بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مفتی شہیدؒکاتدریسی انداز

حضرت مفتی شہیدؒکاتدریسی انداز

         پھولوں سے بھرا چمن انسان کی قوتِ باصرہ کو محظوظ کرتا ہے، جمالیاتی ذوق رکھنے والا شخص  اُسے دادِ عیش دیئے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر خوبصورتی اور دل لبھانے کے اس مقام تک پہنچنے کے لئے اس پر ایک لمبا زمانہ بیتتا ہے۔ یہ تمام خوبصورتی اس مالی کی دن رات کی نگہداشت کی مرہونِ منت ہوتی ہے جو اس کی نگرانی پر مامور ہوتا ہے، اسی طرح کسی بھی پھل کا پکنا، اس میں مٹھاس کا پیدا ہونا کئی مراحل کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے، جس کے بعد مخلوقِ خدا اس سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔ یہی حالت اور کیفیت افراد کے مقتدائے اُمت بننے اور ان کی صلاحیت کے اجاگر ہونے کی ہے۔ اس قحط الرجال کے دور میں کسی مضبوط، پختہ اور ماہر عالم دین کا میسر آجانا نعمتِ خداوندی ہے، جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ افسوس اس پر نہیں کہ اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کی گرہ کشائی میں مدد طلب کرکے ایسے جبال العلم کی قدر نہیں کی جاتی ، بلکہ جب ان بزرگ ہستیوں کو جو اپنی ذات میں انجمن اور ادارے ہوتے ہیں، سنگِ راہ سمجھ کر راستہ سے ہٹایاجاتا ہے تو غم اور افسوس اپنی حد پار کرجاتا ہے۔     مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کو متذکرہ بالا قسم کے کئی اندوہ ناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حال ہی میں مفتی محمد عبد المجید دین پوری شہیدؒ اور مفتی صالح محمد کاروڑی شہیدؒ کی شہادت کا واقعہ بھی دشمنانِ اسلام کی جانب سے جامعہ اور اسلام کی بنیادوں پر ایک کاری ضرب کے مترادف تھا۔      مفتی محمد عبد المجیددین پوری شہیدؒ سے بندہ نے جامع الترمذی (حصہ دوم) پڑھی ہے۔ جامعہ میں دورہ حدیث کے اسباق، عام درجات کے اسباق سے ۴۵ منٹ پہلے شروع ہوتے ہیں، حضرت مفتی شہیدؒ اسی دورانیے میں سبق پڑھاتے تھے۔ عام طور پر سبق کے دورانیے کے شروع اور ختم ہونے کا اندازہ گھنٹی کی آواز سے لگایا جاتا ہے، دورۂ حدیث کے پہلے سبق کی ابتداء میں گھنٹی نہیں بجتی تھی، مگر طلبہ ترمذی ثانی کا سبق شروع ہونے کا اندازہ حضرت کی اشراق کی نماز سے لگایا کرتے تھے، حضرتؒ کا معمول تھا کہ درس گاہ آنے سے پہلے ایک مخصوص جگہ اشراق کی نماز اہتمام سے پڑھتے تھے، جسے دیکھ کر طلبہ مستعد ہوکر اپنی جگہوں پر تیار رہتے۔ حضرتؒ درس گاہ میں تشریف لاتے اور بڑے دھیمے و عمدہ انداز میں درس حدیث دیتے، یوں محسوس ہوتا کہ عشق نبوی ا کے سمندر میں موجزن ہوں، جس کا مشاہدہ ہر طالب علم بخوبی کرسکتا تھا۔ حضرت شہیدؒ کا تدریسی انداز انتہائی سہل اور درس انتہائی پُر مغز ہوتا تھا۔ ذیل میں حضرت کے چند درسی افادات ‘افادۂ عام کی خاطر تحریر کئے جاتے ہیں: حلِ لغات وقواعد ِ لغویہ     لفظِ ’’دجال‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے فرمایا: یہ لفظ ’’دَجْلٌ‘‘ سے مبالغہ کا صیغہ ہے، بمعنی خلط ملط کرنا،’’ دجال‘‘ لوگوں پر حق کو خلط ملط کرے گا، کیونکہ ایک طرف تو یہ یک چشم ہے، دوسری طرف تمام قدرتیں اُسے عطا ہوں گی، لوگوں کو اشتباہ ہوگا کہ خدا ہوتا تو عیب دار نہ ہوتا، اگر نہ ہوتا تو یہ قدرتیں عطا نہ ہوتیں۔     حدیث ’’من شذ شذ فی النار‘‘ میں مشہور ہے کہ دوسرا ’’شذ‘‘ شین کے ضمہ کے ساتھ ہے، مگر حضرت شہیدؒ نے فرمایا کہ دونوں فعل معلوم پڑھے جائیں گے، کیونکہ’ ’شذ‘‘  فعل لازمی ہے۔  فرمایا: حدیث ’’لا تسبوا الریح‘‘ میں ریح سے مراد ماحول بھی ہوسکتا ہے، جیساکہ اردو میں کہا جاتا ہے کہ آج کل کیسی ہوا چل پڑی ہے؟ ۔     لفظ ’’کاد‘‘ کے متعلق ارشاد فرمایا: لفظ ’’کاد‘‘ محل اثبات میں نفی کے معنی میں ہوتا ہے اور نفی کے محل میں آئے تو اثبات کا معنی دیتا ہے ’’إن الساعۃ آتیۃ أکاد أخفیہا‘‘ فرمایا، پھر قیامت کی گھڑی چھپا دی، علامات بتادیں۔ بنی اسرائیل کے گائے ذبح کرنے کے قصہ میں فرمایا: ’’وما کادوا یفعلون‘‘ حضرت مفتی شہیدؒ نے فرما یا:انہوں نے گائے ذبح کرلی تھی۔     برکت کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: برکت کا ایک معنی ہے کہ وہ چیز زیادہ ہو۔ دوسرا یہ کہ تھوڑی سی چیز کئی لوگوں کے لئے کافی ہوجائے ۔ تیسرا یہ کہ وہ چیز جزوِبدن بنے اور کام میں آئے۔     ابواب الرؤیا کی ابتداء میں لفظِ’’ رؤیا‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے فرمایا: یہاں تین لفظ ہیں:     ۱… رُؤیا: نیند کی حالت میں بعض اشیاء کو متشکل شکل میں دیکھنا۔     ۲…رُؤیۃٌ: حاسۂ بصر سے دیکھنا۔     ۳…رَأیٌ:دل کی نگاہ سے دیکھنا، اسی سے امام ابو حنیفہؒ کے اصحاب کو ’’اصحاب الرأی‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ دل کی گہرائیوں سے دیکھتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں، مثلاً آیت: ’’وما جعلنا الرؤیا التی أریناک إلا فتنۃ للناس‘‘ میں باجماع محققین ’’رؤیا ‘‘سے مراد رؤیتِ عینی ہے۔ سند اور رجال پر کلام     امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع ترمذی میں فقہاء کے اقوال بھی سند کے ساتھ ذکر کئے ہیں، مگر ان فقہاء میں امام صاحب ؒ کا نام نہیں لیتے، احنافؒ کا قول ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھار یوں کہہ دیتے ہیں: ’’وقال بعض أہل العلم من أہل الکوفۃ‘‘ (۲؍۱۸۰،ط:سعید) اس کی وجہ حضرتؒ نے یوں بیان فرمائی: امام ترمذیؒ کے پاس امام صاحبؒ کی روایات چونکہ کسی سند سے نہیں تو انہوں نے ’’بعض أہل العلم من أہل الکوفۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ توجیہ معانی الآثار     حدیث شریف میں ہے:’’ لیس المؤمن بالطعان‘‘جس کا بظاہر مفہوم یہ ہے کہ مؤمن زیادہ طعنہ باز نہیں ہوتا، اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وہ تھوڑا بہت طعن کرلیتا ہے، حالانکہ یہ معنی مراد لینے میں کامل مؤمن کی صفات کا ظہور نہیں ہوتا۔ حضرت ؒ نے اس کا معنی یوں بیان فرمایا: یہ نفئ مبالغہ نہیں، بلکہ مبالغۂ نفی ہے، یعنی مکمل طور پر نفی ہے کہ وہ بالکل طعن ہی نہیں کرتا۔     ’’دجال‘‘ کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ اس کی دائیں آنکھ کانی ہوگی، بعض روایات میں ہے کہ بائیں آنکھ، اس تعارض کا حل حضرتؒ نے یوں بیان فرمایا : چونکہ اس کا سارا معاملہ دجل و تلبیس پر مشتمل ہوگا، تو آنکھ میں یہی دجل کار فرما ہوگا، کبھی دائیں آنکھ اور کبھی بائیں آنکھ ایسی ہوگی۔ استنباطِ مسائل     حضرت شہیدؒ کو اللہ تعالیٰ نے فقہی مہارت سے خاص طور پرنوازا تھا، جسے بیان کرنے کے لئے ایک مستقل دفتر درکار ہے، یہاں مقصود حضرتؒ کے اس کمالِ ملکہ کا ذکر ہے جس سے وہ درس حدیث کے دوران، احادیث سے وقتاً فوقتاً مسائلِ فقہیہ کا استنباط کرتے رہتے۔ امام ترمذیؒ نے ابواب الدعوات (صفحہ نمبر: ۱۷۵ ط: ایچ ایم سعید )کے تحت عنوان قائم کیا ہے ’’باب ماجاء فی القوم یجلسون فیذکرون اﷲ مالہم من الفضل‘‘ حضرتؒ اس سے اجتماعی ذکر کے ثبوت پر استدلال کرتے تھے۔      امام ترمذیؒ نے صفحہ: ۲۵ پر ’’داغ لگا کر علاج کرنے‘‘ کے متعلق دو طرح کے باب قائم کئے ہیں، پہلے سے اس کے عدم جواز اور دوسرے سے جواز کا علم ہوتا ہے، اس کے متعلق حضرت الاستاذ نے فرمایا کہ: آخری طریقۂ علاج کے طور پر اختیار کرنا درست ہے اور فرمایا: یہی حکم آپریشن کا ہے۔      قیافہ شناسی کی حجیت کے متعلق امام ترمذیؒ نے صفحہ: ۳۴ پر باب قائم کیا ہے، احنافؒ کے ہاں نسب کے ثبوت میں اس کا اعتبار نہیں۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ DNA  ٹیسٹ کا بھی یہی حکم ہے۔     حدیث: ‘‘لاتقوم الساعۃ حتی لایقال فی الأرض أﷲ أﷲ‘‘ سے حضرتؒ لفظ ’’اللہ‘‘کی ضربیں لگانے کے جواز پر استدلال فرماتے۔ فقہی مسائل ولطائف     فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے طرز استدلال اور منہج اجتہاد کے بارے میں ایک موقع پر ارشاد فرمایا: امام ابوحنیفہؒ عام طور پر اصول کی احادیث کو لیتے ہیں اور اُنہیں منطبق فرماتے ہیں، ان کے خلاف کو ئی حدیث آئے تو اس کی تاویل کرتے ہیں۔ دیگر حضرات ان روایات کو لیتے ہیں جو جزئی ہوں اور کلی روایات میں تاویل کرتے ہیں۔ نیز فرمایا: امام ابوحنیفہؒ عرب کے عرف کا اعتبار نہیں کرتے، آثار کا اعتبار کرتے ہیں۔      کتب احادیث میں بعض مرتکبین کبائر کے متعلق ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، ایسی احادیث کی تاویل میں عموماً کہا جاتا ہے کہ یہ شخص اس گناہِ حرام کو حلال سمجھتا تھا، اس کے متعلق حضرتؒ فرماتے کہ مطلق تحلیل سے کوئی کافر نہیں ہوتا، بلکہ اس چیز کی تحلیل سے کفر لازم ہوتا ہے، جس کی حرمت قطعی الدلالۃ اور قطعی الثبوت ہو۔     لوگوں کے ہاں جو اصطلاح ہے کہ جب عرفہ کا دن جمعہ کو آئے تو یہ حج اکبر ہے، اس کا ثبوت احادیث کی روشنی میں نہیں ملتا، البتہ ایسے حج کا ثواب اور حجوں کی بنسبت زیادہ ہے، کیونکہ جمعہ کے دن حج کا ثواب ستر حجوں کے برابر ہے۔      خواب پر مسئلہ شرعیہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی، حلال‘ حرام نہیں ہوسکتا اور حرام‘ حلال نہیں ہوسکتا۔ جدید مباحثِ علمیہ     حضرت شہیدؒ موجودہ زمانے کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن مباحث کاجاننا ضروری ہے، درس کے دوران بسااوقات ایسی ضروری معلومات بھی پہنچاتے۔ شقِ قمر کے معجزہ پر وارد ہونے والے اعتراض کو ایسے انداز میں دور کیا کہ عقلِ سلیم تسلیم کئے بغیر نہ رہتی، چنانچہ فرمایا کہ: کہا جاتا ہے کہ اگر انشقاقِ قمر ہوتا تو دنیا کے دیگر کناروں میں بھی دیگر لوگوں کو نظر آتا، اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر علاقوں میں بھی شق قمر ہواہو، لیکن لوگوں نے اس کی طرف غور نہ کیا ہو، کیونکہ ایسا تھوڑی ہوتا ہے کہ اورلوگ چاند کی طرف گھورتے ہی رہتے ہیں، دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا پہلے سے علم ہوجاتا ہے، لیکن لوگ اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں، کسی کا دھیان نہیں رہتا۔      سورج کا سجدہ کی اجازت طلب کرنے والی روایت پر سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں سورج ہر وقت موجود رہتا ہے، لہٰذا قدیم اور جدید سائنس کے اعتبار سے سجدہ والی بات نہیں پائی جاتی؟ اس کا جواب حضرتؒ نے یہ دیا کہ: سجدہ سے مراد یہاں ’’وضع الجبہۃ علی الأرض‘‘ نہیں، بلکہ ا’’نقیاد ‘‘مراد ہے، جیسے پہاڑ وغیرہ کے لئے فرمایا: ’’أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ‘‘۔ (الحج:۱۸) فرق ضالہ پر رد     مہدی علیہ الرضوان کے متعلق روایات میں ہے: ’’یواطئ اسمہ اسمی‘‘ حضرتؒ فرماتے : بعض روایات میں ہے ’’یواطئ اسم أبیہ اسم أبی‘‘ تو معنی یہ ہوا کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا، لہٰذا روافض کا یہ قول غلط ہے کہ مہدی موعود‘ محمد بن حسن عسکری ہیں، جو دنیا سے تنگ آکر غار میں چھپ گئے ہیں۔      خواب کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ یہ جزء نبوت ہے، اس کے متعلق پیدا ہونے والے اشکال کو دور کرتے ہوئے فرمایا: اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جب جزء نبوت باقی ہے تو نبوت باقی ہوئی۔ اسی کو لے کر قادیانی تلبیس کرتے ہیں، حالانکہ جزء کے وجود سے کل کا وجود لازمی نہیں، کل موجود ہو تو جزء ہوتا ہے، لیکن جزء کے ہوتے ہوئے کل کا ہونا ضروری نہیں ہوتا، جیسے کسی کا ہاتھ ملے تو اس پر نماز جنازہ یہ کہہ کر نہیں پڑھی جاتی کہ لاش مل گئی۔ علمِ طب ومعالجہ     حضرت شہیدؒ کو علم طب سے بھی مناسبت کافی تھی، جس کی واضح دلیل حضرت شہیدؒ کا کچھ عرصہ تک مطب کی نگرانی ہے۔ ابواب الطب کے ابتدائی مباحث بھی حضرتؒ کی اس خاموش اور مخفی ملکہ پر دلالت کرتے تھے، ایک موقع پر فرمایا:     بیماریاں اور غذائیں دو طرح کی ہیں، بعض غذائیں مفردات ہیں، جیسے: صرف گاجر کھالی یا صرف روٹی یا پھل۔ بعض غذائیں مرکب ہیں جیسے: سالن، بریانی وغیرہ۔ دوائیں بھی دو طرح کی ہیں: مفردات جیسے: سونف، دھنیا، اجوائن اور کبھی مرکبات کہ کئی چیزوں کو ملاکر دوا بنائی جائے، جیسے: معجون۔ مفردات غذاؤں کی وجہ سے جو بیماری آتی ہے، اس کا علاج مفرد داؤں سے ہوتا ہے اور جو بیماری مرکب غذاؤں سے آتی ہے، اس کے لئے مرکب دوائیں ہیں۔ نبی کریم ا نے مفرد دوائیں تجویز فرمائی ہیں، جیسے: کلونجی وغیرہ۔ آج کل مرکب غذاؤں کا دور ہے، تو اگر اس میں مفرد دوائیں اثر نہ کریں تو حدیث پر اعتراض نہ کیا جائے، نیز فرمایا: آپ انے یہ دوائیں مشورہ کے طور پر بتائی ہیں، اس میں اعتقاد کا دخل ہے، اگر اعتقاد ہے کہ یہ فائدہ مند ہے تو فائدہ ہوگا، ورنہ کبھی ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ نکاتِ لطیفہ     حدیث میں موجود دعائ’’ ووسع لی فی داری‘‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا ،اس کا معنی یہ ہے کہ گھر میں رہوں، باہر چوراہوں میں نہ بیٹھوں کہ گناہوں میں پڑ جاؤں ،بدنظری اور بدسماعت میں پڑ جاؤں، یہ وسعت باطنیہ ہے کہ گھر میں دل لگارہے۔ اور اس میں وسعت ظاہریہ کی دعا بھی ہے کہ گھر میں ایک کمرہ ہے تو دو دیجئے۔     فرمایا: قرآن میں جو آیت ہے: ’’لاجناح علیکم أن تأکلوا جمیعاً أو أشتاتاً‘‘ اس میں ’’أشتاتاً‘‘ کا یہ معنی نہیں کہ الگ الگ پلیٹ لے کر کھانا کھایا جائے، بلکہ مراد یہ ہے کہ سب اکٹھا ہوکر کھائیں یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی صورت میں کھائیں،دونوں صورتوں میں کوئی حرج کی بات نہیں۔      مختلف احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ا سے سب سے افضل عمل کے متعلق پوچھا، آپ ا نے اس سوال کا مختلف مواقع پر مختلف جواب دیا، اس جواب میں ایمان کو ذکر نہ کرنے کی وجہ حضرتؒ نے یہ بیان کی کہ سب سے افضل ایمان ہے، اس کاتذکرہ اس لئے نہیں کیا کہ سوال اعمال کے متعلق تھا اور ایمان کا تعلق عقائد سے ہے، جس کا ہونا ناگزیر ہے۔      تقدیر کی مباحث میں زیادہ غور وفکر کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: تقدیر میں زیادہ غور وخوض سے انسان یا تو قدریہ بنتا ہے یا جبریہ۔ جبریہ کہتے ہیں کہ انسان مجبور محض ہے اور قدریہ کہتے ہیں: ’’الأمر مبتدأ‘‘ ۔صحیح بات یہ ہے کہ اصل خالقِ افعال اللہ تعالیٰ ہیں اور کاسب انسان ہے، جیساکہ ایک آدمی نقشہ بنائے، دوسرا اس میں رنگ بھرے، اب دوسرا اپنے اختیار سے ہی رنگ بھرے گا، لیکن وہ اس نقشہ تک محدود ہوگا، اس سے آگے پیچھے نہ ہوگا، ورنہ نقشہ باقی نہ رہے گا۔      امام ترمذیؒ نے صفحہ: ۳۹ پر باب قائم کیا ہے: ’’باب ماجاء فی نزول العذاب اذا لم یغیر المنکر‘‘ اس کے تحت حضرتؒ نے فرمایا: دعوت کی دو قسمیں ہیں: ایک غیروں کو ایمان پر لانا، دوسرا اپنوں کو اسلام پر جمانا ۔دوسری دعوت اہم ہے، حدیث میں وعید بھی اسی کے ترک پر ہے۔     مال کی کثرت میں بھی ضرر نہیں، جیسا کہ احادیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آئے اور کہا کہ ہمارے بعض ساتھی مال خرچ کرتے ہیں، ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں، تو اس پر آپ ا نے یہ نہیں فرمایا کہ چھوڑو، یہ اچھا نہیں، بلکہ آپ ا نے وظیفہ بتایا۔     حضرت شہیدؒ نے فرمایا: مأمورات اہم ہیں، لیکن منہیات اس سے زیادہ اہم ہیں، کیونکہ منہیات کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’لاترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض أن تحبط أعمالکم وأنتم لاتشعرون‘‘(الحجرات:۲)پھر مأمورات پر عمل کرنا بھی آسان ہوتا ہے، جبکہ منہیات سے بچنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اختتامیہ     مندرجہ بالا عنوانات اور ان میں مندرج افادات وعلمی نکات سے حضرت شہید رحمہ اللہ کا علمی، تحقیقی اور عابدانہ مزاج کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حالانکہ یہ چند سطور اس سے عاجز ہیں کہ حضرت کے درس، علمی مقام اور زاہدانہ حیثیت کی کما حقہٗ منظر کشی کرسکیں۔     اللہ تعالیٰ حضرت شہید رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین