بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ 


دنیا میں ہر شخص جانے کے لیے ہی آتا ہے، اِس عارضی زندگانی میں ہر آدمی اپنا واپسی کا سفر طے کررہا ہے، کبھی بھی اُس کی منزل آسکتی ہے اور وہ اِس عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ نفوس جو کامیاب زندگی گزار کر اپنے رب سے جاملتے ہیں ،وہ اِس چند دن کی حیات میں ہی مگن ہوجانے، اِس کے سازوسامان میں دل لگالینے کے بجائے اپنے پروردگار کے حقوق بجالاتے ہوئے رب کی مخلوق کی خیر خواہی اور خدمت کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ایام گزارتے ہیں اوراس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔
اُن ہی عظیم لوگوں میں ہمارے دوست مفتی عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔ مرحوم بندے کے لیے ایک ایسے دوست، ساتھی، ہمدرد اور مخلص تھے جن کے بارے میں عربی زبان کی یہ مثل ’’ رُبَّ أَخٍ لَمْ تَلِدْہُ أُمُّکَ۔‘‘ (جمہرۃ الامثال) بجا طور پر صادق آتی ہے کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو بھائی تو نہیں ہوتے، لیکن محبت، اخلاص اور خیر خواہی کے اعتبار سے بھائی جیسے ضرور ہوتے ہیں۔ آج وہ بھی ہم سے جدا ہوئے اور اپنے حقیقی رب سے جاملے، إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ۔
مرحوم کئی صفات و خوبیوں کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ نے اُن کے توسط سے کئی اہل اللہ سے ملنے کی سعادت نصیب فرمائی، وہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان میں لے جانے کا ذریعہ بنے، حضرت مولاناقاری سید صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات انہی کی برکت سے ہوئی، مولانا ادریس انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی مرحوم کی معیت میں جانے کی توفیق ہوئی، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کے والد ماجد نواب زکی صاحب کو اکابر سے محبت، اُن کا ادب واحترام اور اُن سے تعلق کا بڑا وافر حصہ نصیب فرمایا ہوا تھا، اپنے گھر میں اہل اللہ کو مدعو کرنے کا بڑا اہتمام فرماتے، ہماری رہائش بھی اُن کے محلہ میں تھی، ہمیں بھی بلالیا کرتے، اس بہانے کئی اکابر سے ملاقات کا شرف نصیب ہوجاتا۔ اللہ کے نیک بندوں اور علمائے کرام سے محبت، اُن کی صحبت، اُن کی مجلسوں میں آنے جانے سے زندگی میں بڑی برکتیں نصیب ہوتی ہیں، دین کی صحیح فہم اور اُس پر عمل کرنے کا شوق، گناہوں سے بچنے کی ہمت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ گویاسچی نیت اور اخلاص کے ساتھ صالحین کی صحبت سے اللہ صلاح و نیکی نصیب فرماہی دیتے ہیں، اسی لیے ایک شاعر کہتے ہیں: 
 

أُحِبُّ الصَّالِحِیْنَ وَ لَسْتُ مِنْہُمْ
لَعَلَّ اللّٰہَ یَرْزُقُنِيْ صَلَاحًا

’’صالحین سے مجھے محبت ہے، اگر چہ میں اُن میں سے نہیں، شاید کہ اللہ اس سچی محبت کی بنا پر صلاح و نیکی نصیب فرمادے۔‘‘
شاید اہل اللہ کی یہی صحبت و محبت تھی جس کا اثر اُن کی عبادات، معاملات اور معاشرت میں نمایاں طور پر محسوس ہوتا، بات چیت میں بھی الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا کرتے، الفاظ و جملوں کے انتخاب میں احتیاط سے کام لیتے، ایک بار بندے نے کہا کہ گاڑی میں بیٹھ جائیں، آپ کو چھوڑ دوں، اس پر فرمانے لگے کہ لفظ ’’چھوڑنا‘‘ گری پڑی چیزوں کے لیے استعمال ہو تو زیادہ مناسب ہے۔ ہمیں اِس کے بجائے یوں کہنا چاہیے کہ ’’پہنچادوں‘‘۔ ہم بھی نیت کریں کہ اپنی بول چال میں اِس بات کا خیال رکھیں گے کہ :
۱:- ’’اپنے بیٹے کو مدرسہ/اسکول چھوڑنے جارہا ہوں‘‘ کے بجائے ’’پہنچانے جارہا ہوں۔‘‘ 
۲:- اپنے بڑوں سے ’’ چھوڑ کر آجاؤں‘‘ کے بجائے ’’پہنچا کر آجاؤں‘‘ جیسے جملے استعمال کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو کئی خوبیوں سے نوازا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد: ’’اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ ۔‘‘(سنن ابی داود، ج:۲،ص:۶۹۲، حدیث نمبر:۴۹۰۰، دار الفکر) پر عمل کرتے ہوئے موصوف ؒ کی چند خوبیوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے:

۱:-مسجد ، مدرسہ کی چیزوں کا خوب خیال رکھنا

مفتی عاصم زکی ؒ مسجد، مدرسہ کی معمولی سے معمولی چیز کا بھی خوب خیال رکھتے تھے کہ یہ امانت کا مال ہے، بڑا اہتمام فرماتے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بے کار استعمال نہ ہوتی رہے، کہیں کوئی پنکھا، لائٹ بے مقصد جلتی نظر آتی تو اُس کو بند کرنے کی فکر فرماتے، مسجد سے نکلتے وقت وضو خانہ میں کہیں کوئی کوئی نلکا کھلا ہوتا تو اُس کو بند فرماتے کہ مسجد کا پانی ضائع نہ ہوجائے۔ بندے نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو شخص پانی کے اِسراف سے بچتا ہے اللہ اُس کے وقت میں ، مال میں برکت عطا فرمادیتے ہیں۔ مرحوم میں یہ خوبی بہت اعلیٰ درجہ کی تھی کہ وہ اِسراف سے بہت بچتے تھے۔
اللہ تعالیٰ تو اِن چھوٹے چھوٹے سے کاموں کی بھی قدر فرماتے ہیں، کیا معلوم انسان کی کون سی نیکی کام آجائے، پھر مسجد ومدرسہ کی خدمت، اُن کی چیزوں کا خیال رکھنا تو دین کی خدمت ہے، ہر مسلمان کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حسبِ استطاعت مسجد ومدرسہ کی اشیاء کی نگہبانی کرنی چاہیے اور اِس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ یہاں کی بجلی ہو یا پانی یا کوئی اور چیز ضائع نہ ہونے پائے۔

۲:- کسی کو اذیت نہ پہنچے

مولانا ؒ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اُن کو اِس بات کا بڑا احساس رہتا کہ اُن کا کوئی عمل کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے، اُن کی ذات راحت رساں تو ہو ضرر رساں نہ ہو، معمولی سے معمولی کاموں میں بھی اِس بات کا دھیان رکھتے۔ مسجد سے نکلتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلاتے کہ چپل آہستہ سے زمین پر رکھی جائے کہ آواز نہ آئے، ایک بار بندے نے عام طور سے چپل زمین پر رکھی تو فرمانے لگے کہ: ایک بزرگ نے یہ ادب سکھلایا کہ چپل اوپر سے پھینکیں گے تو ۱:- مٹی اُڑے گی، ۲:- آواز آئے گی، ۳:- اور اذیت ہوگی، لہٰذا چپل، جوتے وغیرہ کو آہستگی سے زمین پر رکھنا چاہیے۔ 
ہمیں بھی اِس بات کا خوب دھیان رکھنا چاہیے۔ بسا اوقات صحن جو جوتے اُتارنے کی جگہ سے متصل ہو وہاں کوئی نماز پڑھ رہا ہوتو اُس کی عبادت میں خلل بھی پیدا ہوتا ہے۔۔ہم تجربہ کرکے دیکھیں، جب چپل پہننے کے لیے اوپر سے پھینکی جائے تو ایک بھدی آواز پیدا ہوتی ہے جو بہت ناگوار محسوس ہوتی ہے۔ الغرض اِس بات کی کوشش ہو کہ ہمارے منہ سے نکلنے والا بول، ہمارے اعضاء سے ہونے والا کام کسی کی اذیت، کلفت، دل آزاری و دل شکنی کا ذریعہ نہ بنے، ہماری ذات اپنے گھر والوں ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں غرض ہر فرد کے لیے سکون و راحت کا باعث ہو، گویا ہماری زندگی اِس شعر کا مصداق بن جائے:

تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو

۳:- معاملات کو سلجھانا
 

مولاناؒ کو اللہ نے بڑا میٹھا لہجہ عطا فرمایا تھا، اُن کو معاملات سلجھانے اور اُن کو بگڑنے سے بچانے کی بڑی خوبی اللہ نے نصیب فرمائی ہوئی تھی، مولانا کا لہجہ ایسا نرم ، لطیف اور خوشگوار ہوتا تھا کہ غصہ سے بھر اہوا شخص بھی اپنا غصہ بھول بیٹھتا۔
 ایک بار دار الافتاء میں ایک خاتون آئیں اور اپنا جوابِ استفتاء مانگنے لگیں، کسی وجہ سے اُن کا جوابِ استفتاء تیار نہیں ہوسکا تھا، اُن کو جواب دیا گیا کہ ابھی تیار نہیں ہے، خاتون کو غصہ آگیا، ناراض ہونے لگیں، مفتی عاصم صاحب ؒ دور بیٹھے ہوئے تھے، دریافت فرمایا کہ: کیا معاملہ ہے؟ خاتون کہنے لگیں کہ تین بار آچکی ہوں، اگلے ہفتے، اگلے ہفتے کاوقت دیا جارہا ہے، ابھی تک جواب نہیں ملا۔مفتی صاحبؒ نے ایک جملہ فرمایا: ’’خالہ! معاف فرمادیجیے ۔‘‘اِس بات کا کہناتھا کہ خاتون کا غصہ ٹھنڈا ہوگیااور وہ مطمئن ہو گئیں۔
اِس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ بسا اوقات انسان غصہ میں ہوتا ہے، اُس کا دل بھرا ہوا ہوتا ہے، ایسی حالت میں وہ ہمارے سامنے آئے، ہمارے ادارے میں داخل ہو تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اُس کو آپے سے باہر نہ ہونے دیا جائے، اور ہم خود بھی اُس کے غصہ ، سخت لہجہ ، برا بھلا کہنے کی وجہ سے آپے سے باہر نہ ہوں، بلکہ صبر و تحمل سے کام لے کر معاملہ کو سلجھانے کی سعی کی جائے، اُس کی بات کو جواب دینے کے بجائے سمجھنے کی نیت سے تحمل کے ساتھ سنا جائے، قرآنِ کریم و احادیثِ طیبہ میں اِس طرح کی صورت حال میں ایسے ہی برتاؤ کی تلقین و ترغیب دی گئی ہے اور اِس طرزِ عمل کا یہ فائدہ اور انعام بتایا گیاکہ جس سے دشمنی بھی ہو اور دشمنی کے باوجود اُس کے برے سلوک کا جواب حسنِ سلوک سے دیا گیا تو وہ : ’’کَأَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِیْمٌ۔‘‘ ۔۔۔۔ ’’ایسا ہوجائے گا جیسے وہ(تمہارا) جگری دوست ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نرم لہجے، مخاطب کی بات کو اچھی طرح سننے اور برے سلوک کا جواب اچھے سلوک سے دینے والی عمدہ صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے والا بنائے۔

۴:- جھگڑوں سے دور رہنا
 

مولاناعاصم صاحب ؒ کو بزرگوں کی صحبت کی برکت سے معاملات کا تقویٰ بھی خوب حاصل تھا، بندے کو اُن کی زندگی میں بارہااِس بات کا مشاہدہ ہوا کہ جہاں کہیں کوئی اختلاف والی بات ہوتی، جھگڑے کا اندیشہ ہوتا، شوریٰ کے ممبر ہوتے اور کام ہوتا نظر نہ آتاتو وہاں سے خاموشی سے اپنے آپ کو الگ کرلیتے، جھگڑوں سے دامن بچاتے ہوئے حسنِ تدبیر کے ساتھ اِس طرح ہجرِ جمیل اختیار فرماتے کہ دین کے کام پر بھی کسی طرح آنچ نہ آنے پائے اور خود بھی خوش اسلوبی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوجائیں۔ اپنا دفاع بھی نہ کیا کرتے کہ میں تو ممبر ہوں، میری بات کو مانا جائے، مجھے فلاں فلاں اختیارات حاصل ہیں کہ اِ س طرح بسااوقات معاملات سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمیں بھی اپنے بڑوں سے مشورہ کرکے یہی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ ’’سَرَاحًا جَمِیْلاً‘‘ پر عمل کرتے ہوئے احسن طریقے سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، لیکن جھگڑے کا ذریعہ نہ بنیں کہ جھگڑے دلوں میں دوری، رنجش اور نفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں اورتشہُّد کے بعد یہ دعا بھی مانگتے رہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی دعا کاایک حصہ ہے: ’’اللّٰہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا۔‘‘ (مستدرک حاکم، ج:۱، ص:۳۶۰، حدیث نمبر:۷۹۹)

۵:-خوب دیکھ بھال کر اشیاء خریدنا
 

مولانا ؒ کی ایک خوبی یہ تھی کہ کوئی چیز خریدتے تو اچھی طرح چھان پھٹک کر لیا کرتے، سرسری انداز سے احتراز فرماتے، خریدتے وقت چیزوں کو خوب دیکھتے بھالتے،گویا نہ دھوکہ دیتے، نہ دھوکہ کھاتے۔ بچپن میں ہمیں پودے رکھنے کا شوق تھا، مولانا ؒ کے ساتھ پودے لینے جانا ہوتاتو خوب کھنگال کر قیمت طے کرتے، اچھی طرح معلومات حاصل کرتے، پھر مناسب قیمت پر سودا کرتے، جب اداروں کی ذمہ داری اُن پر آئی تو یہی طرزِ عمل اُن کا رہا، ادارے کے لیے اشیاء کی خریداری میں بھی خوب جانچ پڑتال فرماکر معاملہ کرتے، ٹھیکیداروں کو تعمیرات کا ٹھیکہ دینے میں بھی خوب احتیاط سے کام لیتے۔
 مرحوم کی یہ ایسی صفت ہے جو ہمیں اپنے اندر بھی اور اپنے متعلقین اور ماتحت ساتھیوں میں پیدا کرنی چاہیے کہ مومن بڑا عقل مند اور حاضر دماغ ہوتا ہے، خرید وفروخت کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ ہو، ایک صاحبِ ایمان شخص خوب سوچ سمجھ کرمکمل معلومات حاصل کرکے عقل مندی سے کام لیتا ہے، کسی بھی صورت حال میں غائب دماغی اور سرسری رویہ سے اجتناب کرتا ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’بعض طلباء غلہ بے تولے پنساری کو دے دیتے اور بے تولے لے لیتے، ایک مرتبہ ان طلباء سے فرمایا کہ: ایک ترازو خرید لو، تاکہ دھوکہ نہ کھا سکو ، کیونکہ دھوکہ کھانا بے وقوف کی علامت ہے۔‘‘  (ملفوظاتِ حکیم الامت، جلد:۱۳، ملفوظ نمبر:۱۱۳)
ایک دوسرے موقع پر ہرقل کے دربار میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک سفیر سے سوال و جواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہرقل نے حضرت عمرؓ کے سفیر سے دریافت کیا کہ تمہارے خلیفہ کے اخلاق کیسے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : ہمارے امیر المؤمنین کا مختصر حال یہ ہے کہ :’’لَا یَخْدَعُ وَ لَا یُخْدَعُ۔‘‘ ہرقل ان جملوں کو سن کر ششدر اور حیران رہ گیا اور دربارِ عام میں یہ بات کہی کہ : ان کے خلیفۂ وقت میں یہ دو صفتیں ہیں کہ نہ کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، جو دلیل ہے ان کے دین کی، نہ کسی کے دھوکہ میں آتے ہیں، جو دلیل ہے اُن کی عقل کی۔ سو جس میں یہ دو باتیں جمع ہوں گی، ساری دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔‘‘(ملفوظاتِ حکیم الامت،جلد:۲، ملفوظ نمبر:۲۹۹، جلد:۱۳، ملفوظ نمبر:۱۱۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اندر سنجیدگی، احتیاط، توجہ، دھیان، حاضر طبعی وحاضر دماغی کے ساتھ اپنے کاموں کوانجام دینے کی صفت پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

۶:- نماز باجماعت اور ادعیۂ مسنونہ کا اہتمام
 

مفتی عاصم صاحبؒ مسجد میں باجماعت نماز کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے، کوشش فرماتے کہ مسجد کی جماعت چھوٹنے نہ پائے، ایسا وقت بھی اُن کی زندگی میں آیا کہ بیماری کی وجہ سے اُٹھنا بھی مشکل ہوتااُس وقت بھی باجماعت نماز کی فکر اُن پر سوار رہتی، جیسے ہی طبیعت سنبھلتی مسجد میں باجماعت نماز کے لیے تشریف لے آتے، کچھ حالات خراب ہوئے اور اکیلے نقل و حرکت میں احتیاط کی تاکید کی گئی، تب بھی مسجد کی باجماعت نماز ترک نہ ہونے دیتے اور گارڈ کے ہمراہ مسجد تشریف لاتے۔ 
مولانا سعید احمد خان صاحب ؒ کی زندگی میں بھی اِس بات کا خوب اہتمام دیکھاکہ سفر ہو یا حضر ، راحت ہو یا تھکاوٹ، کوشش ہوتی کہ مسجد کی جماعت کسی طرح مل جائے، بعض ممالک میں گرمی شدید ہوتی اور عصر کی نماز جلدی ہوجایا کرتی، لیکن حضرت ؒ قیلولہ مختصر کرکے اہتمام سے مسجد میں باجماعت نماز کو یقینی بناتے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تم کسی آدمی کو دیکھو :’’یَتَعَاہَدُ الْمَسْجِدَ‘‘ (وَفِيْ رِوَایَۃٍ ’’یَعْتَادُ‘‘ )۔‘‘ (سنن ترمذی)کہ وہ باقاعدگی سے مسجد آتا جاتا ہے ، مسجد آنا جانااُس کا لگا رہتا ہے: ’ ’فَاشْہَدُوْا لَہٗ بِالْإِیْمَانِ۔‘‘ (حوالہ سابقہ) ’’تو سمجھ لو کہ وہ پکا مومن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ صفت نصیب فرمائیں اور مسجد سے ہمارامضبوط تعلق قائم فرمادیں۔
اسی طرح مفتی عاصم صاحب ؒ مسنون دعاؤں و وظائف کو بھی اہتمام سے مانگا کرتے تھے، فرض نمازوں کے بعد نماز کے بعد کے اذکار کی پابندی فرماتے اور پورے بدن پر دم کرلیا کرتے۔ ادعیۂ ماثورہ کی پابندی سے انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور انسان اپنے رب کی حفاظت میں آجاتا ہے۔

۷:- دردِ دل اور فکرِخلق
 

مولانا ؒ کو اللہ نے خلق خدا کے حوالے سے بڑا دردِ دل عطا فرمایا تھا، آپؒ لوگوں کے حوالے سے بڑی فکر فرماتے تھے، اُن کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ فرماتے، پریشانیوں میں اُن کا تعاون کرتے، تسلی دیتے، پریشان حال لوگوں کو نمازوں میں مسجد بلالیا کرتے، اُن کی راہنمائی فرماتے، دم کردیتے، اُن کو دعاؤں کی جانب متوجہ کرتے، فون پر بھی لوگوں کی پریشانیاں سنتے، نماز کے بعد لوگ اکثر معلوم کرتے کہ مفتی عاصم زکی صاحب کون ہیں؟! گاہے بگاہے بندے کو کہتے کہ فلاں مولوی صاحب، فلاں عالم صاحب کو کام پر لگانا ہے، مناسب جگہ ہوتو اُن کو رکھ لیں۔ آسمانی آفات و حوادث میں بھی لوگوں کی مدد میں پیش پیش رہتے، اپنے ملک میں ہوں یا بیرونِ ملک میں، مرحوم وہاں پہنچتے، جو کچھ بن پڑتا اپنی طرف سے ، اپنے ساتھیوں کی طرف سے خیر خواہی فرماتے۔ الغرض مرحوم ایک مونس و غم خوار انسان تھے، اُن کی کوشش ہوتی کہ جس طرح بن سکے‘ لوگوں کے دکھوں و غموں کا مداوا کرسکیں، کسی مصیبت زدہ انسان کے کام آجائیں۔
اپنے متعلقین کی بھی خوب خبر گیری رکھتے، کوئی بیمار ہو یا کسی معاملہ میں پریشان اُس کے حال احوال لیتے، دور ہوتا تو فون پر خیر خیریت دریافت فرماتے، اپنی طرف سے ہر ممکن اُس کی مدد کی کوشش کرتے، کوئی دعا تلقین فرمادیتے۔ بندے کی میر پور خاص کے ایک سفر میں مولانا عبد اللہ میر پوری (جو ہمارے اور مفتی عاصم زکی صاحبؒ کے ساتھیوں میں سے ہیں )سے ملاقات ہوئی، اُس وقت مفتی صاحبؒ علیل تھے، بندے نے اُن کے لیے دعا کی درخواست کی تو مولانا عبد اللہ صاحب ایک واقعہ سنانے لگے کہ مجھے جب دل کی بیماری لا حق تھی تو بغرضِ عیادت مفتی عاصم صاحبؒ کا فون آیا، خیر خیریت لینے کے بعد فرمانے لگے کہ: ہمار ے استاذ جی مفتی ولی حسن ٹونکیؒ دل کی بیماریوں کے لیے یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمایا کرتے :’’یَا قَوِیُّ الْقَادِرُ الْمُقتَدِرُ قَوِّنِيْ وَ قَلْبِیْ۔‘‘مرحوم کی یہ ایک اعلیٰ خوبی تھی کہ اپنے دوستوں کی بیماری پر بھی فکرمند ہوجاتے اور اُن کے لیے اُن کی بیماری کو رب سے تعلق میں اضافہ کا ذریعہ بنادیتے۔ 
 اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے، اُن کی خدمات کو قبول فرمائیں اور اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ کسی کے انتقال پر یہ دعا مانگ لینی چاہیے کہ اے اللہ! جو اِن میں بھلائیاں تھیں وہ ہمیں بھی عطا فرمادیجیے اور جن برائیوں سے آپ نے انہیں بچایا ہوا تھا اُن سے ہمیں بھی بچا لیجیے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین