بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ (دوسری اور آخری قسط)

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ 

 

عالم اسلام کا ایک اور آفتاب غروب ہوگیا

(دوسری اور آخری قسط)


تصحیح و وضاحت

ماہنامہ بینات کے گزشتہ شمارے محرم الحرام ۱۴۴۲ھ میں زیرِ نظر مضمون کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی، جس سے متعلق دو باتوں کی وضاحت کی جاتی ہے:
۱:- صفحہ نمبر :۴۱ پرحضرت مفتی سعید احمد پالن پوری صاحبؒ کو دارالعلوم دیوبند کا صدر مفتی شمار کیا گیا۔ جبکہ حضرت مفتی صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین تو ضرور تھے، لیکن صدر مفتی کا مستقل عہدہ ہے جو حضرت مفتی صاحبؒ کے پاس نہیں تھا۔ 
۲:- صفحہ نمبر: ۴۵ پر حضرت مفتی صاحبؒ کو حضرت شیخ الہندؒ کے بعد دوسری وہ شخصیت لکھا گیا تھا جو بیک وقت شیخ الحدیث وصدر المدرسین دونوں عہدوں پر فائز تھے، جبکہ حضرت شیخ الہندؒ کے بعد حضرت علامہ کشمیریؒ اور حضرت شیخ الاسلام مدنی ؒبھی اپنے اپنے اَدوار میں ان دونوں عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اسی طرح شروع میں تو نہیں، لیکن بعد میں حضرت مولانا فخر الدین صاحبؒ اور حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحبؒ بھی دونوں عہدوں پر فائز رہے۔
ملاحظہ: نفحۃ العنبر، ص:۱۲ میں حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے دونوں عہدوں کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج:۲، ص:۱۷۱ میں صدور المدرسین کی تفصیل درج ہے۔            

 (مفتی محمد انعام الحق قاسمی)

 

اصول و ضوابط کے پابند تھے

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ترمذی شریف کے سبق میں معمولی تاخیر سے تشریف لائے ، جب نودرہ کے بائیں جانب یعنی جنوبی جانب سے پہلی منزل میں دار الحدیث کی جانب تشریف لارہے تھے تو دار الحدیث میں استاذ کے نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ آپس میں باتیں کررہے تھے ، معمولی شور ہورہا تھا (سن ۱۹۸۳ء میں ہمارے ساتھ آٹھ سو طلبہ تھے) شور سنتے ہی دار الحدیث کے دروازہ سے ناراض ہوکر واپس چلے گئے ، دار الحدیث اور شور، دو تین دن سبق پڑھانے نہیں آئے ، پھر اس کے بعد طلبہ گئے، معافی مانگی، آئندہ شور نہ کرنے کا وعدہ کیا تو دوبارہ سبق پڑھانا شروع کیا۔

اپنی بات سے رجوع کرنا

اگر سبق میں تقریر اور تشریح کے دوران کوئی تسامح ہوجاتا یا غیر مرجوح بات کو راجح قرار دیتے تو بعد میں درس گاہ میں آکر سبق میں بتادیتے کہ فلاں دن کے درس میں مثلاً فلاں حدیث کی تشریح میں فلانی غلطی تھی ، اس کو درست کرلو ، صحیح بات یہ ہے ۔
اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سبق پڑھانے کے بعد بھی پڑھائے ہوئے سبق کی تقریر کا جائزہ لیتے تھے ، اگر جائزہ میں تمام باتیں صحیح معلوم ہوتیں تو شکر ادا کرتے اور اگر مرجوح معلوم ہوتیں تو بعد میں درس گاہ میں آکر اصلاح اور تصحیح فرماتے ۔

’’معارف السنن‘‘ کا تذکرہ

ترمذی شریف کے درس میں سب سے زیادہ ’’معارف السنن‘‘ کی تشریحات کو نقل کرتے تھے، اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا بڑے ادب سے نام لیتے تھے ۔
اور اگر کسی مسئلہ میں ہمارے احناف کے فقہاء اور شارحین میں اختلاف ہوتا تو محاکمہ کے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے، کسی ایک قول کو ترجیح دیتے اور ترجیح بھی زبانی کلامی نہیں، بلکہ دلیلوں سے مدلل کرکے دیتے، تاکہ طلبہ کے دل میں کسی قسم کی خلش اور اُلجھن نہ ہو۔

آخری نصیحت

جب ترمذی جلد اول کا سبق ختم ہوگیا تو کسی طالبِ علم نے کہا کہ حضرت! کتاب ختم ہوگئی، لہٰذا کوئی نصیحت فرمادیں، تو فرمایا کہ: ہمارے استاذ مفتی مہدی حسن رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں تین نصیحتیں کی تھیں، میں وہی تین نصیحتیں آپ لوگوں سے کررہا ہوں ، ان میں سے ایک نصیحت یہ تھی کہ کسی کے حوالہ پر اعتماد نہ کرنا جب تک کہ اس عبارت کو اصل کتاب میں خود نہ دیکھ لو ، تو ایک طالبِ علم نے عرض کیا کہ: حضرت! اگر حوالہ دینے والا ابن حجرؒ ہو؟ حضرت مفتی مہدی حسن رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ’’ابنِ جبل‘‘ ہی کیوں نہ ہو ، جب تک کہ اصل کتاب کی مراجعت نہ کرلو ، بالکل اعتماد نہ کرو ۔
واقعی محققین، مصنفین اور مفتیان کرام کے لیے یہ بہت بڑی نصیحت ہے ، اگر اس کو سونے کے پانی سے بھی لکھا جائے اس کا حق ادا نہیں ہوگا، اصل کتاب سے مراجعت کے بغیر کسی کے حوالہ پر اعتماد کرکے مضمون لکھنا ، کتابیں تصنیف کرنا اور فتویٰ دینا گمراہی کے دروازے کو کھولنا ہے۔ بعض دفعہ عبارت کے سیاق و سباق کو کاٹ کر نقل کردیا جاتا ہے، بعض دفعہ اشکال کی عبارت کو نقل کردیا جاتا ہے ، بعض دفعہ مصنف نے مخالفین کے دعویٰ اور مذہب کو نقل کیا ہے ، اور بعد میں اس کا جواب آرہا ہے ، یا کسی اور جگہ پر جواب ذکر کرنے کا وعدہ کیا ہے، وغیرہ، وغیرہ، اور ناقل جواب کے بغیر یا سیاق و سباق کے بغیر یا مخالف کی نقل شدہ عبارت کی صراحت کے بغیر درمیان سے عبارت نقل کردیتا ہے تو مطلب بدل جاتا ہے ، اور لوگ اعتماد کرکے اس عبارت کو آگے نقل کرتے ہیں تو اس سے گمراہی کے راستے کھل جاتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے،اور لاشعوری طور پر شریعت کے خلاف کرتے جاتے ہیں۔
دوسری نصیحت یہ تھی کہ تہمت کی جگہ سے بچا کرو، اس لیے اگر کسی طالبِ علم سے کبھی خدمت لینے کی ضرورت ہو تو داڑھی والے کالے طالب علموں سے خدمت لو، کسی بے ریش اور گورے طالبِ علم سے کبھی بھی خدمت نہ لیا کرو۔
تیسری نصیحت ابھی ذہن میں نہیں۔ اب اگر کوئی عالم ان دو باتوں پر بھی عمل کرے گا تو اس کا دین اور عزت دونوں محفوظ ہوں گے، ورنہ شیطان اور نفسِ امارہ ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے ، اور آدمی کو جنت سے محروم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اس لیے ان دو نصیحتوں پر عمل کرنے سے دین و دنیا دونوں محفوظ ہوجائیں گے ۔

اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا خیال

حضرت مفتی صاحب مرحوم جس طرح مدرسہ کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے، اسی طرح بھائیوں اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے، آج کل اکثر علماء کا حال یہ ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں ، لیکن اپنے بھائی، بہن اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا خیال نہیں کرتے، حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ ایسے نہیں تھے ۔

تقریر

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر جامع ، نہایت مبسوط ، پر مغز ، قرآن و حدیث کے دلائل ، استنباط شدہ مسائل ، علمی نکات ، واضح مثالوں اور وضاحتی لطائف اور تاریخی واقعات اور حالات سے پُر ہوتی تھی ، سننے کے بعد اعتراضات دور ہوجاتے ، اشکالات ختم ہوجاتے ، جسے لوگ سن کر اپنے دین و مذہب پر پختہ اور مضبوط ہوجاتے ، اور ان پر اسلام کی حقانیت واضح ہوجاتی ۔

تصنیفی خدمات

تصنیفات صلبی اولاد کی طرح ہوتی ہیں، جس طرح اولاد پیدا ہونے سے خوشی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور سب مبارک باد دیتے ہیں اور یہ بچے بڑے ہونے کے بعد نیک کام کرکے ثواب پہنچاتے ہیں ، کمائی لاکر دیتے ہیں اور قبر پر آتے ہیں ، اسی طرح کوئی کتاب لکھنے کے بعد جب پریس سے چھپ کر منظر عام پر آتی ہے تو لکھنے والے کو اس طرح نہیں بلکہ اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے ، یہ کتاب دنیا میں کمائی لاکر دیتی ہے اور قبر میں ثواب پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے ، اور پڑھنے والے قبر پر آکر زیارت ضرور کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں اور مغفرت کی دعا کرکے جاتے ہیں ، اس لیے عالمِ دین کو چاہیے کہ دینی اور علمی اعتبار سے تصنیف اور تالیف کرلے ، جب تک دنیا میں کتاب باقی رہے گی ثواب ملتا رہے گا ، نام زندہ رہے گا، اس لیے یہ خوش قسمت لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے ۔
حضرت مفتی صاحب مرحوم نے بھی اپنی مبارک زندگی میں بہت ساری قیمتی کتابیں تصنیف کیں جو مختلف ممالک میں شائع ہوکر مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہیں ۔ بہت ساری کتابیں ‘ مدارسِ اسلامیہ کے نصاب میں داخل ہیں جو آسان، عام فہم اور حکمتوں سے لبریز ہیں اور ان کتابوں کی تعداد تقریباً پچاس کے لگ بھگ ہے، جن میں سے چند یہ ہیں : 
۱:- تفسیر ہدایت القرآن ، یہ آسان اور عام فہم ہونے کی وجہ سے عام و خاص میں مقبول تفسیر ہے۔
۲:- فیض المنعم : یہ مسلم شریف کے مقدمہ کی معیاری اور مقبول شرح ہے ۔
۳:- تحفۃ الدرر : یہ ابن حجرؒ کی کتاب ’’نخبۃ الفکر ‘‘کی اردو زبان میں عام فہم بہترین شرح ہے۔
۴:- ’’آپ فتویٰ کیسے دیں؟‘‘ یہ ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔تخصص فی الفقہ کے طلبہ کے لیے بہت ہی بڑا قیمتی تحفہ ہے ۔
۵:- ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘ اردو شرح ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ ‘‘۔
۶:- زبدۃ الطحاوي
۷:- ’’تحفۃ الألمعي‘‘ شرح سننِ ترمذی ( آٹھ جلدوں میں ہے )۔
۸:- ’’تحفۃ القاري‘‘ شرح صحیح بخاری ( بارہ جلدوں پر مشتمل ہے )۔

تصانیف کا معیار

٭ تصانیف اور تالیفات نہایت پر مغز ، مرتب ، آسان ، اور جامع ہوتی تھیں ، عام فہم ، اور خاص و عام میں یکساں مقبول تھیں ، کسی کتاب پر حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام آجانا آسان اور سہل الحصول ہونے پر دلیل ہوتا تھا، اس لیے آپ کی لکھی ہوئی اکثر کتابیں عربی مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ، جو حضرت کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔
٭ حضرت کی کتابوں میں ایسی محقق، حکیمانہ باتیں اور اسرار و رموز ملتے ہیں جو دوسری کتابوں میں مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں ، مزید یہ کہ حضرت مفتی صاحب نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اُٹھایا ہے ۔

’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کی بے نظیر شرح 

موجودہ دور میں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘کی پانچ جلدوں میں ایک عظیم، آسان، مبسوط ، جامع، بے نظیر اور لاجواب شرح لکھی ہے ، اُسے پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ گویا حضرت مفتی صاحبؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے براہِ راست استفادہ کرکے اور مقاصد وغیرہ معلوم کرکے لکھی ہے، نام اس کا ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘ ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ تقریباً ڈھائی سو سال سے’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘کی ایک جامع مانع شرح لکھنا اُمت کے ذمہ قرض تھا، حضرت نے شرح لکھ کر اُمت کی جانب سے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قرضہ اُتاردیا، ایسے خوش نصیب لوگ کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں، ہمیشہ پیدا نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین

’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ ایک قسم کا معجزہ ہے 

’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان معجزات میں سے ایک ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اُمتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ہے ، تو اس کی شرح ’’ رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘ بھی کچھ کم نہیں ہے، اس لیے اگر اس کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے معجزہ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

اسلاف کی یادگار تھے

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ کر قدیم اسلاف و اکابر کی یاد تازہ ہوتی تھی، ان کو دیکھ کر ان کے درس میں شریک ہوکر اکابر و اسلاف کے بارے میں جوباتیں اپنے اساتذہ اور بڑوں سے سنی ہیں ان پر یقین اور مشاہدہ بھی ہوجاتا تھا ۔ 

خصوصیات

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بہت ساری خصوصیات تھیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :
۱:- وقت کی قدر دانی بہت زیادہ تھی، مجلس بازی ان کی عادت میں شامل نہیں تھی ، صرف عصر کی نماز کے بعد طلبہ کو ملاقات کے لیے حاضر ہونے کی اجازت تھی ، باقی اوقات مطالعہ، تصنیف اور تالیف وغیرہ میں مشغول رہتے ، اگر ایک کام سے فارغ ہوتے تو فوراً دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے۔
۲:- خالص علمی، عملی اور دینی شخصیت ہونا اور حق گو ہونا آپ کی خاص پہچان تھی ، آپ ہمیشہ حق کی بات کہتے تھے ۔
۳:- سنت کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔
۴:- سوچ سمجھ کر غور و فکر کے بعد رائے قائم کرتے تھے ، اس لیے اپنی رائے کی پختگی میں معروف و مشہور تھے ، اگر چہ بعض حضرات کو آپ کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں ہوتا تھا ۔
۵:- ہر چیز میں بہت ہی زیادہ سادگی تھی ۔
۶:- سبق کے اوقات کی بہت زیادہ پابندی کرتے تھے اور بہت ہی زیادہ محنت اور تیاری کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ 
۷:- کتاب کے سبق کو اس طرح مرتب اور منظم کرکے لاتے تھے کہ آپ کے ہم عصر لوگوں میں ایسا مرتب اور منظم بیان کسی اور کا نہ دیکھا گیا اور نہ سناگیا ۔
۸:- اسباق کے درمیان سال کے بیچ میں کسی کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے اور شدید مجبوری کے بغیر سفر پر بھی نہیں جاتے ، عام طور پر سبق کا نصاب ختم ہونے کے بعد سفر کے لیے روانہ ہوتے تھے ۔
۹:- بہت ہی بڑی ہمت والے تھے ، بیماری اور تکلیف کے باوجود ہمیشہ ان کے عزائم اور ارادے مضبوط ہوتے تھے ، بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے ۔جب دل کا آپریشن ہوا تھا ، پانچ چھ دن آرام کرنے کے بعد پڑھانے کے لیے آنا شروع کردیا ، پھر کبھی چھٹی نہیں کی ۔
۱۰:- قرآن و حدیث ، فقہ ، فتاوی، تفسیر ، اصول ، منطق فلسفہ وغیرہ ، دیگر فنون میں عجیب و غریب ملکہ کے مالک تھے ۔
۱۱:- اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے مبادی فلسفہ اور فنون سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے بھی بہت ساری کتابیں لکھی ہیں ۔
۱۲:- سال کے شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسے انداز سے درس دیتے تھے، سال کی ابتداء میں تفصیل زیادہ اور آخری سال میں صرف کتاب کے متن پڑھانے پر اکتفا نہیں کرتے تھے ، بلکہ پورے سال ایک جیسا درس ہوتا تھا۔

ملک و بیرونِ ملک کے دورے 

عام طور پر مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملک اور بیرونِ ملک کے دورے بھی کرتے تھے ۔ خاص طور پر نصاب ختم کرنے کے بعد رمضان المبارک کی طویل چھٹی میں کبھی امریکہ ، کبھی کینیڈا ، کبھی برطانیہ ، کبھی افریقہ دعوتی و تبلیغی خدمات کے لیے تشریف لے جاتے ، اور ایک دن میں ایک سے زائد تقریریں کیا کرتے تھے ، اور تقریر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ، اللہ کا خوف ، آخرت کی فکر ، اور نیک اعمال کرنے پر اُبھارتے تھے۔ ناجائز ، حرام اور منکر باتوں سے مثالوں کے ذریعہ اور میٹھے انداز میں باز رہنے کی تلقین کرتے ، اور باہر ممالک والے ہر سال حضرت کے آنے کا انتظار کرتے ۔
بندہ کو ایک دفعہ زمبیا کے شہر لوساکا میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ایک بڑی مسجد ہے ، جس کا نام عمر فاروق ہے ، آس پاس اکثر میمن حضرات رہائش پذیر ہیں ، حضرت بھی وہاں تشریف لے جاتے اور مختلف جگہوں پر تقریر وغیرہ کرکے رہائش گاہ پہ تشریف لاتے تو وہاں کے باشندے حضرت کے پاس جمع ہوجاتے ، ان میں ایک شخص کا نام علی بھائی ہے ، اس کو بہت زیادہ اچھے اچھے لطائف یاد ہیں ، وہ حضرت کو لطائف سناتے اور حضرت ان لطائف کو بھی شوق سے سنتے تھے ۔حضرت کی تقاریر میں وضاحت کے لیے بہت سارے لطائف اور مثالیں ہوتی تھیں ، جن سے سامعین باتوں کو آسانی سے سمجھ جاتے تھے ۔

مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے ناظم اعلیٰ 

جب سے دار العلوم دیوبند میں ’’ مجلس تحفظِ ختمِ نبوت ‘‘ کا قیام عمل میں آیا ، تب سے آپ اس کے ناظمِ اعلیٰ تھے ۔

اجازتِ بیعت و ارشاد

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ طالب علمی کے زمانہ سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہٗ سے بیعت تھے ،اور ان کے علاوہ دیگر صاحبِ نسبت بزرگانِ دین سے بھی فیض یافتہ تھے ، خاص طور پر حضرت اقدس مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری قدس سرہٗ کی مجالس میں طالب علمی کے زمانہ میں شرکت کرتے تھے، اور حضرت مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ بیعت و ارشاد تھے، لیکن مفتی صاحب اس کو چھپاتے تھے ، عام لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا ۔

اچھا عالم بنانے کا طریقہ

مفتی صاحب مرحوم کے والد یوسف صاحب ڈابھیل کے مدرسہ میں پڑھتے تھے اور حضرت مولانا بدرِ عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی قدس سرہٗ کے خاص خادم تھے ، مگر گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کرسکے تھے، لیکن اپنے صاحبزادوں کو علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ، مولانا بدرِ عالم میرٹھیؒ ، اور محدثِ کبیر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جیسا عالم بنانے کا عظیم جذبہ رکھتے تھے ، تو حضرت مولانا بدرِ عالم میرٹھی مہاجرمدنی قدس سرہٗ نے مفتی صاحبؒ کے والد یوسف صاحب کو یہ وصیت کی تھی کہ یوسف ! اگر تم اپنے لڑکوں کو اچھا عالم بنانا چاہتے ہو تو حرام اور ناجائز سے پرہیز کرنا اور بچوں کو بھی ناجائز اور حرام مال سے بچانا، کیوں کہ علم ایک نور ہے ، ناجائز اور حرام مال سے جو بدن پروان چڑھتا ہے، اس میں یہ نور داخل نہیں ہوتا۔‘‘ اس کے بعد مفتی صاحب کے والد مرحوم نے یہ پختہ عزم کیا کہ: ’’چاہے بھوکا رہوں گا، مگر حرام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، گھر کے حالات کی وجہ سے میں تو نہیں پڑھ سکا، لیکن اللہ تعالیٰ میری اولاد کو علمِ دین عطا فرمائیں ۔‘‘ 
ماں باپ کی محنت ، قربانی ، تقویٰ، پرہیزگاری ، حلال و حرام کی تمیز ، عبادت اور دعا کا نتیجہ اولاد میں ظاہر ہوتا ہے ، اور اگر اولاد میں ظاہر نہ ہو تو اولاد کی اولاد یا نسلوں میں ظاہر ہوتا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ والدین کے نیک اور صالح ہونے کی وجہ سے اولاد کے مال کو دیوار سیدھا کرکے محفوظ کیا گیا ۔ 

 نکاح

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح اپنی ماموں کی صاحبزادی سے ہوا، مفتی صاحب قدس سرہٗ کے علاقے میں لڑکے لڑکیاں تقریباً تعلیم یافتہ ہوتے تھے، لیکن لڑکیاں عام طور پر قرآن مجید کی حافظہ نہیں ہوتی تھیں، مفتی صاحب نے نکاح کے بعد خود اپنی شریکِ حیات کو پورے قرآن مجید کا حافظ بنایا، پھر آگے کمال دیکھئے! مفتی صاحب کی اہلیہ نے گھر کے گیارہ لڑکے اور لڑکیوں کو گھر میں پورے قرآن کا حافظ بنایا، یہاں بات ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اپنے گھر کی پانچ بہؤوں کو بھی قرآن کا حافظ بنایا۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تھا تو لڑکے تو تراویح کی نماز میں قرآن سناتے تھے۔اورلڑکیوں کے دور اور پارہ سننے سنانے کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا، رات اور دن کے آغاز پر قرآن کی تلاوت سے گھر معمور کرنے کا معمول تھا۔ اس سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس گھرانے کا قرآن مجید سے کتنا گہرا تعلق تھا، اور ان کے دل میں قرآن مجید کی محبت کتنی زیادہ تھی، اور اس گھر میں قرآن مجید کی کتنی زیادہ تلاوت ہوتی تھی اور اس گھر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کتنی زیادہ نازل ہوتی تھی، اور آسمان والوں کو یہ گھر چاند و ستارے کی طرح کتنا زیادہ چمکتا ہوا روشن نظر آتا تھا۔
یہ بات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی اس طرح بننے کی کوشش کریں اور اپنے گھر کے ماحول کو اسی طرح بنانے کی کوشش کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر بھی نازل ہو، اور خوش گوار پُرسکون زندگی نصیب ہو۔

حضرتؒ کا مزاج اور دیوبندیت کا اعتدال

آپ کا ذوق‘ لطیف ، نازک اور طبیعت سادہ ، نفیس تھی۔ مزاج میں اعتدال و استقلال اور رائے میں پختگی تھی۔ حق گوئی میں کسی سے ڈرنے والے نہیں تھے۔حق اور باطل ، اور صواب و خطا کے درمیان امتیاز کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی تھی ، اور حقائق و معارف کو سمجھنے میں آپ بے مثال تھے۔

متعلقین کی کتابوں کی تصحیح 

مفتی صاحب جس طرح درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، دعوت و ارشاد اور تقاریر میں مشغول ہوتے ، اسی طرح اپنی اور اپنے متعلقین کی کتابوں کی تصحیح اور طباعت کا بھی اہتمام فرماتے ۔

ملاقات

اگر کوئی شخص باہر سے حضرت مفتی صاحب سے ملاقات کے لیے آتا تو اس کو کسی قسم کی تکلیف اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، درس و تدریس کے اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں ملاقات کے لیے آنے والوں کے لیے گھر کے دروازے کھلے رکھتے تھے ، البتہ مدرسہ کے طلبہ کے لیے صرف عصر سے مغرب کے درمیان اوقات میں ملاقات کرنے کی اجازت ہوتی تھی ۔

دار الافتاء کے فتوے کے خلاف فتویٰ نہیں دیتے تھے 

٭ مفتی صاحب بہت بڑے عالم ، بہت بڑے محقق ، اور مانے ہوئے مدقق بھی تھے ، اور بعض مسائل میں ان کی ذاتی رائے دار الافتاء کی رائے کے خلاف ہوتی، لیکن فتویٰ ہمیشہ دار الافتاء کے فتوے کے مطابق دیتے ، اپنی رائے کے مطابق فتویٰ نہیں دیتے تھے۔ فرماتے تھے کہ:’’ میں دار العلوم دیوبند کا صدر المدرسین بھی ہوں اور شیخ الحدیث بھی ہوں ، دار العلوم دیوبند کے فتوے کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دے سکتا، چوں کہ میں اس کا نمائندہ ہوں، اس کے خلاف کیسے فتویٰ دے سکتا ہوں؟‘‘ 
٭ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فقہی مسائل میں کسی قسم کی رعایت اور حیلوں کے روادار نہیں تھے۔ پرانے اسلاف و اکابر کی طرح دو ٹوک ، ٹھوس اور صحیح مسئلہ بتایا کرتے تھے۔ مصلحت کوشی کی بنا پر دین کو نہیں بگاڑتے تھے ، آخری عمر تک انتہائی عزیمت والے مسائل پر عمل کرتے رہے ۔

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چند ملفوظات

مکتبہ شاملہ کے بارے میں رائے 

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ مکتبہ شاملہ کی کتابوں کے بارے میں فرمایا کہ: آج کل انٹرنیٹ پر مکتبہ شاملہ میں جو کتابیں موجود ہیں ان میں سے کوئی کتاب قابلِ اعتماد نہیں ، ان سب کتابوں میں غیر مقلدین نے گڑ بڑ کر رکھی ہے، کئی عبارتیں حذف کردی ہیں، کئی عبارتیں بڑھا دی ہیں، اس لیے انٹر نیٹ پر ’’ مکتبہ شاملہ ‘‘ میں جو کتابیں ہیں، ان میں سے کوئی کتاب قابلِ اعتماد نہیں ۔ واقعی بندہ نے بھی کچھ کتابوں کو مطبوعہ کتابوں سے ملایا تو ایسا ہی پایا کہ کہیں سقوط ہے، کہیں اضافہ ہے، اس لیے طلبہ اور علماء کو چاہیے کہ مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ کریں، صرف مکتبہ شاملہ کی کتابوں پر اکتفاء نہ کریں ۔

بینک کے سودی قرضہ پر تبصرہ

موجودہ دور میں بعض حضرات مروجہ اسلامی بینک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: سودی بینک میں تو سود ہی سود ہے، البتہ مروجہ اسلامی بینک اگر چہ سود سے مکمل پاک نہیں، لیکن سود کی مقدار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس لیے مکمل سودی معاملہ کرنے سے کم سے کم سودی والے معاملے کو ترجیح دینی چاہیے ، اسی تناظر میں امریکہ میں کسی نے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سوال کیا کہ مروجہ اسلامی بینک سے سودی قرضہ لینا جائز ہے ؟ تو مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ بینک سے سودی قرضہ لینا ناجائز ہے، غلاظت ایک چمچ کھاؤ یا دس چمچ کھاؤ سب برابر ہے ۔ اور آج کل جو اسلامی بینک کہلاتے ہیں وہ سب سودی ہیں، البرکہ اسلامی بینک وغیرہ سب سودی ہیں ، اسی نیویارک میں ہمارے دوستوں نے ’’دار القرآن والسنہ ‘‘ کے لیے ایک مکان البرکہ سے قرض لے کر لیا تھا، دو تین لاکھ کی قسطیں بھریں، پھر جب تنگ اور عاجز آگئے تو مکان بیچ کر ساری رقم البرکہ کو دے دی، تب جان چھٹی ، مروجہ اسلامی بینکوں کا قرضہ تو سودی بینکوں کے قرضہ سے بھی آگے ہے ۔

دار العلوم دیوبند کا ترجمان پاکستان میں 

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ قطر میں تقریر فرمارہے تھے، آخر میں کسی نے پاکستان کی بینکنگ اور ڈیجیٹل تصاویر وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی آراء اور فتاویٰ کے بارے میں پوچھا تو حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ: ’’ پاکستان میں دار العلوم دیوبند کا ترجمان جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن ہے۔‘‘

دینی تعلیم کو عام کریں 

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ دینی تعلیم کو عام کریں ، اور گھر کا ماحول بھی دینی بنائیں ، اور خود بھی دینی لباس پہنیں اور اپنی اولاد کو بھی دینی لباس پہنائیں اور ٹوپی اور کرتا پہنیں اور اپنی اولاد کو بھی کرتا اور ٹوپی پہنائیں، تب جاکر اولاد کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہوگی ، اور انگریزی اور مغربی لباس پہنائیں گے تو دین کی اہمیت ختم ہوجائے گی ، دین باقی نہیں رہے گا۔اگر سارے مسلمان ٹوپی اور کرتا پہنیں گے تو مسلمان دس گنا زیادہ نظر آئیں گے اور کافروں پر خوف طاری ہوگا اور مسلمان امن سے زندگی گزاریں گے ۔

زنانہ لباس مرد پہننا شروع کریں تو

مردانہ لباس ٹخنے سے اوپر ہوتا ہے اور زنانہ لباس ٹخنے سے نیچے تک ہوتا ہے ، اور مردوں کے لیے زنانہ لباس پہننا اور عورتوں کے لیے مردانہ لباس پہننا حرام ہے ، اور ایسے مرد و عورت پر اللہ کی لعنت ہے ۔ایک دفعہ فرمایا کہ مسلمانوں کے دشمنوں نے عربوں کو زنانہ لباس پہنادیا، یعنی ٹخنے سے نیچے لٹکنے والا لباس پہنادیا، یہ زنانہ لباس ہے ، اور جب مرد عورتوں کا لباس پہن لے، دوسرے الفاظ میں چوڑیاں پہن لے تو ان سے بہادری اور خیر کی امید نہیں ، اس لیے مردوں کو چاہیے کہ اپنی شلوار، قمیص یا کرتے کو ٹخنے سے اوپر رکھیں، ورنہ کامیاب مردانہ زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوگا۔

بیماری

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اسباق کے دوران سال کے آخر میں ماہِ رجب ۱۴۴۱ھ کو ایک عارضہ لاحق ہوا کہ سبق پڑھانے کے دوران بات کرتے کرتے اچانک زبان بند ہوجاتی، اس دوران اسی حالت میں طلبہ کی آہ و فغاں کے ساتھ بخاری شریف کا ختم بھی ہوا ، سبق مکمل کرنے کے بعد حضرت نے علاج کی غرض سے بمبئی کا سفر کیا ،ا ور وہاں ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہوئے، کیوں کہ اس سے پہلے بھی دل کا آپریشن اسی پرائیویٹ ہسپتال میں ہوا تھا، علاج کے بعد تندرست ہوگئے اور گفتگو کے دوران اچانک جو زبان بند ہوجاتی تھی اب وہ سلسلہ ختم ہوگیا اور گفتگو اور بیان کرنے میں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی ۔
۲۰۲۰ء میں چونکہ کرونا نامی ایک وائرس نے میڈیا کے راستے سے تقریباً پوری دنیا کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا اور اس کی ہولناکی ، ہلاکت خیزی اور پریشانی کی میڈیا کے ذریعہ اتنی زیادہ تشہیر کی گئی کہ لوگ تقریباً نفسیاتی بن گئے، سب نے ایک دوسرے سے منہ چھپانا شروع کردیا اور ایک دوسرے سے دور رہنے کا عزم کرلیا ، گویا دنیا نے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دیکھ لیا ، تعلیمی ادارے اسکول ، کالج ، یونیورسٹی، دینی مدارس کو بند کردیا گیا ، مساجد میں لوگوں کو محدود کردیا گیا ، بعض علماء کی تائید سے نماز کی صفوں میں فاصلہ کردیا ، اور میت کے جنازہ میں لوگوں کی شرکت کو محدود کردیا گیا اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ، گاڑیاں بند ہوگئیں ، ریل کو کھڑا کردیا گیا اور ائیرپورٹ کو بند کردیا گیا، گویا کہ ہر آدمی اپنی اپنی جگہ پر نظر بند ہوگیا ، تو اس دوران مفتی صاحب تندرست ہونے کے بعد بھی بمبئی سے دار العلوم دیوبند واپس نہیں آسکے اور بمبئی میں دوبارہ بیان کا سلسلہ جاری رہا ، مجلسیں بھی جاری رہیں ، اور بعض لوگوں نے ان بیانات کو سوشل میڈیا پر بھی اَپ لوڈ کیا ۔
پھر اس کے بعد چند دن بمبئی میں رہتے ہوئے اچانک طبیعت خراب ہوگئی ، اور پھیپھڑوں میں پانی جمع ہوگیا ، اور حالت نازک اور سیرئیس (Serious) ہوگئی ، سانس لینے میں شدید تکلیف شروع ہوگئی ، آکسیجن پر رکھا گیا، کیونکہ زندہ رہنے کے لیے جتنی سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے اس میں دو فیصد کمی آگئی تھی ، بالآخر ۲۵؍ رمضان ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء کو منگل کے روز صبح تقریبًا ۲۰:۷ پر حضرت نے داعیِ اجل کو لبیک کہا ، إنا للّٰہ وإنَّا إلیہ راجعون۔

غسل و کفن دفن

اسپتال میں ہی آپ کو غسل اور کفن دیا گیا، اور قریبی مسجد کے میدان میں آپ کے صاحبزادے مولانا وحید احمد صاحب مدظلہٗ کی امامت میں آپ کی جنازہ کی نماز ادا کی گئی۔

تدفین

حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین شام کو ۶ بجے اوشیورہ مسلم قبرستان جوگیشوری ( ویسٹ ممبئی ) میں ہوئی۔

جنازہ 

کرونا کی وبا پھیلنے کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن تھا اور ایک ساتھ زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی تھی ، اس لیے حکومت کی جانب سے صرف پندرہ آدمیوں کے شریک ہونے کی اجازت تھی ، چنانچہ پندرہ آدمیوں نے تجہیز و تکفین اور جنازہ وغیرہ کا سارا کام انجام دیا، جن میں مفتی صاحب کے دو صاحبزادے بھی موجود تھے :

قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید

ترمذی شریف کے درس میں ایک حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے مفتی صاحب نے ایک مثال دی ہے ، اس مثال کو نقل کرنے کے لیے حدیث کو شرح کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے :

’’باب ماجاء في الزیارۃ للقبور للنساء 
حدثنا الحسین بن حریث ، نا عیسی بن یونس عن ابن جریج عن عبد اللّٰہ بن أبي ملیکۃ قال : توفي عبد الرحمٰن بن أبي بکر بالحبشي ، قال : فحمل إلٰی مکۃ، فدفن فیھا، فلما قدمت عائشۃؓ ، أتت قبر عبد الرحمٰن بن أبي بکر ، فقالت : 
وکنّا کندماني جزیمۃ حقبۃً
من الدھر حتی قیل لن یتصدّعا
فلمّا تفرقنا کأنی و مالکا
لطول اجتماع لم نبت لیلۃً معًا
ثم قالت : واللّٰہ لو حضرتک ما دفنت إلاَّ حیث متَّ ولو شھدتک مازرتک۔ 

عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا حکم 

حدیث : عبد الرحمن بی ابی بکر رضی اللہ عنہ کا حبشیٰ میں انتقال ہوا ، یہ مکہ کے قریب ایک گاؤں ہے ، ان کا جنازہ مکہ لاکر دفن کیا گیا ، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حج یا عمرہ کے لیے آئیں ، تو اپنے بھائی کی قبر پر گئیں اور دو شعر پڑھے جو تمیم بن نویرہ یربوعی کے ہیں ، جو اس نے اپنے بھائی مالک کے مرثیہ میں کہے ہیں ، اس کے اور مالک کے درمیان گہری دوستی تھی ، وصالِ نبوی کے بعد جب ارتداد کا فتنہ پھیلا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ایک فوجی حضرت ضرار بن ازور کے ہاتھ سے مالک قتل ہوا ، اشعار کا ترجمہ یہ ہے : 
’’ہم جزیمہ کے دو مصاحبوں کی طرح تھے ایک لمبے عرصہ تک ، یہاں تک کہ کہا گیا یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے ۔پھر جب ہم جدا ہوگئے ( یعنی بھائی مارا گیا اور میں زندہ رہا ) تو گویا میں اور مالک لمبے عرصہ رہنے کے باوجود ہم نے ایک رات بھی ساتھ نہیں گزاری ۔‘‘
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوباتیں کہیں : ایک یہ کہ اگر آپ کے انتقال کے وقت میں موجود ہوتی تو آپ کو وہیں دفن کراتی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا ، اور دوسری بات یہ کہی کہ اگر میں انتقال کے وقت موجود ہوتی تو قبر پر نہ آتی ۔
مسئلہ: جنازہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا چاہیے، جس کا جہاں انتقال ہو وہیں دفن کرنا چاہیے اور اس کے خلاف کسی کا بھی عمل حجت نہیں، حجت قرآن و حدیث ہیں ، اور حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جس کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کرنا چاہیے ، دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا چاہیے، البتہ اس میں ایک استثناء ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص علاج کے لیے کہیں لے کر جایا گیا اور وہاں اس کا انتقال ہوگیا اور جنازہ وطن واپس لانے میں دوسری جگہ دفن کرنے کی بنسبت مشقت کم ہے ، تو جنازہ واپس لاسکتے ہیں ۔
مثلاً دیوبند سے علاج کے لیے میرٹھ یا دہلی گئے، وہاں انتقال ہوگیا تو اس کو دہلی یا میرٹھ میں دفن کرنے میں مشقت زیادہ ہے ، وہاں نہ جان پہچان، کون تعاون کرے گا ؟ اور دیوبند لاکر دفن کرنے میں مشقت کم ہے، پس جنازہ واپس لاسکتے ہیں ۔
اور اگر بمبئی، مدراس ، لندن یا امریکہ لے گئے اور وہاں انتقال ہوگیا تو جنازہ واپس لانے میں مشقت زیادہ ہے ، پس وہیں دفن کرنا چاہیے، واپس نہیں لانا چاہیے ، اور یہ استثناء اس لیے ہے کہ یہ میت منتقل کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے ٹھکانے پر واپس لانا ہے۔‘‘ ( تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذی ،ج: ۳، ص:۴۶۹ - ۴۷۰ ، مطبوعہ: زمزم پبلشرز کراچی )
خط کشیدہ الفاظ میں غور کرنے سے بہت کچھ باتیں واضح ہوجاتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں جگہ عنایت فرمائے ، اور ان کی اولاد ، خاندان ، رشتہ دار، مریدین ، متوسلین اور شاگردوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور دار العلوم دیوبند کو بہترین نعم البدل عطا فرمائے ، اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کی زندگی کے نقوش سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ان کے مشن کو آگے جاری رکھنے کی ہمت اور صلاحیت عطا فرمائے، آمین۔

آمین بحرمۃ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین