بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا جمیل احمد قاسمی سکروڈھوی رحمۃ اللہ علیہ ( اُستاذ دارالعلوم دیوبندوشارح کتبِ کثیرہ )

حضرت مولانا جمیل احمد قاسمی سکروڈھوی رحمۃ اللہ علیہ

( اُستاذ دارالعلوم دیوبندوشارح کتبِ کثیرہ )


ازہرِ ہند مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کو گزشتہ دنوں ایک اور بڑے صدمہ سے دو چار ہونا پڑا، جب درسِ نظامی کے ایک کامیاب ترین مدرس اور مایہ ناز شارح حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویv  کا سانحۂ ارتحال پیش آیا۔
حضرت مولانا کی شخصیت پاک وہند بلکہ بنگلہ دیش اور پورے اس برِعظیم میں طبقۂ علماء وطلبہ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، کیونکہ  ’’الہدایۃ‘‘ کی شرح ’’أشرف الہدایۃ‘‘، ’’نور الأنوار‘‘ کی شرح ’’قوت الأخیار‘‘، ’’أصول الشاشی‘‘ کی شرح ’’أجمل الحواشی‘‘، ’’منتخب الحسامی‘‘  کی شرح ’’فیضِ سبحانی‘‘ اور ’’مختصر المعانی‘‘ کی شرح ’’تکمیل الأماني‘‘ ایسی معروف ومشہور شروحات ہیں جن سے برِعظیم کے اکثر علماء وطلبہ بخوبی واقف ہیں اور تقریباً ہر ایسے مدرسہ کی لائبریری میں یہ ضرور موجود ہوں گی جس میں درسِ نظامی کا سلسلہ ہے۔
مذکورہ بالا شروحات کے مطالعہ سے ہی مولانا کے اندازِ افہام وتفہیم کی بے مثال خوبی کا اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے دروس کو سمجھانے کی خوب مہارت عطا فرمائی تھی اور اس کا مشاہدہ راقم الحروف کو اچھی طرح ہوا ہے، جس کا تذکرہ آنے والی سطروں میں ہوگا۔
کچھ تذکرہ مولانا کے طالب علمانہ ماضی کا کرلیا جائے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن احوال وماحول سے نکل کر آپؒ کی شخصیت پروان چڑھی۔ 
ضلع سہارن پور کے شمال مغرب میں واقع قصبہ سکروڈھہ میں ۱۹۴۶ء میں پیدا ہوئے، یہ ایک ایسا قصبہ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے بھاری حصے پر مشتمل ہے اور یہ لوگ کھیتی باڑی کرنے والے زمین دار ہیں، جن کا بڑا ذریعۂ معاش یہی زمین داری ہے، چنانچہ مولانا بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا کے خاندان میں دو افراد علمِ دین کے میدان میں آگے بڑھے اور پورا درسِ نظامی مکمل کرکے اشاعتِ علومِ دینیہ کی خدمات میں مصروفِ عمل ہوئے، ان میں سے ایک مولاناؒ کی شخصیت تھی، دوسرے نمبر پر حضرت مرحوم کے چچا زاد بھائی مولانا محمد تحسین صاحب ہیں، جو کہ بقیدِ حیات ہیں۔ حضرت مولانا نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی، جبکہ مولانا محمد تحسین صاحب نے مظاہر علوم سہارن پور سے فراغت حاصل کی۔ مولانا کا سنِ فراغت تقریباً ۱۹۷۰ء ہے۔ جس سال مولانا مرحوم دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، اس سال دو ستارے دارالعلوم کی فضاء میں زیادہ عیاں تھے، یعنی طلبہ کے ماحول میں یہ دونوں امتیازی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے تھے، ایک کا نام ’’جمیل احمد‘‘ تھا، تو دوسرے کا نام ’’شکیل احمد‘‘ تھا۔ یہ دونوں بھائی نہیں تھے، بلکہ دونوں ہم عصر وہم جماعت تھے۔ مولانا شکیل احمد سیتا پوری تھے اور حضرت مولانا سہارن پوری تھے، مگر مولاناؒ نے اپنی کتابوں پر اپنی نسبتِ وطنیہ اپنے مقامِ پیدائش قصبہ سکروڈھہ کی طرف لکھی، جس کی وجہ سے آپ کو سکروڈھوی کی نسبت سے ہی جانا پہچانا جانے لگا۔ 
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا شکیل احمد صاحب سیتاپوری دارالعلوم دیوبند ہی میں مدرس ہوئے اور اپنے اساتذہ واکابرِ دارالعلوم کی معیت وسرپرستی میں مشغلۂ تدریس میں منہمک ہوگئے اور حضرت مولانا مرحوم اپنے برادرِ مکرم مولانا تحسین صاحب مدظلہٗ کی معیت ورفاقت میں مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ یہ ادارہ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی یادگار کے طور پر قائم کیا گیا ہے جو کہ دیوبند سے سہارن پور جانے والے جی ٹی روڈ اور سہارن پور سے دہرہ دون جانے والی شاہراہ کے سنگم پر واقع ہے۔ گاگل ہیڑی کے اس مدرسہ میں مولانا تحسین مظاہری صاحب مہتمم اور حضرت مولانا مرحوم ناظمِ اعلیٰ تھے، چنانچہ اس مدرسہ میں دونوں ہی عظیم الشان درس گاہوں یعنی دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور کے فیوض وبرکات پہنچتے رہے اور دونوں جگہوں سے اکابر کی تشریف آوری اس ادارے میں ہوتی تھی، اور طلبہ واساتذہ کو ان اکابر کی زیارت کا موقع مل جاتا تھا۔ احقر کو اچھی طرح یاد ہے کہ اسی ادارے میں سب سے پہلے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، حضرت مولانا فخر الحسن صاحب صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند اور دیگر حضرات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا۔
یہ کوئی ۱۹۷۶ء یا ۱۹۷۷ء کی بات ہے جب مدرسہ ہذا کے طلبہ کو یہ اُڑتی ہوئی خبر معلوم ہوئی کہ حضرت ناظم صاحب دیوبند جانے والے ہیں اور ان کا تقرر دارالعلوم میں ہوگیا ہے، چنانچہ کچھ ہی مدت بعد حضرت مرحوم دیوبند تشریف لے گئے اور دارالعلوم میں تدریس کا آغاز فرمایا اور اپنے پیچھے مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی کی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ ظاہر ہے کہ اپنے بڑے بھائی مولانا محمد تحسین مظاہری مدظلہٗ کے کندھوں پر ہی چھوڑا جس کو وہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔
احقر جب مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی سے حفظ القرآن مکمل کرکے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوا تو درجۂ ثانیہ میں حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ سے ’’ہدایۃ النحو‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور یہ تھوڑی ہی مدت تک سبق چل سکا کہ دارالعلوم کا قضیۂ نامرضیہ پیش آیا اور یہ سبق بھی دیگر تمام اسباق کی طرح موقوف بلکہ معطل ہوگیا اور چند مہینوں تک اسباق کا سلسلہ تعطل کا شکار رہا۔ تقریباً چھ ماہ کی مدت کے بعد جب طلبۂ دارالعلوم کو مادرِ علمی کی آغوش میں واپسی کا موقع ہوا تو انتظام وانصرام کی صورت حال بدل چکی تھی کہ طلبہ کی سرپرستی کرنے والے صرف چند اساتذہ رہ گئے تھے، جو کہ طلبہ کے ساتھ رہے اور دارالعلوم سے انخلاء کی شش ماہی مدت میں بھی ان کی تعلیم وتربیت کی خدمات انجام دیتے رہے اور اساتذۂ کرام کی بڑی تعداد دارالعلوم کی منتظمہ کے ساتھ رہی، تاہم طلبہ کی تعداد کافی کم رہی۔ ان ہی اساتذہ کرام میں حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ بھی شامل تھے۔ جب طلبۂ کرام کی بھاری اکثریت جو کہ چھ ماہ تک خیموں اور کیمپ میں اپنی تعلیم وتربیت میں مشغول تھی، دارالعلوم میں واپس آئی تو سارا نظام حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ کی قیادت میں فعال ہوا اور باضابطہ تعلیمی مشاغل بحال ہوئے تو منتظمۂ سابق دارالعلوم سے خود بخود بے دخل ہوگئی، تاہم ان حضرات نے بھی تھوڑی سی مدت کے بعد دیوبند کی جامع مسجد میں تعلیمی سلسلہ شروع فرمایا اور نئے داخلوں کا اعلان ہوا تو طلبہ کی ایک بڑی تعداد پورے ملک سے جامع مسجد میں داخلے کے لیے آ پہنچی۔ جامع مسجد دیوبند شروع ہونے والے اس نئے تعلیمی وتربیتی ادارہ کو ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کا نام دیا گیا ، کئی سال تک یہ ادارہ مسجد ہی میں کام کرتا رہا اور طلبہ کے لیے رہائش گاہوں کا انتظام شہر کے مختلف علاقوں میں کرایہ پر عمارتیں لے کر کیا گیا تھا، تاہم چند سالوں بعد دیوبند کی شہری آبادی سے باہر مغربی سمت میں دیوبند کی عید گاہ اور حضرت شیخ الہندؒ کے باغ کے درمیان ایک بڑی اراضی خریدی گئی اور اس پر اب دارالعلوم وقف کی ایک بڑی عمارت قائم ہے۔ دارالعلوم وقف کے مدیر ومہتمم حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ تھے۔
قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ منجھے ہوئے ماہر اساتذہ کرام کی بڑی تعداد دارالعلوم وقف میں مشغول رہی، تاہم مرورِ زمانہ کے ساتھ حالات وواقعات میں نرمی آتی گئی اور باہم دونوں ہی مراکز کے اساتذۂ کرام اور طلبائے کرام آپس میں میل جول رکھنے لگے اور دوریاں قربتوں اور لاتعلقی روابط میں ڈھلنے لگی، اسی اثناء میں محدثِ کبیر حضرت مولانا انظر شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے عیدگاہ اور مزارِ انوری کے متصل ایک شان دار ادارہ قائم کیا جس کا نام ’’جامعۃ الإمام أنور شاہ‘‘ ہے، جس کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اس میں شروع سے ہی عربی زبان میں اسباق پڑھائے جاتے ہیں، گویا یہ ادارہ عربی میڈیم ہے۔ اس کی برکت اس طرح ظاہر ہوئی کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف کے کئی اساتذہ کرام نے امتیازی تعلیم وتربیت کی غرض سے اپنے صاحبزادگان کو ’’جامعۃ الإمام أنور شاہ‘‘ میں داخل کرایا، چنانچہ دونوں ہی مراکز کے اساتذہ اس وجہ سے بھی آپس میں قریب ہوئے۔
اور احوالِ باہمی کی بہتری کی صورت میں حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ ۲۰۰۰ء میں دارالعلوم وقف سے چھٹی لے کر مرکزی دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے، اور اپنی تدریسی خدمات میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ حضرت مولانا مرحوم کی تدریس میں جو بڑی خاص بات تھی، وہ یہ کہ سبق کی توضیح وتفہیم ایسے دل کش انداز میں فرماتے تھے کہ طالب علم کو درس گاہ میں سبق نہ صرف سمجھ میں آجاتا تھا، بلکہ ذہن نشین بھی ہوجاتا تھا۔ حضرتؒ کی توضیح وتفہیم کی منہ بولتی تصویر نہیں بلکہ تصویریں درسِ نظامی کی عظیم کتاب ’’الہدایۃ‘‘ کی شرح ’’أشرف الہدایۃ‘‘، ’’نور الأنوار‘‘ کی شرح ’’قوت الأخیار‘‘، ’’أصول الشاشی‘‘ کی شرح ’’أجمل الحواشی‘‘، ’’منتخب الحسامی‘‘  کی شرح ’’فیضِ سبحانی‘‘ اور ’’مختصر المعانی‘‘ کی شرح ’’تکمیل الأماني‘‘ ہیں، جن کو توجہ سے پڑھنے والا بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت مرحوم کو تفہیمِ دروس کا کیسا ملکہ عطا فرمایا تھا۔
حضرت مرحوم کی گفتگو بڑی صاف، واضح اور بلیغ ہوتی تھی، تاہم دوآبہ کے علاقے کی اُردو زبان میں جو بے لچک کڑا پن ہے، وہ حضرت مرحوم کے اندازِ کلام میں بھی عیاں تھا۔ حضرت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ سامنے والے سے متاثر نہیں ہوتے تھے، بلکہ بجا طور پر اس کو متاثر کرتے تھے، حضرتؒ کو اپنے مشغلۂ تدریس سے اتنی محبت تھی کہ زندگی میں کوئی دوسری مشغولیت اختیار نہیں فرمائی، ہاں! البتہ اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کتابوں کا کاروبار کیا تھا، چنانچہ آپ نے ’’مکتبۃ الحجاز‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ آج سے تقریباً گیارہ سال قبل جب دیوبند حاضری ہوئی تو ایک دن بعد المغرب کا وقت تھا، حضرت مولانا عبدالرشید بستویؒ کے ساتھ احقر دارالعلوم وقف کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں حضرتؒ کا ’’مکتبۃ الحجاز‘‘ آگیا تو مولانا عبدالرشید بستویؒ نے فرمایا کہ: حضرت مولانا جمیل صاحب مکتبے میں تشریف فرما ہیں، چلیں اسی وقت ملاقات ہوجائے، چنانچہ ہم بے تکلف سلام کرکے مکتبہ میں داخل ہوئے، حضرت سے ملاقات ہوئی۔ حال احوال کے بعد احقر نے پوچھا کہ حضرت! یہ کتب کی پیکنگ اور بنڈل سازی آپ خود ہی کررہے ہیں؟ تو حضرتؒ نے ازروئے ظرافت یوں جواب دیا: مولوی شفیق! یہ تو بس اُٹھک بیٹھک ہے اور ہم ہیں اس کام میں ناتجربہ کار، اس لیے بھی ہم جیسا اناڑی آدمی تو ہی اُٹھک بیٹھک کرے ہے اور کیا کرے ہے؟‘‘ بات یہ تھی کہ حضرتؒ کے مکتبہ پر کام کرنے والا لڑکا کہیں گیا ہوا تھا تو حضرت خود ہی کتابوں کے بنڈل بنانے اور ترتیب دینے میں مشغول تھے۔دورانِ گفتگو حضرت نے شفقت فرماتے ہوئے ہمیں فرمایا کہ: کسی دن ہمارے گھر آجاؤ تو ذرا اطمینان سے بیٹھک رہے گی، چنانچہ ہم موقع مناسب پا کر ایک دن بعد المغرب حضرت کے گھر جاپہنچے، کافی دیر تسلی بخش ملاقات رہی، حضرتؒ نے اس ملاقات کے دوران اپنے سفرِ پاکستان کی کچھ روداد بھی سنائی جو ایک گونہ دلچسپی پر مشتمل تھی۔ احقر کی حضرت سے یہی آخری ملاقات تھی اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہ پرویز مشرف نے لال مسجد پر دھاوا بولا تھا تو ہندوستان کے لوگ ہم سے یہی سوال کرتے تھے کہ بھئی! آپ کے ملک میں یہ کیا ہورہا ہے کہ حکومت خود ہی مسجد پر اٹیک کر رہی ہے تو ہم یہاں بابری مسجد اور دیگر مساجد پر ہونے والے حملوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ 
بہرحال ایک وقت تھا جو گزر گیا، لیکن حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ کو ہم نے قریب سے دیکھا، مگر ایک شان دار استاذ، ایک بہترین شارح اور مصنف ہونے کے باوجود کوئی بناوٹ، تصنع یا کبر وغرور وخود پسندی نام کی کوئی چیز حضرت میں نہیں نظر آئی۔ بے جھجک، بے لاگ اور بے تمہید وبے تکلف گفتگو آپ کے مزاج کی نمایاں صفت تھی۔حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ نے ۷۳ سال کی عمر پائی جس میں سے تقریباً چالیس سال دارالعلوم دیوبند میں تدریس کرتے ہوئے گزاری :

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

حضرت مولانا مرحوم جب مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی کے ناظم اعلیٰ تھے، اس وقت حضرت کا ایک صاحب زادہ تھا جس کا نام یاد پڑتا ہے کہ ’’خلیل‘‘ تھا، جو راقم الحروف سے عمر میں تین چار سال چھوٹا رہا ہوگا، حضرت کا یہی ایک بیٹا احقر نے دیکھا ہے، اس کے بعد حضرتؒ کی گھریلو زندگی اور خاندان کی تفصیل علم میں نہیں آئی، تاہم دیگر کئی حضرات نے بھی حضرت مرحوم کی سیرت وشخصیت پر مضامین لکھے ہوں گے، بالخصوص ہندوستان میں تو ان کے ذریعے بھی خاندانی تفصیل معلوم ہوسکتی ہے۔ 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت مولانا جمیل صاحبؒ جیسے لوگ بڑی مدتوں میں لاکھوں میں سے کوئی اِکا دُکا ہی پیدا ہوتے ہیں۔ حضرتؒ نے اپنی عمر کا آخری سال ایک شدید موذی اور تکلیف دہ بیماری میں گزارا ہے، وہ کینسر کا مرض ہے جو حضرتؒ کو گزشتہ ایک سال سے لاحق تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے درجات کی بلندی اور کفارۂ ذنوب کے لیے اس شدید بیماری کو ذریعہ بنا دے، تو اس کی شان کریمی سے کیا بعید ہے، جیسا کہ مختلف روایات میں وارد ہوا ہے کہ اللہ پاک جب اپنے بندۂ مومن کو گناہوں سے پاک صاف کرکے اُٹھانا چاہتے ہیں تو اس کو کسی بیماری میں مبتلا فرما دیتے ہیں اور پھر اسی بیماری کے نتیجے میں اس کو موت کے مرحلے تک پہنچا دیتے ہیں اور اس بیماری جھیلنے کی عوض اس کو گناہوں سے پاک صاف کرکے اُٹھا دیتے ہیں، چنانچہ ہم سب اللہ رب العزت کی شانِ کریمی سے اُمید واثق رکھتے ہیں کہ وہ حضرت الاستاذ مرحوم کی کامل مغفرت فرما کر انہیں درجات کی بلندی نصیب فرمائے گا۔
حضرت مرحوم نے اپنے پسماندگان میں اہلِ خاندان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں تلامذہ اور معتقدین چھوڑے ہیں، جو نہ صرف حضرت کے لیے دعائے خیر کا اہتمام کرنے والے ہیں، بلکہ وہ درحقیقت حضرت کے لیے بیش بہا صدقۂ جاریہ بھی ہیں کہ وہ علم وعمل کی دنیا میں حضرت مرحوم کے فیوض وبرکات کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور آگے ان تلامذہ کے تلامذہ اس سلسلے کو آگے جاری رکھیں تو اس طرح ان شاء اللہ! قیامت تک یہ صدقۂ جاریہ باقی رہے گا اور اس کا بہت بھاری اجر وثواب اللہ تعالیٰ حضرت کو عطا فرماتے رہیں گے۔
دارالعلوم دیوبند میں حضرتؒ نے تقریباً چالیس سال تک تدریس فرمائی، اس اعتبار سے بلاواسطہ آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، تاہم آپ کی مقبولِ عام شروحات سے جن طلبہ اور اساتذہ نے استفادہ کیا اور کررہے ہیں ان کی تعداد بھی بلاواسطہ تلامذہ کی تعداد سے دوگنی بلکہ چوگنی زیادہ ہوگی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ حضرتؒ کو اپنے شایانِ شان بھرپور جزائے خیر عطا فرمائے، اور اپنے مقبول ومحبوب بندوں میں شامل فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
اپریل ۲۰۱۹ء کی پہلی تاریخ بروز پیر صبح نو بجے دارالعلوم کے احاطۂ مولسری میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں دونوں دارالعلوم اور ’’جامعۃ الإمام أنور شاہ‘‘ کے طلبہ واساتذہ کے علاوہ تقریباً مجموعی طور پر پچاس ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ نماز حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری مدظلہٗ نے پڑھائی اور بعد ازاں آپ کو سوگوار ماحول میں مزارِ قاسمی نامی قبرستان میں اکابر دارالعلوم کے مبارک پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم پر اپنے شایانِ شان کامل رحمت فرمائے اور رفعِ درجات سے نوازے اور تمام ہی پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین 

ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین