بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حضرت ‏مجدد الفِ ثانی  ؒ اور علمِ کلام میں اُن کی تجدیدی خدمات

حضرت ‏مجدد الفِ ثانی  ؒ

اور علمِ کلام میں اُن کی تجدیدی خدمات


امامِ ربانی مجدد الف ثانی  ؒ کے گرامی ناموں میں شریعت و تصوف کے نہایت قیمتی موتی پروئے ہوئے ہیں۔ اسرار ِشریعت اور رموز ِ تصوف کی عقدہ کشائیاں جن اصحابِ دعوت کے ذریعے کرائی گئیں، ان میں حضرت مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  کا نام اور کام نہایت نمایاں ہے۔ آپ ہی کے سلسلہ کے خوشہ چین حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے ’’حجۃاللہ البالغۃ‘‘ تصنیف کر کے دین کے اس شعبے کی وقیع خدمت سر انجام دی ہے۔ ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ میں جابجااسلامی مباحث تفصیل یا اجمال کے ساتھ موجود ہیں۔ جس قاری نے بنیادی کلامی مباحث کو پڑھا ہو، وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ حضرت مجدد صاحبؒ کن مسائل کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ بسا اوقات حضرت مجدد صاحبؒ کی تحریر سے متکلمین کے درمیان کسی اختلافی مسئلہ میں قولِ فیصل پر روشنی پڑجاتی ہے۔ مکتوبات میں متکلمین اور مناطقہ کی خصوصی اصطلاحات بھی موجود ہیں، اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مجدد صاحبؒ کشفِ صحیح اور علومِ عقلیہ ونقلیہ کے امتزاج سے ایک نتیجہ نکال کر دے رہے ہیں۔ حضرت مجدد صاحبؒ جیسے دوٹوک انداز میں اپنے نقشبندی اور حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح عقیدہ میں امام المتکلمین اما م ابو منصور ماتریدی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تحقیقات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے آپ کو انہی کی طرف منسوب کرتے ہیں، چنانچہ ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’میری رائے علمائے ماتریدیہ کی رائے کے موافق ہے۔ واقعی ان بزرگوں کی شان بہ سبب پیرویِ سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ نہایت عظیم ہے۔ ان کے مخالفوں کو فلسفی مسائل میں مشغول ہونے کے سبب وہ شان حاصل نہیں، گو دونوں فریق اہلِ حق ہیں۔‘‘  (مکتوباتِ امامِ ربّانی، ص: ۶۹۷، ج:۲، مترجم: مولانا قاضی عالم الدین نقشبندی رحمہ اللہ تعالیٰ، اسلامی کتب خانہ) 
علمِ کلام اور عقائدِ اسلامیہ کے ساتھ حضرت مجدد صاحب کے تعلقِ خاص کی بشارت انہیں ابتدائے سلوک میں دی گئی تھی، چنانچہ ایک جگہ رقمطراز ہیں:
’’مجھے توسطِ حال ایک رات جناب پیغمبرِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ: تم علمِ کلام کے ایک مجتہد ہو۔‘‘ (ایضا) 
 اسی بشارت وقبولیت کا اثر ہے کہ حضرت مجدد صاحبؒ جیسے بعد والوں کے لیے تصوف و سلوک کے امام ہیں، ایسے ہی عقائد میں بھی مقتدا ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کو برِصغیر کی تاریخ میں عقائد کی تطہیر اور صحیح اسلامی فکر واعمال کی ترویج میں امتیازی شان حاصل ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب  رحمۃ اللہ علیہ  اکابر علما ء دیوبند کے دینی مزاج کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس مقالہ میں علمائے دیوبند سے صرف وہ حلقہ مراد نہیں ہے جو دارالعلوم دیوبند میں تعلیم وتدریس یا افتاءوقضا ءیاتبلیغ و موعظت یا تصنیف و تالیف وغیرہ کے سلسلہ سے مقیم ہے، بلکہ وہ تمام علماء مراد ہیں جن کا ذہن و فکر حضرتِ اقدس مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی کے فکر و نظر سے چل کر حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی حکمت سے جڑا ہوا ہو۔ ‘‘  (علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج، ص۲۶، ادارہ اسلامیات)
حضرت مجدد صاحب اپنے مکتوبات میں جا بجا عقائد کی درستگی پر زور دیتے ہیں، بلکہ اسے راہ ِسلوک میں پہلا قدم قرار دیتے ہیں، اس کے لیے ان کے نزدیک اہلِ سنت والجماعت کے عقائد معیار ہیں اور ان کو اپنانا از حد ضروری ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’جو کچھ ضروری ہے، یہ ہے کہ اول فرقۂ ناجیہ اہلِ سنت وجماعت کے عقائد کے موافق اپنے عقائد کو درست کریں۔‘‘ (ج:۱، ص: ۲۹۲،مکتوب: ۹۴)
 اہلِ سنت والجماعت کے ضروری عقائد کو آپ نے لکھ بھی دیا ہے، تاکہ اس زمانے میں کسی کو شک وشبہ نہ رہے اور انہیں اپنایا جاسکے۔ اجمالی طور پر اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کی ترغیب دینے اور بیان کرنے کے علاوہ آپ نے تفصیل کے ساتھ بعض عقائد کو الگ الگ بیان فرمایا ہے۔ 

صفاتِ باری تعالیٰ

اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت کا ادراک ہمارے لیے ممکن نہیں، آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات کا صحیح ادراک یہی ہے کہ وہ اس کے پانے سے بے بسی کا اظہار کر دے، جیسا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرف منسوب ہے : ’’العجز عن درک إدراک الذات إدراک‘‘ ۔۔۔ ’’ذات کو پانے سے عاجز ہو جانا ہی پالینا ہے۔‘‘ گویا کہ آدمی کا اس بات کا سمجھ لینا کہ وہ ذاتِ عالی سمجھ میں نہیں آسکتی، یہی اس کی معرفت ہے: 

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے

البتہ اللہ پاک نے قرآن میں اپنی صفات کا تذکرہ فرمایا ہے، تاکہ اس کے بندے اس کے بارے میں کچھ جان سکیں، مثلاً: ’’اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ ۔۔۔ ’’اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُ‘‘ ۔۔۔ ’’اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ ذُوْ انْتِقَامٍ‘‘ ۔۔۔ ’’اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ‘‘ 
متکلمین نے ان صفات کی مختلف انداز سے تقسیم بھی کی ہے، مثلاً:
صفاتِ سلبیہ: اللہ تعالیٰ کی ذات سے کسی چیز کی نفی کرنا، جیسے: لا جسم لہٗ۔
صفاتِ ثبوتیہ: اللہ تعالیٰ کے لیے کسی صفت کو ثابت کرنا، جیسے: ھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔
پھر ایک بحث یہ کی جاتی ہے کہ صفات اللہ تعالیٰ کا عین ہیں، یعنی ذات ہیں یا اللہ تعالیٰ کا غیر؟
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں جن میں مخلوق کے تعلق سے اس کی ضد بھی ہوتی ہے، جبکہ بعض میں ضد نہیں ہوتی۔ حضرت مجدد صاحبؒ لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی صفات اعتبار رکھتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’اعتبارِاول یہ ہے کہ فی حدِ ذاتہا ثابت ہیں اور اعتبارِدوم یہ ہے کہ واجب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قیام رکھتی ہیں۔ اعتبارِاول کے لحاظ سے عالم کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور تعینات کے مبادی ہیں اور اعتبارِ دوم کے رو سے عالم سے مستغنی ہیں اور عالم اور اہلِ عالم کے ساتھ کسی قسم کی توجہ نہیں رکھتیں۔‘‘                                                      ( ج:۲،ص:۳۸، مکتوب: ۵)
متکلمین کے نزدیک بعض صفاتِ باری تعالیٰ امہات الصفات کہلاتی ہیں۔ یہ کتنی صفات ہیں؟ اور کون کون سی ہیں؟ ان میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے درمیان معمولی اختلاف ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک امہات الصفات سات ہیں: 
1-حیات        2-علم        3-ارادہ        4-قدرت
5-سمع            6- بصر        7-کلام
ماتریدیہ ایک آٹھویں صفت ’’تکوین‘‘ کو بھی ان میں شامل کرتے ہیں، لہٰذا ان کے نزدیک صفات آٹھ ہو گئیں۔ اب حضرت مجدد صاحبؒ ماتریدیہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’واجب الوجود کی صفاتِ ثمانیہ حقیقیہ جن میں سے اول صفت الحیاۃ ہے اور اخیر کی صفت تکوین ہے، تین قسم ہیں: ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق عالم کے ساتھ غالب اور اس کی اضافت و نسبت مخلوق کی طرف زیادہ تر ہے، جیسا کہ تکوین۔ یہی باعث ہے کہ اہلِ سنت والجماعت میں سے ایک جماعت نے اس کے وجود کا انکار کیا اور کہا ہے کہ تکوین صفاتِ اضافیہ میں سے ہے اور حق یہی ہے کہ وہ صفاتِ حقیقیہ میں سے ہے۔ صرف اضافت اس پر غالب ہے۔‘‘      (ج:۱، ص:۷۸۲، مکتوب: ۲۹۴)
 

تقدیر 

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہےاور اس پر ایمان لانا کہ اچھی بری تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسلام کے معتبر ہونے کی شرط ہے۔ دوسری طرف تقدیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اس لیے اس میں غور و خوض سے روک دیا گیا ہے۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علمِ ازلی کا نام ہے جس میں مخلوق کے متعلق تمام امور لکھے جا چکے ہیں، تاہم اہلِ حق کے نزدیک تقدیر کا عقیدہ انسان کو مجبورِ محض نہیں بناتا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی اوربرائی کے اختیار کرنے کی طاقت دی ہے، اس کو استعمال کر کے آدمی جنت یا جہنم کی طرف چلے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہے اور اسی کےمطابق لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے۔ 
تقدیر میں لکھے جانے کے باوجود بعض چیزیں ایسی ہیں جو کم و بیش بھی ہوتی رہتی ہیں، مثلا ً: دعا اور صدقہ کے ذریعے بلا کا نازل ہونے سے پہلے دور ہو جانا، صلہ رحمی سے روزی میں برکت، گناہ سے روزی سے محروم ہوجانا، وغیرہ۔ اس کی توجیہ حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے ایک گرامی نامہ میں یوں کرتے ہیں :
’’قضاء دو قسم پر ہے:         (۱)قضائے معلق        (۲)قضائے مبرم
قضائے معلق میں تغیروتبدل کا احتمال ہےاور قضائے مبرم میں تغیر وتبدل کی مجال نہیں ہے۔ 
محض فضل وکرم سے اس فقیر پر ظاہر کیا گیا کہ قضائے معلق دو طرح پر ہے: ایک وہ قضا ہے جس کا معلق ہونا لوحِ محفوظ میں ظاہر کیا گیا ہے اور فرشتوں کو اس پر اطلاع دی ہے اور دوسری وہ قضا ہے جس کا معلق ہونا صرف خدا تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور لوحِ محفوظ میں قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے اور قضائے معلق کی اس دوسری قسم میں بھی پہلی قسم کی طرح تبدیلی کا احتمال ہے۔‘‘ (ج:۱، ص:۴۷۱، مکتوب: ۲۱۷) 
یوں تو حضرت مجدد صاحبؒ مختلف جگہوں پر سب سے پہلے عقائد کی درستگی، پھر احکامِ فقہیّہ کی تحصیل اور سلوک کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں، تاہم ایک مکتوب جو اپنے پیرزادوں کے نام لکھا ہے، اس میں اس کی تفصیل فرماتے ہوئے اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد کو کھولا ہے۔ اگر اس مکتوب کو اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کی چیک لسٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس میں حضرت مجددؒ نے تقریباً تمام ضروری عقائد اجمال کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اس طویل مکتوب کے عقائد سے متعلق اہم نکات حسب ذیل ہیں:
’’1-اللہ تعالیٰ خود موجود ہے اور تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہیں۔ 
2- اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بے چون اور بے چگون ہیں (یعنی اس کی ذات کیسے اور کیونکرسے بالا ہے) کوئی اس کے مانند نہیں ہے۔ 
3-حق تعالیٰ کے افعال کے آثار مخلوق کے تعلق کے اعتبار سے حادث ہیں، لیکن حق تعالیٰ کے افعال اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں جو قدیم ہے۔ 
4-اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے۔ 
5-حق تعالیٰ تمام اشیاء کو محیط ہے اور ان کے ساتھ قرب ومعیت رکھتا ہے، لیکن اس قرب اور احاطہ اور معیت کی کیفیت ہم نہیں جانتے ہیں۔ 
6-حق تعالیٰ قادرِ مختار ہے۔ 
7-اسباب کی تاثیر کا انکار ہٹ دھرمی ہے، تاہم ان کی تاثیر کو اس سبب کے وجود کی طرح حق سبحانہ و تعالیٰ کی ایجاد سمجھنا چاہیے۔ 
8-حق تعالیٰ خیر و شر کا پیدا کرنے والا ہے، لیکن خیر سے راضی ہوتا ہے اور شر سے راضی نہیں ہوتا۔ 
9-آخرت میں مومن لوگ اللہ تعالیٰ کو بے جہت و بے کیف اور بے شبہ وبے مثال جنت میں دیکھیں گے۔ 
10- انبیاء(علیہم السلام) کا مبعوث ہونا رحمت ہے، ان کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات میں فرق نہیں ہو سکتاہے۔ 
11:قبر کا عذاب کافروں اور بعض گنہگاروں کا مومنوں کے لیے حق ہے۔‘‘(ج:۱، ص:۶۰۸تا۶۴۹، مکتوب: ۲۶۶ )
اسلامی فرقوں میں معتزلہ آخرت میں رویتِ باری تعالیٰ کےمنکر ہیں۔ معتزلہ کے مشہور مفسر جاراللہ زمحشری جن کی تفسیر ’’کشاف‘‘ بلاغتِ قرآنی میں ممتاز ہے، اسی مسئلہ رویت کے حوالے سےایک جگہ لکھتے ہیں:
’’لأنہ متعال أن يکون مبصراً في ذاتہ۔‘‘ (کشاف، ج:۲، ص:۵۴، دارالکتب العربی، بیروت)
’’اس لیے کہ اللہ جل جلالہ اس بات سے بلند ہے کہ اس کی ذات کودیکھا جا سکے۔‘‘
اسی لیے متکلمین نے اپنی کتب میں مسئلہ رویتِ باری تعالیٰ کو اہتمام سے ذکر کیا۔ حضرت مجدد صاحبؒ اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: اہلِ فلاسفہ زمینوں اور آسمانوں کے نیست و نابود ہونے کو نہیں مانتے ہیں۔فلاسفہ کا رد کرتے ہوئے حضرت مجدد صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اہلِ فلسفہ آسمانوں اور زمینوں کے نیست ونابود ہونے کو نہیں مانتے۔ یہ لوگ نصوصِ قطعی کے منکر ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کے اجماع کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ (ج:۱،ص: ۶۰۸ تا ۶۴۹، مکتوب: ۲۶۶)
 جن مسائلِ کلامیہ میں اگر علماء اور صوفیاء کے درمیان کچھ جزوی اختلافات محسوس ہوتے ہیں تو ان میں حضرت مجددؒ علماء کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ جس میں صوفیاء وعلماء کا باہم اختلاف ہے، جب اچھی طرح ملاحظہ کیا جاتا ہے تو حق بجانب علماء معلوم ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کی نظر نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے اور صوفیاء کی نظر ولایت کے کمالات، اس کے معارف تک ہی محدود ہے۔‘‘    (ایضا، ص:۶۳۲)
ایمان کم یا زیادہ ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ فقہاء اور محدثین کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ احناف کے ہاں ایمان کم یا زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ کمی نفسِ ایمان میں نہیں ہوتی، بلکہ نورِ ایمان میں ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حضرت مجدد صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’پس زیادت اور نقصانِ اعمال کے اعتبار سے اور اعمالِ صالحہ کا بجا لانا اس یقین کے روشن ہونے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفسِ یقین میں۔‘‘ (ایضا، ص:۶۳۷)
اس مکتوب میں شیخینؓ کی فضیلت اور پھر حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے متعلق بھی تحریر فرمایا ہے۔ علامہ تفتازانی نے شرح عقائدِ نسفیہ میں حضرت عثمانؓ کی حضرت علیؓ پر افضلیت میں تردُّد کیا ہے۔ حضرت مجدد صاحبؒ علامہ تفتازانی کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو کچھ مولانا سعدالدین نے شرح عقائدِ نسفی میں اس افضلیت کے حق میں انصاف سمجھا ہے، وہ انصاف سے دور ہے۔‘‘ (ایضا، ص: ۶۴۱)
مشاجراتِ صحابہؓ کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ :
’’جو کچھ صحابہؓ کے درمیان لڑائی جھگڑے واقع ہوئے ہیں، ان کو نیک توجیہ پر ‏محمول کرنا چاہیے اور ہویٰ وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے۔‘‘(ایضا، ص:۶۴۲)
آیاتِ متشابہات اور محکمات کے حوالے سے بھی آپ نے بحث فرمائی ہے۔ آپ کے مطابق ‏محکمات کتاب کی امہات (اصل) ہیں اور متشابہات میں ان محکمات کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ کتاب کا لب یعنی مغز متشابہات ہیں اور محکمات اس کا قشر یعنی پوست ہیں۔ عالمِ راسخ وہ شیخ ہے جو لب یعنی مغز کو قشر یعنی پوست کے ساتھ جمع کرسکے اور حقیقت کو صورت کے ساتھ ملاسکے۔                        (ج:۱، ص:۲۶۹،مکتوب:ـ ۲۷۶)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین