بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی v ( یادگارِ اکابر )

حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی v             ( یادگارِ اکابر )

    ۷؍شعبان المعظم ۱۴۳۵ھ مطابق ۶؍جون ۲۰۱۴ء بروز جمعہ عصر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل اور سابق مدرس، جمعیت علمائے ہند کے کارکن، روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی کے سابق ایڈیٹر، ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی کے ابتدائی دور کے معاون مدیر، ادیب اور کہنہ مشق صحافی، شیخ المشایخ حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی کا وصال ہوگیا ، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     عصر سے پہلے مجھے ان کے انتقال کی خبر آگئی تھی۔ عصر کی نماز کے فوراً بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا رُخ کیا،بحمد اللہ مغرب سے کچھ دیر پہلے جامعہ پہنچ گیا۔ حضرت v کا جسد خاکی جامعہ کے مغربی دروازے سے لایا گیا اور جنازہ گاہ میں رکھ دیاگیا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی مدظلہم (سابق استاذ دارالعلوم دیوبند، استاذ الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن ) نے پانچ منٹ کا خطاب فرمایا، اس کے بعد حضرتؒ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی دامت برکاتہم نے جنازہ پڑھایا۔ جنازے کے بعد حضرتؒ کا آخری دیدار کرایاگیا۔ عشا کے وقت کراچی کے علاقے گلستان جوہر کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ خوب خوب اپنی رحمتوں کی ان کی قبر پر بارش فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین!     آخری دیدار کے وقت ذہن کی یادداشت نے ’’بیتے ہوئے دن‘‘ سامنے کردیئے۔ راقم الحروف نے بچپن سے جن بزرگوں کو وقتاً فوقتاً دیکھا اور ان کا نام سنا، ان میں سے ایک حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی قدس اللہ سرہٗ تھے۔ میرے مرشد اول فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہٗ جب کراچی تشریف لاتے تو حضرت مولاناؒ ان کے ساتھ ساتھ رہتے۔ ہمارے مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ جامع مسجد سٹی اسٹیشن اور گھر پر بارہا آپ کی زیارت حضرت فدائے ملت v کے ساتھ ہوجاتی تھی۔ حضرت فدائے ملتؒ کی حیات میں اور ان کی وفات کے بعد جب بھی میرے مرشد ثانی حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کراچی تشریف لاتے، اس موقع پر بھی حضرت مولاناؒ ساتھ ساتھ ہوتے۔     ۱-ہمارے مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ کے حفاظ کی تنظیم ’’تنظیم القراء والحفاظ‘‘ کی ماہانہ نشست میں مرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہم نے خطاب فرمایا تھا، یہ خطاب سٹی اسٹیشن کی مسجد میں ہوا تھا، اس موقع پر میرے جد امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد نور اللہ مرقدہٗ نے حضرت مولاناؒ سے درخواست کی تھی کہ حضرت مدظلہم کے بیان سے پہلے تعارفی کلمات جناب ارشاد فرمائیں۔ حضرت مولاناؒ نے یہ ذمے داری بہ خوبی نبھائی۔ اس تعارفی بیان میں آپ نے اپنے استاذ وشیخ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہٗ کا واقعہ ارشاد فرمایا تھا کہ غالباً مراد آباد میں ایک جگہ جلسہ تھا، جس میں حضرت شیخ الاسلام v نے بیان فرمایا تھا، تعارف کرانے والے نے کچھ اس طرح تعارف کرایا کہ اب میں جس ہستی کو دعوت خطاب دیتا ہوں، یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اس دنیا میں بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام v کھڑے ہوئے، ارشاد فرمایا کہ انہیں یہ کہنے کا بالکل حق نہیں ہے، اس لیے کہ جناب رسول اللہ a نے جتنی تکالیف برداشت فرمائیں، اتنی تکالیف کسی کو نہیں آئیں۔     ۲-استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں قدس اللہ سرہٗ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا عبد الغنی v نے حضرت شیخ الاسلام v کے ’’مرتبۂ تصوف‘‘ پر ایک کتاب مرتب فرمائی تھی اور اس کا مسودہ حضرت قاری صاحب v کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ آپ اُسے حضرت مولاناؒ کو دکھا کر کچھ لکھوالیجئے۔ حضرت قاری صاحب v نے مجھے حکم دیا کہ حضرت مولاناؒ سے رابطہ کروں اور ملاقات کا وقت طے کروں۔ میں نے حضرت مولاناؒ کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ مولانا کبھی اپنی صاحبزادی کے ہاں گلشن اقبال میں ہوتے ہیں اور کسی وقت اپنے مکان واقع جہانگیر روڈ تشریف لے آتے ہیں۔ حضرت مولاناؒ نے مجھے تاریخ اور دن بتادیا کہ اس دن میں فلاں وقت آجا۔ میں حاضر ہوا، حضرت مولاناؒ نے بزرگانہ شفقت فرمائی، میں نے مسودہ پیش کیا تو بہت دیر تک اسے دیکھتے رہے، پھر ارشاد فرمایا کہ میں اسے پڑھ کر مقدمہ لکھوں گا۔ اس سلسلے میں شاید ایک مرتبہ اور حضرت مولاناؒ کی خدمت میں حاضری دی، لیکن بعد میں وہ مقدمہ لکھا گیا یا نہیں؟ اس کا مجھے علم نہیں، یہ کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے۔     ۳-استاذ محترم ڈاکٹر ابو سلمان صاحب شاہ جہاں پوری مدظلہم (جنرل سیکرٹری مجلس یادگارشیخ الاسلام، پاکستان، کراچی) نے فروری ۲۰۰۹ء میں فرمایا کہ حضرت مولانا سے وقت لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا دل چاہتا ہے۔ میں نے ۱۰؍ فروری کو فون کیا تو آپ نے فرمایا: جب چاہو آجاؤ، لیکن آنے سے ایک گھنٹہ پہلے فون کرلینا، چنانچہ ۱۱؍فروری بدھ کے دن عصر سے پہلے فون کرکے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ بہت خوش ہوئے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے کچھ سوالات کیے، حضرت مولاناؒ نے ان کے جوابات ارشاد فرمائے۔ عصر کی اذان ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ میں اپنی ضعیفی کی وجہ سے پنچ وقتہ نمازوں میں مسجد نہیں جاسکتا، گھر پر ہی نماز پڑھ لیتا ہوں، کبھی کوئی آجاتا ہے تو گھر میں جماعت نصیب ہوجاتی ہے، آج تم آگئے، تم نماز پڑھاؤ، تاکہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکوں۔ضعیفی کی یہ حالت تھی کہ جب ہم مہمان خانے میں بیٹھے تھے اور حضرت مولاناؒ اپنے کمرے سے تشریف لائے تو دونوں ہاتھوں سے دیوار پکڑ کر مہمان خانے میں آئے تھے، لیکن واہ رے قدرت! نماز کھڑے ہوکر پڑھی، یہ ہمارے بزرگوں سے ایک روایت چلی آرہی ہے۔ اولیاء اللہ کے اس قسم کے واقعات کتابوں میں کثرت سے لکھے ہوئے ہیں۔     حضرت مولانا v سے اس مجلس میں جو سنا، وہ یہ ہے:جمعیت علمائے اسلام کی تاسیس پر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی v کا خطبۂ صدارت ’’عصر جدید‘‘ میں چھپا تھا۔ حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہٗ نے جب اسے پڑھا تو مجھے بھی پڑھنے کے لیے دیا، میں نے اسے پڑھ کر حقارت سے رکھ دیا اور عرض کیا: عقل سلب ہوگئی، اندھے ہوگئے۔ حضرت شیخ الاسلام v کو غصہ آگیا، سفر کی حالت میں تھے، جب دوپہر کو کھانے کا وقت ہوا تو حضرتؒ نے از خود کھانے کا ٹفن اٹھایا اور کھانا کھانا شروع کردیا، مجھے پوچھا بھی نہیں، اس سے پہلے سفر میں مجھ سے فرماتے تھے کہ کھانے کے لیے ٹفن اٹھاؤ اور دسترخوان بچھاؤ، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا، میں نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ ٹرین کا سفر تھا، جب شام ہوگئی تو پھر مجھ سے بات فرمائی اور ارشاد فرمایا: مولانا عثمانی جس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ پوری دیانت کے ساتھ اسے انجام دے رہے ہیں، جو بات انہوں نے فرمائی اُسے وہ بہتر سمجھتے ہیں، ہمیں ان کی بات میں شرح صدر نہیں، اس لیے ہم ان سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی شان میں بے ادبی کی جائے۔ یہ حضرت شیخ الاسلام قدس اللہ سرہٗ کا ظرف تھا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں اکابر کے درجات بلند فرمائے، آمین! شیخ التفسیرحضرت مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے متعلق فرمایا کہ میں نے سترہ حج کیے ہیں، ہرحج میں تمام اولیاء اللہ کا اجتماع حضور اقدس a کی سربراہی میں ہوتا ہے، ان اجتماعات میں حضرت مدنی نور اللہ مرقدہٗ سے زیادہ بڑا ولی میں نے کسی کو نہیں پایا۔حضرت علامہ سید سلیمان ندوی v حضرت شیخ الاسلام v سے بیعت ہونے گئے تھے، یہ میرے سامنے کی بات ہے کہ اس موقع پر اس حدیث پر بحث کی جس میں داڑھی ایک مٹھی ہونے کا ذکر ہے۔ حضرت شیخ الاسلام v نے سید صاحبؒ کو فرمایا کہ آپ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے پاس جایئے اور ان سے بیعت کی درخواست کیجئے۔     ۴-یکم مارچ ۲۰۰۹ء اتوار کی صبح دس بجے حضرت مولانا مرحوم سے فون پر اجازت لے کر ان کی خدمت میں پھر حاضر ہوئے، حضرت v نے اپنے حالات قلم بند کرائے۔آپؒ کے آباء واجداد مغلوں کے دور حکومت سے اونچے مراتب پر تھے۔ شیر شاہ سوری کے زمانۂ حکومت میں دہلی کے قرب وجوار میں آباد ہوئے، انہیں ایک جاگیر بھی ملی، جو ’’گلاوٹھی‘‘ کا علاقہ تھا، یہی حضرت مولانا کاوطن تھا۔ ۲۶؍محرم الحرام ۱۳۳۲ھ مطابق ۲۰؍دسمبر ۱۹۱۳ء بروز جمعرات، گلاوٹھی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ ننھیال نے ’’محمد اصلح‘‘ اور منجھلے دادا نے ’’آل حسن‘‘ نام رکھا۔ قمری تقویم کے لحاظ سے تاریخی نام ’’منظر الاعلی‘‘ اور شمسی تقویم سے ’’افضل الفاضلین‘‘ نکلتا ہے۔     آپ کے والد کا نام نامی محمد صالح تھا، آپ کے دادا مولانا سید محمد حسن صاحبؒ حضرت مولانا محمد حسین مراد آبادی v کے خلیفہ تھے، جب کہ آپ کے والد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی v سے بیعت تھے۔ حضرت مولانا مرحوم نے ابتدائی تعلیم سے موقوف علیہ تک ’’مدرسہ منبع العلوم‘‘ گلاوٹھی (جو دارالعلوم دیوبند سے تقریباً دوسال پہلے قائم ہوا تھا) میں ۱۹۲۷ء تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد تین سال مختلف علوم کی تعلیم مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں حاصل کی۔ ا س کے بعد دورۂ حدیث شریف کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور اپنے وقت کے ’’جبال علم‘‘ سے حدیث شریف کی کتابیں پڑھیں۔ آپؒ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیv، اعزاز العلماء حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروہویv، حضرت مولانا رسول خان ہزارویv، حضرت مولانا میاں سید اصغر حسین محدث دیوبندیv، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی v اور حضرت مولانا مفتی ریاض الدین w شامل تھے۔     امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیv، حضرت مولانا مرغوب الرحمن بجنوریv (مہتمم دارالعلوم دیوبند) حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ لاہوری مہاجر مکیv، حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیv (مصنف چراغِ محمد) حضرت مولانا قاری عبد الرؤف ترنالویv، حضرت مولانا محمد ایوب جان بنوریv، حضرت مولانا عبد المنان w آپ کے ہم سبق تھے۔ شعبان المعظم ۱۳۵۱ھ مطابق دسمبر ۱۹۳۲ء میں آپ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔     فراغت کے بعد کچھ عرصہ دیوبند اور دہلی میں رہے۔ ۱۹۳۵ء میں مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی سے ’’مولوی فاضل‘‘ کیا۔ اس کے بعد آپ بھوپال میں ’’علما کونسل‘‘ کے رکن بنا دیئے گئے۔ کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کے بعد آپ بہاولپور چلے گئے اور ’’ادیب فاضل‘‘ کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۳۷ء میں سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی v کی ترغیب سے دہلی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم میں تاثیر رکھی تھی اور اہل علم بھی آپ کی تحریرات کے قدر داں تھے۔ آپ کی تحریری خدمات ’’مؤتمر المصنفین دہلی‘‘، ’’مجلس قاسم العلوم دیوبند‘‘ ،’’استقلال دیوبند‘‘ (اخبار) ’’گل فروش‘‘ (اخبار) ’’ماہنامہ قائد مراد آباد‘‘ سے خوب ظاہر ہوئیں۔ ان خدمات کی بنا پر مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی v اور حضرت سحبان الہند v نے روز نامہ ’’الجمعیۃ دہلی‘‘ کا ایڈیٹر آپ کو بنادیا۔ ساتھ ہی حضرت سحبان الہندv کے ادارے ’’مؤتمر المصنفین‘‘ اور حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی v کے ادارے ’’ندوۃ المصنفین‘‘ میں بطور مؤلف اور مترجم خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۳۸ء تک آپ دہلی میں رہے۔ ۱۹۳۸ء میں ’’الجمعیۃ‘‘ کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اخبار بند ہوگیا۔     ’’جداگانہ وفاق‘‘ کے عنوان سے آپ کا اداریہ معرکۃ الآرا تھا۔ اس میں آپ نے انگریز کی تقسیم ہند کی صورت میں منافقانہ پالیسیوں اور تقسیم کے بعد ہندوستان کی جو حالت زار (خصوصاً مسلمانوں کی) متوقع تھی، اس کو اپنی سیاسی بصیرت سے واضح فرمایاتھا۔دسمبر ۱۹۳۸ء میں ’’الجمعیۃ‘‘ کی ضمانت ضبط اور اخبار کی بندش کے بعد حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بہاری v نے آپ کو  ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ پٹنہ کی ادارت کے لیے منتخب فرمایا۔ ۱۹۴۰ء تک آپ پٹنہ میں رہے، اس کے بعد آپ لاہور چلے گئے اور ’’زم زم‘‘ میں کام کیا، اس کے بعد کچھ عرصہ ’’مدینہ‘‘ بجنور میں کام کیا۔     اسی زمانے میں آپ کی امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد v سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ آپ خود ارشاد فرماتے تھے: ’’مولانا آزادv نہایت عالی اخلاق کے مالک تھے۔ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد v نے مولانا آزادv سے آپ کی ملاقات کے لیے وقت لیا، جو صبح آٹھ بجے کا تھا اورر آپ کو یہ بتلادیا کہ مولانا آزادؒ وقت کے بہت پابند ہیں، آپ کو بھی پابندی کرنی ہوگی، مولانا آزادؒنے دس منٹ کا وقت دیا تھا، مگر مولانا ابو المحاسنؒ نے آپ کو یہ نہیں بتلایا تھا، ان کے گھر کے لان میں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں، آپ جاکر وہیں بیٹھ گئے اور مولانا آزادؒ ٹھیک آٹھ بجے تشریف لے آئے، علیک سلیک کے بعد مولانا آزادؒ نے آپ سے ملاقات کا مقصد پوچھا، آپ نے عرض کیا: ’’صرف زیارت‘‘ اس پر مولانا آزادؒ بڑی دیر تک جزاک اللہ کہہ کر شکریہ ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد مولانا آزادؒ ایک نہایت مشفق استاذ کی طرح آپ کو سیاسیات کا ایک طالب علم سمجھ کر سمجھاتے رہے اور آپ اس وقت تک ان کے پاس بیٹھے رہے جب تک خادم نے اندر سے آواز نہ دے دی کہ جی کھانا حاضر ہے، کیامیں کھانا لگادوں؟ دس منٹ کی ملاقات پانچ گھنٹے پر محیط ہوگئی۔     ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۸ء تک آپ دارالعلوم دیوبند میں فارسی کے استاذ رہے۔ ۱۹۴۸ء میں آپ کو پاکستان آنا پڑا، آپ کی ہمشیرہ بیمار تھیں، ان کی عیادت کے لیے آئے تھے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔  حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیv کے ’’ادارۂ شرقیہ‘‘ میں مدرس رہے۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ ۳۲ سال ریڈیو پاکستان میں کام کیا اور اسلامی موضوعات پر لیکچر دیئے۔ عربی اور فارسی براڈ کاسٹنگ کے فرائض اس کے علاوہ تھے۔ ۶۵-۱۹۶۴ء میں ماہنامہ بینات کراچی سے بھی منسلک رہے۔ ۸۰-۱۹۷۹ء میں تبلیغی کالج (مفتی محمودؒ روڈ) سے منسلک رہے۔     آپ کی مؤلفات اور تراجم میں جو نام معلوم ہوسکے، وہ یہ ہیں:     ۱-دار التصنیف (تبلیغی کالج) کے تحت قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ۔     ۲-اسلامی تمدن اور یورپین تہذیب۔    ۳-امام شافعی v کا علمی سفر۔     ۴-تاریخ مذاہب فقہ۔        ۵-اسلامی تصوف۔     ۶-خلفائے راشدینؓ۔        ۷-شریعت بل اور لیگ۔     ۸-صبح اسلام۔            ۹-المنجد (مترجمین کی کمیٹی میں آپ بھی تھے)۔     آپ کو لکھنے کا کتنا ملکہ حق تعالیٰ شانہ نے عطا فرمایاتھا؟ آپ کی اس تحریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے:     ’’مولانا اختر اسلام صاحب مدیر مجلہ قائد مراد آباد ایک عرصے سے مضمون کے لیے اصرار کررہے تھے، لیکن زمانے کی ستم ظریفی کہوں یا طبیعت کی پراگندگی کہ دو ڈھائی سال کے مسلسل تقاضوں کے باوجود آج تک اپنے اس محترم کے ارشاد کی تعمیل نہ کی جاسکی، اور بالآخر انہی تقاضوں نے اُس طرف خفگی اور اس طرف حجاب کی صورت اختیار کرلی۔ اس مرتبہ قسمت نے جمعیت کے اجلاس جون پور پہنچادیا، حجاب وخفگی کی ملی جلی فضا میں مولانا سے بھی ملاقات ہوگئی اور اسی ملاقات کے نتیجے میں آج کئی دن سے مراد آباد میں نظر بند ہوں۔ اختر صاحب کا فیصلہ ہے کہ جب تک میں ایک عدد مضمون لکھ کر ان کے حوالے نہیں کردوں گا، اس وقت تک مجھے اپنی آزادی کے متعلق اشاداومی نہ ہونا چاہئے۔ تجویز ترمیم کی دسترس سے گزر چکی ہے، خوف ہے کہ کسی مزید ترمیم کا نوٹس لاٹھی چارج کے سامراجی حکم کے لیے وجہ جواز نہ بن جائے ، ناچار تعمیل حکم کررہا ہوں اور اس بے کسی وبے چارگی کے عالم میں کررہاہوں کہ تاریخ کی دو ایک کتابوںکے علاوہ مطالعے کے لیے کچھ میسر نہیں ہے‘‘۔ (قائد، جولائی، ۱۹۴۰ئ،ص:۹)     آپ اندازہ کیجئے کہ کس حالت میں مضمون لکھا ہوگا؟ صرف سرسری نہیں، بلکہ میرے پیش نظر اس مضمون کی پہلی قسط پندرہ صفحات اور دوسری قسط سات صفحات پر مشتمل ہے، اللہ جانے کہ کتنی قسط میں یہ مضمون مکمل ہواہوگا؟ مضمون کی باقی قسطیں نظر سے اوجھل ہیں۔ مضمون کا عنوان ’’کاروانِ اسلام ہندوستان کے غربت کدہ میں‘‘ ہے، جو نہایت اہم ہے۔اسی رسالے میں حضرت مولاناؒ کے ادبی شہ پارے بھی ہیں ’’جنگ کے دو چہرے‘‘ کے عنوان سے اور دوسرا ’’امن کے دوچہرے‘‘ کے عنوان سے۔     آپ کے تلامذہ میں حضرت مولانا عبید اللہ انورv (جانشین حضرت مولانا لاہوریv ) حضرت مولانا نصیر احمد خانv (سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند) پروفیسر مولانا محمد ولی رازی (صاحب ہادئ عالم) کے نام نمایاں ہیں۔     حضرت مولانا مرحوم حضرت شیخ الاسلام v سے بیعت ہوئے، آپؒ کی وفات کے بعد آپؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا پیر خورشید احمد ہمدانی vسے بیعت ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں نے آپؒ کو خلافت دی، لیکن یہ درست نہیں کہ آپ حضرت شیخ الاسلام v کے خلیفہ ہیں۔ نیز یہ بھی درست نہیں کہ آپ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاںv سے اجازت حاصل ہے۔      آپ کے خلفا میں نام ور ماہر اقبالیات جناب امیر احمد عثمانی، حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ، حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزئیؒ، مولانا ابوعمر محمد حنفی، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی مدظلہ، حضرت مولانا مفتی لئیق احمد اسعدی مدظلہ، ڈاکٹر محمد صابر آرائیں، مولانا شبیر احمد مدنی اور دیگر علماشامل ہیں۔     حضرت مولاناؒ کو حضرت شیخ الاسلام v اور ان کے خانوادے سے عقیدت ومحبت تھی، اسی طرح خانوادۂ مدنی بھی ان کا اکرام کرتا تھا۔ مرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدمدنی مدظلہم (صدر جمعیت علمائے ہند) ایک دفعہ پاکستان تشریف لائے تو مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اس سفر میں کراچی صرف تین شخصتیوں کی وجہ سے آیاہوں:ایک حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینیؒ، دوسرے حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ اور تیسرے ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری۔     حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی مدظلہم حضرت مولاناؒ کے جنازے کے موقع پر بیان فرمارہے تھے کہ میں ابھی حال (مئی ۲۰۱۴ئ) میں دیوبند گیا تو سب سے پہلے حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہم نے حضرت مولاناؒ کی خیریت دریافت فرمائی تھی اور واپسی میں کچھ ہدایا حضرت مولاناؒ کے لیے دیئے تھے، جس میں خصوصی طور سے دیوبند کا عطر بھی تھا، جب وہ حضرت مولاناؒ کو پیش کیاگیا تو حضرتؒ نے بڑے تپاک سے اُسے قبول فرمایا، وہ عطر زندگی میں تو نہیں لگاسکے، اس لیے کہ بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں تھے، لیکن انتقال کے بعد وہ عطر آپ کے کفن پر استعمال کیاگیا ہے۔     حضرت مولاناؒ کے نام حضرت شیخ الاسلام نوراللہ مرقدہٗ کا ایک گرامی نامہ درج کررہا ہوں، جو حضرت مولاناؒ نے میری خواہش پر مجھ کو عطا فرمایا تھا، وہ خط یہ ہے:     ’’عزیزم سلمکم اللہ تعالیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ     مزاج شریف، آپ کے متعدد والا نامہ جات خوش کن اور اندوہ افگن ہر طرح کے آئے۔ میرے عزیز! رنج کرنا نہایت غلطی ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَافِیْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَا إِنَّ ذٰلِکَ عَلٰی اللّٰہِ یَسِیْرٌ لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَاتَفْرَحُوْا بِمَا آتَاکُمْ۔     تقدیرات الٰہیہ میں چوں و چرا، رنج و غم کرنا نہایت غلطی ہے، ہم کو اسباب میں کوشش کرنی چاہئے، ناکامی ہو تو کبیدہ خاطر نہ ہوجئے، اگر ایک دروازہ بند ہوا ہے دوسرا کھلے گا۔ جس نے پیدا کیا ہے رزق دے گا۔     اپنے افعال واقوال شریعت اور سنت نبویہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ) کے مطابق کیجئے۔ وہیں رہ کر مشاغل علمیہ میں مشغول ہو جایئے۔ حضرت قاضی صاحب کے زیر نظر بہت سے مدارس ہیں، بلاتنخواہ کتابیں پڑھایئے، تا آنکہ لیاقت درست ہوجائے: صبر کن حافظ بسختیِ روز و شب عاقبت روزے بیابی کام را     جناب قاضی صاحب زیدمجدہم اور مولانا ریاض الدین صاحب کی خدمت میں میرا سلام اور استدعاء دعا عرض کردیجئے۔ دعواتِ صالحہ سے فراموش نہ فرمائیے۔                                                                       والسلام                                                                         ننگ اسلاف حسین احمد غفرلہ                                                                   ۱۲شعبان ۱۳۵۵ھ  (۲۷؍اکتوبر ۱۹۳۶ئ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین