بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبید اللہ احرار ؒ

حضرت مولانا عبید اللہ احرار ؒ


گزشتہ دنوں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر کے قدیم اور ہزاروں شاگردوں کےمحبوب استاذ، ممتاز عالم دین، استاذ محترم حضرت مولانا عبید اللہ احرار صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  مختصر علالت کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوگئے، إنا للہ وانا الیہ راجعون۔
استاذ محترم انتہائی ہنس مکھ، ملنسار، شفقت و مسکنت کےپیکر، اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ استاذجی کی پیدائش پنجاب کے علاقے لودھراں (کہروڑپکا) کے ایک گاؤں میں ۱۹۵۷ءمیں ہوئی۔ گاؤں کے قریبی ایک مدرسے میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی، اور اس کے بعد درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم کے لیے ملک کی مشہور دینی درس گاہ باب العلوم کہروڑپکا میں داخلہ لیا۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے جامعہ قاسم العلوم ملتان میں مفتی محمود  رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور یہیں سے ۱۹۷۸ء میں دورہ حدیث کی تکمیل کی۔اس کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان  رحمۃ اللہ علیہ  کی سرپرستی اور مفتی نظام الدین شامزی  رحمۃ اللہ علیہ  کی رفاقت اور معیت میں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جانب جامع مسجد سراج المساجد ملیر ۱۵ میں مسندِ امامت و خطابت پر متمکن ہوئے۔ ۱۹۸۸ء میں مفتی نظام الدین شامزی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایما پر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر تشریف لے آئے اور پھر جامعہ کے ہی ہو کر رہ گئے اور تادمِ واپسیں مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر شاخ جامعہ بنوری ٹاؤن میں تدریس کےساتھ ساتھ دیگر خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔آپ بہترین مجود قاری اور وفاق المدارس العربیہ ضلع ملیر کے مسئول اور بہترین منتظم بھی تھے۔
استاذ جی اپنےبعض اساتذہ کےکہنے پر تبرکاً و تفاولاً سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ  کے نام سے نسبت کرکے اپنے نام کے ساتھ احرار کا لاحقہ لگاتے تھے۔ یہ لاحقہ آپ کے نام کے ساتھ ایسا جڑ گیا تھا کہ آپ طلباء اور اساتذہ کے درمیان احرار صاحب سے ہی مشہور ہوگئے تھے۔
بندہ نے۱۹۹۷ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ رحمانیہ بلال کالونی کورنگی میں اعدادیہ سال اول میں داخلہ لیا، اسباق شروع ہوئے تو پہلے گھنٹے میں ایک صاف ستھرے سفید لباس میں ملبوس، اُجلا سفید رومال سر پر ڈال کر دونوں اطراف شانوں پر لٹکائے، گندمی رنگت، سیاہ ریش،دراز قد شخصیت کلاس میں تشریف لائی، پتہ چلا کہ یہ مولانا عبیداللہ احرار صاحب ہیں اور ہمیں تجوید پڑھائیں گے۔ پہلے ہی دن طلبہ سے قرآن کریم کی تلاوت سنی اور پھر مجھے حکم دیا کہ میں کلاس میں نورانی قاعدہ پڑھاؤں۔ یوں ایک ترتیب بن گئی۔ استاذمحترم روز کلاس میں تشریف لاتے اور ان کی موجودگی میں بندہ کلاس کے ساتھیوں کو اجتماعی طور پر قاعدہ پڑھاتا۔یہ استاذ جی سے بندہ کا پہلا تعارف تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جامعہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر کے حالات کچھ نامساعد تھے، شعبۂ کتب کا تدریسی عمل انتظامی طور پر مدرسہ عربیہ ملیر سے مدرسہ رحمانیہ بلال کالونی منتقل کیا گیا تھا، اسی اثناء میں حضرت استاذ محترم کا تبادلہ وہاں کیا گیا تھا۔ ایک سال تک یہ صورت حال رہی۔پھر جب بندہ نے اعدادیہ اول سے خامسہ تک کے درجات مدرسہ رحمانیہ میں مکمل کیے تو درجہ سادسہ کے لیے ہماری پوری کلاس کو مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر بھیج دیا گیا،جہاں دیگر اساتذہ کرام کے علاوہ ایک بار پھر حضرت مولانا عبید اللہ احرارؒ سے استفادے کا موقع ملا۔ استاذ جی ہمیں دیوانِ حماسہ پڑھاتے تھے،جو تیسری صدی ہجری کے مشہور شاعر اور ادیب ابوتمام حبیب بن اوس ۲۳۰ھ کے مرتب کردہ عربی کے شعری ادب کا کلاسیکل شہ پارہ ہے۔ہمیں حضرت عربی ادب کی دیوانِ حماسہ پڑھاتے تھے، مگر استاذ جی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نےعربی ادب کےساتھ ساتھ اردو ادب کا بھی بڑا اچھا ذوق عطا فرمایا تھا، چنانچہ دیوانِ حماسہ کے اشعار کی لفظی تحقیق کے بعد اپنے مخصوص انداز میں ایسا بہترین بامحاورہ ترجمہ فرماتے کہ دل باغ باغ ہو جاتا۔ ۱۲۵طلبہ کی کلاس کو جب آپ ظہر کے بعد والے پیریڈ میں پڑھاتے اور دھیمی دھیمی آواز میں دیوانِ حماسہ کے اشعار کا بامحاورہ ترجمہ فرماتے تو کانوں میں رس گھول دیتے اور ظہر کے بعد کی کلاس کی روایتی سستی کافور ہوجاتی اور تن بدن میں چستی کی ایک لہر سی دوڑجاتی اور طلباءکاپیاں نکال کر لکھنا شروع کر دیتے۔ اس دوران سبق کی مناسبت سے جا بجا اردو کے اشعار بھی برجستہ پڑھتے جاتے۔
اعلیٰ اخلاق اور منکسر مزاجی کا یہ عالم تھا کہ کبھی استاذ جی کو غصے سے بات کرتے نہیں دیکھا، ظرافتِ طبع کا یہ عالم تھا کہ بات کرکے خود صرف مسکرادیتے اور مجمع کے قہقہے چھوٹ جاتے۔ ایک مرتبہ مدرسہ رحمانیہ شاخِ جامعہ میں تقریری مقابلے کے نتائج سنانے سے پہلے فرمایا: ہم نے مقررین کا بڑی باریک بینی بلکہ ’’خورد بینی‘‘ سے جائزہ لیا ہے۔ پھر دورانِ تقریر طلبہ سے ہونے والی الفاظ کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے اصلاح فرماتے۔ ایک موقع پر جامعہ میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے سلسلے میں طلبہ میں ترغیبی بیان فرمایا، بیان کا آغاز ان الفاظ میں فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے گوشت اور کھال کو جمع فرمایا۔
استاذ جی کی حاضر جوابی اور برجستگی بھی کمال تھی، چنانچہ جب ہم درجہ سادسہ کے لیے مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر شاخِ جامعہ گئے تو وہاں کے ایک پرانے طالب علم نے استاذجی سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ: استاذجی! یہ آپ کے پرانے شاگرد ہیں تو استاذ جی نے مجھ سے فرمایا: آپ نے کہاں مجھ سے پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مدرسہ رحمانیہ میں، اور اس وقت ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی استاذ جی نے برجستہ فرمایا: اچھا ماشاءاللہ آپ کبھی چھوٹے بھی ہوا کرتے تھے؟!۔ استاذ جی کے اس ایک جملے سے ان کی برجستگی،ایک طالب علم سے اظہارِ شفقت اور بڑوں سے بات کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کی تلقین معلوم ہوتی ہے۔ہمارے مدارس میں اور بالخصوص جامعہ اور شاخہائے جامعہ میں سال کے آخر میں طلبہ کے مابین تقریری مقابلے ہوتے ہیں،ان مقابلوں کے دو مرحلے ہوتے ہیں،پہلے مرحلے کو طلباءکی اصطلاح میں چھوٹا مقابلہ اور دوسرے مرحلے کو بڑا مقابلہ کہاجاتا ہے۔ہماری کلاس کے طلبہ کے مابین چھوٹا تقریری مقابلہ تھا، استاذ جی بطور مہمانِ خصوصی مدعو تھے،جیسے ہی استاذ جی مجلس میں تشریف لائے تو اسٹیج سیکرٹری نے استاذ جی کے استقبال میں اشعار پڑھے،اشعار کچھ یوں تھے:

اے بادِ صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیں
کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم پلکیں بچھانے والے ہیں

لیکن اسٹیج سیکرٹری سے دوسرے مصرع میں سبقت لسانی ہوگئی اور انہوں نے یوں کہا:

کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم کانٹے بچھانے والے ہیں

یہ سنتے ہی استاذ جی نے اسٹیج سیکرٹری کی طرف دیکھتے ہوئے برجستہ فرمایا: حقیقت ظاہر ہو ہی جاتی ہے اور مجلس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔
استاذ جی نےدورہ حدیث کی تکمیل جامعہ قاسم العلوم ملتان سے کی تھی۔ آپ مفکرِ اسلام حضرت مفتی محمود  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگردِ رشید و خادمِ خاص اور ان کے عاشقِ زار تھے۔استاذ جی فرماتے تھے کہ: مفتی صاحب نماز کےلیے وضو بنارہے تھے، وضو سے فارغ ہوئے تو میں نے منہ ہاتھ پونچھنے کےلیے رومال پیش کیا اور کسی نے مشینی ذبح سے متعلق تحریری سوال کیا، مفتی صاحب نے کھڑے کھڑے عدمِ جواز لکھ دیا۔ فرماتے تھے کہ: یہ بظاہر مختصر تحریر تھی، لیکن بعد میں یہ مختصر تحریر علمی دنیا میں معرکہ آرا ثابت ہوئی۔ اور پھر یہ شعر پڑھتے تھے:

محمود کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو

محمود تو ہر دور میں انمول رہا ہے

استاذ جی نے سوگواروں میں ایک بیوہ، چار صاحبزادے قاری خبیب احرار، مولوی صہیب احرار، طالب علم شعیب احرار اور قاری عبدالستار احرار، چار صاحبزادیاں اور ہزاروں شاگرد چھوڑے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ استاذ جی کی تمام خدماتِ دینیہ اور مساعیِ جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائیں،ان کی اولاد اور ہزاروں شاگردوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین