بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مفتی محمد عاصم زکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 

 

حضرت مفتی محمد عاصم زکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی


جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، استاذِ حدیث، جامعہ کی شوریٰ کے رکن، سلسلۂ نقشبندیہ کے بزرگ حضرت مولانا محمد ادریس انصاری نور اللہ مرقدہٗ کے خلیفہ مجاز، کئی اداروں کے سرپرست ومعاون، سماجی خدمات کا نشان، کئی مساجد ومدارس کے معمار، مکتبہ غفوریہ عاصمیہ کے روحِ رواں، ہزاروں علماء کے استاذ، ہر دلعزیز شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی صاحبؒ ۱۷ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ مطابق ۳ دسمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعرات تقریباً ۴ بجے شام اس دنیائے رنگ وبو میں اکسٹھ سال گزار کر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپ کا سلسلۂ نسب یوں ہے: محمد عاصم بن محمد زکی بن حاجی محمد شفیع بن حاجی محمد سعید بن مولانا عبدالغفار۔ آپ کا ایک نام فرقان شفیع بھی تھا۔ عام طور پر آپ کے دوست احباب اور اہلِ خاندان آپ کو ’’مفتی صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
آپ کے آباء واجداد لکھنؤ کے قریب ’’لکھیم پور کھیری‘‘ کے رہنے والے تھے، بعد ازاں آپؒ کے سکڑدادا مولانا عبدالغفار صاحبؒ (جو عالم فاضل تھے) نقل مکانی کرکے صوبہ یوپی کے شہر ’’کانپور‘‘ میں منتقل ہوگئے تھے۔ آپؒ کے پردادا حاجی محمد سعید صاحبؒ نے ۱۸۹۶ء میں پٹکاپور کانپور میں ’’مطبع مجیدی‘‘ کے نام سے ایک مطبع قائم کیا اور کلکتہ شہر میں ’’حاجی محمد سعید اینڈ سنز‘‘ کے نام سے دکان کی ابتدا کی۔ آپ کے والد حاجی محمد زکی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  دنیاوی تعلیم یافتہ تھے، علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی کیا تھا، قیامِ پاکستان تک آپ کے والد صاحب اور دادا نڈیا میں ہی مقیم رہے، پاکستان بننے کے بعد اپریل ۱۹۴۸ء میں آپؒ کے والد صاحب نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں آکر ۱۹۴۸ء میں ایجوکیشنل پریس پاکستان چوک کراچی اور ایچ ایم سعید کمپنی قائم کی اور ۳ مئی ۲۰۰۱ء میں رحلت فرمائی۔
مفتی صاحبؒ کی پیدائش ۲۱ جنوری ۱۹۵۹ء کو کراچی میں ہوئی۔ آپ کے دادا اور والد صاحب دین دار، باشرع اورعلماء وصلحاء سے محبت اور تعلق رکھنے والے تھے۔ آپ کے والد صاحب حاجی محمد زکی صاحبؒ ۱۹۵۹ء میں حضرت مولانا عبدالغفور مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  سے بیعت ہوئے، ان کا اپنے شیخ سے بہت گہرا تعلق تھا، حضرت جب پاکستان آتے تو ان کے گھر ضرور تشریف لاتے۔ مفتی صاحبؒ کی ناظرہ قرآن کریم کی آمین میں بھی حضرت مولانا عبدالغفور عباسی مدنی رحمۃ اللہ علیہ  شریک ہوئے، آمین کے بعد حضرتؒ نے مفتی صاحبؒ کو دعا دی کہ: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں حافظ بنائے۔‘‘ اس کے بعد کچھ دیر مراقبہ میں رہے اور پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں عالم بنائے۔‘‘ حضرتؒ کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں اور مفتی صاحبؒ حافظ بھی بنے اور عالم بھی بنے۔ مفتی صاحبؒ ناظرہ قرآن کریم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے، آٹھویں تک اسکول پڑھنے کے بعد اسکول کی پڑھائی سے دل بھرگیا، اسکول میں آٹھویں تک پڑھائی کے دوران مفتی صاحب قرآن کریم حفظ بھی کرتے رہے، جب آٹھویں جماعت مکمل ہوئی تو مشورہ سے باقاعدہ حفظِ قرآن کا فیصلہ ہوا، ۱۹۷۳ء میں جامعہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) میں حفظِ قرآن کریم کے لیے شعبہ حفظ میں داخلہ لے لیا۔ ۱۱؍ جنوری ۱۹۷۶ء میں حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ کا امتحان لیا، آمین اور آخری دعا کروائی۔ اس کے بعد مفتی صاحبؒ نے ۱۹۷۶ء میں درجہ اولیٰ میں داخلہ لے لیا، ۱۹۸۴ء میں آپ نے دورہ حدیث سے فراغت کے بعد فقہ میں دو سالہ تخصص کیا۔ مفتی صاحبؒ کا پورا گھرانہ پہلے سے دین دار چلا آرہا تھا۔ حضرت مفتی صاحبؒ بھی اپنے خاندان میں ماشاء اللہ حافظ، عالم اور مفتی بن گئے۔ دورانِ درسِ نظامی آپ نے پرائیویٹ امتحان دے کر میٹرک، انٹر اور بی اے نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ ۱۹۸۷ء میں جامعہ میں بطور مدرس تقرر ہوا، ۱۹۸۷ء سے تادم آخر بلاتنخواہ اعزازی طور پر جامعہ میں پڑھاتے رہے۔ شعبہ بنین میں مشکوٰۃ شریف، اور شعبہ بنات میں مسلم شریف اور ترمذی شریف زیرِ درس تھی۔
کاروبار کے اعتبار سے پندرہ بیس سال قبل صرف ایک مکتبہ غفوریہ عاصمیہ قائم کیا تھا، جس کا مقصد اسلاف کی مفید اور نادر وکمیاب کتب کی اشاعت تھی، ان کتب میں سے چند اہم کتب یہ ہیں: ’’صور من حیاۃ الصحابۃؓ‘‘ ، ’’صور من حیاۃ التابعینؒ‘‘ ، ’’ الرسول المعلم( صلی اللہ علیہ وسلم )‘‘ ، ’’اللباب‘‘ ، ’’ العلماء العزاب‘‘ ، ’’قیمۃ الزمن‘‘ سمیت شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ  کی دیگر کتب، اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تقریرِ ترمذی دروس مدنیہ وغیرہ۔‘‘ 
حضرت مفتی صاحبؒ کے والد صاحبؒ نے آپ کو جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے لیے وقف کردیا تھا، اس لیے وہ مکمل طور پر اپنی مادرِ علمی کے ہی ہوکر رہ گئے تھے۔ سوشل ورک اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، لوگوں کے خانگی اور نجی مسائل کو احسن انداز اور حکمت وبصیرت سے حل فرماتے تھے، کئی ٹوٹتے گھروں کو آپ نے اپنی  سمجھداری ، معاملہ فہمی، اور اخلاص کے ذریعہ ٹوٹنے سے بچایا اور بسایا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ ’’بنوری ٹرسٹ‘‘ کے اہم رکن رہے، مساجد ومدارس کے معاملات کی نگرانی اور ان کے مسائل کا حل اور تصفیہ فرماتے تھے۔ بہت سے مدارس اور مساجد کے آپ سرپرست اور بانی تھے۔
حال ہی میں مرض الوفات سے پہلے ۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۲ھ کو بلوچستان کے علاقے پسنی میں ایک مسجد کی تعمیر مکمل کرواکے اس کا افتتاح کروایا، تین سال قبل اس کی بنیاد رکھی تھی، تین سال میں اس کی تعمیرات کے سلسلے میں کئی بار اسفار کیے اور مالی تعاون کیا، اسی مسجد میں علاقہ کا واحد مدرسہ بھی شروع کروایا۔ تھر میں کئی پانی کے کنویں کھدوائے اور وہاں کے کئی ہندوؤں کو مسلمان کیا۔ ۲۰۱۰ء کے سیلاب میں ملک بھر کا دورہ کیا اور متاثرین کو امداد پہنچائی۔ اسی طرح مردان اور خیبرپختونخواہ کے دیگر علاقوں اور چترال میں خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح سونامی طوفان کے حادثہ میں بھی انڈونیشیا وغیرہ اور دیگر مواقع پر برما اور بنگلہ دیش اورکئی ممالک میں امداد لے کر گئے۔ اسی طرح مفتی صاحبؒ نے کئی ممالک کے تبلیغی اور سیاحتی اَسفار بھی کیے۔ نیز آپؒ کا تقریباً ہر سال حج اور عمرے کا معمول تھا۔ 
آپ کی شادی ۱۸ دسمبر ۱۹۸۷ء کو کانپور انڈیا میں اپنی خالہ زاد بہن سے ہوئی، جس کے لیے آپ کانپور تشریف لے گئے تھے، وہاں کے مشہور بزرگ عالم حضرت مولانا صدیق باندوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ کا نکاح پڑھایا تھا۔ آپؒ کی ایک بیٹی ہوئی، جو ماشاء اللہ شادی شدہ اور جامعہ کی فاضلہ بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۱ربیع الثانی ۱۴۴۱ھ مطابق ۷دسمبر ۲۰۲۰ء بروز پیر کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں مفتی محمد عاصم زکی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی یاد میں تعزیتی اجتماع ہوا، جس میں جامعہ اور شاخہائے جامعہ کے کئی ہزار طلبہ نے قرآن کریم کی تلاوت کرکے حضرت مفتی صاحبؒ کے لیے ایصالِ ثواب کیا۔ اس اجتماع میں جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ فاروقیہ کے اکابر اساتذہ اور مفتی صاحبؒ کے اہلِ خانہ، دوست، احباب اور متعلقین نے شرکت کی۔ حضرت مولانا محمد زیب صاحب نے اس موقع پر اپنے بیان میں فرمایا: ’’ہم نے اپنے غم کو ہلکا کرنے کے لیے ایصالِ ثواب کیا۔ مفتی محمد عاصم زکی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  جامعہ کے انتہائی مخلص استاذ تھے ، کروڑوں روپے کے معاملات جامعہ اور دیگر مدارس وفلاحی کاموں کے لیے خرچ کرتے رہے، لیکن کسی کو بتاتے نہیں تھے۔ ا سباق کی پابندی فرمایا کرتے تھے، وقت پر درس گاہ تشریف لاتے۔ مولانا امدا داللہ صاحب سے علالت کے دوران فرمایا: اتنے دن سبق کا ناغہ ہوا، اس کا کیا ہوگا؟ اتنی فکر اُن کو لاحق تھی۔ میری اور مفتی عاصم زکی صاحبؒ اور مفتی عبدالمجید صاحبؒ کی مساجد کے معاملات نمٹانے کی ذمہ داری تھی، بہت احسن انداز سے معاملات کو نمٹاتے۔ جب بھی ملتے پیار و محبت سے ملتے ، ساتھیوں کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ اس کے ساتھ شوریٰ کے رکن تھے اور جامعہ کے خزانچی کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ شعبہ تعمیرات کے بھی نگران تھے، جامعہ کے ہر کام کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ امریکہ، افریقہ، بنگلہ دیش و سری لنکا تک حضرتؒ کے فلاحی کام پھیلے ہوئے تھے ۔ کتنے مساجد ومدارس و ادارے قائم کیے۔ انہوں نے جتناوقت جامعہ کو دیا، اتنا وقت گھر اور کاروبار کو نہیں دیا۔ حضرتؒ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے ہمارے لیے زندگی کا لائحہ عمل طے کیا۔‘‘
حضرت مولانا قاری مفتا ح اللہ صاحب نے فرمایا:

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
ولکنہٗ بنیان قوم تہدما

اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر نہیں کرتے، ان کی وفات کے بعد اس کو ظاہر فرماتے ہیں ۔ مفتی عاصم زکی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کئی خوبیوں کے مالک تھے، بہترین حافظ وقاری اور مدرس تھے، بہترین علم اور عمدہ اخلاق کے حامل تھے، انتہائی درجے کے امانت دار تھے، کتنے ہی مدرسوں کی بنیاد اور کتنے مدرسوں کو امداد دینے والے تھے، ہمیں پتہ بھی نہیں، لوگ اب آکر بتاتے ہیں۔ بخاری شریف میں جمعے کی نماز کے لیے جانے والے کے لیے فی سبیل اللہ کا ذکر ہے تو جو مساجد و مدارس کی خدمت کرتے ہیں، وہ بھی فی سبیل اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب ؒ سے یہ کام خوب لیا ہے اور ان شاء اللہ وہ انبیاء ؑوصدیقینؓ و شہداءؒاور نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ قرآن کریم میں آیتِ مبارکہ ہے:
’’وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔‘‘         (سورۃ النساء: ۶۹) 
’’سو وہ اُن کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے اُن کی رفاقت۔‘‘
اورایسے لوگ مزے میں ہوںگے : 
’’عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللّٰہُ: أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَئُ وْا إِنْ شِئْتُمْ: ’’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ۔‘‘    (متفق علیہ)
’’ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا (یعنی دنیا میں جو آدمی ہیں ان کی آنکھوں نے)، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل میں اُن کا تصور آیا اور یہ مضمون اللہ کی کتاب میں موجود ہے، کوئی نہیں جانتا جو چھپایا گیا ہے اُن کے لیے آنکھوں کا آرام، یہ بدلہ ہے ان کے کاموں کا۔‘‘
آخر میں جامعہ کے استاذِ حدیث و ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا مفتی امداد اللہ یوسف زئی صاحب نے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’ایسی موت قابلِ رشک ہے جس کی اتنی لاتعداد روحانی اولاد ہو اور یہ علومِ نبوت کے حاملین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے استاذ و محسن کے لیے ایصالِ ثواب کیا کرتے ہیں۔ بھائی عاصم ؒ وہ شخصیت تھی جس کے خمیر میں اللہ نے خیر ہی خیر رکھی تھی، اور اپنی پوری زندگی اشاعتِ علوم میں لگائی ۔ میرا اتنا تعلق اپنے سگے بھائیوں کے ساتھ نہیں تھا، جتنا عاصم بھائی  ؒکے ساتھ تھا۔ ۱۹۷۶ء سے ہمارا تعلق تھا جب میں درجہ اولیٰ میں داخلے کے لیے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن آیا تو عاصم بھائی ؒنے جامعہ میں حفظ مکمل کرلیا اور درجہ اولیٰ میں انہوں نے داخلہ لینا تھا، ہم دونوں کا داخلہ ہوا اور ایک تپائی پر ہم دونوں بیٹھے اور وفات تک تعلق رہا ۔ میں نے زندگی میں ان جیسا رازداروامانت دار شخص نہیں دیکھا۔ کبھی غیبت کرتے نہیں پایا، اور نہ ہی غیبت سنتے تھے۔ آپ بھی اس مجلس میں عہد کریں کہ ہم بھی کسی کی غیبت نہیں کریں گے۔ غیبت کے بارے میں صحیح مسلم میں حدیث آئی ہے:
’’عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَؓ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَۃُ؟ قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ، قِیْلَ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ فِيْ أَخِيْ مَاأَقُولُ؟ قَالَ: إِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ، فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَہَتَّہٗ۔‘‘   (صحیح مسلم)
’’حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:(غیبت یہ ہے کہ) تو اپنے بھائی کے اس عیب کو ذکر کرے جس کا تذکرہ کرنا اُسے ناپسند ہو۔ عرض کیا گیا: ذرا یہ بتائیے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب واقعتا پایا جاتا ہو (تو کیا یہ بھی غیبت ہے؟) فرمایا: اگر وہ عیب اس میں موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تب تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘
والدین نے اُن کو جامعہ کے لیے وقف کیا تھا، انہوں نے آخر دم تک جامعہ اور دین کے ساتھ تعلق رکھا، حضرت مفتی نظام الدین شامزیؒ کی وفات کے بعد لوگوں نے مجھے مفتی صاحبؒ کا دست و بازو سمجھ کر فون کیے اور کہا کہ: ہمارے ساتھ مفتی نظام الدین شامزی ؒ نے فلاں فلاں تعاون کیا، لیکن اس بارے میں مجھے معلوم نہیں تھا۔ اسی طرح بھائی عاصم زکیؒ کے انتقال کے بعد بھی فون کا سلسلہ جاری ہے، اب مجھے ان کا بھی معلوم ہوا کہ کتنے اخفاء سے کام لیا کرتے تھے۔ زلزلہ یا سیلاب کی صورت میں صف اول میں آگے آگے ہوتے ۔ زلزلے یا سیلاب میں ادارے کی طرف سے صرف ہم دونوں بھائیوں نے ساڑھے تین کروڑ کی چادریں تقسیم کیں، اور جو پیسے اس سے بچ گئے تو ضلع ہزارہ میں ۱۵۰ اجتماعی شادیاں کروائیں۔ اسی طرح سوات اور نوشہرہ میں جب سیلاب آیا تو وہاںبھی بہت سے گھر بنوائے اور ۱۳۵ اجتماعی شادیاں کروائیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی  رحمۃ اللہ علیہ  کو سانس اوردمے کی شکایت رہتی تھی، تکلیف بڑھی، انڈس ہسپتال میں داخل کرایا گیا، کئی دن بیمار رہنے کے بعد ۱۷ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ مطابق ۳ دسمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعرات شام تقریباً چار بچے انڈس ہسپتال میں آپؒ کا انتقال ہوا۔ جمعہ کی رات دس بجے جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے نائب رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری، آپ کے برادران بھائی فیروز زکی صاحب اور بھائی شاہد زکی صاحب، آپ کے داماد، آپ کے سفر و حضر کے وفاشعار احباب بھائی جنید اسلم صاحب، ڈاکٹر سلیم صاحب، شیخ آصف صاحب، آپ کے اعزہ و اقربا، دوست احباب کے علاوہ جامعہ کے اساتذہ ، طلبہ اور عوام الناس کی کثیر تعداد کی موجودگی میں جامعہ کے استاذِ حدیث وناظمِ تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ یوسف زئی صاحب کی اقتداء میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، اور تدفین ڈالمیا قبرستان میں اپنی والدہ ماجدہ کے قریب ہوئی۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹی ، دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ  کی والدہ صاحبہؒ کی وفات بھی تیرہ دن قبل ہی ہوئی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مفتی محمد عاصم زکی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اور آپ کی والدہ محترمہؒ کی مغفرت فرمائے، اُن کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے۔ جامعہ کو مفتی صاحبؒ کا بدل عطا فرمائے اور آپؒ کے لواحقین ، متعلقین اور مخلصین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔ 
قارئینِ بینات سے حضرت مفتی صاحبؒ اور اُن کی والدہ محترمہؒ کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین