بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ  (پہلی قسط)

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ 

عالم اسلام کا ایک اور آفتاب غروب ہوگیا (پہلی قسط)


عالمی، علمی، ادبی، تربیتی، مردم ساز عظیم تاریخی تحریک کی مرکزی درس گاہ دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی، صدر المدرسین، شیخ الحدیث اور مجلسِ ختمِ نبوت ہند کے جنرل سیکریٹری، اکابر کی یادگار اور نمونۂ اسلاف، اہلِ سنت والجماعت اور اکابرِ دیوبند کے ترجمان،حضرت نانوتوی اور شاہ ولی اللہ E کے علوم کو کھولنے والے، محدثِ عصر، فقیہ الزمان، ہردلعزیز مدرس، مسندِ درس کے بادشاہ، حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ مورخہ ۲۵؍رمضان ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء کو منگل کے روز صبح تقریباً ۲۰:۷ پر دارِ فانی سے دارِ بقاء کی جانب کوچ کر گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ عالم اسلام کے جلیل القدر عظیم محدث، بے مثال مفسر، معتبر مورخ، کئی کتابوں کے مصنف، مؤلف، حق گو، بے باک، جرأت مند خطیب، مقرر، عالم، اصول پسند منتظم، اعلیٰ ترین تحقیق رکھنے والے بے نظیر مدرس، اور دور اندیش مربی تھے ۔نہایت مضبوط، اور پختہ علم رکھنے والے بہت بڑی وقیع شخصیت تھے، ایسے نابغۂ روزگار عالم صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مفتی صاحب کی شخصیت

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بظاہر دیکھنے میں ایک ہی شخصیت تھی، مگر ان میں بہت ساری شخصیتوں کا اجتماع تھا، بظاہر ایک فرد تھے، لیکن وہ ایک چلتا پھرتا ادارہ اور انجمن تھے، اس ایک شخصیت میں محدث مفسر، مؤرخ، مصنف، مؤلف، محقق، مدقق، مفکر، خطیب، مقرر اور اصول پسند منتظم، یہ سب اوصاف موجود تھے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ حق گو، بے باک اور جرأت مند عالم تھے۔ حق بات کہنے میں نہ کسی کی رعایت کرتے تھے، نہ کسی سے ڈرتے تھے، مسائل بتانے اور فتویٰ دینے میں کوئی لچک اور نرمی نہیں دکھاتے تھے، اور نہ حیلہ اور تاویل کرکے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی ادارہ یا درس گاہ والوں نے حضرت کو دعوت دے کر بلایا اور وہاں حضرت کو کوئی ایسی بات نظر آئی جو صحیح نہیں تھی، تو وہاں بھی صحیح بات بتا دیتے، بلانے والے ادارے اور درس گاہ والوں کی رعایت نہیں کرتے تھے۔ حق گوئی، بے باکی مفتی صاحب کا شیوہ تھا، کیوں کہ ’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ‘‘۔

ولادت

مفتی صاحب مرحوم کی ولادت کی صحیح تاریخ محفوظ نہیں، البتہ اندازہ یہ ہے کہ ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۴۰ء انگریزی کو موضع ’’ کالیڑہ‘‘ ضلع بنارس کانٹا (شمالی گجرات) میں پیدا ہوئے، اور یہ علاقہ پالن پور شہر سے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے، اور یہ پالن پور کے مضافات کی مشہور و معروف بستی ہے۔ یہ بھی ایک زرخیز علاقہ ہے، اس میں بھی بڑے بڑے نامور علماء پیدا ہوئے۔

تعلیم

آپ نے اپنے وطن ’’ کالیڑہ ‘‘ کے مکتب سے اپنی تعلیم کا آغاز فرمایا، اس کے بعد ’’ دار العلوم چھاپی ‘‘ میں جاکر اپنے ماموں مولانا عبد الرحمن صاحب شیرا قدس سرہٗ اور دیگر اساتذۂ کرام سے فارسی کی ابتدائی کتابیں چھ ماہ تک پڑھیں، پھر اس کے بعد باقی چھ ماہ اپنے ماموں سے ان کے وطن ’’ جونی سیندھی‘‘ میں فارسی کی بقیہ کتابیں پڑھتے رہے ۔پھر اس کے بعد پالن پور شہر میں حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدّس سرہٗ کے مدرسہ میں داخلہ لے کر چار سال تک عربی کی ابتدائی اور متوسط درجے کی کتابیں شرح جامی تک پڑھیں، اس مدرسہ میں حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ فاضل دار العلوم دیوبند بھی استاذ تھے۔پھر اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۱۳۷۷ھ میں مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لے کر تین سال تک نحو، منطق اور فلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں۔پھر اس کے بعد ۱۳۸۰ھ میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر تفسیر جلالین اور ہدایہ اولین اور باقی کتابیں پڑھیں، اور ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی اور یہ دار العلوم دیوبند کا سو واں سال تھا۔
دورۂ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد شوال ۱۳۸۲ھ میں تکمیلِ افتاء ( تخصص فی الفقہ ) میں داخلہ کے لیے درخواست دی، یکم ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ کو آپ داخلہ تکمیلِ افتاء ( تخصص فی الفقہ ) میں ہوگیا، اور حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہان پوری رحمۃ اللہ علیہ جو دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی اور بہت ساری کتابوں کے مصنف، مؤلف اور شارح بھی تھے، جہاں دیدہ، تجربہ کار مفتی اور کتابوں کے کیڑے تھے، ان کی نگرانی میں فتاویٰ کی کتابوں کا مطالعہ اور فتویٰ لکھنے کی مشق کا آغاز فرمایا۔ 
ایک دفعہ ترمذی شریف کے سبق میں فرمایا کہ: ہم جب تخصص میں تھے‘ حضرت مفتی مہدی حسن رحمۃ اللہ علیہ ہمارے مشرف اور نگران تھے، وہ ہم سے کہتے کہ فلاں مسئلہ کا حوالہ آپ لوگ تلاش کرکے دکھا دیں، مجھے اس کی ضرورت ہے، مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ پھر ہم مسلسل ہفتہ دس دن مختلف کتابوں سے تلاش کرکے وہ مسئلہ نکال کر حضرت مفتی صاحب کے سامنے پیش کرتے اور ہم اندر اندر سے بڑے خوش ہوتے (کیوں کہ ایک ایک حوالہ کے ملنے سے اتنی خوشی ہوتی ہے، جیسا کہ کسی فقیر کو بادشاہت مل گئی ہو، اور دنیا کے سارے خزانے اس کے ہاتھ آگئے ہوں) لیکن مفتی مہدی حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے: ہاں! وہ مسئلہ مجھے مل گیا ہے، تب ہم سمجھتے کہ یہ مسئلہ نکلوانے کا مقصد ہم سے کتابوں کا مطالعہ کروانا اور مطلوبہ حوالہ کو سمجھ کر نکلوانے کی ٹریننگ و مشق کروانا ہے، تاکہ تخصص کے طلباء میں کتابوں کو مطالعہ کرنے کی عادت بن جائے، اور کتابوں سے مطلوبہ حوالہ نکالنے کا سلیقہ پیدا ہوجائے، ورنہ تخصص میں مطالعہ کے بغیر وقت گزارنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، خاص طور پر موجودہ دور میں اتنی زیادہ ذمہ داری اور مشغولیات ہوتی ہیں کہ یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر مطالعہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا، اس لیے جن طلبہ نے تخصص کے زمانہ میں مطالعہ کرلیا وہ کامیاب ہیں اور جنہوں نے مطالعہ نہیں کیا وہ ناکام ہیں ۔
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تخصص کے مطالعہ اور فتویٰ نویسی کی مشق کے ساتھ ساتھ جامعۃ الازہر قاہرہ کی طرف سے مبعوث قرآن کریم کے جید حافظ اور مصری قاری سماحۃ الشیخ عبد الوہاب مصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس قرآن مجید کا حفظ بھی شروع کردیا، اور اس کو مکمل بھی فرمایا۔ اس دوران اپنے بھائی کو بھی حفظ کراتے، خود بھی حفظ کرتے تھے، چنانچہ ایک طرف فتاویٰ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے، دوسری طرف فتویٰ لکھنے کی مشق کرتے تھے، تیسری طرف اپنے چھوٹے بھائی کو حفظ کراتے تھے، چوتھی طرف خود بھی حفظ کرتے تھے، اس طرح کی زبردست محنت کرکے آپ بعد میں آنے والوں کے لیے ایک زبردست عملی نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔

پڑھائی کا زمانہ 

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین اور محنت کے عادی تھے، بڑی یکسوئی اور انہماک کے ساتھ کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے، دورانِ تخصص جب قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا تو رات بارہ ایک بجے کمرہ کے باہر چبوترہ میں بیٹھ کر قرآن مجید حفظ کرتے، اس طرح پورا قرآن حفظ کیا۔ کتب بینی، فتاویٰ اور قرآن مجید حفظ کرنے اور کرانے کے علاوہ کسی دوسرے مشغلہ سے آپ کا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا ۔محنت، صلاحیت اور قابلیت کا یہ عالم تھا کہ بر صغیر پاک و ہند کی عظیم دینی اور فکری درس گاہ دار العلوم دیوبند کے سالانہ امتحان میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ۔

دار العلوم دیوبند میں آپ کا تقرر

مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ جب راندیر کے جامعہ حسینیہ میں پڑھتے تھے، اس زمانہ کے آپ کے ایک استاذ حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ دار العلوم دیوبند کے استاذ بن گئے تھے، انہوں نے ۱۳۹۳ھ میں مفتی صاحب کو خط کے ذریعہ مطلع کیا کہ دار العلوم دیوبند میں استاذ کی ایک جگہ خالی ہے، لہٰذا آپ دار العلوم دیوبند میں تدریس کی درخواست بھیجیں، اور مفتی صاحب نے درخواست بھیج دی اور اس کے ساتھ دار العلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک خط بھی ارسال کیا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدّس سرہٗ نے اس خط کے جواب میں جو گرامی نامہ بھیجا، وہ درج ذیل ہے: 
’’ محترمی ومکرمی زید مجدکم!سلام مسنون، نیاز مقرون، گرامی نامہ باعثِ مسرت ہوا، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر کام کرنے کی اطلاع سے غیر معمولی خوشی ہوئی، جو صورت آپ نے اختیار فرمائی ہے، وہ مناسب ہے، خود میرے ذہن میں ان کتب کی خدمت کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ صورت بھی تھی۔ ’’الفرقان‘‘ میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی، ان شاء اللہ رسائل منگواکر مستفید ہوں گا، اور جو رائے قائم ہو گی وہ عرض کروں گا۔
درخواست منسلکہ مجلسِ تعلیمی میں بھیج رہا ہوں، اس پر وہاں سے کوئی کارروائی ضرور کی جائے گی، اس کی اطلاع دی جائے گی۔ دعا کی درخواست۔ قاسم العلوم کے میرے پاس دو نسخے تھے، ایک نسخہ اسی ضرورت سے وہاں بھیجا گیا، مگر واپس نہیں ہوا، اب ایک رہ گیا ہے۔ جو صاحب نقل کرنا چاہیں، وہ ایک وقت مقرر کر کے میرے کتب خانہ میں ہی بیٹھ کر نقل فرما لیا کریں، اور یہاں بحمداللہ خیریت ہے۔‘‘
اسی سال ۱۳۹۳ھ کے شعبان میں مجلسِ شوریٰ کے اراکین کا اجتماع ہوا، اور عربی درجات کے لیے ایک مدرس کے تقرر کا ذکر آیا، تو شوریٰ کے رکن، حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہٗ نے مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام پیش کیا، اور اسی مجلس شوریٰ میں موصوف کا تقرر ہوگیا، اور ان کو شعبان ہی میں تقرری کی اطلاع دے دی گئی ۔ اور آپ رمضان المبارک ۱۳۹۳ھ کے بعد دار العلوم دیوبند میں تشریف لے آئے، اس وقت سے ۲۵؍رمضان ۱۴۴۱ھ تک مسلسل ۴۸ سال دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے، ابتدائی عربی درجات کے مدرس سے ترقی کرتے کرتے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین کے منصب پر ۱۲ سال تک فائز رہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی خدمات کو قبول فرمائے، آمین

دار العلوم دیوبند کے پہلے معین مفتی 

دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے امتحان میں اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والے دونوں فضلاء کو دو سال کے لیے معین استاذ کے نام سے تقرر کرتے ہیں، تاکہ اس دوران ان کی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ ہوسکے ۔ اسی طرح تکمیلِ افتاء ( تخصص فی الفقہ ) کے سالانہ امتحان میں اول اور دوم پوزیشن لینے والے دونوں متخصصین کو ایک سال کے لیے معین مفتی کے نام سے تقرر کرتے ہیں، تاکہ فتویٰ وغیرہ کے سلسلہ میں اپنی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھاسکیں۔ یہ سلسلہ دار العلوم دیوبند کی ابتدا سے نہیں تھا، بلکہ یہ سلسلہ مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ سے شروع ہوا، ورنہ اس سے پہلے دار الافتاء دار العلوم دیوبند میں معین مفتی رکھنے کا رواج نہیں تھا ۔

شعبۂ افتاء کی نگرانی

۱۴۰۲ھ میں مفتی صاحب کو دار العلوم دیوبند کے شعبۂ افتاء کا نگران مقرر کیا گیا اور فتویٰ نویسی کی ذمہ داری دی گئی، اس سے پہلے ۱۳۹۵ھ میں بھی مفتی صاحب کو دار الافتاء دار العلوم دیوبند کی نگرانی سپرد کی گئی تھی، جس کو مفتی صاحب نے احسن طریقہ سے انجام دیا تھا۔ 

شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے 

آج سے تقریباً بارہ سال پہلے یعنی ۱۴۲۹ھ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پیرانہ سالی کی وجہ سے بخاری شریف پڑھانے سے معذرت کرلی تو اس وقت کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب قدس سرہٗ کو بلا کر بخاری شریف کی تدریس حوالہ کی اور فرمایا کہ: بخاری شریف آپ کو پڑھانا ہے، اور شوریٰ نے اس کو منظور کر لیا۔ یوں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے اور ۱۲ سال تک بحسن و خوبی اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔
دا رالعلوم دیوبند میں شیخ الہندؒ کے بعد یہ دوسری شخصیت ہیں جن میں شیخ الحدیث اور صدر المدرسین کے دونوں عہدے جمع تھے۔ ساتھ ساتھ مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کل ہند کے ناظم اعلیٰ بھی تھے ۔

تدریس کی مدت

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دار العلوم دیوبند کے قدیم اور ہر دلعزیز اساتذہ میں سے تھے، تقریباً ۴۸ سال تک مدرس رہے۔ ۱۳۹۳ھ میں ابتدائی مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوا، اس سے ترقی کرتے کرتے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین کے عہدے پر بھی ۱۲ سال تک فائز رہے ۔

درس 

درس بے انتہا آسان، نہایت مقبول، عام فہم، مدلل، مفصل اور مربوط ہوتا تھا۔ افہام و تفہیم کا طرز و انداز اتنا زیادہ شاندار تھا کہ ہم نے اپنے دور میں اتنا شاندار مدرس نہیں دیکھا، مشکل سے مشکل مضامین کو مثالوں سے اس طرح واضح کرتے تھے کہ طلباء کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ مشکل نہیں، بلکہ حلوہ کی طرح آسان ہے ۔

پڑھانے کا انداز

اللہ رب العزت نے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو عجیب و غریب صلاحیتوں سے نوازا تھا، ہر سبق کو مرتب، مربوط اور مؤثر انداز میں پڑھانے کی صلاحیت اور مہارت باکمال اور لاجواب تھی۔ ہم جب دار العلوم دیوبند میں پڑھتے تھے اس زمانہ میں ہمیں دورۂ حدیث شریف میں حضرت نے دو کتابیں پڑھائی ہیں، دن میں صبح شاید تیسرے گھنٹے میں ترمذی شریف پڑھاتے تھے، اور مغرب کی نماز کے بعد سے عشاء کی اذان تک طحاوی شریف پڑھاتے تھے، ایک تو کمال یہ تھا کہ سبق میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا، الا یہ کہ قدرتی کوئی بات پیش آجائے تو الگ بات ہے ۔
دوسرا یہ کہ سبق پڑھانے کا انداز شروع سال سے آخر سال تک ایک ہی ہوتا تھا۔
تیسرا یہ کہ کسی بھی کتاب کا سبق پڑھانا ہو اچھی طرح مطالعہ کرتے۔ پھر حدیث شریف ہو یا فقہ کی کوئی کتاب ہو پورے سبق کا ذہن میں ایک نقشہ بنالیتے اور مضمون یا مسئلہ کے اعتبار سے ذہن میں الگ الگ اجزاء یا مسئلہ یا تقطیع بنالیتے، پھر درسگاہ میں رونق افروز ہونے کے بعد ادب کے ساتھ بارعب ہوکر بیٹھتے تھے، پھر کتاب کی عبارت پڑھنے سے پہلے ایک مسئلہ یا ایک مضمون کو خود زبانی بیان فرماتے، پھر متن پڑھنے والے طالب علم کی ذمہ داری ہوتی کہ کتاب کی صرف اتنی ہی عبارت پڑھے جتنی عبارت کی خود مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے زبانی تقریر فرمائی ہے، اس کے بعد پھر عبارت کا ترجمہ اور تشریح کرتے اور عبارت پڑھنے سے پہلے جو کچھ مضمون یا مسئلہ بیان فرمایا تھا اس کو عبارت سے تطبیق دیتے، پھر آگے اگلا مضمون یا مسئلہ زبانی بیان فرماتے، پھر اس کے بعد متن پڑھنے والا طالب علم اتنا ہی متن پڑھتا جتنا حضرت نے زبانی طور پر بیان فرمایا ہے، پھر اس کے بعد ترجمہ و تشریح بتاکر تطبیق دیتے تھے۔ اس طرح سال ختم ہونے تک پڑھانے کا سلسلہ جاری رہتا، ایک لفظ کو دوبارہ نہیں دہراتے تھے، باتوں کا تکرار نہیں کرتے تھے، ضرورت سے زائد اور غیر متعلقہ باتیں نہیں کرتے تھے، کمال کی بات یہ تھی کہ درسگاہ کا ہر طالب علم ذکی اور ذہین ہو، متوسط ہو یا کند ذہن اور غبی ہو، سب اچھی طرح سمجھ جاتے تھے اور سب کے دماغ میں پورا سبق بیٹھ جاتا تھا ۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جب ہم مثلاً گھر بنانے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس جگہ کو اپنے ذہن میں مستحضر کرکے ذہن میں ایک نقشہ بناتے ہیں کہ یہاں سے یہاں تک گھر رہنا چاہیے اور یہاں دروازہ ہونا چاہیے، یہاں کھڑکی ہونی چاہیے، یہاں مہمان خانہ ہونا چاہیے، یہاں بیڈ روم ہونا چاہیے، یہاں پانی کی ٹینکی ہونی چاہیے، یہاں نماز کی جگہ ہونی چاہیے، یہاں برآمدہ ہونا چاہیے، اور یہاں صحن ہونا چاہیے، اس طرح اپنے ذہن میں گھر کا ایک مکمل نقشہ ہوتا ہے، پھر ذہن میں بنائے ہوئے نقشہ کو کاغذ پر اُتارتے ہیں، پھر اس گھر کو اس زمین پر نقشہ کے مطابق بنانا شروع کرتے ہیں، اور یہ گھر کا وجود ذہن سے نکل کر زمین پر آجاتا ہے، اور سب کو وہ گھر نظر آتا ہے، اور سب سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دروازہ ہے، یہ کھڑکی ہے، یہ مہمان خانہ ہے، وغیرہ ۔
اسی طرح حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ آج کہاں تک سبق پڑھانا ہے ذہن میں اس کی ایک حد مقرر کرلیتے اور طلبہ کے ذہن میں آسانی کے ساتھ بٹھانے کے لیے پورے سبق کا مسئلہ اور مضمون کے اعتبار سے جزء جزء کرکے نقشہ بنالیتے، پھر درس گاہ میں آکر اس نقشہ کے مطابق طلبہ کے ذہنوں میں اُتارتے، سبق ختم ہونے کے بعد خیالی طور پر ایک نقشہ ذہن میں ہوتا، اس لیے طالب علموں کو سبق سمجھنے کے بارے میں کبھی شکایت نہیں ہوتی تھی، اور درس اتنا مقبول تھا کہ دور دراز سے بہت سارے مدارس کے اساتذہ کرام آکر سبق میں بیٹھ جاتے تھے، اور بڑے خوش ہوتے تھے اور درس میں بیٹھ کر سبق سننے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے ۔اور درس ختم ہونے کے بعد کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی تھی۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت کو ہر فن میں کمال کا ملکہ عطا فرمایا تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ وسیع النظر اور کثیر المطالعہ تھے۔ اگر درس میں طب سے متعلق کوئی بات آتی تو اس کی تشریح پوری طب کے اعتبار سے کرتے۔ اور اگر جسم کے اعضاء کی تشریح کے بارے میں کوئی بات آئی چاہے وہ جسم کے اندرونی اعضاء ہوں یا بیرونی، پوری طب کے اعتبار سے تشریح کرتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ فلسفی کی بات آتی تو فلسفہ کی پوری بات کرتے۔ بلاغت کی بات آتی تو بلاغت کی بات کرتے۔ جغرافیہ کی کوئی بات آتی تو پوری جغرافیہ کی بات کرتے۔ غرض کہ جس موضوع کی بات آتی اس پر اس طرح سیر حاصل بحث کرتے کہ سارے طلبہ کو تشفی ہوجاتی، کوئی تشنگی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے حضرت کے درس کے طلبہ دیوانے اور فدا تھے۔

سبق میں سوالات و جوابات کا سلسلہ 

اگر سبق کے دوران کوئی طالب علم سوال کرتا تو اچھی طرح غور سے سوال کو سنتے اور جواب بھی عنایت فرماتے، کوئی بھی طالب علم سوال کرتا تو آپ بڑی اہمیت سے سنتے، نظر انداز نہیں کرتے تھے، اور اس پر ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کرتے تھے، بلکہ ہر طالب علم کو اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ۔بعض دفعہ تو ایسا ہوتا تھا کہ درس گاہ میں سبق کے دوران طالب علم نے سوال کیا، استاذ محترم نے جواب دیا، طالب علم کو تشفی نہیں ہوئی، پھر اس نے سوال کیا، پھر استاذ محترم نے جواب دیا، اس طرح استاذ و شاگرد کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا تھا، کبھی ایک دن، کبھی دو دن، کبھی تین دن تک بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ۔
ہمارے ساتھ نواکھالی کا ایک طالب علم تھا، ترمذی شریف کے سبق کے دوران بہت زیادہ اعتراضات کرتا تھا، استاذ محترم تمام اعتراضات کے جوابات دیتے، کبھی کبھار یہ سلسلہ دو سے تین دن تک چلتا تھا، کمال کی بات یہ تھی کہ استاذِ محترم کی پیشانی میں شکن تک نہیں آتی تھی، چہرہ مبارک پر ناگواری اور ناراضگی کے آثار تک نہیں ہوتے تھے، بلکہ جوابات کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ حضرت اس سے خوش ہورہے ہیں، واقعی مثالی استاذ ایسے ہوتے ہیں ۔

اوپر کا فیصلہ

دورۂ حدیث کا سال ختم ہونے کے بعد جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا، چھٹی کا زمانہ تھا، وہ طالب علم (جو سبق میں سوالات کرتا تھا) مظاہر علوم سہارنپور دیکھنے گیا، واپس آتے ہوئے اس کو ’’ لو ‘‘ لگ گئی، اور وہ بیمار ہوگیا اور دار العلوم دیوبند میں واپس آنے کے بعد وہیں پر اس کا انتقال بھی ہوگیا، چنانچہ اس کو موسری کے پاس غسل دلا کر کفن پہنایا گیا، پھر دار العلوم میں اس کا جنازہ ہوا اور مقبرۂ قاسمی میں دفن کیا گیا، لکھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ آخر تک مقبرۂ قاسمی میں ساتھ رہے ۔پھر دار العلوم دیوبند کے نو درہ میں اس طالب علم کے لیے رمضان المبارک میں تعزیتی جلسہ کیا گیا، اس میں حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا اور اس طالب علم کے بارے میں بتایا کہ وہ طالب علم بہت ہی زیادہ قابل اور لائق تھا، درس گاہ میں سبق کے دوران باقاعدہ سوالات و جوابات کا طویل سلسلہ جاری رہتا تھا، لیکن افسوس کہ وہ اللہ کو پیارا ہوگیا، اس قسم کے قریب قریب کے الفاظ تھے اور ایک شعر پڑھا:

پھول تو دو دن بہارِ جانفراں دکھلا گئے 
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دار العلوم دیوبند کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان دینی اور علمی تعلق کتنا گہرا اور مثالی ہوتا تھا ۔

سبق کے دوران تقریر کے الفاظ

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سبق کے دوران سہل اور آسان الفاظ اور جملے انتخاب فرماتے تھے، اور مضمون کو اتنے میٹھے اور دلنشین انداز میں بیان فرماتے کہ ہر بات دل میں اُتر جاتی تھی۔ مشکل الفاظ اور مغلق جملے استعمال نہیں کرتے تھے، بالکل عام فہم انداز میں بات کرتے تھے۔ نہ اتنی جلدی الفاظ بولتے تھے کہ سننے والے طالب علم کو سمجھنے اور اخذ کرنے میں پریشانی ہو، اور نہ اتنی دیر سے کہ طالب علم کو ایک لفظ سننے کے بعد دوسرے لفظ کے لیے انتظار کرنا پڑے، صاف صاف واضح الفاظ میں سبق پڑھاتے تھے۔آج بھی کوئی استاذ تدریس کی دنیا میں کامیاب ہونا چاہے تو اس طرح وسیع مطالعہ کرکے ذہن میں پورے سبق کا مسئلہ یا مضمون کے اعتبار سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نقشہ بنالے اور پھر طلبہ کے سامنے اس نقشہ کے مطابق مربوط، مرتب اور مؤثر انداز سے پڑھائے تو آج بھی وہ ایسا ہی ہر دلعزیز مقبول استاذ بن سکتا ہے۔

میرا ناقص خیال یہ ہے 

جب بندہ نے ۱۹۸۳ھ میں دار العلوم دیوبند کے دورۂ حدیث میں داخلہ لیا، پڑھائی شروع ہوئی تو حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ترمذی جلد اول اور طحاوی شریف کا گھنٹہ تھا۔ ترمذی کا گھنٹہ صبح تھا اور طحاوی شریف کا گھنٹہ مغرب سے عشاء تک تھا۔ جب صبح ترمذی شریف کا گھنٹہ شروع ہوا تو مقدمہ کے طور پر حجیتِ حدیث وغیرہ کے بارے میں بڑی تفصیل کے ساتھ تقریر کا سلسلہ شروع ہوا، ایسا لگ رہا تھا کہ ایک سمندر بہہ رہا ہے نہروں کی طرف اور ساری نہروں کو اچھی طرح سیراب کررہا ہے اور ہر طالب علم اپنے ظرف کے مطابق مستفید ہورہا ہے ۔پھر جب مقدمہ ختم ہونے کے بعد کتاب کی حدیث شروع ہوئی، تقریر، تشریح اور مذاہب وغیرہ کا بیان شروع ہوا تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ حضرت مجتہد تو نہیں مقلد ہیں، لیکن تقریر و تشریح کسی کتاب کی رٹی ہوئی نہیں تھی، بلکہ ایک مجتہدانہ شان کے ساتھ بڑی تحقیق اور تدقیق کے ساتھ سبق پڑھا رہے تھے ۔
تقریر کا اسلوب یہ تھا کہ آہستہ آہستہ گہرائی سے گہرائی میں چلتے جارہے ہیں، تقریباً تمام شارحین کی شرح اور آراء ذکر کرنے کے بعد پھر ہندوستان اور دار العلوم کے اکابرین کو بھی ایک ایک کرکے ذکر فرمارہے تھے، مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ ؒ، مجدد الف ثانیؒ، حضرت قاسم نانوتویؒ، حضرت رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت شیخ الہندؒ، حضرت انور شاہ کشمیریؒ، حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ اور حضرت ابراہیم بلیاویؒ اور فقہاء کرام کی آراء کو بھی ذکر کرکے آخر میں کسی ایک قول یا رائے کو ترجیح دیتے اور اپنی رائے کا بھی ذکر فرماتے اور وہ سب سے خوبصورت بات ہوتی اور اس کو دلائل سے مدلل اور مضبوط کرتے، اور باقی آراء اور اقوال کے جوابات دیتے، جیساکہ فقہاء میں ہدایہ کے مصنف کی عادت ہے، اور اپنی رائے کو ظاہر کرنے سے پہلے فرماتے کہ: ’’ میرا ناقص خیال یہ ہے ‘‘ یا ’’میری ناقص رائے یہ ہے‘‘ حالانکہ یہ ہمیں سب سے بہتر رائے معلوم ہوتی تھی۔اس سے طلبہ کے سامنے شارحین کی آراء کے ساتھ ساتھ اپنے اکابر اور اسلاف کی آراء بھی تشریح اور وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتیں، اور طلباء کو معلوم ہوجاتا کہ اکابرین کی آراء اور ان کے مطالب کیا ہیں! اس طرح دیوبندیت طلبہ کے دل و دماغ میں رچ جاتی، اور دلوں میں اکابرین کی محبت بھی پیدا ہوجاتی ۔

(جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین