بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا قاری محمد علی مدنی  رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا قاری محمد علی مدنی  رحمۃ اللہ علیہ

 

سرزمینِ سندھ بڑی مردُم خیز ہے، اس کی کوکھ سے بے شمار عظیم شخصیات نے جنم لیا، جنہوں نے خطے میں علم ودانش کا وہ دِیپ جلایا، جس کی روشنی سے علم وعرفان کی کرنین پھوٹیں، انہی میں سے ایک حامِل القرآن ، المتوکل علی اللہ ، امام القرّاء حضرت مولانا سائیں قاری محمد علی مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ ہیں ، جن کی ولادت باسعادت تحصیل خیرپور میں دریائے سندھ کے ساحل پر واقع پُھلّو نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں ۱۹۳۹ء میں ہوئی۔
حضرت مولانا قاری محمد علی مدنی صاحب نور اللہ مرقدہٗ ایک سال کے تھے تو آنکھوں کی بینائی اللہ تعالیٰ نے واپس لے لی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی، بچپن سے ہی آپ کے سینے میں مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کرنے کی تڑپ تھی۔ کچھ سالوں کے بعد بالآخر آپ کا مدینہ منورہ جانے کا خواب مکمل ہوا۔ ۱۹۵۲ء میں ۱۳؍ سال کی عمر میں آپ نے مدینہ منورہ کی طرف پیدل سفر کا آغاز کیا ، اس سفر کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، کبھی قافلہ ملتا تو کبھی تنِ تنہا، کبھی جنگلات وپہاڑ تو کبھی صحرا بیابان ، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے یہ مشکل سفر ۱۰؍ ماہ میں مکمل ہوا۔ 
 آپ نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) میں کچھ ایام گزارنے کے بعد باب السلام کے بالکل متصل قائم مدرسہ تحفیظ القرآن میں فضیلۃ الشیخ المقرئ السّید عباس انعام بخاری v کے پاس علمِ تجوید کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مسجد نبوی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) میں روضۂ اقدس کے سائے تلے استاذ الاساتذہ فضیلۃ الشیخ حسن بن ابراہیم الشاعر v کے پاس قراءتِ عشرہ کا علم حاصل کیا۔ آپ نے علم قراءتِ عشرہ کے ساتھ ساتھ علم الاوقاف، علم رسم الخط، علم النّحو اور حدیث و تفسیر کے علوم کی تکمیل فرمائی ۔
آپ کی علماء دیوبند سے رفاقت مدینہ منورہ میں ہی آپ کے استاذ فضیلۃ الشیخ المقرئ السّید عباس انعام بخاری v کے توسُّط سے ہوئی، علماء دیوبند میں سے امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، مجاہدِ ملّت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستیؒ، محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، شیخ المنطق والفلسفہ حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ ؒ(دیوبند)، مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، ودیگر اکابرین سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
فراغت کے بعد آپ نے وہیں حرمِ نبوی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) میں پڑھانا شروع کیا، جہاں آپ کے پاس سعودی عرب کے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان، مصر اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والوں نے تعلیم حاصل کی۔ ایامِ حج کے موقع پر ہندوستان اور پاکستان سےا ٓئے ہوئے علماء آپ کے پاس تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ۱۹۶۴ء میں پاکستان تشریف لائے، پاکستان تشریف لانے کے بعد شکارپور سندھ میں واقع مدرسہ عربیہ اشرفیہ میں ۶؍سال پڑھایا، اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں شکارپور میں ہی دارالقراءٰت نام سے مدرسہ قائم کیا ۔ جب طلباء کی تعداد زیادہ بڑھ گئی ، اور مدرسہ دارالقراءٰت کی تعمیرات ناکافی ہوگئیں توا ٓپ کو ایک وسیع مدرسہ قائم کرنے کا خیال آیا، اس لیےآپؒ نے ۲۰۰۳ء میں شکارپور میں ہی ایک عالیشان مدرسہ تعمیر کروایا ، جس کا سنگِ بنیاد بدستِ قائدِ جمعیت (حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ) رکھا گیا، اور اس مدرسہ کا نام جامعہ مدنیہ تجویز کیا گیا۔
حضرت مولانا قاری محمد علی مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ کانکاح اپنے چچا کی بیٹی سے ہوا، جن سے دو بیٹے قاری مجیب الرحمٰن مدنی ، قاری الطاف الرحمٰن مدنی اور ایک بیٹی ہوئیں ۔ آپ جسمانی صفتوں کے اعتبار سے اچھے درمیانہ قد کے تھے، پیشانی چوڑی ، گندمی رنگ ، اور ہنس مکھ چہرے کے مالک تھے ، فطری باوقار اور ظرافت کے حامل تھے۔ 
حضرت مولانا سائیں قاری محمد علی مدنی صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے مسلسل ۶۰؍سال بےلوث اور بے نظیر خدمات سرانجام دیں ، آپ کے طلباء صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ دنیا کے کونے کونے میں علم دین کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
حضرت قاری صاحبؒ کے امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے کئی برس تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالحدیث میں وہاں کے مشائخ، طلبہ اور کثیرتعداد عوام الناس کو دس روزہ تراویح میں قرآن کریم سنایا۔
۵؍جولائی ۲۰۲۲ ء مطابق ۵؍ ذو الحجہ ۱۴۴۳ھ بروز منگل دوپہر ۱؍بجے کے قریب بالآخر دستورِ خداوندی کے مطابق علم وعمل اور زہد وتقویٰ کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ہزاروں عقیدت مندوں نے آپ کے جانشین مولانا قاری مجیب الرحمٰن مدنی کی امامت میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی، اور آپ کی تدفین آپ کی درسگاہ جامعہ مدنیہ شکارپور میں عمل میں آئی ۔
حضرت قاری صاحب v کے روحانی پسماندگان میں بڑے بڑے نامور علماء اور قراء بھی شامل ہیں، جن کی تعداد شایدہزاروں تک پہنچتی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے جملہ شاگردوں کو ان کا بہترین صدقہ جاریہ بنائے اور ان کے نقشِ قدم پر قرآن کی اشاعت وخدمت کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔اور اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ہمیں بھی حضرت کے علوم و معارف کا کچھ حصہ نصیب فرمائے ، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین