بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا الحاج عبدالقیوم مہاجر مدنی  رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا الحاج عبدالقیوم مہاجر مدنی  رحمۃ اللہ علیہ 

 

مجاہدِ ختمِ نبوت، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ (ملتان) کے بانی، والد گرامی حضرت مولانا الحاج عبدالقیوم مہاجر مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  جوکہ ماشاء اللہ! عرصہ دراز سے مدینہ منورہ میں مقیم تھے، دوماہ قبل ۲۶ دسمبر ۲۰۱۹ء مطابق ۲۸ ربیع الثانی ۱۴۴۱ھ بروز جمعرات بوقتِ چاشت انتقال فرماگئے ، إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کی زندگی کے چند مبارک نقوش

مدینہ منورہ سے عشق و محبت

والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کا مدینہ منورہ سے عشق و محبت کا عجیب حال تھا، ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ وہ کسبِ معاش کے کاموں میں مصروفیت کے باوجود حضرت جامی  رحمۃ اللہ علیہ  کے عاشقانہ اشعار عجیب ترنم اور رَدھم میں پڑھتے تھے کہ سننے والے بھی چند لمحوں کے لیے اسی کیفیت میں ڈوب جاتے:

زِ مہجوری برآمد جان عالم
ترحم یانبی اللہ! ترحم

’’آپ کے فراق سے کائنات کا ذرّہ ذرّہ جان بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے۔اے رسول خدا! نگاہِ کرم فرمایئے، اے خاتم المرسلین! رحم فرمایئے۔‘‘

نہ آخر رحمۃ للعالمینی
زِ محروماں چرا غافل نشینی

’’آپ یقینا رحمۃ للعالمین ہیں، ہم حرماں نصیبوں سے آپ کیسے تغافل فرماسکتے ہیں؟!‘‘
فرماتے تھے کہ: میں جب پہلی مرتبہ مدینہ منورہ آیا تو میرے دل میں یہ جذبہ تھا کہ اللہ پاک مجھے اس مبارک زمین کے لیے قبول فرمالیں، چاہے مجھے مدینہ منورہ کے باہر کسی کوڑا کرکٹ کی جگہ پر ہی رہنا پڑے۔ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد وہاں قیام کے لیے مجاہدہ کی حد تک محنت کی، تاکہ اللہ پاک یہاں کا قیام آسان فرمادیں۔ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو وہاں کے قیام اور سکونت کی نہ صرف ترغیب دیتے، بلکہ انہیں ہر قسم کے تعاون کے ساتھ مدینہ منورہ کے قیام پر ثابت قدم رکھتے۔ مدینہ منورہ کے ادب کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی چیز گم ہو جاتی تو فرماتے: کسی کو پسند آگئی ہوگی۔ چوری کا لفظ ادب کے طور پر استعمال نہ فرماتے۔ فرماتے کہ: اگر کوئی مجھے جنت البقیع میں ایک قبر کی جگہ کے بدلے بہت بڑا شاہی محل بھی دے دے تو میں کبھی قبول نہ کروں۔ حدیث شریف میں جبل اُحد کی فضیلت وارد ہے کہ: ’’یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کی جب بھی جبلِ اُحد پر نظر پڑتی تو خوشی اور محبت سے چیخ نکل جاتی اور وہ ہم سب کو والہانہ انداز میں متوجہ کرتے کہ دیکھو! جبل اُحد کو دیکھو۔ 
آپ کے سامنے اگر کوئی اہلِ عرب کی مخالفت کی کوئی بات کرتا تو آپ جلال میں آ کر فرماتے کہ: اس مخالفت کی محنت کا رُخ یہودیوں کی طرف کرلو۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ اگر کوئی آپ کے سامنے اہلِ عرب کے بارے میں کوئی کمزور بات کرتا تو آپ فوراً تنبیہ فرماتے کہ: اہلِ عرب وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر کے لوگ ہیں، لہٰذا ان کے بارے میں گفتگو کرتے وقت ادب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اللہ پاک نے آپ کو مدینہ منورہ کے قیام سے مشرف فرمایا اور ’’گلدستۂ تفاسیر‘‘ (۷ جلد) اور ’’دینی دسترخوان‘‘ (۳ جلد) جیسی مقبول تالیفات کی توفیق سے نوازا۔ یہ دونوں کتب مدینہ منورہ کی مبارک فضاؤں میں مرتب فرمائیں۔ ’’گلدستۂ تفاسیر‘‘ کی تالیف کے دوران متعدد مرتبہ خواب میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اللہ پاک نے ’’گلدستۂ تفاسیر‘‘ کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ عوام و خواص سب ہی اس عظیم مجموعۂ تفسیر سے استفادہ کررہے ہیں۔ 
ایک مرتبہ ایک صاحب نے والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  سے جنت البقیع میں تدفین کی مبارک آرزو کا اظہار کیا تو والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: تم اپنے چند بال اور ناخن وغیرہ مجھے دے دو، میں ان کو جنت البقیع میں دفن کردوں گا۔ اس طرح تمہارے جسم کا کوئی حصہ تو جنت البقیع میں پہنچ جائے گا۔

صحبتِ صالح و خلافت

اللہ تعالیٰ نے والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کو بچپن ہی سے اکابر و مشائخ کی خدمت و صحبت کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سید نفیس شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں گئے تو دیکھا کہ ان کی کتابت اور تالیف وغیرہ کے کاغذات بکھرے پڑے تھے تو آپ نے جاتے ہی بلاتکلف ان کاغذوں کو درست کرنا شروع کردیا۔ اللہ پاک نے جسمانی صحت کے اعتبار سے بھی خوب نوازا تھا، تو آپ کی یہی کوشش ہوتی کہ جس بزرگ کی خدمت میں جاتے تو نہایت ذوق و شوق سے بلا تکلف جسمانی خدمت سے بھی گریز نہ فرماتے۔ اللہ پاک نے آپ کو جن اکابر و مشائخ کی خدمت و صحبت سے نوازا، ان میں ایک ہستی حضرت اقدس مولانا عبدالغفور نقشبندی مہاجر مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی ہے۔ حضرت مولانا عبدالغفور نقشبندیؒ والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت سے ایسے فرحاں و شاداں تھے کہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل جب والد گرامی کچھ دنوں کے لیے پاکستان آنے لگے تو والد گرامی کو مخاطب کرکے فرمایا: عبدالقیوم! بہت سے لوگوں نے میری خدمت کی ہے، لیکن ہم تمہاری خدمت کو نہیں بھولیں گے، ہم تمہیں اپنی دُعاؤں میں حیًّا و میّتاً یاد رکھیں گے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہٗ کے سلسلہ چشتیہ کے جن بزرگوں سے والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کو اجازت و خلافت حاصل ہوئی، ان کے اسماء یہ ہیں:
۱:-حضرت مولانا سید قمرالزمان صاحب الٰہ آبادی مدظلہم۔ ۲:-حضرت اقدس نواب عشرت علی خان قیصر  رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۳:-حضرت ڈاکٹر عبدالواحد صاحب  رحمۃ اللہ علیہ ۔ 
حضرت اقدس پیر فضل علی قریشی نقشبندی قدس سرہٗ کے سلسلہ نقشبندیہ کے جن بزرگوں سے والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کو اجازت و خلافت حاصل ہوئی، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
۱:-حضرت مولانا لطف اللہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  (خلیفہ مولانا عبدالغفور عباسی نقشبندی مہاجر مدنی  رحمۃ اللہ علیہ )
۲:-حضرت حاجی محمد حسین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  (ککرے والے) خلیفہ حضرت مولانا عبداللہ بہلوی  رحمۃ اللہ علیہ 
۳:-حضرت ماسٹر اختر حسین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  (خلیفہ حضرت حافظ محمد موسیٰ جلالپوری  رحمۃ اللہ علیہ )
والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کو جن اکابر کی خاص خدمت و صحبت اور خصوصی تعلق نصیب ہوا،ان میں امیرِ شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا محمد علی جالندھری  رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت علامہ محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا شاہ لطف اللہ عباسی  رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ القراء حضرت قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی  رحمۃ اللہ علیہ  جیسے حضرات شامل ہیں۔ امیرِ شریعت  رحمۃ اللہ علیہ  سے خدمت و تعلق کا یہ حال تھا کہ والد ِ گرامی رحمۃ اللہ علیہ  جب بھی امیرِ شریعت  رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں حاضر ہوتے تو شاہ جی فرماتے: ہٹ جائو، اب میری خدمت کرنے والا آگیا ہے۔آخر عمر جب تک صحت نے اجازت دی آپ برابر اکابر و مشائخ کی صحبت و خدمت سے مشرف ہوتے رہے۔ اکابر میں سے کسی کی وفات پر ازخود آگے بڑھ کر غسل اور کفن دفن میں مجاہدانہ خدمات سرانجام دیتے اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے میت کو قبر میں اُتارتے اور بعض دفعہ قبر میں بھی خود اُتر کر لیٹ جاتے اور قبر کو اپنے کپڑوں سے صاف کرتے۔
والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی زندگی میں جن اکابر کی صحبتوں سے باطنی فیض حاصل کیا، حضرت اس دولت کو آگے بھی منتقل فرماتے رہے۔ حضرت والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کی صحبت سے سینکڑوں لوگ مستفید ہوئے، اس کے علاوہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں سولہ (۱۶) احباب کو اس سلسلہ کو چلانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ 

تالیفاتِ نافعہ پر ایک نظر

۱:-گلدستۂ تفاسیر (۷ جلد)۔ ۲:-فوائد القرآن (۳ جلد)۔ ۳:-دینی دسترخوان (۳ جلد)۔ ۴:-ختمِ نبوت کی تاریخی دستاویز۔ ۵:-تعمیرِ انسانیت (۲جلد)۔ ۶:-تحفہ حفاظ ۔ ۷:-عام فہم تعلیمی درس قرآن۔ ۸:-حافظی قرآن مجید (دو ورقی) ۔ ۹:-وصیت نامہ(فارم)۔ ۱۰:-گلدستۂ احادیث۔ ۱۱:-اورادِ فضلیہ کی جدید ترتیب۔ ۱۲:-ختم نبوت کا مختصر تعارف (جیبی)۔ ۱۳:-تلخیص تجریدِ بخاری شریف (مستدلاتِ حنفیہ)۔ ۱۴:-تحفۂ نقشبندیہ ۔
والد گرامی کا یہ بھی معمول تھا کہ کسی بزرگ کا نام سنتے تو سخت تاکید فرماتے کہ: ان کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ ضرور کہو، تمہاری ذرا سی زبان حرکت کرے گی اور اس کے حق میں دُعائے خیر ہو جائے گی۔ ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کے تکرار کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ فرماتے کہ: میرے نام کے ساتھ ابھی سے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کہنے کی عادت بنا لو۔ والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے والدین کی جو خدمت کی، وہ خاندان بھر میںمثالی تھی۔ غالباً ۱۹۶۵ء میں خشکی کے راستہ سے خود حج کے لیے تشریف لے گئے، واپسی پر اپنی قیمتی جائیداد فروخت کر کے والدین کو حج کے لیے لے گئے، جب لوگوں نے جائیداد بیچنے پر اعتراض کیا کہ اتنی قیمتی جائیداد بیچ دی؟ تو فرمایا: میری اصل قیمتی جائیداد میرے والدین ہیں۔ اور قدم قدم پر مثالی خدمت بھی کی۔ اسی خدمت کا ثمرہ ہے کہ ماشاء اللہ! ۹بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو سب کے سب حافظ و قاری ہیں اوردینی خدمات میںمصروف ہیں، اور الحمد للہ اس وقت اولاد دَر اولاد کی تعداد ۱۰۰سے اُوپر ہے۔
والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  ہجرتِ مدینہ منورہ سے قبل خاندانی معاملات میں بڑی محنت سے اپنا کردار ادا کرتے۔ ماشاء اللہ! طبیعت پر دین داری غالب تھی، اس لیے سب خاندان کے لوگ آپ کی بات کو تسلیم کرتے، اگرچہ ان کی طبیعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ وہ جانتے اور مانتے تھے کہ یہ ہمارے خیرخواہ اور ہمدرد ہیں۔ مدینہ منورہ میں مقیم ہمارے بھائیوں کے معاملات میں بھی عجیب حکمت و فراست سے صلح اور باہمی رَواداری کا درس دیتے۔ اور مدینہ منورہ میں مقیم ہمارے بھائی اور ہمشیر گان ہفتہ میں ایک مرتبہ حضرت والد گرامی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں اجتماعی حاضری دیتے، تاکہ کسی کو کسی سے رنج و شکایت ہو تو اسی مجلس میں معاملہ درست کرلیا جائے۔ یہ آپ کی ایسی مبارک صفت تھی کہ آج بھی اہلِ خاندان آپ کو اس حوالہ سے خوب دُعائیں دیتے ہیں۔
آخری دنوں میں زبان پر آیت ’’یَأَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ‘‘ جاری ہوگئی تھی اور بکثرت استغفار اور درود شریف کا معمول تھا۔
اللہ تعالیٰ حضرت حاجی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے فیضِ باطنی کو عام کرنے کے لیے اُن کے خلفاء کرام کو خوب خوب دینی کام کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین