بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی  ؒ کی رحلت

حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی  ؒ کی رحلت

جامعہ دارالعلوم کراچی کے استاذِ حدیث ومفتی، صدر دارالعلوم کراچی مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب و صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بھتیجے، جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل، کئی کتابوں کے مصنف حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی اس دنیائے رنگ وبو میں ۷۳؍ بہاریں گزار کر ۲۵؍رجب المرجب ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۷؍فروری ۲۰۲۲ء راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شيء عندہٗ بأجلٍ مسمی۔
انسان عالمِ ارواح سے محوِ سفر ہے اور جنت میں داخلہ تک یہ سفر جاری رہے گا۔ دنیا میں آنا اور یہاں سے کوچ کرنا اس سفر کا لازمی جز ہے، جسے ہرایک نے عبور کرناہے۔ یہ دنیا دراصل آخرت کے لیے توشہ لینے کی جگہ ہے۔ جس نے اس دنیا میں سے عالمِ ارواح میں رب سے کیے گئے ’’عہدِ الست‘‘ کے مطابق زندگی گزاردی، وہ تو اس دنیا سے عالمِ آخرت کے لیے کامیابی کی سند اور تمغہ لے کر جاتا ہے اور جو اس دنیا میں اس عہد کو بھلا کر اپنی من مانیوں اور خواہشات میں پھنسا رہا، اس کا معاملہ مشکوک سا ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مشیت پر ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ چاہے تو اسے بلاحساب وکتاب اسے معاف فرما دے اور چاہے تو سزا دے۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جن کی پوری زندگی دین اسلام کے سیکھنے وسکھانے میں گزر گئی۔ کتنے مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم اور سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پڑھنے اور پڑھانے میں گزار دی۔ انہی میں سے ایک ہمارے ممدوح حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی نور اللہ مرقدہٗ ہیں۔ 
حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی‘ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہٗ کے بڑے صاحبزادے جناب زکی کیفی رحمہ اللہ کے ہاں ۷؍شعبان ۱۳۷۰ھ مطابق ۱۲؍ مئی ۱۹۵۱ء بروز پیر پیدا ہوئے۔ ابتدا سے دورہ حدیث تک تمام تعلیم جامعہ اشرفیہ لاہور سے حاصل کی۔ تخصصِ فقہ دارالعلوم کراچی سے حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، وہاں تعلیم جاری تھی کہ والد صاحب کی وفات کا سانحہ ہوگیا۔ چونکہ آپ اپنے والدین کی اولاد میں سے بڑے تھے، اس لیے آپ والدہ اور چھوٹے بھائیوں کی خدمت اور سرپرستی کے لیے واپس لاہور آگئے۔ ادارہ اسلامیات جسے آپ کے والد صاحب نے قائم کیا تھا، اس کی دیکھ بھال آپ کرتے تھے، جب آپ کے بھائی اس کو سنبھالنے کے قابل ہوگئے تو آپ ۱۹۹۰ء میں مستقل دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے اور یہاں تدریس کے ساتھ ساتھ دار الافتاء میں بھی اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔
اصلاح و تربیت اور بیعت کا تعلق کئی بزرگوں سے رہا، سب سے پہلے ۱۹۷۳ء میں اپنے دادا مفتی محمد شفیع عثمانی  ؒسے بیعت ہوئے، ان کے بعد ۱۹۸۱ء میں حاجی محمد شریف ملتانی  ؒخلیفہ حضرت تھانویؒ سے بیعت ہوئے، تیسری بیعت ڈاکٹر عبدالحی عارفی  ؒسے ۱۹۸۵ء میں کی، چوتھی بیعت مولانا مسیح اللہ خانؒ سے ۱۹۸۶ء میں کی، پانچویں بیعت ڈاکٹر حفیظ اللہ مہاجرمدنیؒ سے ۱۹۹۵ء میں کی اور چھٹی بیعت نواب عشرت خان قیصر ؒسے ۲۰۰۲ء میں کی اور نواب صاحبؒ کے انتقال کے بعد مولانا عبید اللہ ؒبن مفتی محمد حسنؒ (لاہور) سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ان میں سے حاجی محمد شریف ملتانی ؒ، ڈاکٹر حفیظ اللہ مہاجرمدنیؒ ؒ سے اجازتِ بیعت اور نواب عشرت خان قیصر ؒ سے اجازتِ بیعت و خلافت بھی حاصل تھی۔
ابتداء ً آپ کو بلڈپریشر کا عارضہ لاحق تھا، بعد میں دل کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا، جس سے اور بھی کئی بیماریوں نے گھیر لیا۔ آپ ان حالات میں بھی اپنی تدریسی اور دارالافتاء کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ ہسپتال میں بھی رہے، وفات سے ایک دن قبل آپ کو گھر لایاگیا اور گھر میں ہی آپ راہیِ آخرت ہوگئے۔ اسی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کے قریب شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے آپ کے کچھ فضائل اور اوصاف بیان کیے، ان کی علمی اور عملی زندگی کے چند پہلوؤں پر آپ نے روشنی ڈالی اور صدمات کے برداشت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے جو انعامات رکھے ہیں ان کا تذکرہ کیا اور پھر نمازِ جنازہ کی امامت کی۔ کراچی اور بیرونِ کراچی سے خلقِ خدا دارالعلوم کراچی میں سمٹ آئی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے کئی اساتذہ اور راقم الحروف بھی آپ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے، نمازِ جنازہ کے بعد دارالعلوم کراچی کے قدیم قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کے پسماندگان، اعزہ، اقرباء اور متوسلین ومتعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین