بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مفتی عبدالمجید دین پوریؒ اور اُن کے رفقاء کی شہادت

حضرت مفتی عبدالمجید دین پوریؒ  اور اُن کے رفقاء کی شہادت    

    اس معاشرے کی سعادتوں کا کیا کہنا، جہاں قوم و ملت کے مخلصین‘ علومِ نبویؐ کے اصل وارثین کی تعداد انگلیوں کے پوروں تک ہی محدود نہ ہو، بلکہ وہ کئی ایک بھی ہوں اور قدآور بھی۔ وہ عظمتوں کے حامل ہی نہ ہوں، عظمتیں ان پر نچھاور ہونے کے لئے بے تاب ہوں۔ نور کی کرنیں ان کے وجود سے پھوٹیں تو پورے معاشرے کو روشن کردیں ،یقینا ایسا معاشرہ خوش بختی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ البتہ جہاں کہیں ایسی شخصیات کی تلاش بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن جائے، وہاں صرف تاریکیوں کی حکمرانی ہوتی ہے اور ایسا معاشرہ ہر قسم کی سعادت سے محرومی کا داغ اپنے ماتھے پر سجائے رکھتا ہے۔     محرومی کا یہ داغ اس وقت کچھ اور نمایاں ہوجاتا ہے جب معاشرے میں موجود گنتی کی چند تابندہ شخصیات کے وجود کو تاریکیاں نگلنا شروع کردیں۔ پاکستانی معاشرہ محرومی کا یہی داغ لئے ہوئے اپنی تاریخ کے اس بدقسمت ترین دور سے گذر رہا ہے، جس میں اُجالوں کے پیامبروں سے تو جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے، جبکہ تاریکیوں کے مجسمے طولِ اَمل کو آنکھوں میں سجائے ہر چیز پر اپنا ’’استحقاق‘‘ مسلط کئے جارہے ہیں۔ہماری آنکھیں دیکھتی ہی رہ گئیں اور عظمتوں کے کئی ایک کوہِ گراں‘ تاریکیوں کے اژدہوں کی نذر ہوگئے۔     کئی سال گزرنے کے باوجود مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختارؒ، مولانا مفتی عبد السمیعؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزئی ؒ کی جدائی کا داغ آج بھی سینوں پر نمایاں ہے۔ مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ، مولانا سعید احمد جلال پوریؒ، مولانا مفتی عتیق الرحمنؒ، مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کا غمِ فرقت آج بھی بھلائے نہیں بھولتا۔ جامعہ احسن العلوم کے مولانا مفتی محمد اسماعیلؒاور شہداء طلباء کے زخم ابھی مندمل ہی نہیں ہوئے کہ اب ظالموں نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے صدر مفتی مولانا مفتی عبدالمجید دین پوریؒ اور ان کے رفقاء سے قوم کو محروم کردیا۔      مفتی عبدالمجید دین پوریؒ کی شخصیت اپنی جگہ گوہر تابدار تھی، قوم کا انمول سرمایہ تھی، ملک و ملت کا گرانقدر اثاثہ تھی، لیکن تاریکیوں نے اُجالوں کے سفر کے آگے بند باندھنے کے لئے اُس تابندہ شخصیت ہی کو آخرت کا راہی بنادیا، اس امر کا ادراک کئے بغیر کہ اُس شخصیت کی تابناکیاں اُن کے فانی وجود کے ختم ہونے سے مٹ تو نہیں جائیں گی، حق و صداقت پر مبنی جس نظریے اور جس دین کے وہ علمبردار تھے، اُسے تو فنا نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے کسب فیض کرتے ہوئے انہوں نے رُشد وہدایت کی کرنیں بکھیرنے کا جو عمل شروع کر رکھا تھا، اس پر تو موت وارد نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اس کو تکمیل تک پہنچانے کا کام تو سراپا نور ذات نے خود ہی سنبھال رکھا ہے۔     مولانا مفتی عبدالمجید دین پوریؒ اسلام کے داعی‘ نظریۂ پاکستان کے جری اور بے باک محافظ تھے، اس ضمن میں نہ تو وہ کسی مُصالحت کے قائل تھے اور نہ ہی کسی مُداہنت کے۔ اگر کسی بھی طرف سے اسلام، ختم نبوت، عظمتِ صحابہؓ اور نظریۂ پاکستان پر حملہ ہوتا تو وہ شمشیرِ بے نیام بن کر اسلام کے دشمنوں کا تعاقب کرتے اور ان کے چھکے چھڑا دیتے۔     اِس ضمن میں ان کے فتاویٰ، مساعی، مجاہدانہ کرداراور تحریر و تقریر کی کاٹ غضب کی ہوا کرتی تھی، وہ نہ کسی قوت و سطوت کو خاطر میں لاتے اور نہ کسی اقتدار و اختیار کو، وہ جو بات بھی حق سمجھتے، بلاخوفِ لومۃ لائم اس کا برملا اظہار کرتے۔ وہ اس سے بھی بے نیاز تھے کہ کوئی مقتدر اُنہیں نقصان پہنچا سکتا ہے، وہ تو حقیقی مجاہد تھے، ایسے مجاہد جو کسی جابر ترین حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے نہیں جھجکتا، خوفزدہ نہیں ہوتا۔ ہر دور، ہر اقتدار اور ہر قسم کی یلغار میں ان کی جرأتِ رندانہ بے مثل رہی، ان کی دوستی اور دشمنی ’’الحب للّٰہ والبغض للّٰہ‘‘ کے فرمانِ نبویؐ کی عملی تفسیر تھی۔      جو شخص دین اسلام کی سربلندی، دفاع صحابہؓ، ناموسِ رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے لئے کام کرتا، پاکستان کی نظریاتی اَساس کی جنگ لڑتا وہ اُن کا محبوب ہوتا اور جسے اللہ تعالیٰ کے آخری وحتمی دین سے نفرت ہوتی، ناموسِ رسالت اور صحابہ کرامؓ سے کد ہوتی اور محمد عربی ا کی محبت سے جس کا دل سرشار نہ ہوتا، مولانا مفتی عبدالمجید دین پوریؒ اس سے کوسوں دور رہتے اور ضرورت کے وقت اُن کی دسیسہ کاریوں کے خلاف تیغِ براں بن جاتے۔ یہی اُن کا جرم تھا، جس کی پاداش میں اُنہیں خلعتِ شہادت پہنا دی گئی    ؎ خونے نہ کر دہ ایم کسے را نہ کشتہ ایم جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم     پوری ملتِ اسلامیہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے اربابِ اہتمام و انصرام، انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ برابر غم میں شریک اور تعزیت کناں ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین