بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے دور میں قانونی تنظیم!

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے دور میں قانونی تنظیم!


دنیاکی تاریخ بادشاہوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ ایک سے ایک قابل اور ایک سے بڑھ کر ایک نااہل ترین حکمرانوں نے اس دنیاکی تاریخ میں اپنے نام کھرچے، لیکن گنتی کے چند حکمران گزرے ہیں جو بذاتِ خود قانون ساز تھے اور انہوں نے صرف حکمرانی ہی نہیں کی، بلکہ انسانیت کو جہاں قانون سازی کے طریقے بتائے، وہاںقوانینِ حکمرانی و جہانبانی بھی بنائے۔ ایسے حکمران انسانیت کااثاثہ تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  خلیفہ ثانی اُنہی حکمرانوں میں سے ہیں، جنہوں نے عالم انسانیت کو وحیِ الٰہی کے مطابق قوانین بناکر دیئے اور قانون سازی کے طریقے بھی تعلیم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ:’’ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتاتووہ عمر ہوتا۔‘‘ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو سچ کر دکھایا اور حدوداﷲسے لے کر انتظامِ سلطنت تک میں اس طرح کی قانون سازی کی کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی اور علوم و معارف کی دنیاؤں میں آپؓ کے بنائے ہوئے قوانین ’’عمرلا (Umar Law)‘‘ کے ہی نام سے رائج و نافذ ہیں اور عالمِ انسانیت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کافیض عام پہنچ رہا ہے۔
دنیا کے دیگر بادشاہوں نے جوکچھ بھی قانون بنائے وہ اپنی ذات، نسل، خاندان یا اپنی قوم و ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے بنائے ہوئے قوانین میں خالصتاًشریعتِ اسلامیہ کے فراہم کیے ہوئے اصول و مبادی شامل تھے۔ باقی بادشاہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی قانون سازی میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ باقی بادشاہوں کے قوانین ایک دفعہ بننے کے بعد ان بادشاہوں کی اَنا کا مسئلہ بن جاتے، اور کوئی بادشاہ بھی ان قوانین میں تبدیلی کو اپنی اَناوخودی کی تذلیل سمجھتا، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کوجب بھی اپنی قانون سازی کے برخلاف کوئی نص میسر آتی توآپ فوراً رجوع کرلیتے اور کبھی بھی اپنی اَناکے خول میں گرفتار نہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک تمام اسلامی مکاتبِ فکر میں آپ کے فیصلوں کو قانونی نظیر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ 
حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی قانون سازی کاسب سے پہلااصول کتاب اﷲسے استفادہ تھا۔ آپؓ نے اپنے دورِحکمرانی میں متعدد گورنروںکوجو خطوط لکھے، ان میں سب سے پہلے قرآن مجید سے استفادہ کا حکم لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی قرآن فہمی کی سب سے عمدہ مثال ایران و عراق کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں آپ کااجتہادی فیصلہ تھا۔ معروف طریقے کے مطابق ان زمینوں پرمجاہدین کا حق تھاکہ ان میں یہ زمینیں تقسیم کردی جاتیں، لیکن اگرمجاہدین بیلوں کی دم تھام لیتے اور زمینوں کی آبادکاری پر جت جاتے تو دنیامیں اقامتِ دین اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے ذریعے شہادتِ حق کا فریضہ پس پشت چلاجاتا۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی دوربین نگاہوں نے اس کاحل قرآن مجیدکے اندر سورۂ حشر کی ان آیات میں تلاش کرلیا: 
’’وَ مَآ اَفَآئَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ ٰلٰکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ مَآ اَفَآئَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی فَلِلہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئَ مِنْکُمْ وَ مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَ اتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ وَ الَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلَّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّنَآاِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘  (المائدۃ:۶-۱۰)
ترجمہ: ’’ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے (اس طور پر) اپنے رسول کو دوسری بستیوں کے (کافر) لوگوں سے دلوادے (جیسے فدک اور ایک حصہ خیبر کا) سو وہ (بھی) اللہ کا حق ہے اور رسول کا اور (آپ کے) قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور غریبوں کا اور مسافروں کا ، تاکہ وہ (مالِ فئے) تمہارے تونگروں کے قبضے میں نہ آجاوے۔ اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز (کے لینے) سے تم کو روک دیں (اور بعمومِ الفاظ یہی حکم ہے افعال اور احکام میں بھی) تم رک جایا کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تعالیٰ (مخالفت کرنے پر) سخت سزا دینے والا ہے۔ اور ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً وظلماً) جدا کردیے گئے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضامندی کے طالب ہیں۔ اور وہ اللہ اور رسول (کے دین) کی مدد کرتے ہیں (اور) یہی لوگ (ایمان) کے سچے ہیں۔ اور (نیز) ان لوگوں کا (یہی حق ہے) جو دار الاسلام (یعنی مدینہ) میں ان (مہاجرین) کے (آنے کے) قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے، اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ (انصار) اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو اور (واقعی) جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جاوے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور ان لوگوں کا (بھی اس مالِ فئے میں حق ہے) جو اُن کے بعد آئے جو (ان مذکورین کے حق میں) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو (بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے ، اے ہمارے رب! آپ بڑے شفیق رحیم ہیں۔  ‘‘
 پس ان آیات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے بڑی باریک بینی سے استنباطِ قانون کیااور جسے مالِ غنیمت یعنی جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والامال سمجھا جارہا تھا اور جس کی تقسیم کے لیے امیرالمومنین پر بہت زیادہ دباؤ تھا، آپؓنے اسے مذکورہ نصِ قرآنی سے ’’مالِ فے‘‘ یعنی بغیرلڑائی کے حاصل ہونے والا مال ثابت کیا اور قرآن کے مطابق اس مال میں چونکہ بعد میں آنے والوں کا حصہ بھی شامل ہے، اس لیے مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔ 
شریعتِ اسلامیہ میں کتاب اﷲکے بعد دوسرا سب سے بڑا ماخذ و قانون سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کم و بیش دس سالہ مدتِ اقتدارمیں متعدد بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مل جانے پر اپنی رائے سے رجوع کرلیاتھا۔ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس سے اورعمدہ مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔ حضرت سعیدبن مسیب ؒفرماتے ہیں کہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاتھ کے انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ مقرر کی تھی، جب کہ باقی انگلیوں کی مقدارِ دیت اس سے کم تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کاموقف تھا کہ انگوٹھاچونکہ زیادہ کارآمد ہوتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن جب عمروبن حزم رضی اللہ عنہ  کے ہاں سے ایک تحریردریافت ہوئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا کہ ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلا چوں و چرااپنی اجتہادی و قیاسی رائے سے رجوع کرلیااور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق مقدمات کے فیصلے جاری فرمائے۔ 
اسی طرح جب شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور مسلمانوں کاایک بہت بڑا لشکرحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ  کی کمانداری میں وہاں موجود تھاتوحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ  بن جراح کے درمیان ایک نزاع چل پڑی کہ لشکر کوقیام کاحکم دیاجائے یاخروج کا؟ ابھی یہ نزاع جاری تھی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ  نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  پیش کردی کہ: ’’جب تم سنوکہ فلاں علاقے میں وبا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ اور اگر تمہارا قیام ایسے علاقے میں ہے جہاں وبا پھوٹ پڑی ہو تو وہاں سے مت بھاگو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) سن کر اﷲتعالیٰ کاشکراداکیااور حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں قبولیتِ حدیث کامعیار بھی بہت سخت تھا۔ ایک بار آپؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  کو بلا بھیجا، کافی دن گزرگئے توحضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی ملاقات ہوئی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے پوچھا: میں نے آپ کو بلایا تھا تو آپ کیوں نہیں آئے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نے کہاکہ میں آیاتھا، تین باردروازہ بجایا، آپ نہیں نکلے تومیں لوٹ آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے وجہ پوچھی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نے اپنے اس عمل کے جواز میں حدیثِ نبوی پیش کردی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اس حدیث کواس وقت تک قبول کرنے سے انکار کردیاجب تک کہ کوئی گواہ نہ ہو، اس پر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  کو دو گواہ لانے پڑے۔ 
تعاملِ حدیث کے معاملے میں اپنی اولاد سے بھی رعایت نہیں کرتے تھے، ایک بار لختِ جگرنے کہاکہ مجھے توکدو پسند نہیں ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  بیٹے سے ناراض ہوگئے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ سبزی کے بارے میں بیٹے نے ایسی ر ائے کیوں دی؟ پھرتین دن کی مدت ختم ہونے سے پہلے خود ہی ناراضگی ختم کردی کہ تین دن سے زائد ناراضگی سے ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں منع کیا گیا ہے۔ 
مشاورت کاطریقہ اجماعِ امت تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں حکومت کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ مشاورت بھی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی مشاورت دو وجوہات سے جداگانہ تھی، ایک تو ہرچھوٹے بڑے معاملے میں اہل الرائے افراد کو جمع کرکے ان سے رائے لی جاتی۔ ایک اعلان کرنے والا دارالخلافہ کی گلیوں میں ’’یاأیھالجماعۃ‘‘ کے اعلان کے ساتھ گھومتا چلا جاتا اور عمائدینِ ریاست مسجد میں جمع ہوجاتے۔ بہت چھوٹے چھوٹے معاملات بھی جن میں کہ حکمران کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے، ان میں بھی مشاورت کی جاتی اور نتیجے کے طور پر معاملات کے حل کی متعدد سورتیں سامنے آجاتیں اور پھر اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے بہترین فیصلے تک پہنچ جایا جاتا۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی مشاورت کی دوسری اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ خلیفۂ وقت خود ایک رائے دہندہ کی حیثیت سے شریکِ مشورہ ہوتا تھا اور اپنی رائے کے برخلاف فیصلہ پر بھی تیوری نہ چڑھائی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رائے دینے والے خلیفہ کے رعب و دبدبے کے باوجود کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امیرالمومنین نہ صرف یہ کہ اپنی مخالفت پر خفگیں نہیں ہوں گے، بلکہ اچھا اور صائب مشورہ دینے پر حکمرانِ وقت اپنی رائے واپس بھی لے لے گا اور کسی طرح کی بدمزگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے اس رویے نے ان کے دورِ حکومت کو چارچاند لگائے۔
دورِ فاروقی میں جب مے نوشی کے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہونے لگے تو اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  خود کوئی بھی حکم دے کر اس کا سدِباب کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے صحابہ کبار رضی اللہ عنہم  کو مشورے کے لیے بلابھیجا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے حالتِ مخمورمیں ہزیان بکنے والے کے منہ سے بہتان تراشی کے اندیشے پر قیاس کرتے ہوئے حدِقذف کے اِجراء کی سفارش کی۔ کل صحابہ رضی اللہ عنہم  نے اس رائے سے اتفاق کیا،جس سے شراب نوشی کی حد کو حدِ قذف سے ہی محدود کردیاگیا، یعنی اسّی دُرّے۔ کل حدوداﷲکاتعلق نصِ قرآنی سے ہے، لیکن چونکہ اجماعِ صحابہؓ قرآن مجید کے برابر مانا جاتا ہے، کیونکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین اجماعِ صحابہؓ کاہی ثمرہ ہے، اس لیے اجماعِ صحابہؓ کے نتیجے میں شراب نوشی کی سزاکوبھی حدوداﷲمیں شامل ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ 
سلطنتِ ایران کے ساتھ جہاد کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی شدید خواہش تھی کہ وہ خوداس جنگ کی قیادت کریں، اس لیے کہ شرق و غرب کے کل عساکرِاسلامیہ اس جنگ میں جھونک دیے گئے تھے، ناکامی کی صورت میں زوالِ کلیہ کا مکروہ چہرہ دیکھنے کاامکان تھا، چنانچہ تاریخ کے اس نازک موڑ پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ  خودافواجِ اسلامیہ کی کمانداری کرنا چاہتے تھے، لیکن اس موقع پر بھی اجتماعی مشاورتی رائے کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے سپر ڈال دی، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے  منع کیا تھا اور کہا تھا کہ مرکزِ خلافت کو کسی صورت خالی نہ چھوڑا جائے۔ 
ایک بار جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ  رات کو گشت کررہے تھے تو ایک گھرسے فراق کے نغموں کی نسوانی آواز آئی، اگلے دن تحقیق کی تو معلوم ہوااس عورت کاشوہر محاذِ جنگ پر گیا تھا۔ آپؓنے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا  سے مشورہ کیاتوانہوں نے بتایاکہ شوہرکے بغیر چارماہ تک عورت صبر کرسکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اسی وقت یہ حکم جاری کیاکہ چارماہ کے بعد ہرفوجی کو جبری رخصت پر گھر بھیجا جائے۔ 
مشاورت کا عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کواس قدر عزیز تھا کی آپؓ نے اپنے پورے دورِحکومت میں صحابہ کبار رضی اللہ عنہم  اور عمائدینِ قریش کودارالحکومت سے باہر کاسفرنہیں کرنے دیا، صرف حج کی اجازت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے اس فیصلے کا یہ فائدہ ہوا کہ صائب الرائے حضرات کی ایک معقول تعداد صباح و مساء آپؓ کے قریب موجود رہتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشورہ دینے والے ہی حکمرانوں کو ڈبوتے بھی ہیں اور پار بھی لگاتے ہیں، پس اب یہ حکمران پر منحصرہے کہ خوشامدیوں کو شریکِ مشورہ کرے اور قوم کی لٹیا ڈبودے یا نقادوں کے تندوتیز نشتروں کا سامنا کرے اور آسمانِ دنیاپر سورج اور چاندکی طرح جگمگائے۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ذاتی قیاس و اجتہادسے بھی قانون سازی کرتے تھے، لیکن اجتہاد کایہ عمل قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہؓ کی حدود کے اندر ہوتا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ذمیوں پر قابلِ برداشت ٹیکس عائد کیا اور جو ذمی بوڑھا ہوجاتا اور ٹیکس دینے کے قابل نہ رہتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سرکاری بیت المال سے اس کا وظیفہ بھی مقرر فرمادیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے پہلے مفقودالخبر شوہر کی منکوحہ کواس وقت تک عقدِ ثانی کی اجازت نہ تھی جب تک کہ اس کے شوہر کے ہم عمر فوت نہ ہوجائیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اپنی اجتہادی رائے سے ایسی عورت کے لیے چارسال کے انتظار کو کافی سمجھا۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی رائے تھی جب بھوکے غلاموں نے اونٹنی چوری کرکے کھائی تو ان غلاموں کی حد ساقط کردی اور ان کے آقا سے دوگناتاوان وصول کیا۔ حدود کا اجراء خالصتاً حاکمِ وقت کی ذمہ داری ہے، لیکن وسعتِ سلطنت کے باعث آپؓ نے اجتہاداً یہ اختیاراپنے نائبین کوتفویض کردیا تھا، سوائے ان حدود کے جن کی سزامیں زندگی کاخاتمہ شامل تھا۔
 اسی طرح نومفتوحہ علاقوں میں حدوداﷲ کے اجراء کو علم سے مشروط کردیا تھا، یعنی حدودسے لاعلم شخص پر حد جاری نہیں کی جاتی تھی۔ آپؓنے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ  کوخط لکھاکہ پہلے حدوداﷲکے بارے میں لوگوں کو بتاؤ اور اس کے بعد اگر کوئی ارتکابِ جرم کرتا ہے تو اس پر حد جاری کرو۔ ایک اور واقعہ میں یحییٰ بن حاطب کی آزادکردہ لونڈی ’’مرکوش‘‘ لوگوں سے کہتی پھررہی تھی کہ میں نے زناکیاہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے مشورے سے کوڑوں کی سزادی اور رجم نہیں کیا،کیونکہ اسے حدِزناکاعلم نہیں تھا۔
امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ  کے یہ اصولِ قانون سازی آج بھی زندہ ہیں اور لوگ آسمانِ رسالت کے اس چمکتے دمکتے ستارے سے آج بھی روشنی حاصل کررہے ہیں۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین