بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا محمد انور بدخشانی زید مجدہٗ کے اہم علمی ملفوظات (حدیث اور فقہ کے درس کے دوران)

حضرت مولانا محمد انور بدخشانی زید مجدہٗ کے اہم علمی ملفوظات (حدیث اور فقہ کے درس کے دوران)

    ٭:۔۔۔۔۔۔ نیت لغوی یہ ہے کہ بندہ مطلق طاعت کی نیت کرے اور نیت شرعی یہ ہے کہ بندہ اس عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنے کی نیت کرے، قرآن کریم میں ’’مخلصین لہ الدین‘‘ اور حدیث مبارک میں ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ میں اسی نیتِ شرعیہ کی طرف اشارہ ہے کہ اعمال شرعی اس وقت قبول ہوتے ہیں جب وہ نیت شرعیہ کے ساتھ ہوں، اس فرق کو لوگ سمجھتے نہیں ہیں ۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ذاتی ذات الاضافات ہیں، مثلاً خالق و قادر یعنی خالق بالمخلوقات و قادر بالمقدورات، بعض صفات حقیقی ہیں، مثلاً حی، قیوم، صمد، بعض اضافی ہیں، مثلاً: ’’غافر الذنب وقابل التوب، شدید العقاب‘‘ بعض صفات سلبی ہیں، مثلاً’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ‘‘وغیرہ۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم میں لفظ قرآن جہاں معرفہ آیا ہے وہاں کتاب معین یعنی قرآن کریم مراد ہے اور جہاں نکرہ آیا ہے وہاں مقرو (مصدر بمعنی مفعول) مراد ہے اور اس سے دیگر کتب سماوی بھی مراد ہیں، مثلاً ‘‘شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ‘‘ اور ’’وَلَوْ أَنَّ قُرْأٰنًا سُیِّرَتْ بِہٖ الْجِبَالُ‘‘ ٭:۔۔۔۔۔۔ غریب القرآن و غریب الحدیث کا تعلق مفردات سے ہے اور مشکل القرآن و مشکل الحدیث کا تعلق جملوں سے ہے، لفظ ’’تناوش‘‘ غریب القرآن ہے کہ اس کا تعلق مفردات سے ہے، مفرداتِ امام راغب غریب القرآن کے متعلق ہے، دونوں موضوعات کے لیے الگ الگ کتابیں ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کے الفاظ کو لفظ کہنے میں بے ادبی معلوم ہوتی ہے، اس لیے اصولیین نے نظم کا لفظ نکالا کہ اس کا معنی ہے موتیوں کو پرونا، جبکہ لفظ کا معنی ہے پھینکنا، چونکہ آیاتِ قرآنی موتیوں کی طرح پروئی ہوئی ہوتی ہیں، اس لیے اس کے لیے لفظ نظم مناسب ہے، مگر میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ قرآن نے نظم قرآنی کو نظم کہا ہو۔ فرمایاکہ : اشکال ہوسکتا ہے کہ آپ نے ’’نظم قرآنی‘‘ کا لفظ نکالا، تاکہ بے ادبی نہ ہو، مگر نظم کا لفظ بھی شعر کے معنی میں ہے جو کہ ممدوح نہیں’’وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ، وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوُوْنَ‘‘ لہٰذا نظم کا لفظ بھی درست نہ ہونا چاہیے؟ جواب یہ ہے کہ نظم کا معنی مجازاً شعر ہے اور حقیقت میں موتیوں کو پرونے کے معنی میں آتا ہے اور یہاں حقیقی معنی میں مراد لیا گیا ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ ہماری بہت سی تفسیر‘ تاویل ہیں، ہم اس کو مجازاً تفسیر کہہ دیتے ہیں، حالانکہ تفسیر وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اور تاویل وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہونے والا مفسَر اور دلیل ظنی سے ثابت ہونے والا مؤوَّل کہلاتا ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ ششماہی امتحان کے بعد کتابوں کو جلدی جلدی ختم کرانا اور نہ سمجھنا، یہ کتاب کو پورا کرنے کے لیے ایک رسمی طریقہ بن گیا ہے، یہ نظام تعلیم کے ساتھ ظلم ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں، یہ دوسروں کو دھوکہ دینا در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے جس کا خود شعور نہیں: ’’وَمَا یَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ‘‘ ٭:۔۔۔۔۔۔ ہمارے درس نظامی کی معروف فقہ کی کتاب ہدایہ اُصول فقہ سے پُر ہے، اس میں اصول فقہ دونوں معنوں میں ہے، ایک معنی ہے ’’أدلۃ الفقہ‘‘ اس کو صاحب ہدایہ ’’لقولہٖ تعالی‘‘ اور ’’لقولہٖ علیہ السلام‘‘ سے بیان کرتے ہیں اور دوسرا معنی ہے وہ قواعد کلیہ جن کی روشنی میں احکاماتِ فرعیہ کو قرآن و حدیث سے مستنبط کیا جاتا ہے، اس کو صاحب ہدایہ ’’لِأَنَّ‘‘ کہہ کر بیان کرتے ہیں، یہ فرضی اصول نہیں ہیں، بلکہ قرآن و حدیث سے استنباط کیے ہوئے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ احکام کی علل ’’ہدایہ‘‘ اور’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ دونوں میں ہیں، لیکن دونوں میں فرق ہے، مولانا سیاح الدین کاکاخیل مرحوم نے بتلایا کہ حجۃ اللہ البالغۃ میں علل ترغیبی و ترہیبی ہیں، ان سے اجتہاد و استنباط کرنا ممکن نہیں اور ہدایہ کے علل سے اجتہاد و استنباط کرنا ممکن ہے، کیونکہ وہ بتلاتے ہیں کہ یہ مسئلہ کیوں ہے؟ وغیرہ۔ اقول: دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہدایہ‘‘ میں علل و اسباب کا بیان ہے اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں حِکم واسرار کا بیان ہے۔ احکام کامدار علل و اسباب پر ہوتا ہے، حِکم و اسرار پر نہیں، اس لیے کہ علل احکام سے مقدم اور حِکَم مؤخر اور زوائدو فوائد کی قبیل سے ہوتی ہیں۔یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عموماً علل اور حکم کے درمیان فرق نہ کرنے کے نتیجے میں بہت سے خلجانات پیدا ہوتے ہیں۔        (از مرتب) ٭:۔۔۔۔۔۔ حضرت تھانوی v فرماتے ہیں کہ اجتماعی طور پر ایصالِ ثواب کرنے کا شرعاً ثبوت نہیں ہے، البتہ انفرادی طور پر ہر شخص اپنے طور پر بخش دے تو بہتر ہے اور اس کا شرعاً ثبوت بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعی ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے، اور آخر میں ایک قاری صاحب بآوازِ بلند قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر دعا کرتے ہیں، اس کا کیا مقصد ہے ؟ کیا باقیوں کی تلاوت بے کار ہے؟ ہم نے خود یہ چیزیں بنائی ہیں، کوئی ناراض ہو یا راضی، صحیح بات یہی ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔اگر امامت کرنے والے میں تین صفات ہوئیں تو قیامت تک امام رہے گا : ۱:۔۔۔۔۔۔ مستغنی ہونا۔ ۲:۔۔۔۔۔۔ متواضع اور خوش اخلاق ہونا۔ ۳:۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی سیاست اور سیاسی مسائل میں حصہ نہ لینا۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ روزہ کی علت اللہ تعالیٰ نے تقویٰ بیان فرمائی ہے:’’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ لہٰذا ا ب جو چیز بھی خلافِ تقویٰ ہے وہ ممنوع ہے، چنانچہ غیبت اور جھوٹ تقویٰ کے منافی ہیں، اس لیے ممنوع ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم جامعہ میں ۱۱؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۴ھ مطابق ۱۰؍اگست ۲۰۰۳ء کو تشریف لائے، ہمارے دورہ حدیث کا سال تھا، حدیث کی اجازت بھی مرحمت فرمائی، اگلے دن استاذ محترم نے درسگاہ میں فرمایا: ’’مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک بات بہت عمدہ فرمائی کہ جس چیز کا شر غالب ہو اس کو نہ کرو اور جس کا خیر غالب ہو اس کو کرو۔ پھر استاذ محترم نے فرمایا کہ ہم خیر کے کام کو نہیں کریں گے تو شر غالب آئے گا، تبلیغ کے کام میں خامیاں ہوںگی، مگر اس کی خیر غالب ہے۔‘‘ ٭:۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم میں چار قسم کے امتحانات کا ذکر ہے : تقویٰ کا امتحان۔۔۔۔۔۔۔’’أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی‘‘ مصائب کا امتحان۔۔۔۔۔۔۔’’وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ‘‘ علم کا امتحان۔۔۔۔۔۔۔’’إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّ‘‘ عمل کاامتحان۔۔۔۔۔۔۔ ’’أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً‘‘ ٭:۔۔۔۔۔۔ کوئی آدمی صرف بخاری شریف کو ’’فتح الباری‘‘ کے ساتھ دوسال پڑھے تو اس کو بقیہ کتب صحاح کی ضرورت نہیں، زیادہ سے زیادہ فقہ مقارن کے لیے ترمذی کو دیکھے تو اس میں کچھ رجال کے بارے میں معلوم ہوگا، اس کے ساتھ ’’عارضۃ الأحوذی‘‘ رکھ لے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا کوئی علم میں نہ ہوگا۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ امام ابن قیم v نے فرمایا کہ وہ مطالعہ، تلاوت وغیرہ جو آپ کو نماز سے روک دے، اس میں ثواب نہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ میرے استاذ مفتی محمد فرید صاحبv دارالعلوم اکوڑہ والے فرماتے ہیں کہ بچہ بڑا ہوکر ہوشیار ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے باپ کو کیا آتا ہے، اس کو تو کمر بند کھولنا بھی نہیں آتا، میں کہتا ہوں کہ اگر تیرے باپ کو کمربند کھولنا نہ آتا تو تُو نہ آتا، جیسے آج کے دور میں مضمون لکھنے والا اردو میں چند انگریز ی کے الفاظ لکھتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ وہ دقیانوسی نہیں ہے، بلکہ اسکالر ہے، اسی طرح گزشتہ دور میں اپنی کتابوں میں منطق لانا فیشن تھا، تاکہ معلوم ہو کہ لکھنے والا اونچا آدمی ہے اور عقلی دلائل جانتا ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے کہ ملائکہ مجرد عن المادہ ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ ان کا مادہ موجود ہے، قرآن کریم میں ہے :’’أُولِیْ أَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلَاثَ وَرُبَاعَ۔‘‘ ٭:۔۔۔۔۔۔ کون کہتا ہے کہ اصولِ فقہ کی کتاب تلویح شرح ہے، یہ شرح نہیں بلکہ حاشیہ ہے۔ کافیہ کو برباد کیا تحریر سنبٹ نے اور سلم کو برباد کیا اردو کی لمبی لمبی تقریروں نے کہ مقصد ہی فوت ہوگیا۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ علامہ تفتازانیv بڑے لطیف انداز میں حنفیوں پر رد کرتے ہیں اور حوالہ بھی ذکر نہیں کرتے، مجھے اسی وجہ سے مرجانیؒ بہت پسند ہے کہ وہ ان کا ادب کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ قدیم فلسفہ میں اجسام کی طبیعت سے بحث کی جاتی ہے کہ وہ متحرک ہے یا ساکن، اس کی حرکت و سکون کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں، جدید فلسفہ میں اس سے بحث ہے کہ اس جسم سے ہمیں کیا فائدہ ہے؟ یہ ہمارے کام کی چیز ہے، اس کے ذریعے تعلیماتِ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ انگریزی زبان میں اشتراک زیادہ ہے اور یہ لغت کا دامن تنگ ہونے اور قحط زدہ ہونے کی علامت ہے اور عربیت میں ترادف زیادہ ہے اور یہ لغت کا دامن وسیع ہونے کی علامت ہے، عربی میں سمجھانا بنسبت انگریزی کے زیادہ آسان ہے۔ ٭:۔۔۔۔۔۔ صاحب کشاف نے ’’أساس البلاغۃ‘‘ لکھی جوکہ لغت پر مشتمل ہے، نہ کہ بلاغت پر، چونکہ بلاغت کی بنیاد لغت پر ہے اس وجہ سے اس کو  ’’أساس البلاغۃ‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن ہمارے طلبہ آج کل لغت سے ناآشنا ہوتے ہیں، ان کو اس طرف توجہ دلائی نہیں جاتی۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین