بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ 


’’جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذِ حدیث، جامع مسجد اقصیٰ(پاور ہاؤس) کے امام وخطیب، ہزاروں علماء وطلبہ کے استاذ ومربی حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ    ۷۹ سال کی عمر میں یکم رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۳؍ مارچ ۲۰۲۳ء بروز جمعرات بوقت صبح دس بجے اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے،  إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
آپ ایک نیک دل، پاکیزہ صفت، سادہ طبیعت اور منکسر المزاج شخصیت تھے۔ ساری زندگی دینِ اسلام کی ترویج، تعلیم وتعلُّم اور نشر واشاعت میں گزاری۔ دنیوی حرص اور طمع سے کوسوں دور تھے، آپ نے ساری زندگی قوت لایموت پر گزاری۔ کبھی بھی اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ  ؒ کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند فرمائے۔ لواحقین، اساتذۂ جامعہ، تلامذہ اور تمام متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ قارئینِ بینات سے حضرت الاستاذؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔ ہماری فرمائش پر آپ کے فرزندِارجمند مولانا خلیق الرحمٰن ہالیجوی زید مجدہٗ نے آپ کے کچھ حالات لکھ کر بھیجے، اختصار کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے مضمون کی تلخیص ہدیۂ قارئین کی جارہی ہے۔‘‘   (ادارہ)

آپؒ کا نام عبد الرؤف بن مالک ڈنو بن بلندفقیر تھا۔ آپ کی پیدائش شوال ۱۳۶۳ھ موافق سات اکتوبر ۱۹۴۴ء ہالیجی شریف کے کاشت کار گھرانے میں ہوئی۔ خاندان کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی تھا۔ آپ کا تعلق صوبہ سندھ کی مشہور انڈھڑ قوم سے ہے۔ آپ کے آباء واجداد بہت پہلے راجستھان (انڈیا) سے ہجرت کرکے ریاست بہاولپور اور پھر وہاں سے ہجرت کرکے ضلع سکھر اور اس کے قرب وجوار میں آکر آباد ہوئے۔
ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم ہالیجی شریف کی مسجد میں حافظ تاج محمد مرحوم کے پاس حاصل کی۔ اور ہالیجی شریف کے مقامی سرکاری اسکول میں استاذ سلیمان مرحوم صاحب کے پاس چھٹی جماعت تک اسکول پڑھا، پھر اس کے بعد حفظِ قرآن کے لیے خیر پور میرس تشریف لے گئے اور وہاں مدرسہ حفظ القرآن میں حافظ اللہ ڈنو منگریو کے پاس تین سال کی مدت میں قرآن کریم حفظ کیا اور گردان بھی وہیں مکمل کی، اس وقت عمر۱۵ سال تھی۔ پھر دو سال تک ضلع خیر پور کے علاقہ ہریالو میںاور تین سال تک ہالیجی شریف میں مشہور مدرس مولانا عبدالمجید لنجاری صاحب سے ابتدائی فارسی سے کافیہ تک کی کتابیں پانچ سال کے عرصے میں پڑھیں۔
فرماتے تھے کہ جب میں حضرت لنجاری صاحبؒ کے پاس پڑھتا تھا تو استاذ نے مجھے ابتدائی درجات کے طلبہ بھی حوالےکردیئے تھے کہ ان کو تم پڑھایاکرو، تو میں بیک وقت دو کام کرتا تھا، اپنے اسباق بھی پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی پڑھاتا تھا۔
اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی تشریف لے گئے۔ یہ مدرسہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کے خلیفہ پیر فخر الدین شاہؒصاحب کا ہے۔ اب بھی یہ مدرسہ قائم ہے، وہاں پر استاذ مولانا مظہر الدین انڈھڑ صاحبؒ اور مولانا امیر الدین میرانی صاحبؒ کے پاس نور الانوار، شرح جامی سے لے کر موقوف علیہ تک کی کتابیں دوسال کے عرصے میں پڑھیں، پھر اس کے بعد بستی مولویاں ضلع رحیم یار خان استاذ مولانا شریف اللہ صاحبؒ کے پاس سراجی پڑھنے گئے۔
منطق وفلسفہ وغیرہ کی کتابیں مدرسہ دار الہدیٰ ٹھیڑی ضلع خیر پور میں مولانا بلال احمد صاحبؒ (مورو والے) اور استاذ عزیز احمد میمن خیرپوریؒ اور مولانا غلام قادر میمنؒ (نوشہروفیروز والے) صاحب کے پاس پڑھیں، پھر تکملہ کے لیے مولانا عبد اللہ درخواستی صاحبؒ کے مدرسہ خان پور تشریف لے گئے اور وہاں مولانا واحد بخش صاحبؒ (کوٹ مٹھن والے) کے پاس ایک سال تکملہ پڑھا، جس میں حمد اللہ وقاضی، صدرا، شمسِ بازغہ، میر زاہد، ملا جلال، خیالی کتابیں پڑھیں۔
آپ نےدورہ حدیث سے پہلے لنجاری شریف میں دوسال پڑھایا تھا۔ دوسال وہاں پڑھانے کے بعد غالباً ۱۹۶۸ء میں دورہ حدیث کے لیے مدرسہ دار الہدیٰ ٹھیڑی ضلع خیر پور تشریف لے گئے اور وہاں اپنے ماموں اور استاذ مولانا قطب الدین انڈھڑ صاحبؒ کے پاس صحاحِ ستہ کی تمام کتابیں پڑھیں اور دستاربندی وسندِ فراغت مدرسہ دار الہدیٰ ٹھیڑی سے حاصل ہوئی، فللّٰہ الحمد۔
آپ نے تدریس کا آغاز شوال ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۹۶۸ء میں کیا، اندرونِ سندھ مختلف مدارس میں تدریس کی، ۱۹۸۳ء میں کراچی تشریف لائے، یہاں بھی کئی مدارس میں ۱۴ سال تک تدریس کی، حضرت مولانا عبد السمیع شہیدؒ کی شہادت کے بعد شوال ۱۴۱۲ھ مطابق اپریل ۱۹۹۷ء میں جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تشریف لائے اور اپنی وفات تک یہاں تدریس فرماتے رہے۔
تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد ۱۹۶۸ء میں عقدِ مسنونہ ہوا جس سے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ آپ کے استاذ اور ماموں مولانا قطب الدین ہالیجویؒ کی پوتی ہیں۔ اولاد میں سے ایک بیٹا امامت وخطابت سے وابستہ ہے اور ایک مسجد اقصیٰ کا مؤذن وخادم ہے، بقیہ بچے دنیاوی روزگار سے وابستہ ہیں۔
۱۹۸۷ء سے جامع مسجد اقصیٰ پاور ہاؤس شفیق موڑ میں امامت وخطابت سے منسلک رہے۔ ۲۰۱۷ء میں ضعف وبڑھاپے کی وجہ سے از خود مسجد کی امامت وخطابت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا تو مسجد کی کمیٹی اور دیگر مقتدیوں نے مسجد چھوڑنے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے تو والد صاحبؒ نے کہا کہ بابا میں بوڑھا ہوگیا ہوں، آپ مجھے چھٹی دو، تاکہ میں آرام کروں، تو مسجد کے ذمہ داران نے کہا کہ ہم امامت کے لیے کسی اور کو مقرر کردیتے ہیں کہ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھائے گا، آپ جمعہ کا بیان کردیا کریں اور عصر سے مغرب تک کا وقت ہمیں دیں اور مسجد میں تشریف فرما ہوں، تاکہ کسی کو کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہو تو آپ مسئلہ بتادیا کریں، تو اس طرح کمیٹی اور محلہ داروں کے اس فیصلہ پر راضی ہو گئے۔ جب مسجد کی امامت چھوڑی تھی تو مسجد کی طرف سے دیاگیا گھر چھوڑنے کا فیصلہ بھی کرلیا اور فرمایا کہ جس کو امام بناؤگے، اس کی بھی فیملی ہوگی، اہل وعیال ہوں گے، اس کو گھر کی ضرورت ہوگی تو اس کو مسجد والا گھر دے دینا، میں تو اس گھر میں رہنا مناسب نہیں سمجھتا، تو اس طرح ۲۰۱۸ء میں مسجد کے سامنے ہی ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہو گئے اور مسجد کا گھر خالی کردیا۔اس گھر میں دو بھائی والد صاحبؒ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
حفظِ قرآن مکمل کرنے کے بعد ۱۵سال کی عمر سے ہی تراویح پڑھانا شروع کردی تھی، اکثر تراویح ہالیجی شریف (پنوں عاقل) میں میاں عبد الستار صاحب کی مسجد میں پڑھائی اور چند سال اپنے گاؤں ہالیجی شریف کی مختلف مساجد میں تراویح پڑھائی۔ ۱۹۸۳ء تک یعنی کراچی آنے تک یہ سلسلہ جاری رہا، پھر جب امامت ملی تو چونکہ مسجد میں پہلے ہی ایک حافظ صاحب تراویح پڑھاتے چلے آرہے تھے تو اس کو ہٹانا مناسب نہ سمجھا اور خود پیچھے کھڑے ہو کر سماعت فرماتے رہے اور ۲۷ ویں شب کو ختم کے بعد دو یا تین دن اکثر خود تراویح پڑھایا کرتے تھے۔
۱۹۸۰ء میں جب جامعہ اشرفیہ سکھر میں پڑھاتے تھے، اس وقت جامعہ اشرفیہ کے مفتی عبد الحکیم سکھروی ؒ(والد مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب) کی عدم موجودگی میں فتویٰ دیا کرتے تھے، کراچی آنے کے بعد دارالعلوم رحمانیہ بفرزون کی تدریس کے دوران بھی وہاں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں جب جامعہ اسلامیہ کلفٹن میں پڑھاتے تھے، اس وقت صدر میں واقع مسجد خضراء کے رئیس دار الافتاء اور مفتی بنے اور وہاں فتویٰ دینے کے ساتھ ساتھ مسائل کی چند کتابیں بھی تصنیف کیں جوکہ مسجد خضراء کی طرف سے طبع ہو چکی ہیں : ۱-کتاب الزکاۃ، ۲-مسائلِ رمضان، ۳-مسائلِ قربانی، ۴-مسائلِ احرام۔
آپ ابتداء ً قطب الاقطاب مرشد الموحدین حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ سے بیعت ہوئے تھے، ۱۹۶۱ء میں حضرت ہالیجویؒ کے انتقال کے بعد حضرت ہالیجویؒ کے چھٹے فرزند اور خانقاہ ہالیجی شریف کے سجادہ نشین حافظ محمود اسعد صاحبؒ سے بیعت وارادت کا تعلق قائم کیا۔ ۱۹۹۰ء میں حضرت حافظ صاحبؒ کی وفات کے بعد پھر کسی سے بیعت کا تعلق قائم نہیں کیا۔ حضرت مولانا عبد الکریم قریشی  ؒ( بیر شریف والے) سے عقیدت کا تعلق تھا، حضرت بیرشریف والوں کے انتقال کے بعد پھر کسی کو اپنا پیرومرشد نہیں بنایا۔ فرماتے تھے کہ: پہلے والے بزرگوں میں سادگی، عاجزی، للہیت وخشیتِ الٰہی پائی جاتی تھی، اب آج کل کے پیروں میں وہ سادگی، عاجزی باقی نہیں رہی۔
حضرت والد صاحبؒ انتہائی سادہ طبیعت، دکھاوے اور شہرت سےکوسوں دور، سادگی اور عاجزی پسند تھے۔ سادہ لباس اور سر پر معمولی عمامہ زیب تن کیے رکھتے تھے۔ مجھے یاد نہیں والد صاحبؒ نے کبھی کاٹن کا کپڑا پہنا ہو یا تین چار جوڑوں سے زائد کپڑے بنوائے ہوں۔ سادہ کھا نا تناول فرماتے اور کھانے پینے میں احتیاط برتتے تھے، ایک روٹی صبح، ایک شام اور سالن جو گھر میں پکتا تھا، بازار کے کھانے سے احتیاط برتتے تھے کہ پتا نہیں کس قسم کے مصالحوں اور چیزوں سے بناتے ہیں۔ اگر کہیں کسی دعوت میں باہر کا کھانا کھانا پڑے تو پھر بہت ہی کم کھاتے تھے۔
آپؒ زندگی میں صرف دو بار سفرِ حج کے لیے تشریف لے گئے، پہلی مرتبہ ۱۹۸۶ء میں اکیلے گئے تھے۔ اور دوسری مرتبہ ۲۰۰۷ء میں اپنی اہلیہ کو حج کے لیے ساتھ لے کر گئے۔
آپؒ بالکل تندرست تھے، چند دن سے معمولی بخار تھا، صبح دس بجے ایک بھائی جو اقصیٰ مسجد کے خادم ہیں، وہ گھر آئے تو والدہ نے ان کو والد صاحبؒ کے بارے میں بتایا کہ ابھی تک بیدار نہیں ہوئے، انہوں نے جب جاکر دیکھا تو والد صاحبؒ سو رہے تھے، لیکن سانسیں تیز چل رہی تھیں، فوری طور پر ڈاکٹر کو بلا کر لائے، انہوں نے چیک اَپ کیا اور کہا کہ فوراً ان کو ہسپتال لے کر جائیں، ایمبولینس منگواکر سیفی ہسپتال لے جا رہے تھے کہ ایمبولینس میں آخری بار آنکھیں کھول کر چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہزاروں تلامذہ ومتعلقین اورعزیز واقارب کو سوگوار چھوڑ کر اللہ کی رحمت کی آغوش میں چلے گئے،  إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

سہ پہر تقریباًچار بجے آپؒ کا جسدِ خاکی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن لایاگیا، وہاں اساتذہ اور طلباء نے آپؒ کا آخری دیدار کیا، بعد نمازِ عصر جامعہ بنوری ٹاؤن کی مسجد میں رئیسِ جامعہ حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری صاحب دامت برکاتہم کی اقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی، اس کے بعد تدفین کے لیے گاؤں ہالیجی شریف (پنوں عاقل) لے جایا گیا اور بروز جمعہ صبح سات بجے کے قریب ہالیجی شریف کے مقامی قبرستان میں تدفین ہوئی۔
اللہ تعالیٰ حضرت والد صاحبؒ کی مغفرت فرمائے، اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، ہمیں اور تمام تلامذہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین