بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ

۱۰؍ محرم الحرام ۱۴۳۷ھ ،مطابق ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء بروز ہفتہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے تلمیذ وشاگرد، حضرت اقدس مولانا حماد اللہ ہالیجوی نور اللہ مرقدہٗ کے خلیفہ مجاز، جامعہ حمادیہ شاہ فیصل کالونی کے بانی ومہتمم حضرت مولانا عبدالواحد صاحبؒ اس دنیائے رنگ وبو کی ۸۶؍ بہاریں دیکھ کر عالم عقبیٰ کو روانہ ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ ہمارے اکابر وبزرگ ایک ایک کرکے اس دنیا سے جارہے ہیں اور جاتے جاتے بزبانِ حال یہ فرمارہے ہیں کہ: یہ سرائے دہر مسافرو! بخدا کسی کا مکاں نہیں جو یہاں مقیم تھے کل کے دن کہیں آج ان کا نشاں نہیں یہ سرائے دہر قیام ہے یہ روا روی کا مقام ہے جسے یہ خیال ہے خام ہے جو ثبات چاہو تو یاں نہیں یہ مدام موسم گل کہاں کرے کوئی کیا گلۂ خزاں یہ ستم ہے گردش آسماں بچے اس سے پیر و جواں نہیں یہ ہر ایک قبر پہ بے کسی بزبانِ حال ہے کہہ رہی تمہیں آنکھ چاہیے غافلو! مجھے احتیاجِ بیاں نہیں جو مثال طوطے خوش بیاں دم گفتگو تھے گہر فشاں وہ پڑے ہیں ایسے خموش یاں کہ دہن میں گویا زباں نہیں وہ جہاں خلیل ہے بے بقا نہیں یاں بھروسہ حیات کا وہ ہے کون باغِ جہاں میں گل چلی جس پہ بادِ خزاں نہیں حضرت مولانا عبدالواحد صاحبv ہندوستان کے ضلع غازی پور کے ایک گاؤں شیخ پور میں پیدا ہوئے، اپنے قرب وجوار کے علاقوں میں قرآن کریم حفظ کیا اور ابتدائی دینی کتب کی تعلیم حاصل کی، اس وقت غازی پور میں مدرسہ دینیہ علمائے فن کا مرکز تھا، جہاں آپ نے حضرت مولانا قاری عبیداللہ صاحبؒ سے کسب فیض کیا، بعد میں حضرت قاری عبیداللہ صاحبؒ غازی پور سے یوسف پور چلے گئے تو حضرت مولانا عبدالواحد صاحب جو طالب علم تھے اپنے استاذ کی ہمراہی کی۔ اس مدرسہ میں عربی پڑھنے والا ایک استاذ اور ایک شاگرد۔ وقت کی کوئی قید نہیں تھی، جب بھی موقع ملتا، تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا، استاذ اور شاگرد میں بے تکلفی بھی تھی، کبھی استاذ کھانا پکاتااور شاگرد ہاتھ بٹاتا، کبھی شاگرد کھانا پکاتا تو استاذ ہاتھ بٹاتا، اس طرح موقوف علیہ تک تمام کتابیں اس استاذ پڑھیں، پھر اپنے استاذ کے حکم سے دارالعلوم دیوبند دورہ حدیث کے لیے تشریف لے گئے اور ۱۹۵۰ء میں دورہ حدیث مکمل کرکے آپ نے سند فراغ حاصل کی۔ ۱۹۵۴ء میں پاکستان تشریف لائے، جہاں آپ کے بڑے بھائی جناب عاشق الٰہی صاحب پہلے سے کراچی میں موجود تھے، آپ نے بھی کراچی میں سکونت اختیار کی، پھر تلاشِ مرشد میں ہالیجی شریف تشریف لے گئے، جہاں حضرت مولانا حماد اللہ نور اللہ مرقدہٗ مسند آرا تھے، حضرت مولانا حماد اللہ قدس سرہٗ کے ہاں زندگی بہت سادہ تھی۔ کھانا سادہ، اتنا سادہ کہ ہمارے دور کے متوسط گھرانوں میں اس کا تصور بھی مشکل ہے، آج کل کے لوگوں کے لیے اور کوئی مجاہدہ نہ ہو تو یہی مجاہدہ سخت ترین مجاہدہ ہے۔ حضرت مولانا عبدالواحد صاحب v فرماتے ہیں کہ: ہم لوگ شہر کے رہنے والے، چٹپٹے، مسالے والے کھانوں کے عادی، ہالیجی شریف میں خانقاہ کا کھانا چند روز کھاتے تو منہ سے پانی چھوٹنے لگتا، لیکن یہ خانقاہ کی محبت تھی، ان کے جذباتِ باطن کی کشش تھی کہ ہفتوں بلکہ مہینوں اسی سادگی میں مست رہتے تھے، نام خدا کی حلاوت وہ تھی کہ ہر حلاوت و لذت سے بے نیاز کر رکھا تھا، وہاں کا کھانا کیا تھا، پھر سن لیجئے کہ آج دور تعیش میں یہ ایک نامانوس سی حکایت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت کے یہاں بازار کی بنی ہوئی چیز ’’شجر ممنوعہ‘‘ تھی، نہ مٹھائی اور نہ کوئی اورچیز! خانقاہ  میں اگر کوئی شخص بازار کی پکی اور بنی چیز لاتا تو آپ اسے قبول نہ کرتے اورنہ فقراء خانقاہ میں کسی کو کھانے کی اجازت دیتے، جو کچھ نان نمک ہوتا، وہیں حضرت کے گھر تیار ہوتا، پکانے والے بھی سب ذاکر و شاغل، صاحب تقویٰ وطہارت اور کھانے والے بھی پاک صاف قلب و زبان والے‘ با طنی احوال میں خود بخود ترقی ہوتی چلی جاتی، اوہام و خیالات اور ہجومِ وساوس کا تو شاید وہاں گزر بھی نہ تھا۔ پیر خانقاہ کی شخصیت اتنی طاقت ور تھی کہ غبی اور بے استعداد سالک بھی نورِ معرفت سے منور ہو جاتا تھا۔ حضرت مولانا عبدالواحد صاحبv نے جب مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دیا، تو اپنا سب کچھ دے دیا، ایک عالم خود فرا موشی کا آپ پر طاری ہوگیا، کھا نے، کپڑے، مکان اور سامانِ معیشت کا ہوش نہ رہا، دن رات ذکرِ الٰہی کی محویت رہتی تھی، اعزہ و اقرباء کو افسوس ہوتا تھا کہ اتنا پڑھا لکھا عالم و فاضل نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ دیوانہ سا ہو رہا ہے، لیکن کسی کو کیا خبر کہ یہ دیوا نگی کتنی مبا رک تھی، ہزاروں فرزانگیاں اس پر قربان ـ۔ حضرت مولانا عبدالواحد صاحبv کے ایک مرید جناب اعجاز اعظمی صاحب لکھتے ہیں کہ: حضرت نے ایک مرتبہ فرمایا کہ حضرت والا سے تعلق ہونے کے بعدان کی برکت سے عرصہ تک ذوق و شوق کی عجیب وغریب کیفیات رہیں، ہر وقت ایک سرشاری اور سرور کی کیفیت رہا کرتی تھی، لیکن اچانک جو کیفیت بدلی ہے تو سارا ذوق و شوق کافور، عجیب سی مہجوری کی کیفیت پیدا ہوگئی، ذکروشغل کا سارا لطف جاتا رہا، طبیعت پریشان ہوگئی، اسی پریشانی میں خانقاہ شریف میں حاضری ہوئی، خدمت اقدس میں پہنچ کر بھی وہی افسردگی اور بے کیفی چھائی رہی۔ دل اپنے آپ میں نہ تھا، اسی بے قراری میں‘ میں نے حضرت کے پاو ٔں پر ہاتھ مار کر کہا کہ آپ سے میرا کوئی تعلق نہیں ، نہ آپ میرے پیر نہ میں آپ کا مرید! حضرت نے نہایت سکون اور وقار سے جواب دیا: بیٹا !حال را زوال مقام را دوام یعنی یہ تو حال ہے ، حال چلا جاتا ہے، لیکن جب وہ راسخ ہوکر مقام بن جاتا ہے، تو دائم رہتا ہے۔ ابھی تلوین ہے، بعد میں تمکین حاصل ہوگی ۔ حضرتv فرماتے ہیں کہ مجھے اس جواب سے تسلی نہیں ہوئی ، وہی بے چینی رہی، کچھ دنوں کے بعد میں نے اسی گستاخانہ انداز میں ہاتھ مارکر کہا کہ میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں، نہ آپ میرے پیر نہ میں آپ کا مرید، یہ سن کر حضرت پر ایک کیفیت طاری ہوئی ، حضرت ہمیشہ مجھ سے اردو میں بات کرتے تھے، مگر آج سندھی زبان میں ارشاد فرمایا: پُٹہً مخلوق ساں تعلق چھٹ خالق ساں تعلق کر ’’بیٹا! مخلوق سے تعلق توڑ، خالق سے تعلق جوڑ‘‘ بس اتنا سننا تھا کہ ساری بے قراری کافور ہوگئی اور طبیعت ٹھہر گئی، ایک مقام سخت آیا تھا ، مگر شیخ کی توجہ و کرم سے یہ گھاٹی پار ہوگئی ۔ حضرت مولانا حماد اللہ قدس سرہٗ نے تکمیل سلوک کے بعد بیعت کی اجازت عطا فرمائی۔ حضرت اقدس ۱۹۵۴ء میں کراچی تشریف لے گئے، ۱۹۶۱ء میں آپ کے شیخ کا انتقال ہوا۔ اس چھ سات سال کے عرصہ میں حضرت اقدس بکثرت شیخ کی صحبت میں رہے اور اجازت سے سرفراز ہوئے ۔ جناب اعجاز اعظمی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ: حضرت اقدس سے اس حقیر کو غالباً ۱۴۰۲ھ، مطابق ۱۹۸۲ء میں شرفِ ملاقات حاصل ہوا، غازی پورمیں دو ماہ قیام رہا۔ سفر حضر ،جلوت خلوت میں بکثرت ساتھ رہا۔ سب سے پہلی جو بات دل میں بیٹھی وہ حضرت کی رقتِ قلب اور بات بات پر آنسوؤں کا چھلک پڑنا تھا، اللہ کا ذکر آیا اور آنکھیں برس پڑیں ، رسول اللہa  کا تذکرہ آیا اور دل بے تاب ہوا ، اور یہ بے تابی آنکھوں کی راہ سے بہنے لگی ۔ قرآن کریم کی تلاوت میں، نماز کے اندر رونے اور گریہ و زاری کے تذکرے بزرگوں کے حالات میںپڑھے تو بہت تھے، لیکن مشاہدہ بہت کم ہوا تھا۔ یہ حسرت، حضرت کو دیکھنے کے بعد پوری ہوئی۔ میں نے کراچی کے معمولات میں دیکھا کہ حضرت بعد نمازِ فجر بیٹھ جاتے تھے اور قرآن کی تلاوت زبانی حفظ سے شروع فرماتے، ایک دو صاحب قرآن شریف کھول کر سنتے، قرآن کی تلاوت جاری ہے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، آواز قدرے متاثر ہورہی ہے، کبھی اچھی خاصی گھٹ جاتی ہے، مگر نہ تلاوت کا تسلسل ٹوٹتا ہے، نہ آنکھوں کی روانی میں فرق آتا ہے۔ سننے والے بھی رونے لگتے، دو دو تین تین پارے سناتے اور روتے رہتے، مجھے رہ رہ کر قرآن کریم کی آیت یاد آتی، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ وَإِذَا سَمِعُوْا مَا أُنْزِلَ إِلٰی الرَّسُوْلِ تَرٰی أَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا أٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔‘‘                         ( المائدۃ: ۸۳) ’’جب وہ لوگ اس کلام کو جو رسول پر اتارا گیا ہے ، سنتے ہیں تو تم ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہو کہ آنسوؤں سے بہہ پڑتی ہیں، کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے، ہم کو گواہوں میں لکھ لیجئے ۔‘‘ رسول اللہ aکے احوالِ مبارکہ میں بار بار یہ بات پڑھنے میں آتی ہے کہ قرآن پڑھتے وقت آپa کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے، ایک امتی کی آنکھوں کو اس طرح بہتے دیکھ کر رسول اکرمa کی یاد بے ساختہ دل کو تڑپا جاتی تھی۔ اس خاص انابت واستحضار کے ساتھ موقع موقع پر حضرت کی ذہانت و ظرافت بھی جلوہ گر ہوتی رہتی تھی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انداز اس ذہانت و ظرافت کے امتزاج سے اس قدر پیارا ہوتا تھا کہ آدمی قربان ہوکر رہ جائے۔ ایک صاحب بوڑھے داڑھی مونچھ صاف حضرت کی خدمت میں اپنے پوتے کوگود میں لیے ہوئے حاضر ہوئے کہ حضرت! اسے دم کر دیجئے ، حضرت دم کرنے لگے، بے زبان بچہ اپنے دادا کے منہ پر ہاتھ مارتے ہوئے کچھ غوں غاں کر رہا تھا ، حضرت نے فرمایا کہ: آپ جانتے ہیں یہ کیا کہہ رہا ہے؟ کہہ رہا ہے: اَب ہم آگئے ہیں، سیٹ خالی کیجئے اور جانے کی تیاری کیجئے، داڑھی رکھ لیجئے۔ اب وہاں آخرت کے لحاظ سے رہئے، وہ صاحب بہت متاثر ہوئے اور وعدہ کیا کہ اپنے اندر تبدیلی لاؤں گا۔ ایک صاحب نے حضرت سے سوال کیا کہ مجھے تلاوتِ قرآن سے بہت شغف ہے، اگر میں سارے ذکر و اذکار کو چھوڑ کر تلاوتِ قرآن پر ہی اکتفا کروں تو کیا حرج ہے؟ حضرت نے بے ساختہ فرمایا کہ: اگر آپ کہیں کہ میں تمام غذاؤں کو چھوڑ کر صرف گھی کھایا کروں تو کیا حرج ہے؟ اس پر حکیم اور ڈاکٹر کا جواب کیا ہوگا؟ بس وہ خاموش ہو گئے۔‘‘ حضرت مولانا عبدالواحد صاحبv کی نیکی اور تقویٰ ہی تھا کہ آپ کی تمام اولاد حفاظ اور علماء بنی جو آج بھی دوسرے مشاغل کے ساتھ اپنے والد کے لگائے گئے باغ ’’جامعہ حمادیہ‘‘ کی عمدہ انداز میں حفاظت وآبیاری کررہے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ مزید اُن کو ترقیات سے نوازیں اور اپنے والد ماجد کے لیے ان سب کو صدقہ جاریہ بنائیں، آمین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلٰی أٰلہ وصحبہ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین