بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا محمد اسفند یارخان نوراﷲ مرقدہٗ 

حضرت مولانا محمد اسفند یارخان نوراﷲ مرقدہٗ 


جامعہ دارالخیر کے بانی، رئیس وشیخ الحدیث، ہزاروں علماء ومسترشدین کے استاذ وپیرومرشد، کراچی کی معروف دینی وعلمی شخصیت حضرت مولانا محمد اسفندیار خان ۸۵ سال اس دنیائے رنگ وبو میں گزار کر ۱۹؍ صفر المظفر ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا موصوف کی ولادت با سعادت ۱۹۳۴ ء میں سابق ریاست سوات ،شانگلہ پار پیرخانہ گاؤں میںعبدالجمیلؒ کے گھر میں ہوئی۔ ریاست سوات میں پیر خانہ فصلِ خصومات کے لیے مرجعِ خلائق تھا۔ پیر خانہ میں تین خاندان آباد ہیں : حضرت اخوند درویزہ باباؒ کی اولاد جو میاں گان کہلاتے ہیں۔ سلطان محمود غزنویؒ کی اولاد جو کہ علماء کرام کہلاتے ہیں ۔ تیسرا خاندان خان لوگوں کا ہے جو خانان کہلاتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد اسفندیار خان ؒکے دادا جان اپنے علاقے کے بڑے اورمشہور عالم تھے، جنہوں نے تحصیلِ علم کے لیے کوہستان میں دور دراز کا سفر کیا ۔ آپؒ کے دادا جان کی ایک امتیازی شان یہ تھی کہ انہوں نے تمام کتب کو زبانی یاد کر لیا تھا ، ان کے حلقۂ درس میں ۱۲۰ سے زیادہ طلبہ رہتے تھے۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ کا تعلق اخون خیل میاں گان خاندان سے ہے اور آپؒ کے والد ماجد کا تعلق سلطان محمود غزنویؒ کی اولاد یعنی علماء کرام سے تھا ، گویا آپؒ نجیب الطرفین تھے۔
حضرت موصوف ؒنے قرآن مجید کا بیشتر حصہ اپنے والد صاحب ؒکے پاس پڑھا، تاہم تکمیل اپنے استاذ احمد صاحب مرحوم سے کی جو ایک پرائیویٹ پرائمری اسکول کے روح رواں استاذ تھے۔ آپؒ نے پرائمری تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی ۔ آپؒ کے ممتاز اساتذہ میں مندرجہ ذیل نابغۂ روزگار ہستیاں شامل ہیں: 
۱:- عارف باﷲ حضرت مولانا خان بہادر صاحب مرحوم عرف مارتونگ باباؒ ، جو کہ حضرت مولانا عبدالرحمن امروہیؒ اور حضرت مولانا احمد امروہیؒ کے شاگرد تھے ، جبکہ یہ دونوں حضرات‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہم اﷲ تعالیٰ کے شاگردتھے۔ اس طرح حضرت موصوف ؒ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی w کے تیسرے درجے کے شاگردتھے اور حضرت موصوف ؒفرماتے تھے کہ مجھے اس نسبت پر فخر ہے ۔ حضرت موصوف ؒمزید فرماتے تھے کہ: جہاں تک کتبِ تفسیر کا تعلق ہے تو میں نے تفسیر جلالین حضرت خان بہادر مرحوم عرف مارتونگ باباؒ سے پڑھی اور میں تفسیر جلالین اسی طرح پڑھاتا ہوں جس طرح میرے استاذ احمد حسن مرحوم پڑھایا کرتے تھے اور مولانا احمد حسن مرحوم فرماتے تھے کہ: میں اسی طرح پڑھاتا ہوں جس طرح حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ پڑھاتے تھے۔ ۲:- حضرت مولانا عبدالعلیم مرحوم عرف اوڈیگرام باباؒ۔ ۳:-حضرت مولانا عبدالغفور صاحب المعروف شین باباؒ۔ ۴:- حضرت مولانا نذیر صاحبؒ۔
چونکہ آپ کی سند عالی تھی، اس لیے بہت سے علماء نے آپ سے اجازتِ حدیث لی تھی۔ حضرت مولانا محمد اسفند یار خان نوراﷲ مرقدہٗ کے شاگردکئی ممالک میں موجود ہیں ، جن میں سائوتھ افریقا، سری لنکا، سعودی عرب، قطر، ایران ، کینیڈا، انڈیا، بنگلہ دیش ،انگلینڈ،تھائی لینڈ، ملائشیاوغیرہ ہیں۔ 
شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا محمد اسفند یارخان نوراﷲ مرقدہٗ نے ۱۹۵۰ء میں مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ مارکیٹ سے درس وتدریس کا آغاز فرمایا اور کم عمر ترین شیخ الحدیث کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ یہ مدرسہ شیخ الہندحضرت محمود حسنؒ کے سپاہی مولانا محمد صادق ؒ کا تھاجو تحریکِ ریشمی رومال کا مرکزبھی رہا۔  ۱۹۶۶ء میں بکرا پیڑی لیاری میں ایک چھوٹی سی مسجدقباء اورایک ادارہ جامعہ دارالخیر کے نام سے قائم فرمایاجوایک پودے کی صورت میں زمین کا سینہ چیر کر پھلنے پھولنے لگا، حتیٰ کہ آج ایک شجر سایہ دار کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہے اور دور دور سے تشنگانِ علومِ دینیہ یہاں اپنی پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں۔ یہی وہ ادارہ ہے جو تمام اکابر علماء کا مرکز رہا۔ حضرت مولانا ہزاروی، مولانا عبدالحق حقانی، مولانا مفتی محمود ، مولانا عبداللہ درخواستی ، مولانا عبیداللہ انور، محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری ، مولانا عبدالشکور دین پوری، مولانا غلام اللہ خان، مولانا ضیاء القاسمی (رحمۃ اللہ علیہم) اور دیگر مشائخ یہاںتشریف لاتے رہے ، یہ چھوٹی سی جگہ اور غریب علاقہ طویل عرصے تک مذہبی ودینی تحاریک کا مرکز رہا۔
جگہ کی تنگی کے باعث جامعہ دارالخیر میں مدرسین و طلباء کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لہٰذا گلستان جوہر میں کے ڈی اے سے ایک ایکڑرقبہ پر پلاٹ نمبر ST-2 اکتوبر ۱۹۸۸ء میں خرید لیا گیا اور اس پلاٹ پر جامعہ دارالخیر کی تعمیر کاکام شروع ہوا۔ اس وقت محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس قطعۂ اراضی پر ایک مسجد اور ۷۵ کمروں پر مشتمل ایک نہایت عمدہ اور خوبصورت عمارت تعمیر ہو چکی ہے جہاں دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ دینی علوم کے حصول میں مصروف ہیں۔
حضرت شیخ کا درس بہت سی خصوصیات کا حامل تھا، حق تعالیٰ نے آپ کو ایسی فہم اور ایسا اندازِ بیاں عطا فرمایا تھاکہ مشکل سے مشکل مباحث بھی طلبہ کو دلنشین انداز میں سمجھا دیتے تھے۔ ایک مسئلہ کو مختلف پیرایوں میں مثالوں سے اس طرح بیان فرماتے کہ کم ذہن طلباء بھی اچھی طرح سمجھ جائیں۔ طویل بحث کو آخر میں اس انداز سے سمیٹ دیتے کہ طلبہ ان کو درس گاہ ہی میں یاد کر لیتے ۔
آپ کے درس میں ایسی دلچسپی اور کشش ہوتی تھی کہ گھنٹوں سبق جاری رہنے کے باوجود طلباء اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔علم حدیث کے متعلق اہم اور بنیادی کتابوں کا گاہے بگاہے تعارف بھی کرواتے رہتے۔ اس دور کے اہم فتنوںکے حوالے سے مناسب مواقع پر علمی انداز میں مفید تبصرے بھی فرماتے۔ موضوع سے متعلق صرف روایتی مباحث پرہی اکتفا نہیں فرماتے، بلکہ تزکیۂ نفس و احسان کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتے رہتے اور زیرِ درس حدیث کا طلباء کی عملی زندگی سے تعلق بھی واضح فرما دیتے ۔ اخلاص و للّٰہیت، دینی خدمات کے لیے ہر قسم کے دنیاوی مفادات کی قربانی کے جذبہ،جزوی امور میں اختلاف رائے کے باوجود علمائے حق کا احترام اور دوسرے اہم امور کے متعلق اللہ والوں ، خصوصاً اکابر علماء دیوبندکے ایمان افروز واقعات اپنے خوبصورت انداز میں بیان فرماتے رہتے تھے۔
آپ کی بیعت کا تعلق حضرت خواجہ عبدالمالک نقشبندی نور اللہ مرقدہٗ سے تھا اور انہیں سے آپ کو خلافت بھی حاصل تھی۔۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان کے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ اسی طرح آپ نے سوادِ اعظم کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
آپ کے لواحقین میں ایک بیوہ ، چھ صاحبزادگان اور چار صاحبزادیاں ہیں۔ جبکہ بڑے صاحبزادے مفتی محمد عثمان یارخانv کو چھ سال قبل دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا۔
آپ کی نمازِ جنازہ اسی دن ظہر کی نماز کے بعد جامعہ دارالخیر میں ادا کی گئی، جس میں کراچی کے علماء حضرات کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے کئی اساتذہ بھی آپ کے جنازہ میںشریک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کی سیئات کو مبدل بحسنات فرمائے، آپ کے ادارہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور آپ کے لواحقین کو صبرِجمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین