بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی  رحمۃ اللہ علیہ  (نائب مہتمم واستاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند)

حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی  رحمۃ اللہ علیہ 

(نائب مہتمم واستاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند)


    ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم واستاذِ حدیث حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی نور اللہ مرقدہٗ ۱۹ ذو الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰ جولائی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ تقریباً ساڑھے چار بجے راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیئ عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
    آپ کی پیدائش صوبہ اُترپردیش کے ضلع سنبھل کے عظیم ترین علاقہ سرائے ترین کے محلہ جھجھران میں ہر دل عزیز اور مقبولِ عام وخاص شاعر جناب نصیر احمد کے گھر ۴ جنوری ۱۹۵۰ء میں ہوئی۔ یہ ضلع مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔    تعلیم وتربیت کے لیے پہلے مدرسہ وحید المدارس سنبھل میں آپ کو داخل کیاگیا، بعد میں مدرسہ شمس العلوم سنبھل میں حفظِ قرآن، ابتدائی اردو، ہندی ، ریاضی، حساب اور دینیات کی تعلیم کے علاوہ درجہ رابعہ تک درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔
۱۹۶۸ء کے آواخر میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں درسِ نظامی کی تمام کتب پڑھنے کے بعد ۱۹۷۲ء میں دورہ حدیث مکمل کیا اور سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی، جو آپ کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ دورہ حدیث سے فراغت کے بعد تکمیل ادب میں داخلہ لیا اور عربی زبان وادب میں خوب مہارت حاصل کی، چنانچہ عربی زبان لکھنے اور بولنے میں آپ کو خوب مہارت حاصل تھی۔ 
آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید فخر الدین مراد آبادی، حکیم الاسلام قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا شریف الحسن دیوبندی، حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی، صدر مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا فخر الحسن مراد آبادی، حضرت مولانا نصیر احمد بلند شہری، حضرت مولانا محمد حسین بہاری، حضرت مولانا عبدالاحد دیوبندی، حضرت مولانا اسلام الحق اعظمی ، حضرت مولانا معراج الحق دیوبندی، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی وغیرہم رحمہم اللہ تعالیٰ تھے۔
۱۹۷۳ء میں مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں تدریس کا آغاز کیا ، چھ سال وہاںتدریس کی، وہاں دورہ حدیث تک کتابیں پڑھائیں۔ ۱۹۷۹ء میں جامع الہدیٰ مراد آباد آگئے، وہاں تین سال تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ۱۹۸۲ء سے اپنی وفات تک تقریباً ۳۹ سال تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے ساتھ ساتھ کئی انتظامی امور میں بھی شریک کار رہے۔ بالآخر آپ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم اور استاذِ حدیث کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ آپ کے چچا حضرت مولانا عبد المعید صاحب سنبھلی مدظلہ اپنی کتاب ’’تاریخ سنبھل‘‘ میں رقم طراز ہیں: 
’’بچپن سے قدرت نے انہیں غیر معمولی دماغی قوت وصلاحیت سے نوازا تھا، زمانۂ طالب علمی ہی میں دارالعلوم پہنچ کر علمی گوہر کھلنے لگے، بایں وجہ وہ اپنے ہم درسوں اور ہم چشموں میں ممتاز اور نمایاں رہے۔‘‘                                   (تاریخ سنبھل، ص:۴۹۵)
آپ نے اصلاحِ باطن اور تزکیہ وسلوک کے لیے فقیہ الامت مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی، آپ کے تلقین کردہ وظائف واوراد پر زندگی بھر عمل کرتے رہے۔ آپ نے کئی کتابیں بھی تالیف کی ہیں:۱:-تحقیقی محاضرات (پانچ جلد)، ۲:-فتاویٰ عالمگیری کے کتاب الایمان کا اردو ترجمہ، ۳:- شیخ عبد المجید زندانی یمنی کی ’’کتاب التوحید‘‘ کا اردو ترجمہ، جو پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مضامین آپ کے فیضِ قلم سے وجود میں آئے۔
آپ کی بیماری کی ابتدا اچانک گرنے سے ہوئی، پھر اور کئی بیماریوں کا ظہور ہوا، سب کا مقدور بھر علاج ہوتا رہا، بالآخر کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور قبرستانِ قاسمی میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا، آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کی تمام حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کے لواحقین، پسماندگان اور متوسلین وتلامذہ کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین