بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن کاندھلوی  رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن کاندھلوی  رحمۃ اللہ علیہ 


مغربی یوپی کے مردم خیز علاقہ قصبہ کاندھلہ کے ممتازعالم دین، صاحب نسبت بزرگ، مشہورمفسرقرآن اور قطب زماں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے اجل خلیفہ شیخِ طریقت حضرت مولانامفتی افتخارالحسن کاندھلویؒ ۲۷رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ مطابق ۲جون ۲۰۱۹ء بروز اتوار تقریباً ۱۰۰ برس کی عمر میں مسافرانِ آخرت میں شامل ہوگئے،  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپؒ کی پیدائش۱۰جمادی الأولیٰ ۱۳۴۰ھ مطابق۱۰ جنوری۱۹۲۲ء کو کاندھلہ میں ہوئی۔ آپ بانیِ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاسv اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیvکے برادرِ نسبتی تھے۔آپ نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں ۱۹۴۸ء میں تحصیلِ علم سے فراغت پائی۔ ۱۹۴۷ء میں آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری نور اللہ مرقدہٗ کی طرف سے اجازت و خلافت سے نوازا گیا۔ حضرت رائے پوری قدس سرہٗ نے آپ کو ’’صوفی جی‘‘ کا لقب دیا تھا۔
آپ کے خلفاء کی تعداد ۵۰سے زائد ہے، جن میں ایک نمایاں اور معروف نام حضرت مولانا مولانا سعد کاندھلوی دامت برکاتہم کا بھی ہے۔ آپ اپنے وقت کے عظیم مفسرِ قرآن تھے ۔ پورے۵۲ سالوں تک کاندھلہ کی جامع مسجد پھر اپنے محلے کی مسجد میں نمازِ فجر کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹہ تفسیرِ قرآن کا درس دیتے رہے، جس میں۵دور مکمل فرمائے، جس کا آخری ختم غالباً ۱۹۹۳ء میں ہوا، جس میں بڑا عظیم الشان اجتماع ہوا، کاندھلہ کی پوری عیدگاہ بھر گئی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی v نے شرکت فرمائی۔
ایک ایک آیت پر علم کا جو دریا بہنا شروع ہوتا تو اس کو مکمل کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ سورۂ بقرہ کی صرف ایک آیت :’’وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّيْ جَاعِلٌ فِيْ الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘ کی تفسیرکا نا مکمل مواد کتابی شکل میں منظرِ عام پر آ چکا ہے، وہ بھی صرف ۹دن کی تقریر ہے، حالانکہ آپ نے اس آیت پر کم و بیش ۴۵دن تک کلام فرمایا تھا۔ اس کتاب کا نام ’’تقاریر تفسیر قرآن مجید‘‘ ہے۔
برصغیر ہند و پاک کی تاریخ میں ۳۰۰ برس پر محیط اس خانوادہ کی اسلامی اور اصلاحی تحریک جلی حروف میں درج ہے۔ حضرت مولانا مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ کے علمی تبحر سے شہرت پانے والا یہ سلسلہ حضرت مولانا افتخار الحسنؒ تک آتا ہے۔ حضرت نور اللہ مرقدہٗ اس خانوادہ کی علمی وراثت کے امین رہے اور شریعت و طریقت کے امام کے درجہ پر فائز تھے۔ دنیا بھر میں آپ کے لاکھوں مریدین اور معتقدین پھیلے ہوئے ہیں۔مولاناکاندھلویؒ علم وروحانیت کا حسین سنگم تھے، ساری زندگی ملت کی دینی وعلمی اور اصلاحی خدمات کے لیے وقف رہی۔ صوبہ ہریانہ وپنجاب میں بھی مولانا مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں کہ جب لوگ وہاں جاتے ہوئے ڈرتے تھے ،اُس وقت بھی انہوں نے جاکر نہ صرف یہ کہ مقبوضہ مساجد کو واگزار کرایا، بلکہ پانی پت سمیت کئی شہروں میں مدارس قائم کیے۔مرادآباد، دہلی، میرٹھ، مظفر نگر، بلند شہر، نیز ہریانہ پنجاب میں آپ کے بے شمار دینی و دعوتی اسفار ہوئے اور پورا علاقہ آپ کو اپنا پیر مانتا ہے۔ آپ ایک طویل عرصے سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔
آپ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے صاحبِ فراش تھے۔ آج صبح فجر سے طبیعت زیادہ خراب تھی، شام۵بجکر۴۰منٹ پر زمزم کے چند قطرے آپ کے منہ میں ڈالے گئے، اسی دوران آپ کی روح پرواز کر گئی۔عیدگاہ کے بغل میں واقع حضرتؒ کے اپنے ادارہ جامعہ سلیمانیہ کے احاطہ میں جنازہ رکھا گیا، جہاں ان کے چاہنے والوں نے ان کا آخری دیدار کیا، اس موقع پر دور دراز سے حضرت کے مریدین اور معتقدین کاندھلہ پہنچے۔ دارالعلوم دیوبند کے علماء کا وفد بھی تعزیت اور نماز جنازہ میں شرکت کے لیے کاندھلہ پہنچا۔ شہر اور گرد و نواح کے دیہات و قصبات کے معتقدین رات سے ہی کاندھلہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ نمازِ جنازہ صبح پیر کے روز۸بجے عیدگاہ کاندھلہ میں حضرت کے خلیفہ مولانا محمد سعد کاندھلوی دامت برکاتہم کی اقتداء میں ادا کی گئی اور آپ کو خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ 
آپ کے پسماندگان میں۷اولاد ہیں، تین صاحب زادگان جن میں عظیم مؤرخ مولانا نور الحسن راشد جو کہ جانشین بھی ہیں، مولانا ضیاء الحسن اور مولانا بدر الحسن۔ آپ حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کے سسر بھی تھے، اس رشتے سے آپ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاvکے سمدھی بھی تھے۔ 
اللہ تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین