بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبد المجید فاروقی  رحمۃ اللہ علیہ 


حضرت مولانا عبد المجید فاروقی  رحمۃ اللہ علیہ 


دارالعلوم کبیر والا کے فاضل، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ (سابق امیرمرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت) کے شاگردِ رشید، جامعہ قاسمیہ شرف الاسلام چوک سرور شہید پنجاب کے بانی، مہتمم، شیخ الحدیث والتفسیر، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نصابی کمیٹی ومجلسِ عاملہ کے رکن، وفاق المدارس العربیہ پاکستان ضلع لیہ ومظفر گڑھ کے مسئول حضرت مولانا عبد المجید فاروقی  ؒ ۵؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۹ جنوری ۲۰۲۱ء کو اس دنیائے رنگ وبو کی اَٹھہتر بہاریں دیکھ کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطٰی وکل شئ عندہ بأجل مسمی۔
نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ایک مرتبہ دریافت فرمایا:
’’ہل تدرون من أجود جوداً؟ قالوا: اللہ ورسولہ أعلم، قال: اللہ تعالیٰ أجود جوداً ، ثم أنا أجود بني آدم وأجودہم من بعدي رجل علم علماً فنشرہ یأتي یوم القیامۃ أمیراً وحدہ أو قال أمۃ واحدۃ‘‘         (مشکوٰۃ،ص:۳۷، کتاب العلم)
ترجمہ: ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والا ہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سخی ہے، پھر میں بنی آدم میں سب سے زیادہ سخی ہوں اور میرے بعد وہ آدمی زیادہ سخی ہے جس کے پاس علم ہو اور وہ اسے پھیلائے، وہ قیامت کے دن اکیلا امیر یا فرمایا ایک جماعت ہوکر آئے گا ۔‘‘
اس حدیث میں ’’جُوْد‘‘ کا لفظ آیاہے، اردو میں اس کا معنی سخاوت کیاجاتاہے، لیکن سخاوت کا تعلق صرف ایک جز مال سے ہوتاہے ، لیکن عربی میں ’’جُوْد‘‘ اس کو کہاجاتاہے کہ علمی، عملی ، دینی،  ایمانی، اخلاقی، معاشرتی ہر اعتبار سے دوسروں کو نفع پہنچایا جائے، لیکن اپنے لیے کسی سے بدلہ کی خواہش نہ ہو۔
اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے تمام مخلوقات کو جتنا نفع پہنچتا ہے، اس کا تصور ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوق خصوصاً انسانیت کو جتنا نفع حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات سے پہنچاہے، وہ کسی اور سے نہیں، خصوصاً دولتِ ایمانی، اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت، اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت، اللہ تعالیٰ کی صحیح بندگی کرنے کا سلیقہ اور طریقہ صرف اور صرف حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہی معلوم ہوا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد اس ایمان کی حفاظت، ایمان کی صحیح پہچان، ایمان کی آب یاری علمائے کرام ہی کرتے ہیں، اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میرے بعد صفتِ جود سے متصف وہ علمائے کرام ہیں جنہوں نے علم دین کو سیکھا اور پھر اس کو پھیلایا۔ 
حضرت مولانا عبد المجید فاروقی  ؒ اس حدیث کا صحیح مصداق تھے، اس لیے کہ جیسے آپ درسِ نظامی سے فارغ ہوئے تو آپ کے والد صاحبؒ نے آپ پر پابندی لگادی کہ آپ نے دینی علوم کی تدریس اور نشر واشاعت بلامعاوضہ کرنی ہے اور آپ کی جو ضروریاتِ زندگی ہوں گی وہ آپ نے اپنی زمین کی پیداوار سے ہی پوری کرنی ہیں، حضرت مولانا عبد المجید صاحبؒ نے اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ نبھایا اور کبھی مدرسہ سے تنخواہ نہیں لی۔ کیا عصری علوم کی ڈگریاں حاصل کرنے والے کوئی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں؟!
حضرت مولانا عبد المجید فاروقی حاجی غلام حسین بلوچ کلاچی قوم کے ایک زمیں دار کے گھر ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے، سات ماہ میں قرآن کریم حفظ مکمل کرلیا، دینی تعلیم کے لیے کوٹ ادو میں مدرسہ مظاہر العلوم میں داخلہ لیا، اس کے بعد دارالعلوم کبیر والا میں داخلہ لیا اور دورہ حدیث تک تعلیم وہاں مکمل کی، فراغت کے بعد آپ کے اساتذہ نے دارالعلوم کبیر والا میں استاذ اور نائب مہتمم مقرر کردیا، بعد میں اساتذہ کی تشکیل پر اپنے علاقہ میں جہاں آس پاس پہلے سے کوئی معیاری مدرسہ قائم نہیں تھا، جامعہ قاسمیہ شرف الاسلام کی بنیاد رکھی، اور اس ادارہ کو دورہ حدیث اور تخصص تک تعلیمی ترقی دی اور آج وہ جامعہ قاسمیہ ایک معیاری اور بڑی جامعات میں شمار ہوتاہے۔ اساتذہ میں سے سب سے زیادہ تعلق حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی نور اللہ مرقدہ سے تھا، آپ ہمیشہ ہرکام میں ان سے مشورہ طلب کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک سال آپ حج پر گئے تو حضرت مولانا عبد المجید صاحب لدھیانوی ؒ نے دو مہینہ تک آپ کی جگہ آپ کے مدرسہ میں دورہ حدیث کے طلبہ کو پڑھایا، آپ تمام دینی جماعتوں کے سرپرست تھے، تمام دینی تحریکوں میں آپ نے حصہ لیا، جمعیت علمائے اسلام سے بھی آپ کو خصوصی تعلق اور محبت تھی، آپ ہمیشہ ان کے پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔
آپ کی جامعہ کے فضلاء علاقہ بھر کے چکوں اورقصبات میں دینی تعلیم کے فروغ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سب کو آپ نے ایک نظم میں پرویا ہوا تھا، جس کی بنا پر آپ کی ایک آواز پر ضلع لیہ اور ضلع مظفر گڑھ میں دینی تحریکات میں وہ سب جمع ہوتے ہیں، عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی چناب نگر کانفرنس میں بھی نہ صرف یہ کہ آپ شریک ہوتے تھے، بلکہ میزبانوں کی طرح خدمات بھی سرانجام دیتے تھے۔
وفات سے دودن قبل روڈ کراس کرتے ہوئے موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہوا، آپ کو ہسپتال لے جایاگیا، آپ وِرد کرتے ہوئے باربار نماز کے تقاضے کے ساتھ اس دنیا سے غنودگی کی حالت میں رخصت ہوگئے۔ آپ کا جنازہ علاقہ کا ایک بڑا جنازہ تھا۔ آپ حق گو عالم دین، مجاہد فی سبیل اللہ، عابد وذاکر اور شب بیدار بزرگ تھے۔ جامعہ مدنیہ بہاولپور اور جامعہ حسینیہ علی پور کی شوریٰ کے رکن تھے، کئی بار آپ کی صدارت میں مجلسِ شوریٰ کے اجلاس ہوئے ، جس میں راقم الحروف بھی شریک ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی تمام حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفرودس میں جگہ عطا فرمائے ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین