بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا غلام مصطفی  ؒ(چناب نگر) کا وصال

حضرت مولانا غلام مصطفی  ؒ(چناب نگر) کا وصال


بہاول نگر ضلع کی تحصیل منچن آباد کا سرحدی گائوں ڈبر شکرگنج میں جناب محمد عباس سکھیرا کے ہاں مولانا غلام مصطفیٰ ۱۹۶۶ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے دینی تعلیم کا بیشتر حصہ مدرسہ عربیہ صادقیہ، منچن آباد سے مکمل کیا۔ دورئہ حدیث شریف جامع العلوم عیدگاہ بہاولنگر سے کیا۔ اس کے بعد ملتان میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒکے ہاں سہ ماہی ردِقادیانیت کورس دفتر مرکزیہ ملتان میں مکمل کیا۔ خوشاب، سرگودھا، چناب نگر اور سیالکوٹ مختلف مقامات پر دینی خدمات سرانجام دیتے رہے، چناب نگر میں تقرری کے بعد بھی پہلے خوشاب پھر سیالکوٹ میں جزوی وقت دیتے رہے۔
آپ نے زیادہ تر وقت مولانا محمد اکرم طوفانی کی زیرِ تربیت و زیرنگرانی گزارا اور زیادہ تر انہی کا رنگ مولانا غلام مصطفیٰ پر جما۔ بول چال، کھڑکا، دڑکا میں وہ مولانا محمد اکرم طوفانی کا پر تو نظر آتے تھے۔ جہاں کہیں قادیانی فتنہ سر اُٹھاتا، ان کی کوئی سرگرمی نظر آتی، آپ ان پر اس تیزی کے ساتھ یورش کرتے کہ دم بخود ہوکر، دم دبا کر بھاگتے قادیانی نظر آتے، ان کے تمام منصوبوں اور سازشوں کو پیوند خاک کرنے میں آپ دیر نہ لگاتے۔
مولانا غلام مصطفیٰ نے چناب نگر مدرسہ ختم نبوت اور چناب نگر ریلوے اسٹیشن جامع مسجد محمدیہ دونوں کے نظم پر نظر رکھی۔ آپ کا وجود قادیانیت کے لیے سوہانِ روح تھا۔ آپ ختمِ نبوت کی مؤثر و بھرپور آواز تھے۔ آپ بہت ہی اُجلے کردار کے مالک تھے۔ چناب نگر کو پہلے ضلع جھنگ لگتا تھا، آپ اپنے رفقاء اور علاقہ کے غریب مسلمانوں کا سہارا تھے، ان کے سرکاری دفاتر سے کام کرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آپ کے ایثار کا یہ عالم تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرکے جاتے اور حتی الامکان غریب ساتھیوں کا کرایہ بھی خود ادا کرتے۔ اس حوالے سے آپ نے غریب خلقِ خدا کی خدمت کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔ آپ کی حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ تمام آفیسروں کی آپ کے متعلق یہ رائے تھی کہ آپ جس کی بابت سفارش کریں وہ حق پر ہوتا ہے، ناجائز امداد یا غلط بیانی کا آپ کے ہاں تصور نہ تھا۔ آپ کی اس حق بیانی کے باعث دوست و دشمن آپ سے خم کھاتے تھے، آپ جس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے وہ مقدر کا دھنی سمجھا جاتا ۔
مولانا غلام مصطفیٰ بجاطور پر سچے عاشق رسول تھے۔ قادیانیوں کے متعلق کسی بھی قسم کی نرمی یا رواداری کا آپ کے ہاں تصور نہ تھا۔ ان کے نزدیک سانپ اور بچھو سے مصلحت روا تھی، قادیانیوں سے خواب میں بھی اس مصلحت کے روادار نہ تھے۔آپ کا ظاہر و باطن ایک تھا، جس کے ساتھ صلح ہے سو صلح ہے، جس کے متعلق دل میں میل ہے، اس کا اظہار کرنے میں تاخیر نہ کرتے۔ بسا اوقات آپ کی اس روش پر بعض ساتھی ناک بھوں چڑھاتے، لیکن آپ اپنی روش پر قائم رہتے۔ آپ نے قادیانی گروہ کو چناب نگر میں ایسی نتھ ڈال رکھی تھی کہ ان کی قیادت تک کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ ان تمام تر حالات کے باوصف آپ دائیں بائیں کی بجائے اپنی متعین کردہ راہوں پر استقامت کے ساتھ آخر وقت تک گامزن رہے۔
مولانا کی دیگر خوبیوں کے علاوہ ایک یہ خوبی تھی کہ وہ نکاح پڑھانے پر قطعاً ہدیہ قبول نہ کرتے، بلکہ مقدور بھر دولہن و دولہا کو کچھ نہ کچھ پیش کرتے تھے۔ مولانا نے سماجی طور پر اہلِ علاقہ کی بڑی بھرپور خدمت کی۔ موت فوت، خوشی غمی میں برابر شریک ہوکر ان کی خوشیوں کو دوبالا اور غم کو ہلکا کرنے کا شیوہ رکھتے تھے۔
مولانا کا ایک بیٹا ہوا اور تھوڑے دنوں بعد ذخیرئہ آخرت ہوگیا۔ اس کے بعد آپ کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ عرصہ سے شوگر نے بھی گھیر رکھا تھا، اس کا جگر ، گردوں اور نظر پر بھی اثر ہوا۔ نظر کا آپریشن بھی کرایا جو کامیاب رہا۔
 وفات سے ہفتہ دس دن قبل آپ کو پیشاب کی بندش کے صبر آزما مرحلہ سے گزرنا پڑا۔ لالیاں یٰسین ہسپتال سے علاج کرایا، آپریشن کامیاب رہا، گھر تشریف لائے، بظاہر صحت ٹھیک تھی۔ مولانا عزیزالرحمٰن ثانی، دوسرے رفقاء سمیت فقیر عیادت کے لیے حاضر ہوا۔ گردوں اور جگر کے متعلق بتایا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ متاثر ہیں۔ فقیر نے عرض کیا کہ مولانا! وقت متعین ہے، یہ بیماریاں سب بہانہ ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دیں، آخر وقت تک کسی کا محتاج نہ کریں، جب وقت موعود آجائے اللہ تعالیٰ خاتمہ ایمان پر فرمائیں، اس پر وہ بار بار آمین کہتے رہے۔ زندگی میں کہا سنا معاف کرانے کی بابت بھی فرمایا، اس وقت تو فقیر نے ان کے سامنے بات مزاح میں ٹال دی، لیکن جب اُٹھ کر باہر آئے تودل کو چوٹ ضرور لگی کہ مولانا غلام مصطفیٰ نے اس بیماری کو سنجیدہ لیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ خیر فرمائیں۔ 
یہ ملاقات ۲۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو ہوئی اور زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ یکم اپریل ۲۰۲۲ء کو جمعہ کے روز حاصل پور جمعہ پڑھانے کے سفر پر تھا کہ چناب نگر جامعہ عربیہ ختم نبوت مسلم کالونی کے ناظم تعلیمات مولانا محمد الیاس کا فون آیا کہ مولانا غلام مصطفیٰ وصال فرمائے آخرت ہوگئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ ہوا یہ کہ آپریشن کے بعد ایک آدھ دن تو معاملہ ٹھیک رہا،اس کے بعد سانس لینے میں دشواری ہوئی، سمجھے کہ پھیپھڑوں کے نقص نے سر اُٹھایا ہے۔ پہلے سول ہسپتال، پھر الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں داخل کرائے گئے، ان کے عزیز بھی منچن آباد سے تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے، تاآنکہ جمعہ کے دن صبح گیارہ بجے کے قریب اپنی جان حق تعالیٰ کے سپرد کرکے فارغ ہوگئے۔ آپ کو چناب نگر جامعہ ختم نبوت لایا گیا، جمعہ کے روز اڑھائی بجے کے لگ بھگ حضرت مولانا غلام رسول دین پوری شیخ الحدیث جامعہ ہذا کی امامت میں نمازِ جنازہ ہوئی۔ اس کے بعد حضرت مولانا سیف اللہ خالد مسؤل وفاق المدارس درجۂ کتب و مولانا قاری عبدالحمید مسؤل درجہ حفظ وفاق المدارس ضلع چنیوٹ، مولانا الیاس الرحمٰن، قاری عبیدالرحمٰن کی ہمراہی میں آپ کے جسدِ خاکی کو چناب نگر سے منچن آباد لایا گیا۔ رات دس بجے کے بعد آپ کا یہاں جنازہ ہوا، اس کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو رحمتِ حق کے سپرد کردیا گیا۔ حق تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں۔ خوب وقت گزارا، بڑے بہادر، جری اور حق گو انسان تھے۔ ان کی جرأت و پامردی کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ جتنا عرصہ رہے خوب سج دھج سے رہے۔ ’’بھجوبھج، نسّو نس‘‘ میں زندگی گزاری۔ وہ ایک نظریاتی رہنما تھے، اور سراپا وفا تھے، جنازہ بھی ختمِ نبوت کے مرکز سے اُٹھا، رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعۃً۔
 

وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین