‘‘ بر الوالدین‘‘ تھا، یہ ناکارہ جب کراچی آیا تو مفتی صاحب یہاں کے صدر مفتی اور شیخ الحدیث تھے، اس کے باوجود والدہ ماجدہ کے ساتھ حسن سلوک کا یہ عالم تھااپنا پورا مشاہرہ والدہ ماجدہ کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے اور وہ اپنے اس جلیل القدر فرزند کو چا ر آنے یومیہ پان کے لیے عطا فرماتی تھیں۔ضعیف العمر والدہ کے ساتھ مفتی صاحب کا یہ حسن سلوک اس دور میں غالباً عدیم النظیر تھا جو غایت تواضع اور ادب مع الاکابر سے ناشی ہے۔‘‘ (۲۲) تصنیفی خدمت اگر چہ مفتی صاحب کی تصانیف تعداد میں بہت زیادہ نہ ہوئیں، لیکن مفتی صاحب کی موجودہ تصانیف بھی ان کے تحقیقی ذوق اور علمی کمال کا پتہ دیتی ہیں۔ مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں: ’’حضرت مفتی صاحب v کی ان غیر معمولی صلاحیتوں کے پیش نظر احقر کا دل ہمیشہ یہ چاہتا تھا کہ ان کے اوقات کا ایک معتد بہ حصہ تصنیفی کاموں میں صرف ہو، تاکہ ان کے علم و فضل اور تفقہ سے استفادہ کا دائرہ زیادہ وسیع اور پائیدار ہوسکے۔ احقر نے بارہا حضرت مفتی صاحب سے ’’فتح الملہم‘‘ کی تکمیل کے لیے درخواست کی اور حضرت بنوریؒ کی وفات کے بعد ’’معارف السنن‘‘ کی تکمیل کے لیے عرض کیا اور ان دونوں کاموں کے لیے حضرت مفتی صاحب کی شخصیت انتہائی موزوں تھی۔ ‘‘ (۲۳) لیکن آپ اپنی فطری سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے پیش نظر ہر خاص وعام ، غریب سے غریب کی دعوت قبول فرماتے اور ہر ایک شخص بلاروک ٹوک آپ سے سوال کرسکتا تھا، جس کی وجہ سے آپ تفصیلی تصانیف نہ لکھ سکے۔مفتی صاحب کی جو تصانیف یا مضامین موجود ہیں وہ یہ ہیں: ۱:…تذکرۃ الاولیاء  ۲:…عائلی قوانین پر تحقیقی تبصرہ ۳:…بیمہ و انشورنس پر تحقیقی مقالہ ۴:… اپنے شیخ حضرت بنوری v اور ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’معارف السنن‘‘ کی خصوصیات کے بارے میں فاضلانہ مضمون، وغیرہ وغیرہ۔ ۵:… فتنہ انکارِ حدیث پر تفصیلی فتویٰ جو بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوکر شائع ہوا۔ ۶:… درس الہدایہ، حضرتؒ کے تدریسی افادات کو ان کے فرزند مولانا سجاد حسن مدظلہ نے مرتب کیا ہے۔  آپ کے چند مضامین ’’انتخابِ مضامین‘‘ کے نام سے جمع کیے گئے ہیں، جن کی تعداد ’’۳۲‘‘ ہے۔ اس مجموعہ کے حرفِ آغاز میں لکھا ہے: ’’حضرت اقدس مفتی صاحب کی عام شہرت ایک عارف باللہ، ماہر مدرس اور ایک حاذق مفتی کی حیثیت سے ہے، لیکن شاید بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ حضرت مفتی صاحب ان صفاتِ عالیہ کے باوصف ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے صاحبِ قلم بھی تھے۔‘‘ (۲۴) آپ کے علمی ورثہ کا اہم حصہ آپ کے قلم سے لکھے گئے جامعہ کے دارالافتاء سے جاری ہونے والے ہزاروں فتاویٰ ہیں ۔  اس کے علاوہ متعدد بیانات، مواعظ اور چھوٹی بڑی تحریرات موجود ہیں جن میں بے پناہ علمی خزینہ ہے، بعض ان میں سے طبع بھی ہوچکی ہیں۔  حضرت بنوری v کا اعتماد حضرت مفتی صاحب v حضرت علامہ بنوری v کے صحیح جانشین کہلانے کے مستحق تھے، اپنی زندگی ہی میں حضرت بنوری v نے اپنا اعتماد اُن پر ظاہر فرمادیا تھا، چناں چہ درسِ ترمذی آپ کے سپرد کیا۔ اور حضرت بنوری v کی وفات کے بعد درسِ بخاری بھی آپ کے ذمہ ہوا۔ دار الافتاء کے رئیس کی حیثیت سے آپ کی خدمات مزید برآں ہیں۔ گویا آپ بیک وقت حضرت بنوریv کے مدرسہ کے شیخ الحدیث بھی تھے اور رئیس دار الافتاء بھی تھے۔ محبوبیت آپ کی ایک امتیازی شان محبوبیت تھی۔ طلبہ و اساتذۂ جامعہ اور عوام ہر ایک حلقہ میں آپ کو محبوبیت حاصل تھی، جس کی اصل وجہ آپ کی فطری سادگی اور تواضع تھی۔ ہر حلقہ کے علماء میں آپ متفق علیہ شخصیت تھے۔ آپ کو مفتی اعظم پاکستان کے لقب سے یاد کرنا اسی محبوبیت اور اظہارِ عقیدت کا نتیجہ ہے۔حضرت مفتی عبدالسلام صاحب چاٹگامی دامت برکاتہم آپ کی شانِ محبوبیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہی وجہ تھی کہ حضرت علامہ بنوری v خود آپ کی بڑی قدر کیا کرتے تھے اور اساتذہ بھی۔ یہ چیز ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خداداد ہوتی ہے۔ آپ کے اندر شانِ محبوبیت تھی، اساتذہ، طلبہ، عام و خاص ہر ایک آپ سے محبت کیا کرتے تھے۔‘‘(۲۵) آج بھی آپ کے تمام شاگرد اور مستفیدین جس عظمت اور محبت سے آپ کا تذکرہ کرتے ہیں، اس سے بھی آپ کی شانِ محبوبیت ظاہر و باہر ہے۔  تفقہ اور اِفتاء  آپ کی اصل اور خاندانی خاصیت فقہ اور افتاء تھی۔ آپ فقیہ کامل اور اجتہادی شان کے حامل تھے، جس کا واضح رنگ آپ کے درسِ حدیث میں بھی نظر آتا تھا، چناں چہ مفتی عبد السلام صاحب زید مجدہٗ فرماتے ہیں: ’’حضرت الاستاذ مولانا مفتی صاحب کی اصل چیز جو اُن کی خاندانی اور فطری ہے، وہ فقہ اور فتاویٰ کا کام ہے۔ آپ نے فرمایا: آپ کے آباء و اجداد کئی پشتوں سے مفتی اور قاضی گزرے ہیں۔‘‘(۲۶)  اسی طرح آپ کی پوری زندگی افتاء کی خدمت میں گزری، سب سے پہلے آپ ریاست ٹونک کے مفتی رہے، پھر مدرسہ امداد العلوم آرام باغ کراچی میں افتاء کی خدمت انجام دی، اس کے بعد دار العلوم نانک واڑہ میں اور پھر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں عرصہ دراز تک اس شعبہ سے منسلک رہے، یہاں تک کہ آپ پورے پاکستان کے مفتی اعظم کہلائے جانے لگے۔ آپ کے فتاویٰ جامع، مدلل اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے تھے، جزئیات کے استحضار میں آپ کا ثانی نہ تھا۔  صفاء قلب صفاء قلب آپ کی اہم صفت تھی، کبھی کسی کے لیے دل میں کینہ و بغض نہیں رکھتے تھے، اگر کبھی کسی سے گلہ بھی ہوتا تو وضاحت سے فرما دیتے تھے۔آپ کے شاگردِ خاص مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: ’’حضرت الاستاذ مفتی صاحب جیسا کہ ان کا نام ولی حسن ہے، حقیقت میں ان کے اندر شانِ ولایت بھی تھی۔ بندہ عاجز نے ۲۶؍سال کے عرصہ میں ان سے کوئی جھوٹ، فریب، خیانت، حسد، بغض، عداوت، حرص، لالچ، کبر و نخوت وغیرہ ایسے امراضِ باطنیہ کے آثار نہیں دیکھے۔‘‘ (۲۷)  ہمہ جہت شخصیت آپ کی شخصیت ہمہ فن اور ہمہ جہت شخصیت تھی۔ آپ کا تعلق ہر فن سے یکساں معلوم ہوتا تھا۔ درسِ حدیث میں آپ شیخ الحدیث، درسِ ہدایہ میں آپ فقیہ اور درسِ علوم عربیہ میں آپ ادیب نظر آتے۔ ایک طرف یہ تدریسی کمالات تھے، دوسری طرف مفتی حاذق کے طور پر خدمات تھیں۔ ابتداء ً آپ خطابت و تقریر سے گریز فرماتے تھے،مگر اخیر عمر میں جگہ جگہ علمی مجالس میں شرکت اور ایسے عالمانہ بیانات فرمائے کہ آپ کا یہ ملکہ لوگوں کے سامنے اُجاگر ہوا۔ آپ کے تصنیفی کارنامے اس پر مزید بر آں ہیں۔ سادگی و ظرافت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ آپ کی سادگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’لیکن اس علم و فضل اور معصومیت کے ساتھ ان کے مزاج میں ظرافت اس قدر تھی کہ وہ جس بے تکلف مجلس میں بیٹھ جاتے، اس کو باغ و بہار بنا کر چھوڑتے، ایسی مجلسوں میں ان کے منہ سے ایسے بے ساختہ ظریفانہ جملے بر آمد ہوتے، جنہیں ظریفانہ ادب کا شاہکار کہنا چاہیے۔ اور ان جملوں میں اکثر اوقات علمی تلمیحات کی ایسی چاشنی ہوتی جو اُن کی معنویت میں چار چاند لگادیتی۔‘‘ (۲۸) الغرض مفتی صاحبv تکلف سے کوسوں دور تھے اور آپ کی فطری سادگی آپ کے لباس، چال ڈھال، گفتار و کردار سے عیاں تھی۔ اسی سادگی کی بدولت ہر ایک بلا جھجک آپ سے استفادہ کر لیتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ اللہ پاک نے اس ایک شخصیت میں اتنی صفات جمع فرمادی تھیں جو کہ عام طور پر کسی ایک انسان میں جمع نہیں ہوتیں۔ بیعت و سلوک آپ کا استرشادی تعلق حضرت حماد اللہ ہالیجوی قدس سرہ العزیز سے تھا۔ (حضرت سے تعلق تو حضرت علامہ بنوری v کا بھی خوب تھا) آپ اہتمام سے ان کی مجلس میں شرکت فرماتے اور افادات کو قلم بند فرماتے تھے۔ حضرت حماد اللہ ہالیجوی نور اللہ مرقدہٗ کی وفات کے بعد مفتی صاحب v نے برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مدنی v سے استرشاد کا تعلق قائم فرمایا اور ساؤتھ افریقہ کے شہر اسٹینگر میں اعتکاف کے دوران حضرت نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ حضرت مفتی صاحب جب علیل ہوئے اور علالت طویل ہوگئی تو آپ کے گھر پر ہی بیعت و ذکر کا سلسلہ جاری رہا اور آپ کے ہاں بدھ کو عصر کے بعد مجلس منعقد ہوا کرتی تھی، اور خلقِ کثیر آ کر آپ سے مستفید ہوتی تھی۔آپ کی رات کی مناجات کے بارے میں مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں: ’’اور اس حقیقت کے ادراک کے بعد حضرت مفتی صاحب v کے طرزِ عمل میں حضرت محمد بن سیرین v کی شباہت آنے لگتی تھی، ان کے بارے میں ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ:’’کنا نسمع ضحکہ بالنھار وبکاء ہٗ باللیل۔ ‘‘(۲۹) مناصب و خدمات ۱:…آپ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد تقسیم ہند سے پہلے تک ریاست ٹونک کے مفتی اور عدالتِ شرعیہ کے قاضی رہے۔ ۲:… تقسیم ہند کے بعد کراچی میں چند سال تک ’’میٹروپولیس اسکول‘‘میں اسلامیات کے مدرس رہے۔ ۳:…اسی عرصہ میں مدرسہ امداد العلوم کے دار الافتاء میں افتاء کا کام کیا۔ ۴:…۱۹۵۱ ء میں دار العلوم نانک واڑہ کے قیام کے بعد مستقلًا وہاں مدرس و مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔ ۵:… ۱۹۵۶ء دار العلوم کی منتقلی پر مدرسہ عربیہ اسلامیہ تشریف لائے اور اخیر تک یہاں شیخ الحدیث اور رئیس دار الافتاء رہے۔ ۶:… مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ العزیز کے بعد مفتی اعظم پاکستان کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ ۷:…حضرت بنوری v کی قائم کردہ مجلس تحقیق برائے مسائل حاضرہ کے رکن رکین رہے۔ ۸:… حضرت بنوری v نے جب تخصصات کا اجراء کیا تو تخصص فی الفقہ کا مشرف آپ کو بنایا۔ اساتذہ ۱:… اس نابغہ روزگار شخصیت کی ابتدائی تربیت تو آپ کی سیدزادی والدہ نے کی۔ ۲:… ابتدائی کتب ۱۲؍سال کی عمر تک اپنے والد مفتی انوار الحسن v سے پڑھیں۔ ۳:… ان کی وفات کے بعد اپنے والد کے چچااور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتمم مولانا حیدر حسن خان نور اللہ مرقدہٗ کے زیر نگرانی لکھنؤ میں اور اسی طرح وہاں کے دیگر اساتذہ سے ابتدائی فنون مثلاً ادب وغیرہ پڑھے۔ ۴:… تکمیل علوم کے لیے مظاہر العلوم تشریف لے گئے، وہاں کے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ۵:… حدیث شریف میں شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی v سے سند فضیلت حاصل کی۔ ۶:… اسی زمانہ میں دار العلوم دیوبند میں مولانا اعزاز علی صاحبv کی خدمت میں رہ کر فقہ و حدیث میں مہارت حاصل کی۔ ۷:… سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب v کی رفاقت و معیت میں بھی افتاء کا کام کیا۔ ۸:… حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ کے ایماء پر ان کے درسِ ترمذی میں شریک ہوئے، تاکہ حضرت انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے اندازِ تدریس سے آشنائی ہوجائے، گویا آپ مدنی و کشمیری دونوں ہی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ تلامذہ آپ کے تلامذہ کی صورت میں آپ کا صدقہ جاریہ جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ! تا روزِ قیامت جاری رہے گا۔ بلاشبہ آپ کے تلامذہ کی تعداد (جن میں ایک معتد بہ مقدار مشاہیر کی بھی ہے)ہزاروں میں اور مستفیدین کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ نہ جانے ہر ایک نے کس کس انداز سے اور کس کس پیمانے پر دین اسلام کی خدمت کی ہوگی اور اُن تمام دینی ، علمی، اصلاحی، اور دعوتی خدمات کے ثواب میں حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہٗ بھی ان شاء اللہ! شریک ہوں گے۔  الغرض مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہٗ و برد اللہ مضجعہٗ اپنی ذات میں ایک انجمن اور اُمت کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ فقیہ و مجتہد بھی تھے، مدرس و مربی بھی تھے، قاضی و مفتی بھی تھے، محدث و محقق بھی تھے، عابد و زاہد بھی تھے اور جری و قوی بھی تھے۔ آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں اور آپ کے نقل کیے جانے والے ہر قصہ میں بعد والوں خصوصاً طلبہ و علماء کے لیے سبقِ عبرت اور جادۂ حق کی راہنمائی ہے۔ سفرِ آخرت اپنی عمر شریف کے اخیر زمانہ میں تقریباً چھ سال کی مدتِ مدیدہ تک مرضِ فالج میں مبتلا رہے اور باوجود مستقل علاج کے عملی زندگی میں واپسی نہ ہو سکی۔ بالآخر، ۲؍رمضان۱۴۱۵ھ مطابق ۳؍ فروری ۱۹۹۵ء شبِ جمعہ کو بوقتِ سحر ساڑھے پانچ بجے عازمِ سفرِ آخرت ہوئے۔(۳۰) نمازِ جنازہ حضرتؒ کے پرانے دوست اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصص فی الحدیث کے مشرف مولانا عبد الرشید نعمانی نور اللہ مرقدہٗ نے پڑھائی اور آپؒ کی وصیت کے مطابق آپ کو دار العلوم کورنگی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ہزاروں طلبہ و علماء کی شکل میں روحانی اولاد کے علاوہ آپ کے سوگواروں میں ۶؍ صاحبزادے اور ۲؍ صاحبزادیاں بھی تھیں، جن میں سے تین صاحبزادے ڈاکٹر اور ایک مولانا سجاد حسن صاحب ‘عالم ہیں اور مدرسہ امداد العلوم کے شیخ الحدیث ہیں۔ مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہٗ - سوانحی خاکہ- ۱۹۲۴ء         ریاست ٹونک کے گاؤں میں پیدائش۔ ۱۹۳۵ء          ۱۲؍سال کی عمر میں والد ماجد کی وفات۔ ۱۹۳۶ء         مولانا حیدر حسن خان صاحبؒ کے ہمراہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا سفر برائے حصول علم۔ ۱۹۴۰ء         مولانا کے ہمراہ آبائی علاقہ میں واپسی۔ ۱۶؍جون۱۹۴۰ء     مولانا حیدر حسن خان صاحبؒ کی وفات اور تعلیمی سلسلہ کا انقطاع ۔ ۱۹۴۳ء         ملازمت چھوڑ کر تکمیل علوم کے لیے مظاہر العلوم اور پھردیوبند کا سفر۔ ۱۹۴۶ء         فراغت کے بعد بحیثیت مفتی و قاضی ریاست ٹونک تقرری۔ ۱۹۴۷ئ         تقسیم ہند اور کراچی آمد۔ ۱۹۵۱ء         دار العلوم نانک واڑہ میں تدریس و افتاء کی خدمت۔ ۱۹۵۶ء         حضرت بنوریvکے مدرسہ سے تعلق و خدمات۔ ۱۹۷۶ئ        فقیہ الملۃ مفتی محمد شفیع صاحب کی وفات کے بعد مفتی اعظم پاکستان کا لقب۔ ۱۹۷۷ء         حضرت بنوری v کی وفات کے بعد جامعہ کے شیخ الحدیث اور رئیس دار الافتاء ۔ ۱۹۸۹ء         مرضِ فالج کا حملہ۔ ۳؍فروری ۱۹۹۵ئ    دار فانی سے کوچ و رحلت۔ حوالہ جات ۱:… سوانح حضرت مولانا مفتی حسن ٹونکی v، مولانا حسین صدیقی، ص:۱۱ ۲:… بصائر و عبر از حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی v، ماہنامہ بینات ذو القعدہ ۱۴۱۵ھ ۳:… درس الہدایۃ، مفتی ولی حسن خان ٹونکی v، مرتب مولانا سجاد حسن، ص:۱۳، مکتبہ اقراء ۴:… حوالہ بالا،ص:۱۳ ۵:… شخصیات و تأثرات ،مولانا محمد یوسف لدھیانوی v، ص:۹۹،ج:۲، ط:مکتبہ لدھیانوی۔ ماہنامہ بینات ذو القعدہ ۱۴۱۵ھ، بصائر و عبر از مولانا محمد یوسف لدھیانوی v ۶:… درس الہدایۃ، مفتی ولی حسن خان ٹونکی v، مرتب مولانا سجاد حسن، ص:۱۴، مکتبہ اقراء ۷:… نقوشِ رفتگاں از حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مد ظلہ، ص:۴۷۶، مکتبہ معارف القرآن کراچی ۸:… حوالہ بالا ۹:… میرے مشفق و مربی استاذ از حضرت مولانا مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی، ص:۳۴ ۔ ماہنامہ بینات ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ ۱۰:… حوالہ بالا، ص:۳۵  ۱۱:… حوالہ بالا، ص:۳۸ ۱۲:… حوالہ بالا، ص:۴۰ ۱۳:… محد ث کبیر مولانا بنوری v از مفتی ولی حسن ٹونکی v، ص:۳۴،ط:ادارۃ العلم والارشاد۔ ماہنامہ بینات اشاعت خاص ۱۴:… میرے مشفق و مربی استاذ از حضرت مولانا مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی، ص:۱۴ ،ماہنامہ بینات ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ ۱۵:… حوالہ بالا، ص:۳۶ ۱۶:… نقوشِ رفتگاں از مفتی محمد تقی عثمانی ، ص:۴۷۷، مکتبہ معارف القرآن کراچی ۱۷:… میرے مشفق و مربی استاذ از حضرت مولانا مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی، ص:۳۶، ماہنامہ بینات ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ ۱۸:… نقوشِ رفتگاں از مفتی محمد تقی عثمانی ، ص:۴۸۰، مکتبہ معارف القرآن کراچی ۱۹:… حوالہ بالا، ص:۴۸۱ ۲۰:… میرے مشفق و مربی استاذ از حضرت مولانا مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی، ص:۳۶ ، ماہنامہ بینات ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ ۲۱:… حوالہ بالا، ص:۴۱ ۲۲:… شخصیات و تأثرات مولانا یوسف لدھیانوی v، ص:۱۰۷، ماہنامہ بینات ذو القعدہ ۱۴۱۵ھ،ص:۹ ۲۳:… نقوشِ رفتگاں از مفتی محمد تقی عثمانی ، ص:۴۸۳، مکتبہ معارف القرآن کراچی ۲۴:… انتخابِ مضامین مفتی ولی حسن ٹونکی v، مرتب مولانا فصیح احمد ،ص:۵، ناشر:مکتبہ فاطمیہ ۲۵:… میرے مشفق و مربی استاذ از حضرت مفتی عبد السلام چاٹگامی ،ماہنامہ بینات ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ، ص:۳۸ ۲۶:… حوالہ بالا، ص:۳۷ ۲۷:… حوالہ بالا، ص:۴۰ ۲۸:… نقوشِ رفتگاں از مفتی محمد تقی عثمانی ، ص:۴۸۴، مکتبہ معارف القرآن کراچی ۲۹:… حوالہ بالا، ص۴۸۵ ۳۰:… شخصیات و تأثرات از مولانا محمدیوسف لدھیانوی v ،ج:۲،ص:۹۹، طبع:مکتبہ لدھیانوی ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین