بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی  رحمۃ اللہ علیہ (پہلی قسط)

حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی  رحمۃ اللہ علیہ

ایک دیانت دار منتظم ۔۔ باکمال مدرس ۔۔ عظیم الشان مربی 

پہلی قسط


حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی (سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) قُدّس سرُّہٗ سے احقر کو پہلی ملاقات کا شرف ماہِ شوال ۱۴۰۱ھ کے شروع میں ’’مسجد عبد النبی‘‘ دہلی کے احاطہ میں- جہاں جمعیت علمائے ہند کا دفتر واقع تھا- اس وقت اچانک حاصل ہوا جب میں مدرسہ امینیہ دہلی میں سالِ ہفتم کی تعلیم مکمل کرکے دورۂ حدیث میں داخلہ لینے کے لیے دارالعلوم دیوبند جانے کی تیاری کررہا تھا۔ یہ ملاقات حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے ایک شاگرد حضرت مولانا مفتی عبد الرزاق خان صاحب بھوپالی فاضل دارالعلوم دیوبند اور مفتی شہر بھوپال دامت برکاتہم کے توسُّط سے ہوئی۔ حضرت مفتی صاحب موصوف کا خاندان ایک پٹھان برادری سے تعلق رکھتا تھا جو تقسیمِ ہند سے پہلے بھوپال میں مقیم ہوگیا تھا، اور آج تک پٹھانوں کی روایات اور پشتوزبان کو اپنایا ہوا ہے۔ مفتی صاحب سے میرا تعارف چند مہینے قبل حضرت حکیم مصباح الدین صاحب مردانی قاسمی رحمۃ اللہ علیہ (مقیم علاقہ لال کنواں دہلی) کے مکان پر اس وقت ہوچکا تھا جب میں مدرسہ امینیہ دہلی میں سالِ ہفتم کا طالبِ علم تھا، مفتی صاحب نے اس وقت ایک غریب الوطن طالبِ علم کی حیثیت سے میری ہمت افزائی فرماتے ہوئے شفقت واپنائیت کا معاملہ فرمایاتھا، جب کہ عام طور پر ایک ایسے اجنبی طالب علم کی طرف کوئی خاص توجُّہ نہیں کی جاتی۔
بہرصورت! حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے اس غیر متوقع ملاقات کے موقع پر ان کے شاگرد حضرت مفتی عبد الرزاق خان صاحب نے احقر کا تعارف کراتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ یہ ایک غریب الدیار، محنتی اور یکسوئی کے ساتھ پڑھنے والا طالب علم ہے، سالِ ہفتم کی تعلیم مدرسہ امینیہ دہلی میں مکمل کرچکا ہے اور آنے والے تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ -۱۴۰۲ھ کو دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کی جماعت میں داخلہ کا خواہشمند ہے۔ سالِ گزشتہ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کا وقت ختم ہوگیا تھا، ورنہ وہ سالِ ہفتم کی تعلیم بھی دارالعلوم میں حاصل کرنا چاہتاتھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب کی فراست اور دوررس نگاہوں نے پرانے کپڑوں میں ملبوس اس غربت زدہ طالبِ علم کے دل میں چُھپے ہوئے طلبِ علم کے جذبات اور دارالعلوم دیوبند کے لیے اس کی اندرونی بے تابی اور بے قراری کا اندازہ کرہی لیا! اس لیے نہایت مشفقانہ انداز سے بات کرتے ہوئے میری ہمت افزائی فرمائی، اور میری دلجوئی کے لیے میری مادری زباں ’’پشتو‘‘ میں بھی چند مختصر الفاظ کے ساتھ گفتگو فرمائی، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں پشتو زباں سے ایک قسم کی دلچسپی اور ا س کے چند مختصر جملے یادہیں۔ بہرکیف! حضرت مولانا معراج الحق صاحب نے آخر میں فرمایا کہ: جب تم داخلہ کے لیے دیوبند پہنچو تو مجھ سے مل لینا۔
حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے اس پہلی اور غیر متوقع ملاقات کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ وہ عام طالب علموں اور بالخصوص غریب الدیار اور بے سہارا طالب علموں سے محبت فرماتے ہیں۔ اور ہندوستان کے ماحول میں پشتو زباں میں ان کی مختصر گفتگو تو مجھے بہت ہی اچھی لگی۔ چند دن بعد جب امتحانِ داخلہ کے مقررہ وقت پر میری دیوبند حاضری ہوئی تو حسبِ وعدہ حضرت والا کے کمرہ میں جو جنوبی دروازے (دارالعلوم دیوبند کے چار بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ جو طلبہ کے درمیان حضرت والا کی نسبت سے معراج گیٹ کے نام سے مشہور ہے) کے بغل میں دوسری منزل پر واقع تھا، ان کی ملاقات کے لیے حاضری دی، حضرتِ والا نے دیکھتے ہی پہچانا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: میں تمہارے انتظار میں تھا۔ اور چونکہ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں حضرت والا کے علاوہ نہ کسی مدرس اور نہ ہی کسی طالب علم سے اس وقت تک میری کوئی شناسائی تھی، اس لیے حضرت والا ہی نے داخلہ کے نظام وطریقۂ کار سے متعلق میری پوری راہنمائی فرماتے ہوئے برکت اور امتحان میں کامیابی کی دعا سے نوازا، اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دارالعلوم کے نظامِ داخلہ کے متعلق راہنمائی کرنا آپ کا حق اور میری ذمہ داری بنتی تھی، آگے آپ کا کام ہے، اگر آپ نے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی جیساکہ مجھے امید بھی ہے تو آپ کا داخلہ ہوجائے گا، اور اگر خداناخواستہ دوسری بات ہوئی (امتحانِ داخلہ میں کامیابی حاصل نہ کرسکے) تو میں ابھی سے بتاتا ہوں کہ پھر میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا، اور دارالعلوم کے اصول کے خلاف کسی کے لیے سفارش کرنا میرا معمول نہیں، اور نہ ہی ایسی سفارش کو شفاعتِ حسنہ کا نام دے سکتا ہوں۔ حضرت مولانا کی بات سن کر احقر عرض کرنے لگا کہ حضرت والا! اس ادنیٰ طالب علم کا طرزِ عمل بھی یہ نہیں کہ کسی مقصد تک پہنچنے کے لیے نامناسب اور خلافِ اصول راستہ اختیار کیا جائے، بلکہ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے اصول وضوابط کے مطابق طریقۂ کار کو اپنا یاجائے، آپ سے صرف دعا کی درخواست کرتا ہوں۔

حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے پہلا تربیتی سبق لینا

دارالعلوم دیوبند کے نظام اور قواعدِ داخلہ کے مطابق احقر نے داخلہ کے تمام مراحل طے کرکے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے امتحانِ داخلہ میں اعلیٰ نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی، اور دورۂ حدیث میں داخلہ پانے والے طلبہ کی فہرست میں میرا نام بھی دفترِ تعلیمات کے سامنے آویزاں کیاگیا، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اسے اپنی زندگی کی خوشیوں میں سے ایک اہم خوشی شمار کیا، اور حضرت مولانا معراج الحق صاحب کو فوری طور پر آگاہ کردیا جس سے وہ بے حد خوش ہوئے۔ اس کے بعد ایک عجیب منظر میرے سامنے آیا: میں نے دیکھا کہ جن طلبہ کو داخلہ ملا ہے وہ اپنے جاننے والوں سے مبارکبادیاں وصول کررہے ہیں، کوئی اپنے ساتھیوں کو مٹھائی کھلارہا ہے اور کسی سے اس کے ساتھی مٹھائی کا مطالبہ کررہے ہیں!جب کہ اس پراگندہ حال اَنجان طالبِ علم کو نہ تو کوئی مبارکباد دینے کی ضرورت محسوس کررہا ہے! اور نہ ہی کوئی شخص اس سے مٹھائی کا مطالبہ کررہاہے! اس صورت حال سے احقر بہ یک وقت خوشی اور پریشانی دونوں کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہوگیا، خوشی اس وجہ سے کہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ملنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ایک اہم مقصد میں کامیابی نصیب فرمائی، اور پریشانی اس وجہ سے کہ وہاں پر میرا کوئی ایسا جاننے والا ساتھی یا رشتہ دار ودوست موجود نہیں تھا جسے میں اپنی خوشی سے آگاہ کردیتا، یا مٹھائی کھلادیتا، یا اس کی طرف سے مٹھائی کے مطالبہ کا لطف اُٹھاتا۔
مذکورہ بالا کیفیت کے اندر بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ دارالعلوم کے ماحول میں تاحال چونکہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب (جو اَب تک صدر المدرسین کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے، البتہ چند ہی مہینے بعد مجلسِ شوریٰ نے صدر المدرسین کے باوقار علمی عہدہ کے لیے ان ہی کا انتخاب فرمایا) کے علاوہ کسی استاذ یا طالب علم سے میری شناسائی نہیں، لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ اپنی حیثیت کے مطابق مٹھائی کا ایک چھوٹا سا ڈبہ خرید کر اُن ہی کی خدمت میں پیش کرکے اپنی اجنبیّت کو دور کرنے کی کوشش کروں، چنانچہ اپنے ارادے کے مطابق ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ڈبہ دیوبند کے بازار سے خرید کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اس سے قبل جب بھی میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ مسکراتے اور خوشی کا اظہار فرماتے، اس مرتبہ میرے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیکھ کر ان کے چہرے پر رنجیدگی کا اثر محسوس ہوا، میں نے سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہی سوال کیا کہ تمہارے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ داخلہ کی خوشی میں مٹھائی کا ایک مختصر سا ڈبہ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتاہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ: تم کو یہ معلوم نہیں کہ میں طلبہ کے ہدایا قبول نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا کہ: مجھے کون بتاتا؟ میں تو دارالعلوم کے ماحول میں اب تک آپ کے علاوہ کسی کو پہچانتابھی نہیں، انہوں نے فرمایا کہ: ٹھیک ہے! میں خود آپ کو بتاتاہوں کہ میں ایک عرصہ سے تدریس کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے انتظامی امور سے متعلق بھی کوئی نہ کوئی ذمہ داری انجام دیتا رہاہوں، اور کسی بھی ادارے کے کسی انتظامی منصب پر فائز شخص کے لیے شریعت کی روشنی میں یہ جائز نہیں کہ وہ اس ادارے سے وابستہ افراد سے ہدایا وصول کرے، اور بالخصوص ایک ایسا ادارہ جو دینی حیثیت کا حامل ہو اور لوگ اسے راہنما کا درجہ دیتے ہوں، اُس ادارے کے ذمہ داروں کے لیے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے! میں نے پھر عاجزانہ انداز میں درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت! اس ہدیہ کے پیچھے اللہ کی رضا کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں، اس لیے کہ میرا بنیادی مقصد دارالعلوم میں داخلہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دارالعلوم کے نظام واصول کے مطابق حل ہوگیا، اس کے علاوہ میرا کوئی ایسا مقصد باقی نہیں جسے حاصل کرنے کے لیے میں ہدیہ کا سہارا لینے کی کوشش کروں! حضرت نے فرمایا کہ: تم اپنی بات منوانے کا اصرار مت کرنا، اپنا ہدیہ واپس لے جاؤ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، اور از راہِ مذاق یہ بھی فرمایا کہ: ’’پٹھان ہے، ضد کرنے لگے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرماتے ہوئے میرے لیے تمام راستے مسدود کردیئے، لہٰذا میں اپنا ہدیہ واپس لے کر حضرت کے کمرے سے نکلا اور باہر موجود چند طلبہ کے درمیان تقسیم کردیا۔ حضرت مولانا کے اس طرزِ عمل سے احقر نے دارالعلوم کی مربّیانہ فضا میں علمی اسباق کے آغاز سے قبل یہ پہلا تربیتی سبق حاصل کیا کہ کسی ادارے کے ذمہ دار شخص کو اس ادارے سے منسلک افراد کے ہدایا قبول کرنے سے معذرت کرنی چاہیے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے تادمِ تحریر مذکورہ سبق کو یاد رکھنے کی وجہ سے مجھے موقع بہ موقع بڑا فائدہ محسوس ہوا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ! آئندہ بھی اسے فراموش نہیں کروں گا۔

ہدیّہ سے متعلق حضرت مولانا معراج الحق صاحب کا ایک اور واقعہ

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ملنے کے بعد جب احقر کو حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے پڑھنے، استفادہ کرنے اور ان کی خدمت میں موقع بہ موقع حاضر ہونے کا موقع ملا اور تعلُّقات میں مضبوطی پیداہوگئی تو ایک مرتبہ انہوں نے ہدیّہ سے متعلق مندرجہ ذیل اپنا ایک واقعہ سنایا:
’’ہندوستان کے مشہور شہر مدراس (موجودہ چنّائی) سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایک مرتبہ دارالعلوم کی زیارت کی اور مجھ سے بھی ملے، اس دوران انہوں نے مجھے ہدیّہ کے طور پر ایک چھڑی پیش کی، مذکورہ شخص کا چونکہ دارالعلوم سے کوئی رسمی تعلق نہیں تھا اور نہ کوئی اور ایسی علامت تھی جس سے اس ہدیّہ میں کوئی شبہ پیدا ہوجاتا، لہٰذا میں نے شکریہ کے ساتھ ان کا ہدیّہ قبول کیا اور ان کو رخصت کردیا، البتہ میرے پاس چونکہ اپنی چھڑی موجود تھی، اس لیے ان کی چھڑی حفاظت سے رکھی اور استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد وہ شخص پھر دارالعلوم آئے اور مجھ سے مل کر اپنے ایک رشتہ دار طالبِ علم سے متعلق بتایا کہ وہ دارالعلوم میں پڑھتاہے اور امتحان میں اعلیٰ نمبرات حاصل نہ کرنے کی وجہ سے دارالعلوم کے نظام کے مطابق ایک عام کمرہ میں اس کو رہائش دی گئی ہے، جب کہ میری یہ تمنا ہے کہ اعلیٰ نمبرات والے طلبہ کے لیے مخصوص کمروں میں اس کو رہائش دی جائے، تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ پڑھ سکے، لہٰذا آپ اس کے لیے سفارش فرمادیں! میں نے اُٹھ کر اپنے کمرے کے ایک کونے میں حفاظت سے رکھی ہوئی ان کی مذکورہ چھڑی نکالی اور یہ کہہ کر واپس کردی کہ آپ کے اس ہدیّہ ہی نے آپ کے اندر یہ جرأت پیدا کردی کہ مجھ سے دارالعلوم کے اُصول وقواعد کے برخلاف سفارش کرنے کی بلا تکلف فرمائش کی جس سے آپ کا یہ ہدیّہ مشکوک ہوگیا، لہٰذا آپ اپنا ہدیّہ واپس لے جائیں۔‘‘

مشکوک ہدایا قبول کرنے سے حضرت مولانا کا انکار اتّباعِ سنت پر مبنی تھا

اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ مخلصانہ ہدایا کا تبادلہ مسلمانوں کے درمیان محبت ودوستی اور عزت واحترام کی نشانی ہے جس سے ان کے قلوب کے اندر قربت ونزدیکی پیدا ہوتی ہے اور بغض وکینہ دور ہوجاتاہے، اسی وجہ سے نبی کریم a نے مسلمانوں کو آپس میں ہدایا کے تبادلہ کی ترغیب دی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ a نے فرمایا: ’’  تہادَوْا تحابُّوا‘‘ (رواہ البخاری فی الادب المفرد وابویعلی باسناد حسن) یعنی ’’تم آپس میں ایک دوسرے کو ہدیّہ پیش کیا کرو، تاکہ تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے۔‘‘ البتہ اس بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نبی کریم a کی ترغیب کا تعلق ان ہدایا سے ہے جو شکوک وشہبات سے پاک اور خلوص وللہیت پر مبنی ہوں، اور اگر ہدایا کے پیچھے نامناسب اغراض یا ناجائز مقاصد کار فرما ہوں تو ایسی صورت میں ہدیّہ دینا اور لینا دونوں ناجائز ہوںگے، اور وہ ہدیّہ درحقیقت رشوت ہے، جسے ہدیّہ کا نام دے دیا گیا ہے۔
اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری، جلد اول، صفحہ نمبر: ۳۵۳ پر ایک باب بعنوان ’’باب من لم یقبل الہدیّۃ لِعلّۃ‘‘ یعنی ’’کسی شک کے تحت ہدیّہ قبول نہ کرنے کا بیان‘‘ قائم کیا ہے، اور اس کے تحت سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’کانت الہدیّۃ فی زمن رسول اللّٰہ a ہدیّۃً والیومَ رشوۃٌ‘‘ یعنی ’’حضور a کے زمانہ میں ہدیّہ واقعی ہدیّہ ہوا کرتا تھا اور آج وہ رشوت بن گیا ہے۔‘‘ راقم عرض کرتاہے کہ غور کیا جائے کہ جب ایک خلیفۂ عادل اور جلیل القدر تابعی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے زمانے کے ہدایا میں شکوک وشبہات نظر آتے تھے تو آج کل کے ہدایا میں کتنے شکوک وشبہات ہوسکتے ہیں؟ اور کتنی احتیاط کی ضرورت ہے؟!
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالاعنوان کے تحت حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا قول ذکر کرنے کے بعد دو مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے صرف ایک ہی حدیث کا ترجمہ ومفہوم درج کیاجارہاہے:
’’حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم a نے قبیلۂ ’’ازد‘‘ کے ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولیابی کا عامل بناکر بھیجا جس کو ابن اللُّتْبِیَّہ کہاجاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا کہ یہ تو زکوٰۃ کا مال ہے اور یہ دوسرا مال مجھے ہدیّہ میں ملا ہے۔ پیغمبر aنے اس کی بات سن کرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا؟ تاکہ اسے معلوم ہوجاتا کہ ہدیّہ ملتا ہے یا نہیں؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لے گا وہ قیامت کے دن اس کو گردن پر اُٹھائے ہوئے آئے گا، اگر وہ مالِ زکوٰۃ کوئی اونٹ ہوگا تو وہ اونٹ والی آوازنکالے گا، اور اگر گائے ہوگی تو گائے والی آواز نکالے گی اور اگر بکری ہوگی تو بکری والی آواز نکالتی ہوگی، پھر آپ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا، یہاں تک کہ ہم نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے فرمایا کہ: اے اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچادیا؟ اے اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچادیا؟ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔‘‘      (بخاری شریف، جلد :۱، ص: ۳۵۳، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا نصوص کی روشنی میں ہمارے اکابرین ہدایا کے سلسلہ میں بڑی احتیاط فرماتے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ہدیّہ کے لیے اصول وآداب مقرر تھے جو ’’اشرف السوانح‘‘ کے اندر ’’ہدیّہ کے متعلق اصول‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت مولانا معراج الحق صاحب بھی ان ہی اکابرین کے خوشہ چینوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دور کے اہل علم حضرات، ذمہ دارانِ مدارس وامورِ دینیہ، قائدینِ قوم وملت اور عام مسلمانوں کو بھی ان ہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے احقر کا تعلُّق واستفادہ اور ان کی سندِ حدیث

احقر نے حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ترمذی شریف جلد ثانی پڑھی ہے، انہوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے بانیِ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے حضرت شاہ عبد الغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے، انہوں نے مسند الہند حضرت علّامہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے، اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند‘ حدیث کی بنیادی کتابوں تک مشہور ومعروف اور چَھپی ہوئی ہے۔
حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب سے ترمذی شریف جلد ثانی پڑھتے ہوئے احقر اور دورۂ حدیث کے تمام ساتھیوں کو پورے تعلیمی سال کے دوران ان سے خوب استفادے کا موقع ملا، اس کے علاوہ احقر کو حضرت والا سے تقریباً گیارہ سال تک ایک طالب علم اور پھر مدرس ومسجدِ دارالعلوم کے امام کی حیثیت سے خصوصی استفادے کا موقع بھی اللہ کی توفیق سے میسَّر ہوا، اور وہ اس طرح کہ ۱۴۰۱ھ کو جب احقر دورۂ حدیث کے طالبِ علم کی حیثیت سے دارالعلوم سے منسلک ہوگیا اور پھر فراغت کے بعد ہی دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی سعادت نصیب ہوئی، جبکہ مسجدِ دارالعلوم میں امامت وخطابت کی ذمہ داری دورۂ حدیث کے سال سے انجام دے رہاتھا، اس وقت سے حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کے وصال (ماہِ صفر ۱۴۱۲ھ) تک احقر اُن کی اجازت سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مغرب وعشاء کے درمیان اور کبھی جمعہ کے دن صبح نو بجے سے دس بجے تک ان کے کمرہ میں ملاقات واستفادہ کے لیے حاضرِ خدمت ہوتا، جہاں ان کے پاس اکثر اوقات ان کے متعلقین میں سے دو تین دیگر بزرگ حضرات بھی موجود ہوتے۔ حضرت الاستاذ اپنے اساتذۂ کرام اور اسلاف واکابرِ دار العلوم دیوبند کے واقعات سناتے، اور اپنی گزری ہوئی طویل زندگی کے سبق آموز اور عبرت انگیز حالات بیان فرماتے اور کبھی دارالعلوم کے موجودہ اور سابقہ حالات کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ذمہ دارانِ دارالعلوم اور طلبہ کی موجودہ صورتِ حال کو مدِ نظر رکھ کر اُن کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے اور یوں تبصرہ فرماتے کہ دارالعلوم کی ترقی کا دار ومدار ’’کَیْف‘‘ یعنی اخلاص وللہیت اور تقویٰ ومحنت پر ہے، ’’کَمْ‘‘ یعنی تعمیرات وطلبہ واساتذہ کی تعداد میں اضافہ پر نہیں۔
حضرت الاستاذ کی مجلس میں موجود دیگر دو تین بزرگ حضرات ان کی باتیں غور سے سنتے اور کبھی وہ بھی کچھ تبادلۂ خیال کرتے، البتہ احقر کے حصہ میں صرف خاموشی اور حضرت الاستاذ ودیگر بزرگوں کی مجلس سے استفادہ کرنا ہوتا، تاہم! اگر کبھی کسی بات کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا تو ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے سوال کے انداز میں کچھ لب کشائی کرتا اور حضرت الاستاذ میرے سوال کا تسلی بخش جواب عنایت فرماتے۔
بہرصورت! حضرت الاستاذ مولانامعراج الحق صاحب اپنے اکابرین کا ایک نمونہ او ران کا وجود ہم جیسے بے سہاروں کے لیے باعثِ سعادت تھا، اس لیے احقر کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کی خدمت میں حاضری کا ہفتہ وار سلسلہ ہر صورت میں قائم رہے اور کسی معقول عذر کے بغیر اس میں کوئی ناغہ نہ ہو، اس صحبتِ صالح سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا اتنا فائدہ تو میں اپنی غفلتوں کی وجہ سے نہ اُٹھا سکا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی برکات آج تک اپنی زندگی میں محسوس کررہاہوں اور حضرت کے حق میں غائبانہ دعائیں کرتا رہتا ہوں۔

دارالعلوم کی خدمت میں انہماک اور اصول وضوابط کی پابندی

حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب نے تقریباً نصف صدی تک اخلاص وانہماک کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی خدمت کی، اس طویل عرصہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف انتظامی امور سے بھی منسلک رہے اور اپنی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں کامیابی اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ آپ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی قُدّس سرُّہٗ کے دورِ اہتمام میں تقریباً پانچ سال تک ناظمِ دارالاقامہ اور دس سال تک نائب مہتمم اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قُدّس سرُّہٗ کے دورِ اہتمام میں تقریباً دس سال تک صدر المدرسین کے عہدے پر فائز رہے، اور آخر الذکر عہدے پر ہوتے ہوئے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
اس طویل عرصے میں آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں دارالعلوم کی خدمت میں لگائی رکھیں اور اپنی مقبولیت وشہرت اور ناموری ووجاہت سے اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، چنانچہ آپ نے اپنی ذات کے لیے ایک چھوٹا سا مکان تو درکنار ایک کمرہ بنانے کی سعی بھی نہیں کی، بلکہ زندگی کے آخری لمحات تک دارالعلوم کی طرف سے ان کے لیے مہیّا کیے گئے ایک سادہ کمرہ میں مقیم رہے اور اسی کمرہ سے آپ کی نعش اُٹھائی گئی۔ دارالعلوم کے اصول وقواعد کے وہ خود بھی پابند اور دوسروں کو بھی پابند دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر کوئی شخص اصول کی خلاف ورزی کرتا تو مناسب انداز میں تنبیہ وداروگیر کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ جو احقر نے براہ راست حضرت والا سے سنا ہے‘ قلم بند کیاجارہاہے:
’’حضرت مولانا معراج الحق صاحب جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم کے عہدہ پر فائز تھے، اس زمانے میں ایک دفعہ ان کو پتہ چلا کہ دارالعلوم کے ایک شعبہ کے ناظم روزانہ تقریباً پندرہ منٹ تاخیر سے اپنے دفتر پہنچتے ہیں! حضرت کو ناگواری ہوئی اور ایک دن دفتر کے مقررہ وقت پر جاکر ان کی نشست پر بیٹھ گئے، ناظم صاحب جب اپنی عادت کے مطابق تاخیر سے دفتر پہنچے تو حضرت نائب مہتمم صاحب کو اپنی نشست پر دیکھ کر گھبرا گئے اور سلام کیا! حضرت نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: میں اس لیے آپ کے دفتر میں آکر بیٹھ گیا کہ آپ کو وقت پر پہنچنے میں شاید کوئی دقت درپیش ہے جس سے دارالعلوم کا نقصان ہورہا ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ آپ کے آنے تک میں ہی آپ کا کام انجام دیتا رہوں! اس پر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور آئندہ اپنے وقت کے پابند ہوگئے۔‘‘

حضرت مولانا کے عزمِ مصمم واصول پسندی کا ایک اور واقعہ

حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کے غیر متزلزل عزم واصول پسندی کا ایک اور واقعہ جس کا عینی شاہد خود راقم الحروف ہے، قارئین کے فائدے کے لیے پیش کیا جارہاہے:
’’ایک طالبِ علم جو داخلہ لینے کی غرض سے دارالعلوم دیوبند آکر نظام کے مطابق تحریری امتحان میں شریک ہوگیا تھا، وہ پرچۂ امتحان میں درج شدہ سوالات کے درست جوابات نہیں لکھ پایا تھا، تو اس نے اپنے جوابی پرچے کے آخر میں یہ لکھا تھا کہ: ’’اگر مجھے فیل کردیاگیااور درالعلوم میں داخلہ سے محروم کردیاگیا تو میں اپنی پریشانی اور احساسِ محرومی کے تحت احاطۂ دارالعلوم کے اندر خود کشی کروںگا۔‘‘ممتحنین حضرات اجتماعی طور پر حضرت مولانا معراج الحق صاحب صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی زیر نگرانی پرچے چیک کررہے تھے، جب مذکورہ جوابی پرچے کی باری آئی اور چیک کرنے والے استاذ نے پرچے کی کمزوری کو دیکھ کر اس کے مطابق نمبر لگانے کا ارادہ کیا تو ان کی نظر طالبِ علم کے لکھے ہوئے مذکورہ آخری خطرناک جملے پر پڑی! اس جملے کو پڑھ کر وہ شش وپنج میں مبتلا ہوگئے، اس لیے کہ پرچہ نہایت کمزور اور اس کا لکھنے والا فیل قرار دیئے جانے کا مستحق تھا! لیکن فیل قرار دیئے جانے کی صورت میں یہ پریشانی سامنے تھی کہ اگر خدا ناخواستہ اس آخری جملے کو عملی جامہ پہنایاگیا تو وہ اس طالب علم کے حق میں اور اسی طرح دارالعلوم کے حق میں بڑا خطرناک ثابت ہوسکتاہے، لہٰذا انہوں نے نمبر لگانے سے پہلے کچھ دوسرے چیک کرنے والے حضرات اساتذہ سے مشورہ کیا کہ اس صورت حال میں کیاکیا جائے؟ لیکن وہ بھی کوئی حتمی مشورہ نہ دے سکے، بالآخر سب نے مذکورہ مسئلہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے سامنے پیش کیا، انہوں نے بلاتوقف فرمایا کہ: اسے فیل کردو، اگر وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے تو ابھی کرے، اس لیے کہ اپنے عمل کا ذمہ دار وہ خود ہے اور ہم لوگ بھی اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں! پھر انہوں نے چیک کرنے والے اساتذہ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ: آپ مطمئن رہیں، ا س نے یہ جملہ صرف دباؤ ڈالنے کے لیے لکھا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کرے گا، اس لیے کہ جو شخص اتنا آرام طلب ہو کہ اپنی تعلیم میں محنت نہ کرسکتا ہو وہ خود کشی کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت نے جیسا فرمایا تھا ایسا ہی ہوا، اسے فیل قرار دے کر داخلہ نہیں دیاگیا اور وہ چلا گیا اور کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘

اجلاسِ صد سالہ کی مخالفت

دارالعلوم دیوبند میں ۳،۴،۵ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۱،۲۲،۲۳ مارچ ۱۹۸۰ء کو سہ روزہ اجلاسِ صد سالہ منعقد ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں اندرونِ ملک وبیرونِ ملک کے لوگوں نے شرکت کی جن میں علمائے کرام، مفکّرین، داعیانِ حق، اربابِ قلم ودانش، قائدینِ ملت، زعمائے قوم اور عام مسلمان شامل تھے۔ اس اجلاس کے کچھ ہی عرصہ بعد دارالعلوم دیوبند کے اربابِ انتظام کے درمیان ایک اختلاف نے سراُٹھایا اور بڑھتے بڑھتے اس نے شدت اختیار کی، جس سے پورے برِّصغیر کے دینی حلقوں میں ایک ہلچل اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی، اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے متعلقین ومحبینِ دارالعلوم کو بڑی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس اختلاف کے نتیجہ میں اس مرکزِ اسلام کے وجود کو کوئی نقصان نہ پہنچے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس شدید اختلاف کے باوجود دارالعلوم محفوظ رہا اور بعد میں اختلاف کی فضا بھی ختم ہوگئی، وللّٰہ الحمد والمنۃ۔
دارالعلوم کے اساتذۂ کرام ومتعلقین میں سے اکثروہ حضرات جو اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد سے پہلے اس کی حمایت میں پیش پیش تھے، اجلاس کے بعد اُٹھنے والے ناگفتہ بہ حالات واختلافات کو دیکھ کر ان کی آراء بدل گئیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ مذکورہ اجلاس کا انعقاد شاید دار العلوم واسلافِ دارالعلوم کے متوکلانہ مزاج کے مطابق نہیں تھا، اس لیے اس کا نتیجہ مثبت نہیں رہا! البتہ اجلاس کے انعقاد سے پہلے میرے علم کے مطابق اساتذۂ دارالعلوم میں سے صرف حضرت مولانا معراج الحق صاحب ہی تھے جنہوں نے واشگاف الفاظ میں اس اجلاس کی مخالفت کی تھی، لیکن کسی نے ساتھ نہیں دیاتھا، میں نے حضرت والا سے براہِ راست یہ فرماتے ہوئے سناہے:
’’اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد سے پہلے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے دارالعلوم کی روایت کے مطابق مشورہ کرنے اور رائے لینے کے لیے اساتذہ کا اجلاس بلایا، اس اجلاس میں اکثر حضرات نے اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد کو دارالعلوم کے لیے مفید قراردیا، اور جب میری باری آئی تو میں نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ اگر اس اجلاس کا مقصد دارالعلوم کی شہرت کو بڑھانا اور اس کی آواز کو پھیلانا ہے تو یہ مقصد اس اجلاس کے بغیر پورا ہوچکا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فضلاء اور محبینِ دارالعلوم کے ذریعے اس کی شہرت ومقبولیت کو چار دانگ عالم میں اتنا پھیلایاہے کہ مزید اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی! اور اگر اجلاس کا منشأ دارالعلوم کے لیے چندہ کی فراہمی اور مالی ضروریات کی تکمیل ہے تو اس منشأ کی تکمیل بھی قیامِ دارالعلوم سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے خود بخود ہو رہی ہے، ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، لہٰذا! میں اس اجلاس کا انعقاد اور اس کے انتظامات پر پیسہ اور وقت خرچ کرنا نہ تو دارالعلوم کے حق میں مفید سمجھتا ہوں اور نہ ہی اُسے اسلافِ دارالعلوم کے مزاج کے مطابق قرار دے سکتا ہوں۔‘‘ 
اجلاسِ صد سالہ سے متعلق حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کی رائے ابتداء ہی سے یہی رہی تھی، جسے انتظامیہ اور اساتذۂ دارالعلوم کی اکثریت نے قبول نہیں کیا تھا، لیکن بعد میں تاریخ نے خود یہ ثابت کردیا کہ اُن ہی کی رائے درست تھی، واقعی اجلاسِ صدسالہ کا انعقاد دارالعلوم کے مزاج کو راس نہیں آیا۔                                                                     (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین