بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا حسن الرحمٰن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا حسن الرحمٰن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ 

مربی ومخدوم کا سایہ اُٹھ گیا


۱۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ/۶؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز جمعرات سحری کرکے فجر کی نماز کے لیے وضو کرکے مسجد جانے کی تیاری میں میرے انتہائی اور ہردل عزیز استاذ محترم حضرت مولانا حسن الرحمٰن عبد اللہ صاحبؒ دل کا دورہ پڑنے سے وصال فرما گئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون!
حضرت الاستاذ نور اللہ مرقدہٗ کی وفات کی خبر مجھے دن نو بجے کے بعد ہوئی، جو اتنی اچانک تھی کہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں کچھ وقت لگا اور یہ محسوس ہوا کہ اپنے جدِ امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے وصال کے بعدیہ دوسرا موقع ہے کہ مربی ومخدوم کا سایہ اُٹھتا ہوا لگا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ دنیا میں جس نے قدم رکھا ہے، اس نے ہرحال میں جاناہے۔ اسی کے تحت ہمارے بڑے گئے اور ایک دن ہم بھی چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آخری وقت میں اپنی رضا وخوش نودی اور ایمان کی سلامتی نصیب فرماکر بلائے۔ آمین!
حضرت الاستاذ نور اللہ مرقدہٗ کی پیدائش چھترپلین ضلع مانسہرہ میں ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ پندرہ سال کے تھے کہ ۱۹۶۳ء میں کراچی لاکر مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن (حال:جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن) میں درجہ حفظ میں داخل کر دیے گئے۔ حفظ قرآن مجید کے بعد شوال المکرم ۱۳۸۶ھ/جنوری ۱۹۶۷ء میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ (حال:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) ہی میں درسِ نظامی میں داخل ہو گئے اور یہیں سے شعبان المعظم ۱۳۹۵ھ/اگست ۱۹۷۵ء میں دورہ حدیث شریف پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت الاستاذؒ کے اساتذہ کرام میں سب اعلیٰ پائے کے جبالِ علم تھے، جن میں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ، نمونۂ اسلاف حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکی، حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ ، حضرت مولانا بدیع الزمان ، امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن، حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید علیہم الرحمہ شامل تھے۔ حضرت بنوری علیہ الرحمہ سے تلمذ کو آپؒ بہت بڑی نعمت قرار دیتے تھے، اور کیوں نہ ہو؟ حضرت بنوریؒ محدثِ کبیر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کے خصوصی تلامذہ میں سے تھے۔
اساتذہ میں سے جو تعلق اور احترام کے اندر بے تکلفانہ تعلق حضرت ؒ کو حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ سے تھا، وہ مثالی تھا، آپؒ نے اپنے استاذِ گرامی کے عقد مسنون کو دیکھا تھا۔ اسے آپؒ کے اپنے الفاظ میں پڑھئے!
’’۱۹۶۴ء میں حضرت مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ کے عقدِ مسنون کی تاریخی تقریب بھی آج تک یاد ہے، کم عمری سے دماغ میں نقش اس مجلس کی رونق محفوظ ہے۔ اتنا معلوم ہوا تھا کہ محدث العصر حضرت بنوریؒ کی صاحب زادی کا نکاح ہے، ہم بھی مسجد (بنوری ٹاؤن) میں دور دور سے وہ حسین منظر دیکھ رہے تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے والد گرامی محدثِ کبیر حضرت مولانا عبد الرحمٰن کامل پوری، حضرت مولانا عبد الحق صاحبؒ سمیت کافی نام ور علمی ہستیاں اس تقریب میں جلوہ افروز تھیں۔ نکاح حضرت بنوریؒ نے خود پڑھایا۔ اس میں جو مشایخ تھے، میں نے ان کو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا، اور کافی ایسے بھی تھے جن کی زیارت سے بعد میں محرومی رہی، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان شخصیات کے بارے میں بہت پڑھا اور سنا، لیکن اپنی زندگی میں اتنے بڑے بزرگوں کو ایک ساتھ شاید پھر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘  (بینات کا امام اہلِ سنت نمبر، ص:۴۷۶)
حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ آپؒ پر مکمل اعتماد فرماتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے ہی میں حضرت مفتی صاحبؒ کی جگہ ریاض مسجد (دہلی مرکنٹائل سوسائٹی) میں ان کے سفر کے دوران نمازیں پڑھاتے تھے۔ فرماتے تھے کہ عجیب انداز سے حکم فرماتے تھے، جس کی لذت آج تک کانوں میں اس طرح گھومتی ہے: ’’میاں! مسجد میں جاکر نماز پڑھاؤ۔‘‘
حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحبؒ نے آپؒ کو دورے کے سالانہ امتحان کے آخری پرچے کے بعد بلایا اور فرمایا: ’’میں گھر والوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں جارہاہوں، تم میری واپسی تک میری جگہ امامت کراؤ۔‘‘ چناں چہ آپؒ اپنے استاذ گرامی کے حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ اسی دوران جامع مسجد شرف آباد سوسائٹی کی کمیٹی نے مسجد میں بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کے لیے آپؒ کا تقرر کیا، اس میں حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ کی مشاورت اور اعتماد شامل تھا۔ چند ہی دنوں بعد حضرت مولانا سید مصباح اللہ صاحب واپس تشریف لے آئے اور ادھر شرف آباد کی مسجد کمیٹی نے آپؒ کو تدریس کے ساتھ امامت وخطابت کی ذمے داری بھی دے دی۔ یہ رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ/ ستمبر۱۹۷۵ کا سن تھا۔
حضرت مفتی صاحبؒ سے آپؒ کے والہانہ وعاشقانہ اور بے تکلفانہ تعلق پر ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ حضرتؒ فرماتے ہیں:
’’بہرحال اسی سال ۱۹۷۵سے لے کر ۱۹۷۷ء تک میرا روزانہ کا تقریباً معمول رہا، میں شام کو اور بعض مرتبہ عشاء کی نماز پڑھا کر سوسائٹی حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں پہنچ جاتا۔ کیا ہی خوب اور حسین زندگی کے وہ دن تھے۔ بعض مرتبہ حضرت مفتی صاحبؒ میرے ساتھ وہاں سے پیدل بہادر آباد تک آجاتے تھے، اورہم وہاں آئس کریم وغیرہ کھاتے، اور پھر حضرت مفتی صاحبؒ میرے اصرار کے باوجود اکیلے وہاں سے واپس چلے جاتے اور میں اپنی جگہ پہنچ جاتا۔‘‘ (بینات نمبر، ص:۴۷۸) 
آپؒ کی بیعت کا تعلق رائے پوری سلسلے کے حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحبؒ سے تھا۔ ان کی وفات کے بعد ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء کے حج کے موقع پر استاذی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ سے بیعت ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد بھی خواہش تھی سیدی ومرشدی حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم (صدر المدرسین دار العلوم دیو بند وصدر جمعیت علمائے ہند) سے بیعت ہوں، لیکن اس کی کوئی سبیل نہیں ہوئی۔ حضرت مولانا ایوب الرحمٰن صاحب انوریؒ نے از خود آپؒ کو خلافت سے نوازا تھا۔ یہ ۱۹؍جمادی الثانیہ ۱۴۲۸ھ/۶/اگست ۲۰۰۴ء کا دن تھا۔ آپؒ نے اس خلافت کو مخفی رکھا۔ میں نے کئی مرتبہ عرض کیا کہ حضرت! اس سلسلے کو بڑھائیے اور مدرسے میں اصلاحی مجالس قائم فرمائیے، ہمیشہ فرمایا:’’میاں! یہ بڑے لوگوں کا کام ہے، ہم جیسے کا نہیں۔‘‘
حضرت بنوری قدس سرہٗ نے ایک زمانے میں ایک تجارتی مکتبہ ’’مکتبہ اسلامیہ‘‘ قائم کیاتھا، جو مسافر خانہ عید گاہ پر تھا۔ اس سے کئی قیمتی کتابیں حضرت بنوریؒ نے شائع کرائی تھیں، جن میں افضل المفسرین شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی  ؒ اور پروفیسر انوار الحسن صاحب شیرکوٹی ؒ کی کتابیں سرِفہرست تھیں، لیکن مکتبہ کے لیے پوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، بالآخروہ بند ہوگیا، لیکن حضرتؒ کی خواہش رہی کہ کوئی ایسا مکتبہ ہو، جو اپنے اکابر رحمہم اللہ تعالیٰ کی قلمی خدمات کی اشاعت کرے۔ حضرت مفتی صاحب نے اس خواہش کی تکمیل آپؒ سے کرائی۔ یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے جو سڑک طیبہ مسجد کی طرف جاتی ہے، اس سڑک پر بائیں ہاتھ پر دوسری دکان ’’مکتبہ بنوریہ‘‘ کے نام سے آپؒ نے قائم فرمائی۔ اس زمانے میں جامعہ کے اردگرد کتابوں کی مارکیٹ نہیں تھی۔ مکتبہ بنوریہ میں دو استاذ اور ایک شاگرد (کل تین) شریک تھے: استاذوں میں حضرت مفتی صاحبؒ اور حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید صاحبؒ اور شاگردِ رشید حضرت مولانا حسن الرحمٰن صاحبؒ!
مکتبہ بنوریہ میں آپؒ شرف آباد مسجد کے مدرسے سے پڑھاکر تشریف لے جاتے تھے، اور خود دکان کھول کر بیٹھتے تھے، نمازوںکے اوقات میں دکان بند کرکے شرف آباد تشریف لاتے اور نمازیں پڑھاتے۔ اس وقت آپؒ ففٹی موٹر سائیکل چلاتے تھے۔ مکتبے کے لیے کتابیں دیگر اداروں سے خریدنی ہوتیں تو آپؒ خود موٹر سائیکل پر مارکیٹ تشریف لے جاتے تھے۔ میرا بھی بچپن اور حفظِ قرآن مجید کا زمانہ تھا، اس وقت حضرت ؒ    کو اپنے ’’مکتبہ رشیدیہ‘‘ میں کتابیں لینے آنا اور خریداری کرنا مجھے یاد ہے۔
آپؒ نے مکتبہ بنوریہ کی ترقی کے لیے آرام وراحت کو قربان کرکے دن رات کو ایک کردیاتھا۔ اس مکتبے سے آپؒ نے حضرت مفتی صاحبؒ کی راہنمائی اور سرپرستی میں کیسی کیسی قیمتی کتابیں شائع کی تھیں؟ ان پر ایک سرسری نظر ڈال لیجئے:
1- معارف السنن(عربی) پانچ جلد میں- حضرت بنوریؒ کی جامع ترمذی کی شرح، اس کے لیے آپؒ نے لاہور کا سفر کیا اور کئی دن وہاں رہ کر اسے چھپوایا اور وہیں سے جلدیں بنواکر کراچی لائے۔ اس سفر میں حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم (حال استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور) اور استاذی حضرت نفیس شاہ صاحبؒ سے آپؒ کی خوب ملاقاتیں رہیں۔
2- مجرباتِ بنوریہ- حضرت بنوریؒ اور ان کے والد گرامی حضرت مولانا زکریا صاحب بنوریؒ کے طبی مجربات، جو حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ نے مرتب فرمائے تھے، اب یہ کتاب مکتبہ بینات نے چھاپ دی ہے۔
3- بصائر وعبر- حضرت بنوریؒ نے ماہ نامہ بینات میں جو اداریے تحریر فرمائے، انہیں حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ نے مرتب فرمادیاتھا، یہ دو جلدوں میں چھپی تھی، یہ بھی اب مکتبہ بینات سے دو مرتبہ چھپ گئی ہے۔
4- نقش دوام- حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحبؒ کے مکمل حالاتِ زندگی جو اُن کے صاحب زادے حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحبؒ نے لکھے ہیں۔ آپؒ جب دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں گئے تھے، تو یہ کتاب لائے تھے، اس کے عکس لے کر یہاں شائع کیا تھا۔
5-القصائد البنوریۃ(عربی)
6-المقدمات البنوریۃ(عربی) وغیرہم!
آپؒ کی جب جامعہ یوسفیہ بنوریہ کے کاموں میں مصروفیت بڑھی تو مکتبہ بنوریہ میں اپنے سے چھوٹے بھائی جناب سیف الرحمٰن صاحب عرف پھلوان بھائی زیدمجدہم کو بٹھایا، اور ایک عرصے تک وہ مکتبہ سنبھالتے رہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مکتبے کے حصے جس جس کے تھے، انہیں دے کر ختم کردیا گیا۔آپؒ کو اپنے بزرگوں کی قلمی خدمات کی اشاعت کا جذبۂ صادق حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ سے ملاتھا۔ آپ نے شرف آباد میں ایک اشاعتی ادارہ بنایا، جو’’ادارہ دعوتِ اسلام‘‘ کے نام سے تھا۔ جب تک آپؒ کی صحت اچھی رہی، اس وقت تک اس سے بھی بہت ہی عمدہ کتابیں شائع ہوئیں، اور اب بھی اس ادارے کو زندہ رکھنے کا جذبہ تھا۔ ’’ادارہ دعوتِ اسلام‘‘ سے جو کتب شائع ہوئیں، ان کے جو نام ذہن میں ہیں، وہ یہ ہیں:
1-مراصد النظر(عربی)- (حضرت مولانا نور الہدیٰ صاحبؒ) ۲جلد
2- المغرب(عربی)- فقہی لغت
3-غیر مقلدین کیا ہیں؟ (دو جلدیں)- سیدی امیر الہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ (صدر جمعیت علماء ہند) نے جو رسائل شائع کرائے تھے، انہیں راقم نے مرتب کیاتھا۔ اس کی اشاعت میں دو ادارے شریک تھے، ایک ادارہ دعوتِ اسلام اور دوسرا مکتبہ اسعدیہ!
4- ملفوظات کشمیری- حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحبؒ کے ملفوظاتِ مبارکہ، مرتب: حضرت مولانا احمد رضا صاحب بجنوریؒ
5-حدود اختلاف- مرتبہ:حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہیؒ
6-اسلام کا مکمل نظام طلاق- مرتبہ:مولانا عبد الجلیل صاحب
7-بہشتی گوہر- (حکیم الامت حضرت تھانویؒ)
8- اشرف الجواب- (حکیم الامت حضرت تھانویؒ) اس کتاب کی اشاعت مکتبہ اسعدیہ اور ادارہ دعوتِ اسلام نے مل کر کی تھی۔
آپؒ نے یہ کتاب ۲۰۰۴ء میں شائع کی تھی، جون ۲۰۰۴ء میں آپؒ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی خواب میں زیارت کی، دیکھا کہ حضرتؒ وضو کر رہے ہیں اور سرخ چمڑے کا جوتا رکھا ہوا ہے، اس کے اندر مٹی ہے، وضو کے بعد حضرتؒ نے امام صاحبؒ کو کپڑا دینا چاہا کہ جوتا صاف ہو جائے، آپؒ نے اپنی جیب سے کپڑا نکال کر جوتا صاف کردیا۔تعبیر اس کی یہ دی گئی تھی کہ اشرف الجواب کی اشاعت سے حضرت حکیم الامتؒ کی روح کو خوشی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ وہ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحبؒ کے فتاویٰ رحیمیہ کی اجازت ملی تھی، آپؒ نے اس کو فقہی ابواب پر استاذی حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب ارشدؒ سے مرتب کرالیا تھا، کتابت کے بعدبہت سے فارم چھپ بھی گئے تھے، لیکن طباعت مکمل ہونا مقدر نہ تھی، وہ فارم طبع شدہ ضائع ہو گئے، اس کا سرورق کاتب الحروف نے کتابت کیا تھا، اسی طرح جناب فیروز احمد صاحب شمسیؒ کا ادارہ ’’شمسی پبلشنگ ہاؤس‘‘ قائم کرانے میں آپؒ کا حکم شامل تھا۔
حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ کی سرپرستی میں شرف آباد کراچی میں مدرسہ یوسفیہ بنوریہ ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۲ء میں آپؒ نے قائم فرمایا، جو بعد میں جامعہ کی شکل اختیار کرگیا۔ حضرت مفتی صاحبؒ اس مدرسے کے بڑے سرپرست ہی نہ تھے، بلکہ حقیقی سرپرست اور روحِ رواں تھے۔ جامعہ علومِ اسلامیہ کے اہتمام وتدریس میں سے جب وقت نکلتا، جامعہ یوسفیہ بنوریہ تشریف لے آتے، بعض مرتبہ دن میں دو مرتبہ بھی آئے۔ مدرسے آکر یہاں کے امور کا جائزہ بھی لیتے اور نہایت قیمتی مشوروں سے نوازتے، اس میں حفظ وناظرے کے ساتھ درسِ نظامی کے اسباق بھی شروع ہوئے۔ ابتدا میں کتابوں کے ایک ہی استاذ تھے، وہ مبارک شخصیت حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب ارشد (نور اللہ مرقدہٗ) کی تھی۔
مدرسہ یوسفیہ بنوریہ کا سب سے نااہل طالب علم یہ کاتب الحروف بھی رہاہے، میرا داخلہ چھٹی کے دن (جمعہ) کو بعد العصر مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود کیا تھا اور ۳۰؍ شوال المکرم ۱۴۰۷ھ/ ۲۷؍ جون ۱۹۸۷ء سے تعلیم شروع ہو گئی تھی۔ کاتب الحروف سے آپؒ بہت ہی شفقت اور محبت فرماتے تھے، اس کی دھیمی سی یادداشت ذہن میں آرہی ہے، چاہتاہوں ذہن سے کاغذ پر منتقل کردوں۔مدرسے میں داخلہ کے بعد آپؒ کا پہلے ہی دن سے یہ حکم تھا کہ ظہر کی نماز کے بعد ان کے گھر آکر دوپہر کا کھانا کھایاکروں۔ آپؒ موجود ہوں یا نہ ہوں، کھانا وہیں کھانا ہوتا تھا، یہ سلسلہ آٹھ سال رہا۔ کاتب الحروف آپؒ کے گھر کا نمک کھایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھنے کی توفیق دے۔
آپؒ کاتب الحروف کے زمانۂ طالب علمی میں بھی کتابوں کی اشاعت کے بارے میں رائے لیا کرتے تھے، حالانکہ آپ تجربہ کار تھے، اور پھر میری رائے کس معنی کی تھی؟ یہ صرف آپؒ کی چھوٹوں کی حوصلہ افزائی تھی، جس کا جذبہ ان میں بہت تھا کہ چھوٹا کچھ بن جائے۔
آپؒ بنین میں کوئی کتاب نہیں پڑھاتے تھے، بنات میں پڑھاتے تھے، لیکن دوسال تک بنین میں ترجمۂ قرآن مجید پڑھایا، خوش قسمتی کہ وہ ہماری کلاس تھی۔ اس طرح سورۂ فاتحہ سے عنکبوت تک ترجمہ آپؒ نے ہمیں پڑھایا۔آپؒ کا سبق بڑا ہی عجیب اور کارآمد ہوتاتھا۔ ہماری کوتاہیوں کی اس میں اصلاح ہوتی تھی، کتنی ہی چیزوں کی اصلاح ہوئی، یہ سب آپؒ کے لیے یقیناً صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی شایانِ شان اس کا اجر عطا فرمائے، آمین!
۱۴۱۲ھ / ۱۹۹۲ء کے حج میں بھی آپؒ کی بعض جگہ معیت رہی۔ حج کے موقع پر میرے جد امجد حضرت قاری صاحبؒ فرماتے: ’’جاؤ! امام صاحبؒ کے پاس ہو کر آؤ۔‘‘ آپؒ نہایت کھلے دل کے تھے۔ اپنے آپ سے شاگرد کو بھی بے تکلف فرمالیا کرتے تھے۔ آپؒ کے پاس دینے والا ہاتھ تھا، کچھ نہ کچھ عطا فرماتے رہتے تھے،محبت اتنی فرماتے تھے کہ اپنے شاگردوں سے ان کی اولاد کی خبر خیریت بھی دریافت فرماتے تھے۔
ہم نے آپؒ کے دسترخوان پر وقت کے بڑے بڑے علماء کو دیکھا ہے، جس میں حضرت مولانا مفتی جمیل خان صاحبؒ، حضرت مولانا اسفندیار خان صاحبؒ، حضرت مولانا نور الہدیٰ صاحبؒ، استاذ محترم حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحبؒ، حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن صاحبؒ، مولانا اقبال اللہ صاحب، مولانا فضل محمد صاحب وغیرہ۔ہائے! اب ہم استاذ محترم کو کہاں ڈھونڈیں گے؟
اللہ تعالیٰ آپؒ کے اس باغ کو قیامت کی صبح تک آب وتاب سے رکھے، آمین!
آپؒ نے حجازِ مقدس کے کئی سفر فرمائے، اور تقریباً ہر سفر میں کسی نہ کسی منزل پر اپنے محبوب استاذ گرامی حضرت مولانا احمد الرحمٰن صاحبؒ کی معیت نصیب میں رہی۔ جس وقت نمازِ جنازہ کے بعد میت قبرستان لے جانے کے لیے اٹھائی گئی، جس دروازے سے باہر آئی تو مجھے وہ منظر یاد آگیا کہ اسی دروازے سے حج بیت اللہ کے لیے روانگی کے وقت آپؒ احرام باندھے ہوئے نیچے نگاہ رکھے ہوئے اپنے تلامذہ اور مداحوں کے درمیان سے گزر کر ہوائی میدان جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہو گئے اور آج بیت اللہ اور ہم سب کے مالک کے حضور کفن میں لپٹے ہوئے اسی دروازے سے برآمد ہوئے، لیکن لوگوں کے کندھوں پر اور گاڑی میں میت رکھ دی گئی۔ دونوں سفر پوری عشق ومحبت کے ساتھ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت فرمائے اور ہم سب کو صبرِ جمیل کے ساتھ ان کے باغ کی حفاظت کرنے والا بنائے۔
آپؒ کی طبیعت میں سادگی تھی اور اپنے آپ کو چھپاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں جنت میں بھی ان کا ساتھ نصیب فرمائے،آمین! بجاہ سید المرسلین  صلی اللہ علیہ وسلم ! 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین