بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

دارالعلوم کراچی کے صدر، وفاق المدارس العربیہ کے سرپرست، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ کے برادرِ کبیر، ہزاروں علمائے کرام کے شیخ، استاذ ومربی، کئی مدارس وجماعتوں کے سرپرست ورکن شوریٰ، کئی سرکاری وغیرسرکاری کمیٹیوں اور کمیشن کے رکن حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد۲۳ ؍ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸؍نومبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ ۸۶ سال کی عمر میں اس دارِ فانی کو خیر باد کہہ کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطٰی وکل شيءٍ عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مفتی صاحبؒ کی پیدائش ۲۳ ؍ربیع الثانی ۱۳۵۵ھ مطابق ۱۶ ؍جولائی۱۹۳۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے ’’صدر مفتی‘‘ وسابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہٗ کے ہاں ہندوستان کے قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں ہوئی۔ آپ کا نام حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ نے ’’محمد رفیع‘‘ تجویز کیا اور فرمایا: ایک سجع بھی بے ساختہ ذہن میں آگیا: ’’از جملہ خلائق محمد رفیع‘‘ ، ’’جس کا معنی ہے تمام مخلوق سے محمد بلند وبالا۔‘‘
آپ کی ولادت کے وقت آپ کے والد ماجد دارالعلوم دیوبند کے ’’صدر مفتی‘‘ تھے، اس لیے حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے تعلیم کا آغاز اپنے والد ماجد سے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں قاعدہ بغدادی سے کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے پندرہ پارے حفظ کیے، تقسیم ہند کی بناپر پاکستان کراچی میں آکر کچھ عرصہ ’’جامع مسجد جیکب لائن‘‘ اور اس کے بعد ’’مسجد باب الاسلام‘‘ آرام باغ میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، اور آپ کا ختم قرآن فلسطین کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینیؒ نے کرایا۔ اور آپ نے ترایح میں پہلا قرآن کریم ۱۳۷۰ء میں مسجد باب الاسلام میں موجود دارالافتاء میں سنایا۔ اور اسی مسجد میں آپ کے فارسی کے ابتدائی اسباق شروع ہوئے۔یہاں آپ کے اساتذہ میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا فضل محمد سواتی، حضرت مولانا امیر الزمان کشمیری، اور حضرت مولانا بدیع الزمان قدس اللہ اسرارہم جیسی عبقری شخصیات تھیں۔ اور چند ماہ بعد ۱۳۷۲ھ مطابق ۱۹۵۱ء میں باقاعدہ دارالعلوم نانک واڑہ کا آغاز ہوا تو آپ اس کے اولین طلباء میں تھے۔ ۱۹۷۹ھ مطابق ۱۹۶۰ء میں آپ نے دورہ حدیث کرکے درسِ نظامی کی تعلیم کا فاتحہ فراغ پڑھا۔ اس دوران ۱۳۷۸ھ میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ دورہ حدیث کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد کی زیرنگرانی قائم ہونے والے شعبہ تخصص فی الافتاء میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی تین اسباق کی تدریس آپ کے سپرد ہوئی۔ تخصص فی الافتاء کی تکمیل پر آپ نے فقہی تحقیقی مقالہ ’’حقوقِ مجردہ کی بیع‘‘ تحریر فرمایا۔ 
آپ کے مشہور اساتذہ میں حضرت مولانا قاری فتح محمد، حضرت مولانا قاری رحیم بخش، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی، حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا سحبان محمود، حضرت مولانا اکبر علی سہارن پوری، حضرت مولانا رعایت اللہ، حضرت مولانا محمد حقیق نور اللہ مراقدہم ہیں۔ آپ کو درج ذیل حضرات ومشائخ سے اجازتِ حدیث حاصل تھی:۱: فضیلۃ الشیخ محمد حسن بن محمد مشاط المکی المالکی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی، شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجرمدنی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ، فضیلۃ الشیخ ابوالفیض محمد یٰسین بن محمد عیسی الفادانی المکی، فضیلۃ الشیخ ابوالزاہد محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مراقدہم۔
درسِ نظامی اور تخصص سے فراغت کے بعد آپ مستقل طور پر تدریس فرمانے لگے، تقریباً گیارہ سال ۱۳۷۹ھ تا ۱۳۹۰ھ میں آپ نے درسِ نظامی کی اکثر کتب کی تدریس مکمل کرلی تھی اور ۱۳۹۱ھ سے علم حدیث اور اصولِ افتاء کی تعلیم وتدریس ہی آپ سے متعلق رہی۔ آپ کی تدریس کی خصوصیات میں سے تھا کہ آپ مشکل ترین اور دقیق ترین مباحث کو آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتے۔ غیرضروری مباحث اور نکات سے حتی الامکان اجتناب برتتے۔ صحتِ عبارت اور صحتِ تلفظ پر خصوصی نظر رکھتے۔ دورانِ سبق مصنف یا کسی بھی عالم اور بزرگ کا نام آنے پر محبت سے نام لیتے اور آخر میں اس کے لیے دعائیہ کلمات کا استعمال کرتے، خصوصاً نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام نامی آنے پر یہ تعظیمی کیفیت اور بڑھ جاتی۔ واضح تلفظ کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہر مرتبہ خود بھی پڑھتے اور طلبہ کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ درس نظامی کی تدریس اور فقہ ظاہر میں ممتاز مقام کے حامل ہونے کے باوصف آپ فقہ باطن یعنی احسان وسلوک اور تصوف میں بھی بہت اہتمام سے مصروف اور مشغول رہے، اسی لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کے خلیفہ مجاز حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی نور اللہ مرقدہٗ سے بیعت ہوئے اور انہوں نے آپ کو خلعت خلافت سے نوازا۔ آپ عوام اور طلبہ کی اصلاح وتربیت کے لیے ہر بدھ کو جامع مسجد دارالعلوم میں اصلاحی بیان فرماتے۔ اس کے علاوہ ہر جمعہ کو جامع مسجد میں عام لوگوں کو مختلف معاشرتی، اخلاقی اور سماجی موضوعات پر وعظ ونصیحت فرماتے۔ حضرت مفتی صاحب اپنے خطبات اور بیانات میں دو باتوں پر زیادہ زور دیا کرتے تھے: ایک یہ کہ دنیا کے سامنے دین اسلام کا صحیح نقشہ اور صحیح تصویر پیش کریں اور دوسرا یہ کہ ہر معاملے میں اتباعِ سنت کا اہتمام کریں اور ہر کام کو انتہائی نظم وضبط اور صفائی وسلیقہ کے ساتھ کریں۔ آپ کے نظم وضبط اور صفائی وسلیقہ کا شاہکار دارالعلوم کی تعمیرات ، جامع مسجد اور دارالعلوم کا نظام ہے۔ آپ نے تقریباً پچاس سے زائد ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے ہاں پہنچ کر وقتاً فوقتاً ان کی دینی وعلمی راہنمائی کی اور ان کی دینی پیاس کو بجھایا۔
ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ نے تحریر وتصنیف کا میدان بھی نہیں چھوڑا۔ آپ تحریر میں نہایت محتاط اور جچی تلی بات لکھنے کے قائل تھے، اس کے علاوہ آپ کی ہر تحریر ٹھوس معلومات کی بنیاد پر ہوتی۔ آپ نے درج ذیل کتب تصنیف فرمائیں، جور ہتی دنیا تک آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور امت مسلمہ کی راہنمائی کرتی رہیں گی:
عقائد وکلام کے موضوع پر:مسئلہ تقدیر کا آسان حل، علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیح۔ حدیث کے موضوع پر: التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم، درسِ مسلم شریف، کتابت حدیث عہد رسالت وعہد صحابہؓ میں۔ فقہ وصولِ فقہ کے موضوع پر: ضابط المفطرات في مجال التداوي (عربی) ، الأخذ بالرخص وحکمہ (عربی) درسِ شرح عقود رسم المفتی (عربی، اردو)، فقہ میں اجماع کا مقام (اردو، عربی)، نوادر الفقہ (دو جلد)، احکامِ زکوٰۃ، رفیق حج، بیع الوفاء (عربی) المقالات الفقہیۃ(عربی، دو جلد)۔ سیاست ومعیشت کے موضوع پر: دینی جماعتیں اور موجودہ سیاست، عورت کی سرابرہی کا شرعی حکم، یورپ کے تین معاشی نظام، اسلام میں غلامی کا تصور، دینی مدارس اور نفاذِ شریعت، دو قومی نظریہ، اسلامی معیشت کی خصوصیات اور صنعتی تعلقات۔ اصلاح وارشاد کے موضوع پر: اصلاحی تقریریں (دس جلد) اختلاف رحمت ہے، فرقہ بندی حرام، مستحب کام اور ان کی اہمیت، محبت رسول اور اس کے تقاضے، طلبائے دین سے خطاب، حب جاہ ایک باطنی مرض، حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟ ، اللہ کا ذکر، مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچاؤ، مسلمانوں کی تعلیمی پالیسی (تاریخ کے آئینہ میں)۔ سفرنامے کے موضوع پر: یہ تیرے پراسرار بندے، انبیاء کی سرزمین میں، گلگت کے پہاڑوں میںیادگار آپ بیتی۔ سوانح کے موضوع پر: حیاتِ مفتی اعظمؒ، میرے مرشد حضرت عارفیؒ۔ متفرقات: علم الصیغہ مع اردو تشریحات، الفضل الرباني في أسانید محمد رفیع العثماني، علمائے دین کے تین فرائض منصبی، فقہ اور تصوف، ایک تعارف، دینی تعلیم اور عصبیت، خدمت خلق، جہادِ کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں، دوسرا جہادِ افغانستان، حقوقِ نسواں بل ۲۰۰۶ء کی حقیقت۔ 
حضرت مفتی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ: دیوبندیت اعتدال وتوازن، اتباع سنت اور خلوص وللّٰہیت کا نام ہے اور دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں پڑھانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ آج ہم علم پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، لیکن علم پر عمل کرنا نہ سیکھا جاتا ہے اور نہ سکھایا جاتا ہے، إلا من رحم ربي۔ اس لیے ہم جو پڑھتے ہیں، اس پر ہمارا عمل نہیں ہوتا۔ ہمارے اکابر جو فرماتے تھے، اس پر ان کا عمل ہوتا تھا۔ سنتِ نبوی پر ہمارے اکابر کا یہ عمل تھا کہ شیخ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری سے ایک بار کسی نے سوال کیا کہ فلاں مسئلہ کے دو پہلوؤں میں سے اقرب الی السنۃ کون سا پہلو ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کا عمل معلوم کرو کہ وہ کس پہلو پر عمل کرتے تھے، جو ان کا عمل تھا، وہی اقرب الی السنۃ ہے۔ اب دیکھیے کہ حضرت گنگوہیؒ کے عمل کو اقرب الی السنۃ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور پیش کرنے والے خود بھی بڑے محدث ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ آج کل ہر ایک کو یہ فکر ہے کہ وہ بڑا کہلائے اور بڑا بن جائے، جبکہ ہمارے اکابر میں یہ رجحان نہیں تھا۔ ہمارے بزرگوں میں ایک بڑی خوبی ’’فنائیت‘‘ کی تھی، وہ فنا فی اللہ تھے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے جب حضرت تھانویؒ سے بیعت کی تو علامہ اقبال مرحوم نے انہیں خط لکھا کہ آپ تو بہت بڑے عالم ہیں، یہ آپ نے کیا کیا؟ سید سلیمان ندویؒ نے جواب دیا کہ میں نے تو اپنا قبلہ درست کرلیا ہے، آپ بھی اپنا قبلہ درست کرلیں تو بہتر ہے۔
سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں کہ: جب میں تھانہ بھون کچھ دن رہ کر رخصت ہونے لگا تو حضرت تھانویؒ نے آخری نصیحت کے طور پر انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ: ہمارے پاس تو ایک ہی چیز ہے: فنائیت، خود کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے فنا کردینا۔ مگر آج فنائیت کا یہ جذبہ ہم میں کم سے کم ہوتا جارہا ہے اور بڑا بننے کے چکر میں اکابر کے مسلک اور مزاج سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ بہرحال! حضرت مفتی صاحب محل وموقع کی مناسبت سے علماء، طلبہ اور عوام الناس میں مختلف موضوعات پر بیانات اور نصائح کیا کرتے تھے، جو کتابی شکل میں موجود ہیں اور رہتی دنیا تک ان شاء اللہ ! امت مسلمہ کی راہبری وراہنمائی کرتی رہیں گی۔
چونکہ حضرت مفتی صاحبؒ کے اکلوتے صاحبزادے مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب بیرونِ ملک سفر پر تھے، جن کے آنے میں تاخیر تھی، اس لیے ولی اقرب کا لحاظ وخیال رکھتے ہوئے دوسرے دن بروز اتوار صبح نوبجے نمازِ جنازہ کا اعلان ہوا، آپ کی نمازِ جنازہ میں پورے ملک کے بڑے بڑے اکابر، مشائخ، علماء کرام اور مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے سربراہان شریک ہوئے، خصوصاً حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، سید مختارالدین شاہ صاحب، گورنر سندھ کامران ٹیسوری ، پی ایس پی کے سربراہ جناب مصطفیٰ کمال، جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب نعیم الرحمٰن، جناب اسد اللہ بھٹو، حضرت مولانا شمس الرحمٰن عباسی کے علاوہ ہزاروں علماء، طلبہ، تاجربرادری اور عوام الناس نے شرکت کی۔ آپ کی نمازِ جنازہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے پڑھائی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم کے سفر پر ہونے کی وجہ سے جامعہ کی نمائندگی جامعہ کے نائب رئیس حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری صاحب، جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ یوسف زئی صاحب اور راقم الحروف نے کی ، ان کے علاہ کئی اساتذہ کرام اور طلبہ عظام شریک ہوئے۔ حضرت مفتی صاحب کو آپ کے والدین کے درمیان دارالعلوم کے قدیم قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ حضرتؒ کے پسماندگان میں ایک اہلیہ ، ایک صاحبزادہ مولانا زبیر اشرف عثمانی (جو کہ دارالعلوم میں استاذ الحدیث اور مفتی کے منصب پر فائز ہیں) اور تین صاحبزادیاں جو کہ سب شادی شدہ اور اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کے ہزاروں شاگرد، متوسلین اور معتقدین آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کو کروٹ کروٹ راحتیں نصیب فرمائے، آپ کی جملہ دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے اعزہ واقرباء ، متوسلین اور متعلمین کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین!
قارئینِ بینات سے حضرت مفتی صاحبؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین